تب میں صرف 6 برس کی تھی جب پہلی مرتبہ ابو ہم سب کو ساتھ لیکر گرمیوں کی چھٹیوں میں وانا سے گوجرانوالہ گئے ہم سب بے انتہا خوش تھے کیونکہ یہ پہلی بار تھی جب ہم سب ابو کے ساتھ گئے تھے۔ خیر گوجرانوالہ پہلے ہم کچھ دن اپنی خالہ کے گھر رہے پھر ابو نے کہا چلو پھوپھو سے مل کر آتے ہیں جو کہ گوجرانوالہ کے نزدیک ایک گائوں قلعہ میاں سنگھ میںرہتی تھی۔ ہم صبح ہی صبح پھوپھو سے ملنے چلے گئے۔ وہاں پر پورا دن رہے میری پھوپھو کے دیور جس نے ہمیں پورا گائوں گھمایا خاص کر قلعہ میاں سنگھ میں دو پرانی حویلیاں ہیں ان کی سیر کرائی‘ ایک حویلی میں ایک سو ایک کمرے ہیں دوسرے قلعے کا جو وڈیرا تھا میاں سنگھ اس کی حویلی میں گئے جس کا صحن کافی وسیع تھا اس صحن میں ایک چھوٹا سا مندر بھی تھا جس میں چار سے پانچ لوگ عبادت کرسکتے تھے۔ مندر کے چاروں طرف بہت پیاری پینٹنگ تھی۔ میں نے چاچو سے کہا کہ حویلی بھی دیکھتے ہیں مگر انہوں نے تقریباً چار گز کے فاصلے سے دکھائی اور آگے جانے سے سختی سے منع کردیا۔ بقول ان کے حویلی میں جانے کی جن لوگوں نے کوشش کی وہ زندہ نہیں بچے۔ خیر مجھے بہت برا لگا اور ہم لوگ واپس آگئے۔ جب ہم واپس آگئے تو میرے آدھے سر میں درد شروع ہوگیا جب امی سے کہا تو امی نے سر میں مالش کی اور بولیں کہ صبح ہم جلدی اٹھ گئے تھے تو دھند کی وجہ سے سر میں درد ہوگا‘ بہرحال ایک ہفتہ وہاں گزار کر ہم لوگ واپس وانا آگئے کیونکہ وانا میں میرے ابو گورنمنٹ ملازم ہیں۔ یہاں آکر ایک مرتبہ دادا ابو نے ڈانٹا تو میں بیہوش ہوگئی سب بہت پریشان ہوگئے کیونکہ میں اپنے دادا جان کی بے حد لاڈلی بھی ہوں۔ میرا جسم بالکل اکڑگیا مجھے سب کی آواز آرہی تھی کوئی میرے ہاتھوں کو مل رہا تھا تو کوئی پائوں کو.... آہستہ آہستہ تقریباً بیس منٹ میں میرا جسم اپنی اصل حالت میں آیا اور آدھے گھنٹے میں ہوش۔ مجھے اپنے جسم میں کافی کمزوری محسوس ہورہی تھی‘ اگلے ہی دن میرے چاچو مجھے لیکر سندھ کے کسی علاقے میں دم کروانے چلے گئے‘ دو دن رات کا سفر کرکے بالآخر ہم سندھ پہنچے پھر وہاں سے دم کروانے کے بعد واپس آئے مگر اس کے باوجود مجھے آدھے سر کا درد اور بے ہوشی کے دورے پڑتے رہے۔ کوئی اونچی آواز سے ڈانٹتا بھی تو میں بے ہوش ہوجاتی۔ وقت گزرتا رہا 12سال گزر گئے میری نظر بھی کافی کمزور ہوگئی جس کی وجہ سے مجھے عینک بھی لگ گئی اب میری عمر 18 سال کی تھی کہ میں جب بھی گہری نیند میں سوئی ہوتی تو اٹھ کر گھومنے لگتی اور میرے سر کا درد شدید سے شدید تر ہوگیا اتنا شدید کہ میرے چیک اپ کے بعد ڈاکٹر کو کچھ سمجھ نہیں آئی اور جب میرے سر میں درد ہوتا تو میں چیخیں مارتی‘ ڈاکٹرز مجھے نشے کے انجکشن لگاتے۔ تین ماہ میری زندگی کے کیسے گزرے مجھے سوائے نیند کے کچھ یاد نہیں۔ پھر فیصل آباد میں کسی نے ایک عورت کا ایڈریس دیا جس پر پریاں آتی تھیں میری امی میرے لیے فیصل آباد گئیں جس دن اس عورت پر پریاں آتی تھیں اس کے گھر گئیں اس نے اپنا حساب لگایا مگر امی سے کچھ نہیں کہا صرف 7 بتیاں دیں جو کہ کاغذ کی بنی ہوئی تھیں اس پر کچھ لکھا ہوا تھا۔ اسے سرسوں کے تیل میں بھگو کر خود جلائیں جو کچھ بھی ہے آپ کی بیٹی کے خود سامنے آجائے گا‘ آخری بتی جمعرات کو جلانی ہے۔ پھر امی نے آکر مجھے طریقہ سمجھایا اور میں نے پہلی بتی جلائی عشاءکی نماز پڑھ کر۔ جب میں رات کو سوئی تو خواب میں دیکھا کہ میرا چاچو ہمیں گھمانے لے جارہا ہے بالکل وہی بچپن کی عمراور وہی منظر جب ہم قلعہ میاں سنگھ گئے تھے 12سال پہلے کا واقعہ اور خواب میں جب میاں سنگھ کی حویلی پہنچے تو خواب ختم ہوگیا۔ 12 سال پہلے کی ہوئی ہر بات بالکل وہی راستہ خواب میں دیکھا جب میں صرف 6 سال کی تھی۔ اگلے دن پھر بتی جلائی‘ جب سوئی تو پھر خواب بالکل وہیں سے شروع ہوا جہاں ختم ہوا تھا بالکل ایسے جیسے کسی ڈرامے کی اگلی قسط ہو۔
پھر میں نے دیکھا کہ جس وقت میں حویلی کی طرف دیکھ رہی تھی اور چاچو کو حویلی میں جانے کا پوچھ رہی تھی بالکل اسی وقت میری نظر حویلی کی چھت پر پڑی تو وہاں ایک عورت بیٹھی ہے جس کی آنکھیں توہیں مگر آنکھوں کے اندر کالا دائرہ مطلب آئی بال نہیں ہیں اس کی آنکھیں بالکل سفید ہیں اور میری طرف دیکھ کر مکرو ہ سا ہنس رہی ہے۔ پھر خواب ختم ہوا‘ اگلے دن بتی پھر بتی جلائی‘ سوئی تو خواب وہی سے شروع ہوا کہ وہ عورت اُڑ کر آکہ میرے سر پر بیٹھ گئی ہے اس کی ٹانگیں بھی نہیں تھی پھر ہم لوگ واپس آگئے اور اس طرح ایک خواب ٹھیک چھ دن مسلسل جہاں ختم ہوتا اگلے دن بالکل اسی جگہ سے شروع ہوتا۔ چھ دن میں وہ پوری بات میرے سامنے آگئی۔جمعرات کے دن آخری بتی جلائی آج میرے سونے پر کوئی خواب نہ آیا مگر آدھی رات کے بعد کسی نے میرا نام لیکر نہ صرف پکارا بلکہ میرا پائوں بھی ہلایا۔ میں نے آنکھیں کھولی تو سامنے کوئی اور نہیں بلکہ میاں سنگھ کی حویلی والی وہی عورت بالکل میرے سامنے کھڑی تھی اور مجھے کہنے لگی میرے ساتھ آئو.... میں بالکل کمرے کے دروازے کے پاس ہی سوئی تھی میں صرف اٹھ کر کھڑی ہوئی اور جالی کے دروازے سے باہر دیکھا تو اتنی جلدی وہ صحن عبور کرکے باہر کے گیٹ کے پاس کھڑی تھی‘ اس وقت بھی اس کی ٹانگیں نہیں تھی‘ اس کی ہائیٹ 6 گز سے بھی اونچی ہوگی‘ کھلے بال دونوں کندھوں سے آگے لائی ہوئی اور اُسی طرح مسکرا کر مجھے اپنی طرف آنے کا کہہ رہی تھی اتنے میں میری امی کی نیند کھل گئی اور انہوں نے مجھے آواز دی تو مجھے یوں لگا جیسے کسی سحر سے باہر آگئی ہوں یا نیند سے جاگ گئی ہوں۔میں نے کہا جی! وہ بولیں کیوں کھڑی ہو کیا بات ہے؟ تو میں نے کہا امی وہ عورت مجھے ابھی جگا کر گئی ہے مجھے کہتی ہے میرے ساتھ آئو ‘ امی اٹھ کر میرے پاس آئیں اور پوچھا کہا ہے؟ میں نے کہا وہ مین گیٹ کے پاس‘ مگر جب میں نے وہاں دیکھا تو وہاں کوئی موجود نہ تھا۔اس کے بعد اب تک الحمدللہ 5 سال ہوگئے نہ میرے سر میں درد ہوا بلکہ میری جتنی نظر بھی کمزور تھی وہ بھی ٹھیک ہوگئی۔ شاید اسی لیے بزرگ بچوں کو ویران جگہ پر لیجانے سے منع کرتے ہیں۔ کیونکہ بارہ سال آخری تین ماہ جو تکلیف میں نے برداشت کی اللہ رب العزت بہتر جانتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں