(مسعود اکبر خان‘راجن پور)
محترم حکیم صاحب! میرے ساتھ جنات کامسئلہ تھا آپ نے مجھے ان سے نجات کا وظیفہ بتایا میں وہ پابندی سے کررہا ہوں۔ایک دن ہم اپنے گھر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک گرج دار آواز اور سائے حرکت کرتے نظر آئے۔ لگتا تھا کہ کوئی آگیا ہے۔ اس وقت ایک للکارتی ہوئی آواز آئی’’کون ہے جو ہمارے مسلمان کو تنگ کرتا ہے؟‘‘ یا ایسی ہی کوئی آواز تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی سپاہی باوردی کھڑا ہو۔ سائے حرکت کرتے نظر آئے اس کے ساتھ ہی ایک چیخ عورت کی سنائی دی۔ پکڑو پکڑو… وغیرہ‘ میں بچوں کی ماں ہوں… مجھے کچھ نہ کہو… مگر اس کا جرم ایسا تھا جو قابل معافی نہ تھا۔ اسے گرفتار کرلیا گیا ہے پھر کچھ دیر بعد کچھ ننھے منے سائے میرے قریب آکر بیٹھ گئے۔ آواز آئی انہیں کلمہ شریف پڑھا دیں جس کا میں انکار نہ کرسکا۔ بہت رعب چھایا ہوا تھا۔ دبدبہ تھا۔ میں نے کلمہ پڑھانا شروع کیا انہوں نے کلمہ پڑھا۔ شاید یہ جنات کے بچے تھے۔ پھر نماز اور اچھی اچھی باتوں کی تلقین کی۔ پھر یہ آہستہ آہستہ غائب ہوگئے۔ پھر ان کے جانے کے بعد ایک جن اپنے کسی ساتھی کو بتا رہا تھا کہ اگر اسے(مجھے) تنگ کیا گیا تو جو بھی ایسا کرے گا اسے گرفتار کرلیا جائے گا۔ پھر جب سب لوگ چلے گئے تو ایک ’’شرارتی جن‘‘ کہہ رہا تھا کیاہوا اگر ایک گرفتار ہوگئی ہمارے پاس بہت ہیں۔پھر دوسرے دن ایک جن اس کی جگہ دوسری عورت کی تربیت کررہا تھا کہ کس طرح اسے برائی میں مبتلا کرنا ہے‘ میں یہ باتیں سن رہا تھا اور حیران بھی ہورہا تھا کہ یہ سب ان جنات کی کارستانی ہے جنہوں نے مجھے اتنے برس سے گناہوں میں مبتلا رکھا۔
قبر کھلی اور آواز آئی…
(غلام مجتبیٰ‘ راولپنڈی)
یہ واقعہ میرے ساتھ ربیع الاول کے مہینے میں پیش آیا۔ قبرستان والی مسجد میں جلسہ تھا۔ میں اور میرے دوست بھی جلسہ میں شریک تھے۔ ہم سب کا یہ فیصلہ تھا آج کے اس عظیم الشان جلسے میں ضرور جائیں گے اور میں نے کہا رات تقربیاً آٹھ بجے میرے ہاں آجانا وہ سب اپنے وعدہ کے مطابق آگئے اور ایک ساتھ ہم چلے گئے اور عشاء کی نماز وہاں جاکر پڑھی۔ اتنی دیر میں مفتی صاحب آگئے اور تقریر شروع ہوگئی۔ تقریر اتنی اچھی تھی کہ گھر جانے کا خیال ہی نہیں رہا۔ گھر اتنی دور تھا کہ پیدل چلنے سے آدھا گھنٹہ لگتا تھا اور جب ایک دوست پانی پینے گیا تو ٹائم دیکھا تو بارہ بجے ہوئے تھے اور اس نے کہا چلو بہت دیر ہوچکی ہے میں نے کہا اچھا چلتے ہیں۔ جب جلسہ ختم ہوا تو دیکھا کوئی بھی دوست نہیں ہے۔ میں نے سوچا کہ چلو قبرستان کے درمیان سے چلتے ہیں اور میں چل دیا… جب آدھے سے زیادہ فاصلہ طے کیا تو ایک قبر سے چیخ کی آواز آئی… میں رک گیا اور پیچھے پلٹ کر دیکھا کہ اچانک قبر کھلی اور ایک خوفناک بلا نکلی اور مجھ کو آواز دی کہ امجد رک جاؤ ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔ میں نے اس کی ایک نہ سنی اور آیۃ الکرسی پڑھنا شروع کردی۔ اتنی دیر میں گھر آگیا اور میں بیہوش ہوگیا اور جب ہوش آیا تو دیکھا کہ میرے سب دوست میرے پاس ہیں اور مجھے دس دن تک بخار رہا۔
میری زندگی کا خوفناک ترین واقعہ
(زین علی‘ لاہور)
میں جو واقعہ آپ کو سنانے جارہا ہوں یہ میرے ساتھ 2008ء میں پیش آیا۔ میں اکثر رات کو کمپیوٹر پر گیم کھیلتا رہتا ہوں آدھی آدھی رات تک۔ ایک رات میں بہت دیر تک کمپیوٹر پر بیٹھا رہا۔ وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا کہ رات کے دو بج گئے۔ اچانک مجھے پائل کی جھنکار کی آواز آئی۔ میں نے ایک دم سے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک خوبصورت لڑکی کھڑی تھی۔ میں نے اس سے گھبرا کرپوچھا آپ کون ہیں؟ اور یہاں کیا کررہی ہیں؟ تو وہ زور زور سے ہنسنے لگی تو میں ایک دم سے گھبرا گیا اچانک اس کی شکل تبدیل ہونا شروع ہوگئی۔ اس وقت مجھے جتنی قرآنی سورتیں یاد تھیں میں نے پڑھنا شروع کردیں۔ ایک دم سے وہ چڑیل غائب ہوگئی اور آواز آئی اگر آج تو یہ قرآنی آیات نہ پڑھتا تو میں تم کو نہ چھوڑتی۔ اس واقعہ کے بعد کئی روز تک میں بخار میں مبتلا رہا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں