پچھلے سال ڈینگی کی تباہ کاریاں اور اموات نے کتنے گھرانوں کو ویران‘ کتنی سہاگنوں کو بیوہ اور کتنے بچوں کو یتیم کردیا۔ تقدیر بہرحال تقدیر ہے اور اللہ تعالیٰ ہرچیز پر غالب ہے۔ جی چاہتا ہے پچھلے سال کے کچھ تجربات اور اس سے پہلے کے تجربات آپ کی نذرکروں تاکہ مخلوق خدا کو نفع پہنچے اس سے پہلے کہ تجربات آپ کے سامنے پیش کروں بہت ایک پراناواقعہ آپ کو سنادوں۔ ہوا یہ کہ چونکہ مجھے گھر سے طب و تحقیق کا مزاج اور ماحول ملا تھا جمعہ کے دن چھٹی ہوتی تھی۔ مجھے سکول جانا نہیں ہوتا تھا تو اس لیے پرانے کپڑے پہن کر ہاتھ میں پرانا سا تھیلا لے کر میں کھیتوں‘ دیہاتوں اور جنگلوں میں جڑی بوٹیوں کی تلاش میں نکل جاتا۔ ایک بابا جی کا پتہ چلا کہ اس کی تین شرائط ہیں ایک تو بہت سارا حلوہ کھاتا تھا جس میں میٹھا تیز ہو‘ دوسرا ساٹھ روپے پورے دن کے لیتا ہے اور تیسرا اس کا سامان اٹھائیں خدمت کریں‘ خوشامد کریں اور اس کے ناز نخرے برداشت کریں۔ مجھے یہ تینوں شرائط منظور تھیں اپنا فارغ وقت جڑی بوٹیوں کی تلاش میں گزارتا۔ ایک دفعہ میں ایک گندے نالے کے کنارے ایک قیمتی بوٹی کو جڑ سمیت اکھیڑ رہا تھا۔ میرے والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے جاننے والے ایک صاحب ملے پہچان کر کہنے لگے کہ بیٹا کیا کرو گے؟ میں نے ان سے عرض کیا یہ بوٹی پرانے بخاروں اور خاص طور پر ایسے بخاروں جن کا تعلق چھوت یا وائرس سے ہوتا ہے یا پھر ایسے بخار جو کسی علاج اور دوا سے نہیں جاتے‘ ان کیلئے یہ بوٹی کسی تریاق اور کامل علاج سے کم نہیں۔
انہی صاحب نے مجھے اس باباجی کا بتایا کہ فلاں شہر کی جامع مسجد کے نیچے ایک باباجی ہیں‘ ان کی مذکورہ بالا تین شرائط ہیں باقی وقت وہ سارا دن آلو بیچتے ہیں اگر آپ ان سے مل لو تو آپ کا یہ شوق پورا ہوجائے گا۔ ایک دن صبح صبح اماں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے میں نے بہت سارا حلوہ پکوایا۔ ایک تھرماس میں تیزپتی کی چائے بنوائی اورکپ ساتھ لیا۔ اپنے پرانے تھیلے میں وہ ڈالا بس پر بیٹھا اور بابے کے پاس پہنچ گیا۔ بابا ابھی اپنی دکان پر آیا نہیں تھا میں انتظارمیں بیٹھا رہا‘بابا آیااور سخت مزاجی سے مجھے مخاطب کیا۔ میں نے اپنا مدعا بیان کیا۔ کہنے لگا تجھے پتہ ہے… ابھی اس کا لفظ منہ میں ہی تھاکہ میں نے کہا حلوہ بھی لایا ہوں تیز میٹھا والا‘ تیز پتی کی چائے بھی لایا ہوں‘ ساٹھ روپے بھی لایا ہوں اور خدمت کیلئے حاضرہوں۔ کہنے لگا واہ بیٹا واہ…!!! تجھے ان باتوں کا پتہ کیسے چلا تو نے تو خوش کردیا۔ اچھا اب بتا کیا چاہتا ہے۔ میں نے کہا جڑی بوٹیاں… کتابوں میں تو پڑھی ہیں وہ کتابوں والی دھرتی میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس نے اپنا کام اپنے بیٹے کے ذمے لگایا اور میرے ساتھ چل پڑا۔ ہمیں جنگل میںسارا دن پیدل چلنا تھا۔ ویسے بھی مجھے پیدل چلنے کا ابھی تک شوق ہے۔ ہم سارا دن چلتے رہے وقتاً فوقتاً باباتھک کربیٹھ جاتا‘ وہ مٹھیاں بھر کر حلوہ کھاتا۔ چائے کا کپ پیتا‘ ڈکار لیتا اور پھر چل پڑتا۔ جگہ جگہ بوٹی توڑتا‘ دکھاتا یہ فلاں بوٹی ہے‘ نر بھی ہوتا ہے مادہ بھی ہوتا ہے‘ اس کی اتنی قسمیں ہیں‘ فلاں قسم کا پھول چھوٹا‘ فلاں قسم کا پھول بڑا‘ گلابی یا سرخ ہوتا ہے۔ قارئین! آپ یقین جانیے جو تشخیص مجھے زندہ بوٹی سے ملی‘ وہ تصویر سے نہ مل سکی۔ باباجی کی میں نے خدمت کی۔ دوپہر کو بیٹھے‘بابا نے سگریٹ پیا‘ میں ان کے پاؤں دبانے بیٹھ گیا۔ میرے حلوے‘ چائے‘ خدمت اور دیہاڑی نے بابے کو خوش کردیا۔ ہمارا دل لگ گیا‘ مجھ سے پوچھنے لگا‘ آئندہ جمعہ آؤگے۔ میں نے کہا ضرورآؤنگا۔
قارئین! پھر یوں کئی سفر میں نے اس بابے عبدالحمید کے ساتھ کیے۔ یہ بہت سال پرانی بات ہے۔ نامعلوم زندہ ہے یا فوت ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ اس کے درجات کو بلند فرمائے۔ اسی سفر کے دوران ایک بوٹی باباجی نے مجھے دکھائی۔ کہنے لگے اس کو تلسی کہتے ہیں اور ہندو اس کی پوجا کرتے ہیں۔ اس لیے بعض ہندوؤں کا نام تلسی رام بھی ہوتا ہے۔ اس کے بیج باریک اور اس کی ایک اور قسم ہوتی ہے جسے نیازبو یا پبری بھی کہتے ہیں جو عام گھروں میں لگائی ہوئی ہوتی ہے۔ کہنے لگے اس کے بیج ہروہ بخار جو کسی دوا علاج ویکسین‘ انٹی بائیوٹک اور دنیا کی آخری قیمتی دوا سے نہ جاتا ہو اس کیلئے آخری علاج ہے۔
پھر انہوں نے اس کا سٹا یعنی بھٹہ شاخوں سمیت توڑا جوکہ خشک تھا‘ ہاتھ میں مروڑا اس کے بیج نکالے اور کہنے لگے پھانک جا۔ میں نے پھانک لیے تھوڑی ہی دیر کے بعد مجھے محسوس ہوا میرے جسم میں ایک نئی تازگی آئی ہے۔ میں نے بابے عبدالحمید سے کہا تلسی کے بیج کے کیا فائدے ہیں؟ کہنے لگے بتائے تو ہیں۔میں نے کہا کیا اس کے اندر جسم کی فرحت اور تازگی ہے۔ کہا بخار کا کام کیا ہوتا ہے جسم کو مروڑ دینا‘ زندہ کو مردہ کردینا‘ خون ختم کردینا‘ جس کو پتھالوجی کی زبان میں (پلیٹ لیس آربی سیز) کا کم یا ختم ہوجانا کہتے ہیں۔ کہنے لگے یہ جسم کو تازہ کردیتی ہے اور طاقت اور قوت دیتی ہے۔ کہنے لگے بیٹا تو آج میرے ساتھ سارا دن چلا ہے‘ ساری رات بھی چل توپھر بھی تھکے گا نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ باباجی تلسی کے بیج تو بہت کم ملتے ہیں نیازبو اور پبری کے بیج تو عام طور پر ملتے ہیں۔ فرمانے لگے مجھے سترسال ہوگئے ہیں۔ اس کے تجربات کرتے کرتے جو فوائد تلسی کے بیج میں ہیں وہی فوائد نیاز بو کے بیج میں ہیں۔ ہاں اگر تم اس کے فائدے بڑھانا چاہتے ہو تو ایک ترکیب بتاتا ہوں۔پھر اپنا ایک واقعہ سنایا کہنے لگے پاکستان بننے سے پہلے ہمارے گاؤں امرتسر میں ایک ہندوحکیم رہتا تھا۔ اس کے پاس یرقان‘گرمی‘ ہاتھ پاؤں کی جلن‘ دل کی کمزوری‘ سانس کا پھولنا‘ خون کی کمی کا بھی علاج تھا اور بخار کا بھی آخری علاج تھا۔ جو یرقان کی تکلیف یاگرمی وغیرہ کا مریض آتا ایک مٹکے میں ایک دوائی گھلی ہوتی تھی اور مٹی کا کوزہ ساتھ پڑا ہوتا تھا وہ ہندو حکیم کہتا ایک کوزہ بھر کر پی لے پھر پوچھتا دل اور پینے کو چاہتا ہے… مریض کہتا ہاں …تو کہتا اور پی لے۔ کہتا روز آکر ایک پی جایا کر۔
چند کوزے پینے سے مریض ٹھیک ہوجاتا۔ جسے آج کے دور میں ہیپاٹائٹس‘ کولیسٹرول کا بڑھنا‘ خون کاگاڑھا ہونا‘ یرقان اور بلڈپریشر کا ہائی ہونا یا ٹینشن کہتے ہیں بس وہ مٹکا اور کوزہ انہی بیماریوں کاعلاج تھا۔ویسے بھی اس کے مریض پہلے بہت ہی کم تھے۔ بابا عبدالحمید کہنے لگا مجھے جستجو ہوئی کہ اس مٹکے میں آخر دوا کیا ہے؟ میں نے تلاش کیا کہ وہ ہندو حکیم کس پنساری سے یہ دوائیں لیتا ہے۔ اس پنساری کے پاس جانا شروع کردیا‘ اس کی خدمت کرنا شروع کردی۔ باتوں باتوں میں پوچھا کہ فلاں حکیم کون کون سی دوائیں زیادہ لے کرجاتا ہے۔ کہنے لگا ایک مٹکا بناتاہے اس میں صرف املی اورآلوبخارا بھگو دیتا ہے اور سارا دن مریضوں کو پلاتا ہے۔ مجھے ٹھا کرکے دل میں بات لگی کہ یہ نسخہ تو سمجھ آگیا‘ پھر میں نے پوچھا ایک چیز دودھ میں بھی دیتا ہے‘ پنساری کہنے لگامجھے تو پتہ نہیں ہاں! مجھ سے نیاز بو کے بیج لے جاتا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ وہ کالے کالے بیج کیا ہوتے ہیں۔ وہ ہندو حکیم املی اور آلو بخارا ہم وزن رات کو بھگو دیتا
صبح سارا دن یہ چیزیں اپنے مریضوںکو پلاتا اور ایک چمچ بڑاگلاس گائے کے نیم گرم دودھ میں نیاز بو کے بیج ڈال کر مریضوں کو پینے کیلئے دیتا کسی کو دن میں دو دفعہ کسی کو تین دفعہ صبح نہار منہ کھانے سے دوگھنٹے پہلے یا دو گھنٹے بعد۔ کسی کو ایک ہفتہ یا کسی کو دو ہفتے یا تین ہفتے۔ بابے عبدالحمید نے لمبا ساسگریٹ کا کش لیا اور کہنے لگا میں نے بے شمار بخار کے پرانے مریض مسلمان‘ ہندو‘ سکھ ہندو حکیم کے پاس آتے دیکھے اور صحت مند ہوتے دیکھے۔ اس کے بعد میں نے خود ہی اسی پنساری سے ایک چھٹانک نیاز بو کے بیج لیے اور لوگوںکو جس کو گائے یا بکری کا دودھ میسر ہوتا‘ ورنہ جو دودھ بھی میسر ہو نیم گرم دودھ میں پلانا شروع کردیا۔ ایک چمچ بیج لیکر ہلکے میٹھے دودھ میں… میٹھا نہ بھی ڈالیں تو ضروری نہیں… گھول کر اسے آدھا آدھا گھونٹ پینا ہے۔ یکایک نہیں پینا اور ایک گلاس کو کم از کم پندرہ منٹ لگانے ہیں چمچ سے مسلسل گلاس میں وہ بیج گھولتے جانا ہے اور گھولتے گھولتے ہی پینا ہے۔ بس دنیا کا ہروہ مریض جس کو بخار نے عاجز کردیا ہو حتیٰ کہ ٹی بی جس کیلئے ڈاکٹر اٹھارہ مہینے کا علاج بتاتے ہیں پرانے ٹائیفائیڈ اور بگڑا ہوا ایسا ٹائیفائیڈ جو کسی دوا سے ٹھیک نہ ہوتا ہو اس دودھ اور بیج والے نسخے سے ناصرف تندرست ہوتے ہیں بلکہ طاقتور اور فریش ہوتے ہیں۔ بابے عبدالحمید کی بات سن کر مجھے پھر احساس ہوا کہ وہ ہتھیلی پر تھوڑے سے بیجوں نے مجھے تازگی کا احساس آخر کیوں دیا اور کیوں نہ ہوتا؟ وہ ایک قدرت کا انمول تحفہ ہے جسے ہم بھول چکے ہیں۔ پھر اس کے بعد میں اپنے کئی بے شمار مریضوں کو یہی نسخہ دیتا رہا اور اب تک دے رہا ہوں اور قارئین! آپ کو بھی دے رہا ہوں اب آخر میں اس کے مختصر فائدے پھر سن لیں۔بخار کسی بھی قسم کا ہو‘ سائنس کی دنیا میں اس کا کوئی بھی نام ہو‘ معدے کی گیس تیزابیت‘ قبض ‘ عورتوں کی نسوانی تکالیف‘ لیکوریا وغیرہ… اور جوانوں کی تکالیف مثانے کی گرمی وغیرہ یا اس سے متعلق امراض… ان سب کیلئے اس کو صدیوں سے مفید سے مفید تر پایا۔ میرے پاس ٹی بی‘ ٹائیفائیڈ اور ڈینگی کے ایسے ایسے خطرناک مریض آئے جن کی نبضیں ڈوب رہیں تھیں اور جاں بلب تھے ان کو میں نے یہ نیازبو کے بیج اور نیم گرم دودھ پینے کیلئے دیا اور اللہ کے فضل سے تندرست بھی ہوئے اور توانا بھی … ایسے فریش ہوئے کہ صحت و تندرستی نے خود ہی انہیں سلام کیا صحت تندرستگی فریشنس ڈھونڈے نہیں ملی لیکن گلاس میں ملی دودھ اور کالے چمکدار بیجوں کے ذریعے۔ کیا خیال ہے… بابے عبدالحمید کا باکمال نسخہ… اس نسخے میں حلوے کا کمال‘ ساٹھ روپے کا کمال یا حکیم طارق کی سخاوت کا کمال…!!! فیصلہ آپ خود کریں…!!!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں