یہ وا قعہ میا نو الی کے ایک قصبے میں پیش آیا تھا ۔ کر داروں کے نا م مصلحتاً بدل دئیے گئے ہیں ۔ واقعہ اس طر ح ہے کہ حمیداللہ نے ایک شخص اسلم کو قتل کر دیا ۔ یہ پچا س سال پرانی خاندانی دشمنی کے سلسلے کا ایک اور قتل تھا ۔ اس وقت تک دونو ں خاندانوں کے پینتالیس آدمی اس دشمنی کی بھینٹ چڑھ چکے تھے ۔ پو لیس تفتیش کر رہی تھی ۔ حمید اللہ ابھی گرفتا ر نہیں ہو ا تھا ۔ سب جانتے تھے کہ اسلم کو حمید اللہ نے قتل کیا ہے لیکن شہا دت نہیں تھی۔ ایک روز حمید اللہ کھیتو ں میں سے گزرر ہا تھا ۔ یہ جوار کے کھیت تھے ۔ ایک کھیت میں جوار کی فصل جو خاصی اونچی تھی، ایک جگہ سے اس طر ح ہل رہی تھی جیسے اس میں کوئی انسان یا جانور ہو ۔ یہ چند ایک پودے تھے جو زور زور سے ہل رہے تھے ۔ حمید اللہ شک کی بنیا د پر رک گیا۔ و ہ دشمنی والا تھا اس لیے بندو ق ساتھ رکھتا تھا ۔ اسے ہلکی ہلکی او ں اوں کی آواز یں بھی سنائی دیں ۔ وہ آہستہ آہستہ فصل کے اندر گیا ۔ اس نے دیکھا کہ ایک عورت پڑی ہے جس کے ہاتھ پا ﺅ ں اور منہ بندھا ہوا ہے ۔ وہ پہلے تو ڈر گیا کہ اسے قتل کرنے کے لیے جال بچھا یا گیا ہے ، لیکن اس نے عور ت کے ہاتھ پا ﺅ ں اور منہ کھول دیا ۔ یہ عورت اسلم کی بیوہ ثریا تھی اور ثریا کو حمید اللہ نے ہی بیوہ کیا تھا ۔ ثریا بھی اپنے خاوند کے قاتل کو دیکھ کر خوفزدہ ہو گئی ۔ ’ ’ اس وقت تم میری بہن ہو “ ۔۔۔ حمید اللہ نے ثریا کو کہا ۔۔۔“ مجھے بتا ﺅ یہ کیا معاملہ ہے اور تمہیں یہا ں کو ن باندھ کر پھینک گیا ہے ۔ “ ” میرے سسرال والو ں سے قبائلی پٹھانوں کی دشمنی ہے “ ثریا نے بتایا.... “ آج میں جب چارہ کاٹنے کے لیے کھیتو ں میں آئی تو تین پٹھان آگئے ۔ انہو ں نے مجھے پکڑ لیا اور میرے ہا تھ پا ﺅ ں اور منہ کو باندھ دیا ۔ انہو ں نے آپس میں جو با تیں کیں ان سے معلوم ہو تا تھا کہ وہ مجھے شام کو لے جا ئیں گے ۔ جب میں نے آپ کے قدمو ں کی چاپ سنی تو میں نے تڑپنے کی کو شش کی شاید پو دے ہلتے دیکھ کر کوئی آجائے اور مجھے آزاد کر دے ۔
” اگر تمہیں میری زبان پراعتبار ہے تو میری ایک بات ما نو “ حمید اللہ نے ثر یا سے کہا ....” میں تمہارے ہا تھ پا ﺅں اسی طرح با ند ھ دیتا ہو ں ۔ جب پٹھا ن تمہیں اٹھا نے آئیں گے تو میں انہیں پکڑو ں گا۔ “
ثریا نے حمیدا للہ سے کہا کہ وہ اپنی جان خطرے میں نہ ڈالے لیکن حمید اللہ نہ ما نا۔ اس نے ثر یا کو اسی طر ح با ندھ دیا اور دو نالی بندوق لو ڈ کر کے قریب ہی چھپ کر بیٹھ گیا شام ہو نے والی تھی۔کچھ دیر بعد شام ہو گئی اور کھیتوں سے پرے ایک ویگن آکر رکی ۔ وہا ں دیکھنے والا کو ئی نہ تھا ۔ ویسے بھی دیہا ت کے لوگ شام ہوتے ہی گھر وں میں بند ہو جا تے ہیں ، روٹی کھا تے اور سو جا تے ہیں ۔ ویگن سے دو آدمی اُترے ۔ تیسرا آدمی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا رہا ۔
جب وہ دونو ں آدمی قریب آئے تو حمید اللہ نے للکا ر کر کہا ”میا نو الی کی غیر ت ابھی زندہ ہے “ او ریکے بعد دیگرے دو فائر کر دیے ۔ ایک آدمی گر پڑا اور دوسرا دوڑ کر ویگن میں سوا ر ہو گیا ۔ ویگن چل پڑی ۔ حمید اللہ گرے ہوئے آدمی کے پاس گیا تو وہ مر چکا تھا ۔ حمید اللہ نے اس کی رائفل اٹھا لی ۔مگر ثریا کے ہا تھ پاﺅ ں اور منہ کھو ل دیا اور کہا کہ اب گھر چلی جاﺅ۔ ثر یا نے کہا .... ”اب تم بھی میری ایک با ت مانو اورمیرے ساتھ گھر چلو “ ”حمید اللہ نے کہا میں تیرے خاوند کا قاتل ہو ں ۔ تمہارا سسر اور دیور دیکھتے ہی مجھے گولی ما ر دیں گے ۔ ‘ ‘ثریا نے کہا .... میں ذمہ داری لیتی ہو ں “ ”تم میرے گھر چلو، یہ معمولی سا احسان نہیں جو تم نے مجھ پر ، میرے والدین اور میرے سسرال پرکیا ہے .... چلو میرے ساتھ ۔ “
حمید اللہ اس کے ساتھ چل پڑا ۔ ثریا نے حمید اللہ کو با ہر کھڑا کیا اور خود حویلی میں چلی گئی ۔ سسر اور دیوروں کو تما م حقیقت سنائی اور کہا کہ یقین نہ آئے تو پٹھان کی لا ش جا کر دیکھ لو ۔ ” بے وقوف کی بچی ! “ ....سسر نے کہا ۔ حمید اللہ کو ساتھ کیوں نہیں لائی ؟“ ” وہ با ہر کھڑا ہے “ ....ثریا نے کہا ۔ ثریا کا سسر دوڑتا ہو ا گیا اور حمید اللہ کو گلے لگا لیا اور اندر لے گیا ۔ ” میں اپنے بیٹے کا خون حمید اللہ کو معا ف کر تا ہو ں ۔ “ سسر نے اعلا ن کیا آج سے دشمنی بھی ختم کر تا ہو ں ۔ حمید اللہ جیسے غیرت مند جوان کو قتل کر نا بے وقوفی اور بے غیر تی ہے ۔ “ اس طر ح حمید اللہ کی غیر ت مندی اور بہادری کے ایک قدم کی بدولت پچاس سالہ دشمنی ختم ہو گئی اور آئندہ نسلیں اس کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئیں ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں