انہیں اصرار تھا کہ نکاح آپ کو پڑھانا ہے‘ یوں بھی وہ میری حقیقی بھتیجی کے شوہر تھے اور ہمارے بہت ملنسار عزیزوں میں تھے۔ دن میں گیارہ بجے یہ حقیر بڑے بھائی صاحب کے ساتھ میرٹھ پہنچا پڑوس کے ایک وسیع مکان میں شادی کا نظم تھا ہم لوگ بارات کے انتظار میں بیٹھے تھے تھوڑی دیر بعد بینڈ باجے کی آواز آنی شروع ہوئی جو بتدریج بڑھتی گئی‘ خیال تھا کہ پڑوس میں کوئی اور شادی ہوگی جہاں یہ باجا بج رہا ہے‘ دیکھتے ہی دیکھتے یہ بارات اس باجے کے ساتھ ہی آپہنچی‘ اس حقیر کو حد درجہ دکھ ہوا‘ بڑے بھائی صاحب جو حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب سے مسترشدانہ تعلق رکھتے تھے وہ بھی بہت برہم ہوئے باجے کی شرعی قباحت سے زیادہ ہماری خاندانی روایات میں باجا ہمارے معیار سے بہت گھٹیا بات تھی اور شاید شرعی برائی سے زیادہ ہمارے غصہ کی وجہ یہ تھی‘ باجے اور بارات سے برأت کرکے لوگوں کے سامنے سخت غصہ ظاہر کرتے ہوئے‘ ایسی شادی میں شرکت اپنے تقدس اور تقویٰ کے منافی سمجھ کر ہم دونوں وہاں سے اٹھے اور میزبان اور داعی کو اطلاع کیے بغیر شادی میں شرکت کے بغیر پھلت واپس آگئے خیال تھا کہ داعی یا میزبان سے ملاقات ہوگی تو ان کی اچھی طرح خبر لیں گے۔
شادی کے بعد کی مصروفیات کے باوجود ہمارے دو عزیز پھلت آئے اور بڑے بھائی صاحب کے گھر جو ان کی اصل سسرال تھی کے بجائے میرے پاس پہنچے اور اس سے پہلے کہ میں اپنے غصہ کا اظہار کرتا‘ مجھ پر برہم ہونے لگے بہت جذباتی انداز میں بولے‘ آپ ہمارے کیا بڑے ہیں؟ اور ہم سے آپ کو کیا ہمدردی ہے‘ آپ کو ہماری خیرخواہی کہاں ہے؟ مجھے حیرت تھی اور خیال تھا کہ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹ رہا ہے‘ یہ حقیر کچھ کہنے ہی والا تھا وہ بولے کہ جب آپ نکاح پڑھانے گئے تھے تو واپس کیوں آگئے؟ میں نے عرض کیا کہ حیرت ہے آپ کو شرم نہیں آتی آپ نے خاندان کا نام بھی ڈبودیا‘ بارات میں باجا بلوایا انہوں نے کہا میں موجود تھا؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ انہوں نے کہا آپ نے ایک برائی ہوتے دیکھی‘ اگر آپ میرے بڑے اور خیرخواہ تھے تو مجھے بلانا چاہئے تھا اور مجھے سمجھانا چاہئے تھا کہ بیٹا یہ باجا گاجا گناہ ہے‘ اسے بند کرو‘ اگر میں سمجھانے سے نہ مانتا تو مجھے ڈانٹنا چاہئے تھا اگر ڈانٹ سے بھی نہ مانتا تو مجھے مارنا چاہیے تھا مگر مجھے اس برائی سے روکنا ضروری تھا اگر پھر بھی نہ مانتا تو پھر واپس آنا چاہیے تھا۔ مگر آپ نے نصیحت اور خیرخواہی کا حق ادا کرنے کے بجائے غصہ دکھایا۔ یہ کیا خیرخواہی ہے؟ اس حقیر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اپنے حال پر ندامت بھی ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ لڑکے کا ایک ہی ماموں تھا جو ہمارے یہاں رشتہ نہیں چاہتا تھا مگر ان لوگوں نے رشتہ کردیا بہت اصرار کے ساتھ اس نے باجے کے ساتھ شرکت کی شرط رکھی۔ اسے خیال تھا کہ شریف لوگوں کے یہاں جب باجا جائے گا تو وہ لوگ غصہ سے بارات کو لوٹا دینگے اور بات خراب ہوجائے گی لڑکے کی ماں نے اکیلے بھائی کی شرکت کیلئے ہر شرط منظور کرلی‘ بارات جب ہمارے عزیز کے یہاں پہنچی تو وہ سمجھ گئے‘ انہوں نے پیار سے باجے والوں کو سمجھایا‘ تم لوگ راستہ میں باجا بجا چکے ہو تمہیں تمہاری محنت مل جائے گی‘ کھانا کھاؤ اور جاؤ۔
میں نے اُن عزیز سے بہت معذرت کی اور غلطی کی نشاندہی پر شکریہ ادا کیا۔ اب جب بھی خیال آتا ہے ان کے احسان کا بدلہ عطا ہونے کی دعا کرتا ہوں‘ اس حقیر نے محاسبہ کیا کہ باجے پر اس غصہ میں اپنی پاک بازی اور تقدس پر غرور کے علاوہ کوئی اور جذبہ شامل نہیں تھا اور اکثر ہم لوگ نہی عن المنکر کے نام پر بجائے دردمندانہ خیرخواہی کے دوسروں کی تحقیر کیلئے ان کو طنز کا نشانہ بناتے ہیں اللہ تعالیٰ میرے ان عزیز کو اس احسان کا بہترین بدلہ عطا فرمائے کہ انہوں نے مجھے یہ گر سکھایا۔
ایک داعی کی حیثیت طبیب کی سی ہوتی ہے جس کو اپنے مریض کے مرض پر ترس کھا کر‘ تحقیر سے دُھتکارنے کے بجائے اس کے مرض کے علاج کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر طبیب اپنے مریض سے کراہیت کرنے لگے اور مریض کو ہسپتال سے نکال دے یا خود حقارت سے اپنے مریض سے دور چلا جائے تو حقیقت میں وہ طبیب نہیں بلکہ احمق یا ظالم ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں