یہ واقعہ ہمارے ایک ملنے والے بابا جی جن کا نام بابا کریم بخش ہے نے سنایا۔ باباکریم بخش خان بھٹہ کہتا ہے کہ پاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعد کی بات ہے کہ مظفرگڑھ میں ایک ایسا ڈی سی تعینات ہوا جو انتہائی نیک اور انصاف پسند تھا‘ ایک دن حسب معمول ڈی سی کھلی عدالت تحصیل دفتر کے سامنے لگائے ہوئے تھے کہ اچانک ایک بوڑھا فقیر ریچھ لیکر نمودار ہوا اور ڈی سی صاحب کی مجلس کے بالکل قریب بیٹھ کر ریچھ نچانے لگا‘ فقیر کی اس حرکت سے ڈی سی صاحب کی بارونق محفل کو بڑا خلل پڑا ڈی سی صاحب سخت پریشان ہوئے وہاں موجود ملازموں کو حکم دیا کہ اس فقیر کو پکڑ کر میرے سامنے لاؤ‘ فقیر ڈی سی صاحب کے سامنے آیا تو فقیر ڈر کے مارے کانپنے لگا‘ خوف سے فقیر کا بُرا حال تھا اس کے پاس ہاتھ جوڑنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا لیکن ڈی سی صاحب خوش اخلاقی والے موڈ میں فقیر کے چہرے کو تکتے جارہے تھے‘ ڈی سی کچھ دیر بعد اپنی کرسی سے اٹھا اور انتہائی شفقت سے بوڑھے فقیر کو کھڑا کیا اور بولا باباجی میں ایک شرط پر تم کو معاف کرسکتا ہوں اگر تم نے میری شرط مان لی تو تمہیں معافی کے علاوہ اپنی طرف سے انعام بھی دونگا۔ ڈی سی صاحب کی فقیر کے ساتھ محبت کو دیکھ کر لوگ بہت حیران بھی ہوئے اور پریشان بھی لیکن فقیر کو صرف ایک فکر لاحق تھی کہ کسی نہ کسی طرح میری جان چھوٹ جائے‘ فقیر نے شرط پوچھی تو ڈی سی صاحب نے کہا کہ اپنے ریچھ کو بیچ کر جو رقم وصول ہو اور جو میں انعام کے طور پر رقم دوں اس سے کوئی کاروبار کرکے اپنے اور اپنے بیوی بچوں کی گزر اوقات کرلے‘ فقیر نے کہا جناب آپ بااختیار ہیں جو جی میں آئے کرو لیکن مجھے اس کام کے علاوہ کچھ آتا ہی نہیں‘ آپ کے جی میں جو آئے کرو لیکن میں یہ کام نہیں چھوڑ سکتا۔ وہاں موجود لوگ حیرانگی سے دونوں کی طرف متوجہ تھے۔ ڈی سی بہت گہری سوچ میں گم تھا کچھ سوچنے کے بعد فقیر سے مخاطب ہوا کہ بابا جی تجھے میری شرط منظور نہیں؟ بوڑھے نے نہ میں سرہلایا۔ ڈی سی صاحب نے ملازموں کو حکم دیا کہ اس آدمی کو ریچھ سمیت میری کوٹھی پر لے جاؤ اور جب تک میں نہ آؤں اس وقت تک اسے وہاں بٹھائے رکھنا اور بابا جی اور ریچھ کو جو بھی خوراک درکار ہو وہ فراہم کرنا اور بابا جی کو نئے کپڑے اور چارپائی پر عزت سے بٹھانا کہ جیسے اسے محسوس ہو کہ یہ میرا اپنا گھر ہے۔ سب لوگوںکو حیرانگی میں ڈال کر ڈی سی صاحب نے اپنی محفل برخواست کی اور اپنی جیپ میں بیٹھ کر اپنے سفر کی طرف روانہ ہوگیا‘ اگلی صبح تیار ہونے کے بعد سیدھا بوڑھے فقیر کے پاس پہنچا حال احوال ملازموںکا برتاؤ سب کچھ پوچھنے کے بعد جب تسلی ہوگئی کہ بزرگ اور ریچھ کا ہرطرح سے خیال رکھا گیا ہے پھر بابا جی کی منت شروع کردی کہ باباجی میری شرط مان لو۔ چلو مجھے افسر سمجھ کر نہیں ایک بیٹے کا لاڈ سمجھ کر میری خواہش کو پورا کردو‘ لیکن بوڑھا فقیر اپنی ضد پر قائم تھا بلکہ ڈی سی کو کوسنے لگا کہ کل سے تم نے میرا کام بند کراکے میرے بیوی بچوں کو جو بھوکا مارا ہے اللہ اس کی سزا تمہیں ضرور دیگا۔ ڈی سی صاحب کے بہت سمجھانے کے باوجود بھی بابا اپنی ضد پر قائم رہا۔ پھر ڈی سی صاحب نے اپنے ملازموں سے کہا جب تک بابا اپنی ضد پر قائم ہے اس کو وہیں پر رکھنا اور اس کا اور ریچھ کا اچھی طرح سے خیال رکھنا۔ اسی طرح ایک ماہ گزر گیا دونوں اپنی ضد پر قائم رہے۔ جب فقیر ایک ماہ گھر نہ گیا تو اس کے بیوی بچے سخت پریشان ہوگئے ان کےگھروالے پریشانی کے عالم میںخانگڑھ نوابوں کے پاس گئے اور ان کو تمام قصہ سنایا تو نوابوں نے انہیں تسلی دی کہ تم فکر نہ کرو انشاء اللہ جلد رنگیلے کو ڈھونڈ لیں گے۔ ادھر ڈی سی صاحب نے بوڑھے فقیر کو اتنا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی بضد پایا تو اپنی بیوی کو تمام واقعہ سنایا اور بیوی سے تعاون کی اپیل کی ڈی سی صاحب کی بیوی بہت نیک تھی اس نے ساتھ دینے کی حامی بھرلی۔
ایک شام کو ڈی سی صاحب نے نوکروں کے ذریعے بوڑھے فقیر کو گھر کے اندر کھانے کیلئے بلایا‘ میز پر کھانا خاص مہمانوں کی طرح سجایا گیا‘ ڈی سی صاحب نے بیوی بچوں سمیت بوڑھے فقیر کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا اور خاص مہمانوں کی طرح عزت سے کرسی پر بٹھایا‘ کھانا کھانے کے بعد بھی ڈی سی صاحب نے بوڑھے فقیر کی بہت منت کی لیکن فقیر پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ چٹان کی طرح اپنی ضد پر ڈٹا رہا۔ تھک ہار کر ایک دن ڈی سی صاحب نے پولیس کو حکم دیا کہ خانگڑھ سے اس کے بچوںکو پکڑ کر کوٹھی پر لایا جائے پولیس نے حکم کی تعمیل کی بابا کے گھروالوںکی جھونپڑیوں سے اس کے بیوی بچوںکو پکڑ کر نہلا دھلا کر عمدہ قسم کے کپڑوں سے سجایا گیا۔ )
ڈی سی صاحب نے آج اپنے گھر کو اس طرح سجایا کہ جیسے اس بنگلہ پر کوئی نئی خوشی آگئی ہو شام کو بوڑھے فقیر کو بیوی بچوں سمیت کوٹھی کے اندر کھانے پر بلایا۔ ڈی سی صاحب اور اس کے بیوی بچوں نے ان سب کی خوب خدمت کی کھانے سے فارغ ہوتے ہی ڈی سی صاحب نے خوشی بھرے انداز میں اپنی بیوی بچوں اور نوکروں کی موجودگی میں خوشی کے آنسو بہاتے ہوئے بے اختیار یہ اعلان کیا کہ سب لوگ یہ سن لو کہ یہ بوڑھا آدمی میرا باپ ہے‘ یہ بوڑھی عورت میری ماں ہے اور یہ سب میرے بہن بھائی ہیں۔ ڈی سی بوڑھے ماں باپ کے قدموں میں گرکر بہت رویا اور کہا تم نے فلاں نواب صاحب کو اولاد نہ ہونے کی وجہ سے مجھے دیا تھا نواب صاحب نے مجھے اپنے بیٹے کی طرح پڑھایا لکھایا۔ بابا اب آپ کی مرضی ہے ریچھ بیچو یا نہ بیچو لیکن میری التجا ہے کہ تم سب اب اس گھر میں رہو گے۔ بابا بولا بیٹا اب میں بھی بازی ہارتا ہوں اب تمہاری جو خواہش ہوگی اس پر عمل ہوگا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں