آج کے معاشرے میں اکثر انسانوں کے ذہنوں میں مایوس کن اور منفی خیالات کی یلغار رہتی ہے اس میں ہمارے ملکی‘ معاشرتی اور ذاتی حالات کا دخل ہوتا ہے۔ بہتر زندگی وہی لوگ گزارتے ہیںجو ان خیالات کو ذہن سے جھٹکنے اور ان سے نجات پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور مثبت یا اُمید افزاء خیالات کے ذریعے اپنی زندگی کو خوشگوار بنالیتے ہیں تاہم یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں… اس لیے زیادہ تر لوگ منفی اور مایوس کن خیالات کی یلغار سے شکست کھا کر ڈیپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کے ذہنوں میں نفسیاتی عوارض سراٹھانے لگتے ہیں۔
ڈیپریشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عوارض جسمانی بھی ہوتے ہیں عین ممکن ہے کہ ان کے باعث انسان بیمار رہنے لگے… یا بیمار نظر آنے لگے۔ اس کے علاوہ اس کے موڈ‘ انداز گفتگو اور عادت پر ڈیپریشن کا نمایاں اثر دیکھنے میں آتا ہے۔ اس کا سب سے نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ انسان مستقل طور پر ہی منفی انداز میں سوچنے کا عادی ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسے ہمیشہ ہر چیز کا صرف تاریک پہلو دکھائی دیتا ہے۔ اس انداز فکر سے اس کی زندگی اجیرن ہوکر رہ جاتی ہے اور وہ کسی بھی چیز سے خوشی یا لطف حاصل کرنے کے قابل نہیں رہتا کیونکہ اسے کسی بھی چیز کا کوئی روشن پہلو نظر نہیں آتا۔
جن لوگوں کی نظر میں خود اپنا کوئی خاص مقام نہیں ہوتا اور جو اکثر معاملات میں خود کو کمتر سمجھتے ہیں یا پھر وہ لوگ جن پر حالات کا دباؤ زیادہ ہوتا ہے ذرا جلدی منفی خیالات کے زیر اثر آجاتے ہیں اور یوں ڈیپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ڈیپریشن کبھی کبھی اتنا بڑھ جاتا ہے کہ انسان اپنے کھانے پینے‘ صحت و صفائی اور روزمرہ کے معمولات کا خیال رکھنا بھی چھوڑ دیتا ہے۔ ہر بات کے جواب میں اس کے ذہن میں بس یہی خیال آتا ہے ’’اس کا کیا فائدہ‘‘ اسے کبھی بھی کام کا کوئی بھی فائدہ نظر نہیں آتا۔
ڈیپریشن درحقیقت ایک نہایت نجی اور ذاتی نوعیت کا عارضہ ہے۔ مختلف افراد میں اس کی وجوہ اور جوازمختلف ہوسکتے ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق اس کی نجی اور ذاتی زندگی سے ہوسکتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی اس کی مد میں موروثی عوامل بھی کام کررہے ہوتے ہیں۔ مثلاً موروثی طور پر جسمانی لحاظ سے کمزور اور نازک اندام لوگ جلد ڈیپریشن کی زد میں آسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھریلو‘ دفتری یا پیشہ ورانہ زندگی کی پریشانیاں اور خطرناک بیماریوں کا لاحق ہوجانا بھی انسان کو ڈیپریشن میں مبتلا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ ہائی بلڈپریشر‘ دل کی بیماریاں‘ کینسر‘ گردوں کی بیماریاں اور دیگر ایسے عوارض جن کا علاج نہ ہوپائے‘ اکثر مریضوں کو ڈیپریشن میں مبتلا کردیتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ منفی خیالات سے نجات پانا یا انہیں ذہن سے جھٹکنا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ انسان کے ذہن میں بری طرح پنجے گاڑ لیتے ہیں اور انسان منفی اور مایوس کن انداز میں سوچتے وقت اپنے آپ کو بالکل حق بجانب سمجھتا ہے۔ ان خیالات سے بچنے یا ان کے اثرات کو ہرممکن حد تک کم کرنے کیلئے پہلا قدم تو یہ ہونا چاہیے کہ آپ خود کویقین دلائیں کہ یہ محض آپ کے خیالات ہیں… ٹھوس حقائق نہیں… یہ سب کچھ آپ صرف سوچ رہے ہیں اور عین ممکن ہے کہ آپ کا ذہن اس سلسلے میں مبالغے سے کام لے رہا ہو… وہ آپ کے مصائب کا احساس اس سے کہیں زیادہ دلا رہا ہو جتنا حقیقت میں ہونا چاہیے۔
نکتہ ذہن میں رکھیں:ڈیپریشن کے شکار افراد کو دوسرا نکتہ یہ ذہن میں بٹھانا چاہیے کہ محض ان خیالات میں پھنسے رہنا ہی اس کے مسائل کا حل نہیں… وہ جتنی بھی دیر تک ان خیالات میں پھنسا رہے گا ان کی جڑیں اتنی ہی گہری ہوتی چلی جائیں گی اور ان سے نجات اتنی ہی مشکل ہوتی جائے گی جبکہ مسئلہ بدستور… جوں کا توں وہیں کا وہیں رہے گا۔ اس شخص کو اپنے آپ کو یقین دلانا چاہیے کہ یہ خیالات اس کے ذہن میں درحقیقت قدرت کی طرف سے اس لیے آئے ہیں کہ وہ مسئلے سے باخبر ہوجائے اور اس کو حل کرنے کے سلسلے میں عملی اقدامات کیلئے کمر کس لے… گویا یہ خیالات درحقیقت ایک طرح کی وارننگ ہیں… اور وارننگ انسان کو صرف خبردار کرنے کیلئے ہوتی ہے۔ محض ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنے اور سوچتے رہنے کیلئے نہیں ہوتی۔ جب آپ اس انداز سے سوچیں گے تو آپ میں ضرور کچھ نہ کچھ حوصلہ پیدا ہوگا جس سے ایک طرف تو آپ کو ان خیالات کی گرفت سے کافی حد تک نجات ملے گی دوسرے عملی جدوجہد پر آمادہ ہونے کی وجہ سے آپ کو واقعی اس مسئلے سے نجات ملنے کے امکانات پیدا ہوجائیں گے اور آپ کو بہتری کے کچھ راستے نظر آنے لگیں گے یوں آپ ڈیپریشن کی دلدل کی زیادہ گہرائی میں اترنے سے محفوظ رہیں گے۔ آپ بہت جلد اپنے اندر تبدیلی محسوس کریں گے اور رفتہ رفتہ آپ کو منفی اور مایوس کن خیالات پر غلبہ پانے اور انہیں شکست دینے کی مشق ہوجائے گی۔ ایک مزید مؤثر اور کارگر طریقہ یہ ہے کہ جونہی آپ محسوس کریں آپ کے ذہن پر منفی اور مایوس کن خیالات کی یلغار ہورہی ہے آپ انہیں کاغذ پر منتقل کرلیں۔ جن الفاظ میں بھی آپ کیلئے ممکن ہو ان الفاظ میں اپنے خیالات اور محسوسات کو تحریری شکل میں اپنے سامنے لے آئیں۔ اگر فوری طور پر آپ کیلئے ممکن نہ ہو تو یہ کام آپ بعد میں بھی کرسکتے ہیں۔ جب آپ اپنے خیالات کو کاغذ پر منتقل کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو کچھ اس طرح ان کا تجزیہ کرنے بیٹھیں جیسے آپ کوئی ماہر نفسیات یا کوئی دوسرے غیرجانبدار فرد ہیں جسے ایک شخص کے مسائل کا تجزیہ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ آپ ایک سمجھدار‘ معقول اور متوازن شخص کے انداز میں مرحلہ وار ان مسائل پر غور شروع کریں اور سوچیں کہ کیا واقعی وہ مسائل اتنے ہی سنگین اور مایوس کن ہیںجتنے آپ کو محسوس ہورہے تھے؟ یا واقعی ان کا کوئی وجود بھی ہے تو ان کے سلسلے میں کیا کیا جاسکتا ہے؟ کون کون سے اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟ آپ کے بس میں کیا ہے…؟ اور کون سی ایسی چیز ہے جو واقعی آپ کے بس میں نہیں… لیکن اس کے سلسلے میں آپ کسی نہ کسی سے مدد طلب کرسکتے ہیں۔
امید کی روشنی:جب آپ ان تجزیوں میں مصروف ہوجائیں گے تو آپ محسوس کریں گے کہ آپ پرمنفی اورمایوس کن خیالات کی یلغار کم ہوگئی ہے ۔ آپ کو امید کی روشنی نظر آنے لگی ہے اور آپ خود کو باہمت ور پہلے کے مقابلے میں ذرا زیادہ ہوشیار محسوس کرنے لگے ہیں۔ ہر قسم کے خیالات آپ کو اس وقت زیادہ متاثر کرتے ہیں جب آپ ہمت اور جرأت سے ان کا سامنا کرنے کے بجائے ان سے نظر چرانا شروع کردیتے ہیں۔ اپنے خیالات کا ہر زاویے سے تجزیہ کریں۔ آپ جو کچھ محسوس کررہے ہیں اس کے بارے ثبوت تلاش کرنے کی کوشش کریں کہ کیا واقعی معاملات ویسے ہی ہیں جیسے آپ انہیں محسوس کررہے ہیں… یا واہمے اور مفروضے آپ کو زیادہ ستارہے ہیں؟ اگر کوئی مسئلہ واقعی موجود ہو تو اس کے حل کے سلسلے میں کیا کیا اقدام کیے جاسکتے ہیں؟ کس کس سے مدد حاصل کی جاسکتی ہے؟
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں