بھالو میاں جنگل میں سب سے نیک اور اچھے اخلاق والے مشہور تھے‘ جنگل کے سب جانور ان کی بہت عزت کرتے تھے یہاں تک کہ جنگل کا بادشاہ ببرشیر بھی انہیں احترام کی نظر سے دیکھتا تھا۔ بھالو میاں سب کی بہت خدمت کیا کرتے تھے کسی سے کوئی دشمنی نہیں رکھتے تھے۔ سب جانور ان سے پیار کرتے تھے۔ سوائے بی لومڑی اور کانے (جس کی ایک آنکھ نہ ہو)گیدڑ کے کہ ان دونوں کو بھالو میاں سے بغیر کسی وجہ سے دشمنی تھی۔ وہ دونوں اسے تنگ کرنے اور ستانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ بی لومڑی کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح بھالو میاں کو جنگل کے جانوروں کی نظر سے گرا دے۔ ہمیشہ سے اس کی یہی کوشش رہی مگر اس کی ہر ترکیب ناکام ہوتی رہی۔ بی لومڑی اور کانا گیدڑ جنگل کے سب ہی جانوروں کو تنگ کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے کبھی کسی پرندے کا گھونسلہ گرادیا‘ کسی جانور کا گھر توڑ دیا‘ کبھی دھوکے سے دو جانوروں کو آپس میں لڑا دیا‘ کسی کو بے وقوف بنا کر لوٹ لیا‘ سب جانور ان دونوں کی حرکتوں سے بہت تنگ تھے مگر ان دونوں کو کسی کے دکھ درد کا ذرا احساس نہ تھا۔
ایک دن بی لومڑی جنگل کی سیر کو جارہی تھی کہ اس کی نظر چند شکاریوں پر پڑی‘ شکاری ہاتھیوں کو پکڑنے کیلئے بڑا سا گڑھا کھود رہے تھے گڑھا کھودنے کے بعد انہوں نے اسے گھاس پھونس اور پتوں سے ڈھانپ دیا۔ بی لومڑی چھپ کر سب دیکھتی رہی کچھ دیر بعد شکاری چلے گئے تو وہاں سے نکلی اور جاکر گڑھے کو دیکھا اچانک اس کے دماغ میں ایک شیطانی ترکیب آئی اورفوراً کانے گیدڑ کے پاس گئی اور اسے ساری ترکیب کے بارے میں بتایا........
منصوبہ سن کر گیدڑ اور لومڑی دونوں بہت ہنسے .... اور گیدڑ نے کہا.... تعریف کرنے پڑے گی تمہاری عقلمندی اور چالاکی کی۔ کیا شاندار ترکیب ہے۔ اس طرح میاں بھالو ہمیشہ کیلئے ہمارے راستے سے ہٹ جائے گا اور اسے اس کی نیکی اور اچھائی کی سزا بھی مل جائے گی۔ بہت شوق ہے انہیں دوسروں کی مدد کرنے کا۔ رات کو آٹھ بجے میں میاں بھالو کے گھر جاکر اسے جھوٹ موٹ تمہارے زخمی ہونے کی اطلاع دونگا اور اسے بتائوں گا کہ تمہیں اس کی مدد کی سخت ضرورت ہے اور تم جنگل کے اس حصے میں ہو۔ جہاں شکاری گڑھا کھود گئے تھے۔میاں بھالو وہاں جائے گا اور گڑھے میں گرجائے گا اور یوں ہمیں میاں بھالو سے نجات مل جائے گی۔ (یعنی اس سے جان چھوٹ جائے گی) ٹھیک ہے ناں........گیدڑ بولا ہاں بالکل ٹھیک........ اب چلو میں تمہیں گڑھے والی جگہ دکھادوں بی لومڑی نے کہا.... وہ دونوں جنگل کے اس حصے کی طرف چل پڑے ابھی وہ وہاں پہنچے ہی تھے کہ اچانک دونوں دھڑام سے ایک گہرے گڑھے میں گرپڑے۔ ........ہائے میں مرگئی میری ٹانگ........ بی لومڑی چلائی۔ ....میں مرگیا ہائے ہائے میرا سر........ گیدڑ درد سے چیخا.... یہ گڑھا یہاں کیسے آگیا۔
گڑھا تو یہاں سے کافی دور تھا۔ بی لومڑی بولی.... ہائے........!! میرا سر یہ تم نے کیا کیا بی لومڑی اب ہم یہاں سے کیسے نکلیں گے جنگل کا کوئی جانور ہماری مدد نہیں کرے گا۔ ہم نے کسی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا ہے۔ اب کیا ہوگا........؟؟؟ گیدڑ روتے ہوئے بولا........ بی لومڑی گھبرا کر بولی........ میرا خیال ہے شکاریوں نے یہاں بھی گڑھا کھود دیا ہوگا۔ ہائے........ ہم دونوں تو یہاں بھوکے مرجائیں گے۔ہمیں تو کوئی نہیں نکالے گا۔ لومڑی اور کانا گیدڑ کتنی ہی دیر چلا چلا کر سب کو مدد کیلئے بلاتے رہے مگر کوئی جانور ان کی مدد کیلئے نہ آیا۔ ایک دن یوں ہی گزر گیا‘ جنگل کے تمام جانور انہیں گڑھے میں گرا دیکھ کر خوش ہوئے کہ انہیں ان دونوں سے نجات ملی۔ کسی نے ان کی چیخ و پکار پر توجہ نہ دی اور نہ ان کی مدد کی۔ جب بھالو میاں کو ان کے گڑھے میں گرنے کی اطلاع ملی تو وہ فوراً وہاں پہنچے اور ان کی مدد کرنا چاہی تو تمام جانوروں نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا۔ ان کی پچھلی حرکتوں کی اطلاع دی اور یہ بھی بتایا کہ یہ دونوں اصل میں انہی کو (بھالو میاں ہی کو) گڑھے میں گرانا چاہتے تھے۔ میاں بھالو نے یہ سب سنا مگر پھر بھی ان کی مدد سے ہاتھ نہیں ہٹایا اور تمام جانوروں سے کہا کہ ”برائی کا بدلہ برائی نہیں بلکہ برائی کا بدلہ اچھائی ہے‘ چلو سب انہیں گڑھے سے نکالیں۔“ میاں بھالو کے کہنے پر جانوروں نے انہیں گڑھے سے نکال دیا۔ بی لومڑی اور کانا گیدڑ بھالو میاں سے سخت شرمندہ ہوئے اور ان کی عظمت کے قائل ہوگئے اور ہمیشہ کیلئے برائی سے توبہ کرلی۔
بچو! نیکی اور اچھائی کبھی نہیں چھوڑنی چاہیے یہ دشمن کو بھی دوست بنالیتی ہے۔ اگر ہمارے جاننے والے دوست وغیرہ ہم سے محبت نہیں کرتے اور ہم سے اچھا سلوک نہیں کرتے یعنی بلاوجہ ہمیں ستاتے ہیں اور پریشان کرتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ ویسا ہی نہ کریں بلکہ ان کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آئیں اور ان کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کریں اس سے خودبخود سب کے دلوں میں اچھا اثر پڑیگا اور دشمن بھی دوست بن جائیں گے۔ بچو! اگر سکول میں کوئی بچہ یا ہمارے گھرمیں کوئی دوست یا رشتہ دار ہماری جھوٹی شکایت کہیں لگادے مثلاً کوئی چیز اس نے توڑ کر نام ہمارا لگادیا تو اب ہم انتظار میں نہ رہیں کہ ہم بھی اس کا کوئی نقصان کریں گے یا ہم بھی کسی وقت اس کی کوئی جھوٹی شکایت لگائیں گے بلکہ اس کو معاف کرنا سیکھیں اور اس سے اچھی طرح پیش آئیں اس بات پر خوش ہوکر وہ ہمارا دوست بن جائیگا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں