نند کو بھی حق ہے
میری ساس بہت بوڑھی ہیں‘ وہ گھر میں کسی کے آنے پر اور یوں بھی کوئی کام نہیں کرسکتیں مگر انہیں لوگوں کو بلانے کا بہت شوق ہے۔ مثلاً ہر اتوار کو بیٹی شوہر اور بچوں کے ساتھ آجاتی ہیں۔ ان کی بہنیں وغیرہ بھی آتی رہتی ہیں۔ شوہر سے علیحدہ گھر کاذکر کیا تو ناراض ہوگئے۔ انہیں بہن سے بہت محبت ہے۔ ان کی بات کو بھی نہیں ٹال سکتے۔ بیوی کی پروا نہیں۔ میں بھی ہر اتوار اپنے میکے چلی جاتی ہوں۔ مجھے کوئی کچھ نہیں کہتا۔ مگر ذہنی دباؤ کا شکار رہتی ہوں۔ سر میں درد‘ چکر اور کمزوری کی شکایت ہے۔ (فرح‘ اسلام آباد)
مشورہ: جس طرح آپ اپنے میکے جارہی ہیں اسی طرح آپ کی نند کو بھی اپنے میکے آنے کا حق ہے۔ ساس بوڑھی ہیں تو صرف ان کی خدمت کی جاسکتی ہے ان پر اعتراض یا ناراضگی کا اظہار کرنا تو غلط رویہ ہے۔ گھر آئے مہمانوں کی قدر کریں۔ ان کی خاطر مدارات بھی کرنی چاہیے۔ اپنے میکے اس دن نہ جائیں جس دن مہمان آرہے ہوں بلکہ وہ لوگ اتوار کو آتے ہیں تو آپ جمعہ کو چلی جایا کریں۔ مہمان نوازی‘ رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی‘ بزرگوں کی عزت و خدمت تو ایسی آسان نیکیاں ہیں جن کا موقع ملے تو کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ آپ کی بے سکونی کی وجہ یہی ہے کہ اچھی باتوں کو بھی برا سمجھ رہی ہیں۔ یہ بات کہ شوہر کو آپ کا خیال نہیں درست نہیں لگتی۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ آپ کے مطالبات زیادہ ہیں مثلاً بوڑھی ماں کو چھوڑ کر علیحدہ گھر میں رہا جائے جبکہ ماں کا خیال رکھنا ان کااولین فرض ہے اور شوہر کا خیال رکھنا آپ کا فرض ہے۔ اگر گھر میں سب لوگ ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا خیال رکھیں تو بجائے رنجش کے خلوص کا اظہار ہوتا ہے۔ انسان جو بھی نیکی کرلے وہ صرف اللہ کی خوشی کی خاطر کی جائے تب ہی قلبی اطمینان اور ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے۔ سردرد‘ چکر اور کمزوری کیلئے کسی خاتون ڈاکٹر سے اپنا طبی معائنہ کروا لیجئے۔ تھوڑا سا خیال رکھنے سے طبیعت میں بہتری آجائے گی۔
آپ کی سوچ منفرد ہے
ہمارے خاندان میں بچپن ہی میں منگنی ہوجاتی ہے۔ میری منگنی بھی پھوپی کی بیٹی سے ہوئی تھی۔ لیکن جب لڑکی کے بھائی بڑے ہوئے تو انہوں نے یہ رشتہ ختم کروادیا۔ میں اپنے والد کے ساتھ کاروبار میں مصروف تھا کہ انہوں نے ایک پڑھے لکھے لڑکے سے اس کی شادی کردی۔ مجھے اس قدر غصہ ہے کہ بیان نہیں کرسکتا۔ میں شادی میں شریک نہیں ہوا۔ اب اس کے بھائی کی شادی ہورہی ہے سوچ رہا ہوں کہ لڑکی والوں کو بتادوں کہ یہ لوگ اچھے نہیں ہیں‘ جھوٹے اور وعدہ خلاف ہیں اور پھر رشتہ ختم ہوجائے۔ جیسا انہوں نے میرے ساتھ کیا میں بھی ان کو مزا چکھاؤں۔ ان لوگوں کی پریشانی کا سوچ کر اطمینان ہوتا ہے۔ (خاور صدیقی‘ سوات)
مشورہ: آپ کی سوچ منفرد ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست سہی کہ آپ کو ان لوگوں کے رویے سے تکلیف پہنچی ہے لیکن یہ بھی سمجھنے کی کوشش کریں کہ انہیں اپنی بیٹی کی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق تھا۔ انہیں اختیار تھا وہ جہاں چاہے اس کی شادی کرتے اور انہوں نے ایسا کیا۔ آپ کیلئے یہ بات المیہ ہے کہ ان حالات میں آپ نے کیا کیا اور اس بات کو اپنے لیے تکلیف دہ محسوس کرتے ہوئے بھی دوسروں کو تکلیف پہنچانے کے بارے میں نہیں سوچا۔ آپ اپنی سوچ کو مثبت بناتے ہوئے ان لوگوں کی طرف سے توجہ ہٹا کر والدین کی پسند پر کسی اچھی لڑکی سے شادی کرلیں۔ اس اعتماد کے ساتھ کہ اس سے اچھی لڑکی نصیب میں ہے۔ ایک بات کی طرف اور توجہ دیں کہ آج کل خاندانی شادیوں کے مضراثرات بچوں کی صحت کی خرابی کی صورت میں بھی سامنے آچکے ہیں۔ لہٰذا آپ کے ساتھ جوکچھ ہوا بہتر ہی ہوا ہے۔
ایسے لوگوں کا کہیں گزارا نہیں
جب میں چھوٹی تھی تو میرے والد مجھے بہت ڈانٹتے‘ میری کچھ سمجھ میں نہیں آتا اور میں خود اپنے منہ پر تھپڑ مارنے لگتی‘ مگر میری والدہ مجھے فوراً گود میں اٹھالیتیں اور محبت سے میرے ہاتھ پکڑ کر مجھے خود کو اذیت پہنچانے سے روک لیتیں پھر نہ جانے کیا ہوا کہ والدہ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ مجھے والد اور بھائی کے ساتھ تنہا رہنا پڑا۔ یہ دونوں ہی میرا خیال نہ رکھتے پھر میں اپنی خالہ کے پاس چلی گئی۔ ان حالات میں والد نے دوسری شادی کرلی‘ بھائی نے بھی گھر چھوڑ دیا۔ اب خالہ میرے لیے اچھا رشتہ دیکھ رہی ہیں مگر مجھے اپنے مستقبل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ میں ایک مستقل مایوس رہنے والی لڑکی ہوں۔ میٹرک کے بعد تعلیم بھی حاصل نہ کی۔ خالہ کہتی ہیں کہ نفسیاتی مریضہ نہ بن جانا‘ ایسے لوگوں کا کہیں گزارہ نہیں۔ (نشاط‘ ملتان)
مشورہ: آپ کو چھوٹی سی عمر سے والد کی طرف سے سختی کا سامنا رہا جس کے سبب خود پر غصہ آیا اور غصہ کا اظہار بھی خود پر ہی کیا۔ خود کو سزا دینا اچھا نہ سمجھنا یا خود کو ناپسند کرنا‘ کمتر جاننا‘ مجرم سمجھنا منفی رویہ ہے اور اس کے نتیجے میں انسان ایک ایسے احساس ندامت‘ احساس شرمندگی اور احساس کمتری کا شکار ہوسکتا ہے کہ وہ خود کو سزا دینے لگے۔ اپنے حالات کا درست انداز میں تجزیہ ہے۔ والد کی ڈانٹ ملی تو فوراً ہی والدہ کا پیار ملا اور پھر خالہ کی محبت اور شفقت حاصل رہی۔ اس طرح محبت تو آپ کو ملی مگر اس سے زیادہ خود کو نظرانداز کیے جانے کا احساس غالب رہا جو کہ ابھی تک ہے۔ ایسے کئی بچے جو ماں باپ کو چھوڑ کر دوسری جگہ رہتے ہیں اپنے دل سے ان کی محبت نہیں نکال پاتے۔ بہرحال اب جو ہوا سو ہوا اب تو آپ کو اپنی زندگی پُرسکون اور خوشگوار بنانے کی ضرورت ہے۔ مستقبل سے دلچسپی رکھنے کے لیے اپنے حال سے دلچسپی پیدا کرنی ہوگی اور اس کیلئے مستقل مایوسی کی کیفیت کو ختم کرکے اس کی زندگی میں خوشی‘ جوش اور ولولہ لانا ہوگا۔ خود کو ناپسند یا مسترد کرنا بری بات ہی نہیں بلکہ اللہ کی ناشکری بھی ہے اور جو لوگ خود ہی پسند نہیں کرتے وہ دوسروں کو بھی خوشیاں نہیں دےسکتے۔ آپ یقین کریں کہ بچپن میں جو کچھ ہوا وہ کوئی انہونی بات نہ تھی۔ والدین بچوں پر ڈانٹ ڈپٹ اور غصہ کرتے ہی ہیں مگر سب ہی بچے بڑے ہوکر خود کو مسترد تو نہیں کرتے‘ اس لیے کہ وہ سوچ کا صحیح انداز اختیار کرتے ہیں۔ آج سے آپ بھی خود کو اور اپنے اردگرد رہنے والوں کو پسند کریں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں