جیسا مال ویسا حال
ایک طاقتور نوجوان عمر تئیس سال خوبصورت‘ جینز کی پینٹ کاٹن کی شرٹ پہنے میرے سامنے باوقار انداز میں بیٹھا تھا ۔ میں نے آنے کی وجہ پوچھی تو بے ہنگم قہقہے مار کر ہنسنے لگا میں نے ساتھ بیٹھی اس کی والدہ سے پوچھا تو کہنے لگی میں بہت دکھی ہوں… میرے میاں ایک بہت بڑے آفیسر ہیں اب عنقریب ریٹائرڈ ہونے والے ہیں تین بیٹے ہیں ایک بیٹا اپنی تعلیم مکمل کرکے بہترین جاب کررہا ہے لیکن دن رات موبائل ایس ایم ایس‘ لڑکیاں اور کلب… دوسرا بیٹا بھی یہی راہیں اختیار کیے ہوئے ہے۔ایک دفعہ بیس لاکھ جوئے میں ہار کر آیا اور یہ تیسرا بیٹا پاگل ہے۔ کیا میں ان روگوں کو سمیٹنے کیلئے اس دنیا میں آئی تھی؟ یہ کہتے ہوئے وہ خاتون پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور وہ جوان خاموش ماں کا چہرہ تک رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے الٹی سیدھی حرکتیں کرنا شروع کی۔ میں نے اسے سنبھالنے کی بھرپور کوشش کی لیکن وہ نہ سنبھل سکا آخر باہرسےاس کا محافظ بلوایا وہ اسے پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اس کی والدہ کہنے لگی یہ اسی طرح کی حرکتیں کرتا ہے‘ گھر کے شیشےاور برتن توڑ دیتا ہے‘ گاڑی کے شیشے توڑ دیتا ہے‘ اس میں اتنی طاقت بھر آتی ہے کہ پانچ پانچ آدمی اس کو سنبھالتے ہیں لیکن یہ نہیں سنبھلتا۔ ہر وقت چیخ و پکار کرتا ہے‘ روتا ہے‘ ہنستا ہے‘ اس کے چچا نے باپ کو ہتھوڑے مار کر ختم کردیا‘ پھر چچا بیس سال پاگل خانے رہا‘ ادھر بھی کئی آدمی قتل کیے‘ مکے مارے… اور کئی لوگوںکا گلا دبا کر مار ڈالا… دس آدمی پکڑتے ہیں نامعلوم اس میں کہاں سے طاقت آجاتی ہے اس کی عمر 65سال ہے۔ اس جوان کی بہن یعنی میری بیٹی سارا دن گالیاں دیتی ہے‘ شور کرتی ہے‘ وہ بھی اسی طرح ابنارمل ہے اور ہروقت پریشان کرتی ہے‘ سارا دن میرا گھر ایک ہنگامہ خیز زندگی کا محور اور مرکز ہے۔ میں زندگی سے تھک گئی ہوں پھر رو کے کہنے لگی وہ قسمت کا میرا سب سے برا دن جب میں نے اس گھرانے میں شادی کا اظہار کیا کہ میری والدہ نے پوچھا یہ رشتہ آیا ہے ہاں کردیں؟ میں نے اظہار کردیا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ ان کے دادا بہت ظالم تھے کئی لوگوں کو قتل کرادیا اور رزق حرام ہر ذریعے سے آیا‘ وہ بہت بڑا چوہدری تھا کوئی بول نہیں سکتا تھا‘ وہ خود بھی بہت بری موت مرا‘ بیٹے بھی بڑی پوسٹوں پر لیکن حرام گھر میں داخل ہورہا ہے‘ مال ہے گاڑیاں ہیں‘ سونے کے بھاری بھاری کنگن اور سیٹ ہیں‘ بہترین سیٹ پانی کے‘ چائے کے‘کھانے کے‘ شیشے کے فرش اور ٹیبلیں لیکن گھر میں ویرانی‘ پریشانی‘ بے سکونی یہ گھر نہیں پاگل خانہ ہے۔ میرا دل کہتا ہے میں مرجاؤں… وہ خاتون پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
قارئین! اس روگ کا حل کیا ملٹی نیشنل کمپنیوں کی قیمتی دوائیں… کیا حکیموں کی پڑیا… کیا عاملوں کے تعویذ اور پھونکیں… یا رزق حلال کی کوشش… یا پھر بڑے بڑے درباروں پر چڑھاوے… بڑے بڑے گدی نشینوں کو دعاؤں کیلئے درخواست یا میلے پر نذرو نیاز؟؟؟ بولیں…ہم کیا چاہتے ہیں…!!!کیا اصل روگ کا خاتمہ یعنی رزق حلال… یا پھر ان عارضی ٹوٹکوں سے تسلیاں… ٹھیک ہے میں دعاؤں کا قائل ہوں بلکہ میں اعمال خود بتاتا ہوں لیکن مرض کاروگ اس وقت تک نہیں جائے گا جب تک سوفیصد علاج نہیں ہوگا۔ آئیے! ہم سوفیصد علاج کی طرف متوجہ ہوں یہ کڑوا ضرور ہے لیکن اصل حقیقت یہی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں