(قارئین! آپ کا کبھی کسی پراسرار چیز یا کبھی کسی جن سے واسطہ پڑا ہو تو ہمیں ضرور لکھیں، چاہے بے ربط لکھیں، نوک پلک ہم خود سنوار لیں گے)
بندہ ایک حکیم (طبیب) ہے عدیم الفرصت ہے۔ لکھاری نہیں ہے ۔البتہ فاضل دینیات طبیب حاذق میٹرک ہونے کی بنا پر کچھ ٹوٹا پھوٹا لکھ کر بھیج رہا ہوں ۔واقعہ دلچسپ ہے راقم الحروف چونکہ عالم ہے گاﺅں بھلیر چک 119 نزد سانگلہ ہل کا رہائشی ہے۔اسطرح اسی گاﺅں میں مطب بنا رکھاہے جو دارالحکمت کے نام سے ہے اور اس گاﺅ ں میں جامع مسجد غوثیہ میں جمعہ پڑھاتا ہوں۔فی الحال ایک واقعہ عجیب حقائق سے بھراہوا حاضر ہے۔
آج سے 15یا20 برس پہلے کی بات ہے کہ سانگلہ ہل شہر میں جو ہمارے گاﺅں سے 2 یا3 میل کے فاصلے پر ہے ایک صاحبِ پرور پیر سا نگلہ ہل میں تشریف لائے ۔ ان کا نام ملک اعجا ز احمد تھا ۔ان کو اللہ پاک نے ایک فرزند ارجمند عطا کیا ۔ وہ سوکھ گیا یعنی سوکڑا کے مرض میں مبتلا ہو گیا۔ انکی ایک عیسائی نوکرانی ہوا کرتی تھی جس کا نام رابعہ یا عائشہ تھا۔ نوکرانی ان بچوں کو سنبھالتی بھی اور گھر کا کام بھی کر تی تھی۔ وہ صاحب عام لوگوں کی طرح میرے مطب میں اپنے بال بچوںکو یا خود میاں بیوی برائے علاج معالجہ بطور مریض آیا جایا کرتے تھے ان کا مجھ پر بڑا یقین و اعتماد تھا ۔ ایک دفعہ وہ اپنا بیٹا لیکر میرے پا س آئے جس کو سوکڑے کا مر ض تھا۔ میں نے اس کا علا ج کیا اور اللہ کے فضل و کرم سے وہ صحت یا ب ہو گیا اور کچھ ہی عرصے میں مو ٹا تا زہ ہو گیا اور ملک صاحب کا میرے اوپر یقین مزید پختہ ہو گیا۔ اب تو ہفتہ میں ایک دوبار وہ میرے مطب پر ضرور تشریف لاتے ۔ اسی طر ح وہ میرے ہم خیا ل ہم مزاج ہو گئے اور آہستہ آہستہ ملک صاحب سے میری دوستی بڑھ گئی اور آپس میں انس بھی بڑھ گیا ۔
ایک دن ملک صاحب مجھے ملنے آئے اور عجیب با ت کہی کہ آپ کو کبھی اپنے ملا زم سے ملا ئیں گے اس پر جن حاضر ہو تا ہے جو عجیب و غریب با تیں بتا تا ہے ۔ میں بڑا حیرا ن ہوا ۔ میں نے ملک صاحب کے ملا زم سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ کچھ دن کے بعد ملک صاحب اپنے ملازم کو لیکر میرے مطب پر تشر یف لے آئے۔ میں نے ان کو بیٹھک میں بٹھایااور کھا نا کھلایا اور خو د مریضو ں کو فا رغ کر کے ان کے پاس آبیٹھا ۔ میں ابھی ان کے پا س آکر بیٹھا ہی تھا کہ اچانک ملک صاحب کے ملازم مقصود کا چہرہ بدل گیا۔ سر ہلنے لگا جیسے بوڑھے آدمی کا ہلتا ہے اور آنکھیں بھی عجیب طرح ہو گئیں۔ ملک صاحب کواورمجھ کو مخاطب کر کے اس نے السلام علیکم کہا ہم نے جواب دیا۔ چونکہ میرا یہ زندگی کا پہلا واقعہ تھا اس لیے میں کچھ سہم گیا، جھجھک گیا ،مگر ملک صاحب نے کہا حکیم صاحب فکر نہ کریں کھلے دل سے جو پوچھنا چاہیں پوچھیں جواب دیں گے۔ انہوںنے بھی مجھے پیار و ادب سے بلایا اور فرمایا کوئی بات نہیں کیا حال ہے اچھے ہو؟ ہمارے لائق کو ئی خدمت ہو تو ضرور بتائیں۔ آپ کی خا طر بڑی دورسے آنا پڑا ہے۔ میں نے عرض کی اگر آپ برا نہ مانیں تو کھلے دل سے کچھ معروضات کرلو ں کیونکہ بندہ اگرچہ جنات کے وجود پر ایمان تو رکھتا ہے۔لیکن جیسے حضرت ابراہیم علیہ سلام نے اللہ پاک سے عرض کی کَیفَ تُحیی المَوتٰی قَالَ اَوَلَم تُومِن قَالَ بَلٰی وَلٰکِن لِّیَطمَئِنَّ قَلبِی ”ترجمہ:یا اللہ آپ مر دو ں کو کیسے زندہ کریں گے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ کیاآپ کا اس پر ایمان نہیں ہے؟ ابراہیم علیہ السلام نے کہا ہا ں کیوں نہیں لیکن چاہتاہوں کہ دل مطمئن ہو جائے ۔اسی طرح میرا بھی جنا ت کے وجو د پر ایمان تو ہے لیکن کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں تا کہ اطمینان قلب کی دولت حاصل ہو جا ئے۔“ بس پھر وہ بڑے خوش ہوئے کہا جو چاہو سوال کرو پوچھو،جو مجھ سے ہو سکا جواب دونگا۔ آپ اطمینان سے پوچھیں۔ میں نے عرض کی حضرت آپ کی عمر کیا ہے؟ فرمایا 80 سال کے قریب ہے۔ میرے پاس ایک صندوقچی تھی جن میں ضروری ادویات تھیں کہ جب باہر کسی مریض کو دیکھنے جاتا تو ساتھ رکھ لیتا اگر ضرورت پڑ تی تو صندوقچی میں سے نکال کردوائی دے دیتا ۔اس صندوقچی کو ایک چھوٹی سی جندری (تالا) لگا کر رکھتا تھا میں نے عرض کی کہ حضرت اگر آپ جن ہیں تو بتلائیں اس میں کیا ہے؟ وہ جن صاحب کچھ ناراض سے ہوئے کہ تم عالم آدمی ہو، غیب کی باتیں پوچھتے ہو۔پہلے ہمارے جنات بھائی آسمانوں پر چڑھ کر خبریں لے آتے تھےمگر جب سے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم (ہمارے نبی) تشریف لائے ہیں،آسمانوں کے دروازے ہمارے لیے بند کر دئیے گئے ہیں۔ ہم اوپر خبریں لینے کی اگر جرات کریں تو آسمان سے آگ کے گولے مارے جاتے ہیں ۔اسطرح اب غیب کی کوئی صحیح خبر ہم نہیں دے سکتے۔
پھر میںنے سوال کیا کہ کچھ لوگ اپنی چوریاں یا غیب کی باتیںجنا ت سے پوچھتے ہیں وہ کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے نہایت متانت اور حوصلے سے سمجھاتے ہوئے فرمایا بھئی اصل بات یہ ہے کہ ہمیںسرعت رفتاری عطا کی گئی ہے ۔ ہم آناً فاناً میلوں سفر کر سکتے ہیں آجا سکتے ہیں“۔ چنا نچہ جنات سے لوگ باتیں پوچھتے ہیں تو ہم سرعت سے وہاں جہاں چوری ہوتی ہے، جاتے ہیں اور دو تین منٹ ہی ادھرادھر پھرتے ہیں لوگ جو باتیں آپس میں کرتے ہیں وہ سن کر پھر لوگوں سے یا گھر والوںسے سن کر ہم آکر معمول (یعنی جس میں جن کو حاضر کر کے با ت پو چھی جا تی ہے ) کے کان میں پھوک دیتے ہیں، وہ بیان کر دیتا ہے۔ لو گو ں کو اس سارے قصے کی کا نو ں کا ن خبر نہیں ہوتی۔ اب اگر لوگوں کے قیافے صحیح ہوتے ہیں تو ہماری بتائی ہوئی بات بھی ٹھیک ہو جاتی ہے ورنہ اٹکل پچو ہو تا ہے۔ پھر میںنے عرض کی پھر مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ آپ واقعتا جن ہیں یا خواہ مخواہ ڈھونگ ہے۔( ذرا دھیمی آواز و مو ¿دب لہجہ سے میں نے عرض کی)جواب ملا کوئی اور سوال کر لو جو ادھر ادھر کا ہو، غیب کا نہ ہو، میں نے دوبارہ سوال کیاکہ آپ بتائیں آج کل میرے ساتھ دشمنی کا کس کو شوق ہے اور کس کے ساتھ میری ٹھن گئی ہے۔ مقدمہ بازی ہے؟
بس پھر کیا تھا جن صاحب نے اُوں اُوں ذرا جھٹکے دیکر دو تین بار کیا اور خاموشی اختیار کرلی ۔3,2 منٹ کے بعد سر اٹھایا فرمایا ”شو کت کو آپ کی دشمنی کا بڑا شوق ہے، یہ جملہ کیا تھا ،میرے ساتھ بات چیت کا حاصل تھا اوربالکل سچ تھا ۔ ان دنوں میری شوکت نامی ایک آدمی سے مقدمہ بازی کا سلسلہ چل رہا تھا اور اس نے ایک جھوٹا پرچہ ہم پر کروا دیا تھا اور اسکے ساتھ خوب دشمنی تھی ۔وہ ہم پر طرح طرح کے پولیس چھاپے مروا رہا تھا برآمدی کیلئے“۔بس مجھے سو فیصد یقین ہو گیا کہ جنات حق ہیں ان کا وجود ہے اور آنا ً فاناً خبریں لانا اور کام کرنے ان کے بس میں ہے۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 368
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں