کہنی لگی میں لاوارث ہوں‘ میری ماں فوت ہوگئی باپ نے آوارگی اختیار کی۔ میرے چار بھائی ہیں جو خود آزاد پرست زندگی گزار رہے ہیں میری ماںکی خواہش تھی کہ میری بیٹی اور بیٹے نیکی کی طرف آئیں گھر میں سے کوئی بھی نہ آسکا میں آگئی میں اب نیکی ہی میں آنا چاہتی ہوں تاکہ میری ماں کی قبر ٹھنڈی رہے اور اس کو سکون ملتا رہے اور یہ کہہ کر چلی گئی کہ میں آئندہ بھی آپ کی منت کرتی رہوں گی۔ آخر ہم سب گھر والے سرجوڑ کر بیٹھے اور فیصلہ یہ ہوا کہ اس کو اجازت دے دی جائے اور اب ہم نے اس کو اجازت دیدی ہے گزشتہ ساڑھے چھ ماہ سے اس کی شادی ہوگئی ہے شادی کی ترتیب کچھ یوں بنی کہ قوم جنات ہمارے بیٹے کو اٹھا کر لے گئے تین دن وہ وہاں رہا لیکن تین دن مسلسل ہمارا اس سے رابطہ رہا۔ کسی نامعلوم کال سے جس میں موبائل میں نمبر نہیں آتا تھا فون کرتاکہ میں خیریت سے ہوں۔
بیٹے نے اپنی شادی کی جو داستان سنائی تو کہنے لگا کہ میں جب وہاں پہنچا تو مجھے خوبصورت لباس پہنایا گیا جو کسی دور میںہم مغل بادشاہوں کا لباس سنتے تھے جس میں خوبصورت تاج‘ شیروانی‘ شاہی جوتا‘ اور ہاتھوں میں ہیرے جواہرات اور سونے کے کنگن‘ گلے میں سونے کے ہار وہ لڑکی بہت مالدار ماں باپ کی بیٹی تھی باپ نے تو اپنا مال ضائع کیا لیکن ماں نے اس کامال اپنا سارا ورثہ اسی کو دیا اور اس نے سنبھال کر رکھا ہوا تھا اور کہا کہ بہت بڑے عالم جنات اس میں موجود تھے‘ بڑے بڑے ولی انہوں نے ہمارا نکاح پڑھایا اور نکاح کے بعد ہم ایک بہت بڑے محل میں داخل ہوئے جو میری عقل اور شناسائی سے بہت دور تھا اس محل میں ہم جب پہنچے تو وہاں جگہ جگہ کمرے تھے‘ تخت تھے‘ جنات عورتیں خادمائیں تھیں تین دن میں وہاں رہا تیسرے دن ہمارا ولیمہ ہوا اور ولیمے میںبہت بڑی تعداد سے دوردراز کے جنات موجود تھے میں آخر وہ مجھے میرے گھر چھوڑ گئے اب میری بیوی میرے پاس شب بسری کیلئے آتی ہے۔ لڑکے کی ماں کہنی لگی کہ میرے بیٹے کے بقول میری بیوی امید سے ہے دعا کریں اللہ پاک بیٹا عطا فرمائے۔ اب یہ واقعات سن سن کر میرے لیے یہ داستانیں بہت پرانی ہوگئی ہیں۔ نئی نہیں ہیں۔ لیکن ایک چیز جو سب سے بڑی اور سب سے زیادہ مجھے اکثر مشاہدے میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ جنات کا عورتوں کو اٹھا کر لے جانے کے کیس بہت زیادہ ہیں اور اس میں ایسی عورتیں جو بیس بائیس سال کی عمر کے قریب ہوتی ہیں۔
بعض اوقات پچیس تیس سال کی عمر اور بعض اوقات اس سے زیادہ بھی لیکن اکثر بیس بائیس سال کی عمر کی خواتین کو جنات بہت زیادہ اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ میں ایک سفر میں تھا جنات کی گدھ نما سواری پر بیٹھا ہوا تھا تاریک آسمانوں کے سفر میں اور ایک فضائے بسیط تھی ہر طرف خاموشی تھی‘ سناٹا تھا اور سواری مسلسل اڑ رہی تھی یہ سفر کچھ لمبا ہوگیا میں سمجھ گیا کہ آج فاصلہ کچھ بہت ہی زیادہ دور ہے… اڑتے اڑتے ہم آخر کار افریقہ کے ایک ایسے جنگل میں پہنچے جہاں ‘ مرد اورعورتیں برہنہ رہتے ہیں‘ وہاں بہت بڑے بڑے درخت اتنے بڑے درخت کہ ایک اگر پچاس انسان بھی درخت کو اپنے ہاتھ پکڑ کر گھیریں تو اس درخت کا تنا نہیں پکڑا جاسکتا۔ اتنے بڑے درختوںپر جنات کا بسیرا ہے۔ ان جنگلات میں جنات کا قیام ہے میرا جانا دراصل وہاں کچھ یوں ہوا کہ وہاں ایک فوتگی ہوگئی تھی۔ میرے کچھ دوست جنات تھے جن کے رشتے دار وہاں رہتے تھے اور وہ مسلمان جنات تھے۔ ان کا بہت عرصے سے اصرار تھا کہ ہمیں علامہ صاحب سے ملاقات ضرور کرائیں کئی بار مجھ سے وہاںسے ملنے بھی آئے لیکن سفر کی زیادتی کی وجہ سے میں نہ جاسکا۔ اب ان کے سردار فوت ہوگئے اب ان دوستوں کا اصرار تھا جو یہاں کے دوست جنات تھے کہنے لگے آپ ضرور چلیں وہاں ان کی تعزیت بھی کریں اور دعا بھی کریں۔ یہ سفر کچھ ایسا تھا کہ جمعرات کی رات کا یہ سفر تھا کچھ یوں ہی تھا کہ میں ساری رات سفر میں ہی رہا۔
بہت دیر کے سفر کے بعد وہاں پہنچے بہت بڑے بڑے جنات انتظار میں تھے تکیے لگے ہوئے تھے قالین بچھے ہوئے تھے ہر طرف چہل پہل تھی لیکن افسردگی تھی وہ سردار جو فوت ہوئے تھے ان کے بقول ڈیڑھ سو سال تک دن میں روزہ رکھا اور کبھی بھی ان کا ایک روزہ نہیں چوکا۔ عمر تو ان کی بہت لمبی تھی لیکن ڈیڑھ سوسال صرف روزہ رکھا اور دن اور رات میں ایک قرآن پڑھ لیتے تھے اور لاکھوں قرآن انہوں نے اب تک پڑھے اورجب ان کی زندگی کا آخری وقت آیا تو ان کے بیٹے نے مجھے بتایا کہنے لگے کہ میرے والد نے مجھے قریب بلایا کہنے لگے بیٹا میں نے ساری زندگی بڑے بڑے علماء‘ محدثین کی خدمت کی ہے ان کی خدمت سے میں نے ایک راز اور موتی پایا اس راز کو سدا سنبھال کر رکھنا اور کبھی بھی اس راز کو ضائع نہ کرنا اور تجھے جب بھی کوئی مشکل اور پریشانی آئے اور جب کوئی حاجت ہو اس کا تعلق زمین والوں سے ہو یا آسمان والوں سے اس راز کو پڑھنا تجھے سوفیصد مطلوب ملے گا۔ بیٹا کہنے لگا میرے آنسو ٹپک رہے تھے اور میں والد کی کمزور آواز میں وہ راز اور نصیحت سن رہا تھا پھر میرے والد نے میرا ہاتھ پکڑا اور چوما اور کہنے لگے دیکھ بیٹا اگر تو ہروقت باوضو رہے گا تجھے کبھی بھی مقدر کے دھکے نہیں لگیں گے رزق میں برکت‘ صحت میں برکت‘ عزت وجاہت شان و شوکت تجھے ڈھونڈے گی تو اس کو نہیں ڈھونڈھے گا تیری زندگی راحت و برکت کا ذریعہ رہے گی۔ ہمیشہ زندگی میں سلام کرتے رہنا‘ سلامتی تیرے چاروں طرف رہے گی اور جو راز میں تجھے دینا چاہتا ہوں وہ راز یہ ہے کہ دو رکعت نماز نفل حاجت کی نیت سے پڑھ اور اس میں ثناء کے بعد سورۂ فاتحہ شروع کر جب اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ پر پہنچ اور اس کو بار بار دوہرا اور اتنا دوہرا اتنا دوہرا کہ تین سو چار سو دو ہزار تین ہزار کی تعدادمیں اس کو دوہرا اگر تو کھڑا ہوکر نفل پڑھ لے تو سعادت اگر کھڑا نہیں ہوسکتا تو بیٹھ کر پڑھ لے۔(جاری ہے)
آئندہ شمارے میں علامہ لاہوتی پراسراری کا خاص نمبر پڑھنا نہ بھولیں…!!!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں