ہمارے ہاں ایک انداز فکریہ موجود ہے کہ بچے بڑوں کی طرح فکر و تشویش میں مبتلا نہیں ہوتے۔ انہیں ڈیپریشن یا ذہنی دباؤ وغیرہ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا وہ آزاد منش ہوتے ہیں لیکن بچوں پر کام کرنے والے ماہرین اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے۔ بے شک وہ تسلیم کرتے ہیں کہ بچوں میں احساس ذمہ داری نہیں ہوتا لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ احساسات اور اپنے ماحول سے بالکل لاتعلق رہتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جس طرح گھر کے بڑے افراد یا بالغ افراد جذباتی علامات کے دباؤ میں آجاتے ہیں بالکل اسی طرح بچے بھی ان جذبات سے متاثر ہوتے ہیں اس پر مستزاد یہ کہ بچوں کو اپنے منفی جذبات کے اظہار کا طریقہ بھی نہیں آتا۔ بچے عام طور پر ان تبدیلیوں کو بھی نہیں سمجھ پاتے جو فطری جذباتی تبدیلیوں کا مظہر ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں بچوں کے پاس اپنے ذہنی و جذباتی امراض کے اظہار کا صرف ایک ہی طریقہ رہ جاتا ہے کہ وہ اپنی جذباتی تکلیف کا اظہار جسمانی تکلیف کی صورت میں کرتے ہیں۔ ایک بچہ پیٹ‘ سر یا ٹانگوں میں درد کی شکایت کرتا ہے ‘ بچے پسلیوں میں درد کی شکایت کرتے ہیں لیکن والدین جب انہیں ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتے ہیں تو تشخیص کے بعد ڈاکٹر اس امکان کو رد کردیتا ہے کہ بچہ کسی جسمانی مرض میں مبتلا ہے اگرچہ جسمانی نشوونما بغیر کسی درد کے ہوتی ہے لیکن جذباتی بڑھوتری یا نشوونما کا معاملہ اس سے مختلف ہے لہٰذا بچہ اگر جسم میں کسی ظاہری علامت کی غیرموجودگی کے باوجود درد کی شکایت کرے تو والدین کو چاہیے کہ وہ اس کی بات کو نظرانداز کرنے کے بجائے اس پر غور کریں اور اس پر ڈاکٹر سے رائے لیں۔
دیکھا یہ گیا ہے کہ بعض بچے اپنی تشویش یا فکر کا اظہار بے جا ہاتھ پاؤں چلا کر یا گھر والوں کا حکم نہ مان کر کرتے ہیں۔ ایسے بچے عام طور پر بہت حساس ہوتے ہیں بعض ماہرین اس کا سبب غذائی الرجی یا غذائی کمی کو بھی قرار دیتے ہیں لیکن بہت کم بچے ایسے ہیں جن میں اس قسم کے شواہد ملتے ہوں۔ زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کا اس طرح کا رویہ دراصل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ ناخوش ہیں۔ اگر کسی بچے کو مسلسل پیٹ میں درد‘ سر میں درد یا کوئی اور جسمانی تکلیف لاحق ہو تو جسمانی تکلیف کے علاج کے ساتھ ساتھ اس بچے کے جذباتی مسائل حل کرنے پر بھی توجہ دی جانی چاہیے جس طرح بڑے جذباتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں اسی طرح بچوں کو بھی یہ مسائل درپیش ہوسکتے ہیں وہ اپنے اساتذہ‘ گھر کے کسی فرد یا اپنے ماحول میں موجود کسی ایسے رویے سے نالاں ہوتے ہیں چونکہ اس وقت انہیں اس مسئلے کا کوئی حل نظر نہیں آرہا ہوتا اس لیے وہ چڑچڑے اور ضدی ہوجاتے ہیں۔
ناک‘ کان اور گلے کی بیماریاں:بچے عام طور پر کان‘ ناک اور گلے کی بیماریوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ان کے وہ اعضاء متاثر ہوتے ہیں جن کی قوت مدافعت کم یا بالکل نہیں ہوتی۔ ڈبے کا دودھ پینے والوںکے مقابلے میں ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں قوت مدافعت زیادہ ہوتی ہے نیز مختلف عمروں میں حفاظتی ٹیکوں کے کورس کرا کر بھی مختلف بیماریوں کے خلاف بچے کی قوت مدافعت کو بڑھایا جاسکتا ہے لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ایسا تمام بیماریوں میں ممکن نہیں ہے عام طور پر ابتدائی عمر میں بچوں میں ناک‘ حلق‘ سینے اور بعض اوقات کان اور سائی نس جیسی تکالیف میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ زیادہ تر بچوں کو اسی قسم کے امراض میں مبتلا دیکھا گیا ہے۔ یہ بیماریاں اس وقت زیادہ تیزی سے بچے کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہیں جب بچے باہر کھیلنا شروع کردیتے ہیں یا دوسرے بچوں سے میل جول بڑھاتے ہیں۔
نزلہ و زکام: نزلہ زکام بھی بچوں کو اکثر ہوتا رہتا ہے۔ یہ بھی وائرل انفیکشن ہوسکتا ہے لہٰذا والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے دوستوں سے بھی واقف ہوں اور انہیں علم ہو کہ ان کا بچہ کس قسم کے بچوں کے ساتھ تفریح کے لمحات گزارتا ہے۔ نزلہ زکام کے ساتھ بچوں کو بخار بھی ہوسکتا ہے۔ ایسے میں بچے چڑچڑے ہوجاتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ متاثرہ بچے کو بستر پر لٹا دیں اور اسے توجہ دیں اور زیادہ سے زیادہ پانی پلائیں۔ اگر بخار زیادہ ہوجائے تو ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھی جائیں اگر ضروری ہو تو بخار دور کرنے والی دوا بھی دی جاسکتی ہے اس دوران بچے کا بخار چیک کرتے رہیں خدانخواستہ بخار زیادہ ہوجائے تو پھر خود علاج کرنے کی بجائے فوری طور پر ڈاکٹر کے پاس لے جائیں۔
کان کی تکلیف یا کان کا بہنا:بچوں میں ایک عام بیماری کان کی تکلیف یا کان کا بہنا ہے۔ کان بہنے کی وجہ سے کان بند ہوجاتے ہیں نزلے کی وجہ سے کان میں انفیکشن ہوجاتا ہے چنانچہ ہوسکتا ہے کہ ایسی صورت کان میں گرومیٹ نامی نلکی نصب کی جائے۔ اگر آپ کو اپنے بچے کی قوت سماعت کے بارے میں کوئی شک ہے تو اس کا کسی ماہر ای این ٹی معالج سے معائنہ کرائیں اس میں غفلت نہ برتیں کیونکہ اگر اس عمر میں ہی اس مسئلے پر توجہ نہ دی گئی تو یہ روگ بچے کو مستقل بھی لگ سکتا ہے۔
آنکھوںکے امراض: دیکھا یہ گیا ہے کہ بعض والدین بچے کی پیدائش کے بعد بچے کی آنکھوں میں بھینگے پن کی شکایت کرتے ہیں لیکن یہ فکر کی کوئی زیادہ بات نہیں ہوتی کیونکہ عام طور پر پیدائش کے وقت اکثر بچوں کی آنکھیں ایسی ہی لگتی ہیں۔ یہ کیفیت زیادہ دیر نہیں رہتی لیکن اگر یہ کیفیت واقعی مستقل رہتی ہے تو پھر یہ تشویش کی بات ہے۔ ڈاکٹر کو اس سے آگاہ کرنا چاہیے۔
پیٹ کے امراض: اکثر سال دو سال کے بچوں کے پیٹ میں کیڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ کیڑے بچوں کے فضلے میں دھاگہ نما ٹکڑوں کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ یہ علامت کسی مرض کی تو نہیں لیکن اسے نظرانداز کرنا بھی درست نہیں۔ پیٹ کے کیڑے سکول میں ایک بچے سے دوسرے بچے میں اور خاندان کے دیگر افراد میں بھی باآسانی منتقل ہوسکتے ہیں۔ دراصل رات کو سوتے وقت بچے کے مقعد میں خارش ہوتی ہے یوں کھجلانے پر ان کیڑوں کے انڈے بچے کے ناخنوں میں آجاتے ہیں اور پھر ہاتھوں کے ذریعے یہ انڈے دوسرے افراد میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ پیٹ کے کیڑوں کا علاج بہت آسان ہے ڈاکٹر پیٹ کے کیڑے نکالنے کی دوا دیتا ہے جس سے دست کے ذریعے سے یہ کیڑے پیٹ سے باہر آجاتے ہیں۔
اسہال یا قبض کی شکایت: بچوں میں پیٹ کے امراض میں ایک بیماری بچوں کا دست میں مبتلا ہوجانا ہے یہ بچوں کیلئے بہت خطرناک بھی ہوسکتے ہیں۔ اسہال کی صورت میں بہترین تدبیر احتیاط ہے اور اس کیلئے نمکول اور او آر ایس ملا پانی کا استعمال بڑا ضروری ہے۔ جہاں بچے دست اور اسہال کا شکار ہوتے ہیں وہیں بچوں میں قبض کی شکایت بھی عام ہوتی ہے۔ اس میں بھی بچے کو دی جانے والی غذا کا بہت اہم ہاتھ ہوتا ہے۔ بے چھنے آٹے کی روٹی‘ دالیں‘ تازہ پھل اور سبزیاں یہ سب غذائی ضروریات میں سے ہیں۔ بچے کو انہیں کھلانا چاہیے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں