(داعی اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی مدظلہ ‘ پھلت)
یہ سن کر جیسے وہ بلک گئے ہوں‘ بیتاب ہوکر بولے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کسی مسلمان کو نہ ہو تو وہ کتے کی موت مرے گا‘ میں نے عرض کیا حاجی صاحب پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا شوق بھی ہوگا؟ بولے بھلا کون مسلمان ہوگا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا شوق نہ ہو
دو روز سے بھیڑ کی وجہ سے حرم شریف میں اندر حاضری نہیں ہوپائی تھی‘ اس لیے عصر کی نماز باہر پڑھ کر یہ حقیر حرم میں داخل ہو ا‘ترکی عمارت میں ایک عرب حاجی نے اپنے برابر میں جگہ دیدی‘ میں نے سلام کیا تو جواب دیا‘ وہ حاجی صاحب کلین شیو تھے اور مونچھ اتنی بڑی کہ خدا کی پناہ‘ ڈاڑھی کا ایک حصہ مونچھوں میں ملا کر بڑی ڈرائونی صورت جیسے کسی مقابلہ کیلئے تیاری کی ہو‘ اس حقیر کو وہ چہرہ دیکھ کر بڑی تکلیف ہوئی اور شاید اپنی بڑائی اور تقویٰ کے ساتھ اس خوش قسمت حاجی کی حقارت بھی۔ مگر چونکہ انہوں نے اپنے آپ کو سمیٹ کر اس حقیر کو جگہ دیکر احسان کیا تھا تو حرم کی مبارک فضا میں الدین النصیحة (دین تو صرف خیرخواہی ہے) کا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم یاد آیا‘ میں نے ان حاجی صاحب سے مصافحہ کیا تعارف پر معلوم ہوا شام کے قریب رہنے والے ایک انجینئر ہیں‘ انگریزی بھی بولتے ہیں میں نے معلوم کیا یہ مونچھیں آپ نے کسی مقابلہ کیلئے تیار کی ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں بس مردوں کی شان سمجھ کر رکھی ہیں‘ اس حقیر نے ان سے عرض کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کو محبت ہوگی؟
یہ سن کر جیسے وہ بلک گئے ہوں‘ بیتاب ہوکر بولے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کسی مسلمان کو نہ ہو تو وہ کتے کی موت مرے گا‘ میں نے عرض کیا حاجی صاحب پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا شوق بھی ہوگا؟ بولے بھلا کون مسلمان ہوگا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا شوق نہ ہو‘ میں نے عرض کیا حاجی صاحب اس حال میں اگر ہمارے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم آجائیں تو آپ اس صورت میں ان سے ملاقات کریں گے یا منہ چھپائیں گے؟ وہ بولے شرم تو ضرور آئے گی میں نے عرض کیا: پیارے بھائی جس صورت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے ہوئے شرم آئے اس میں کیا خوبی ہے‘ وہ بہت شرمندہ ہوئے‘ رونے لگے اور بولے کہ میں نے حج قربان کی نیت کی ہے‘ کیا احرام میں مونچھیں کٹوا سکتا ہوں‘ میں نے کہا بالکل نہیں‘ ارادہ کیجئے اور حج کے بعد مونچھیں کٹوائیے اور ڈاڑھی ابھی سے رکھ لیجئے انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور بہت شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا کہ آپ نے مجھ پر بڑا احسان کیا‘ اب میں پوری ڈاڑھی رکھنے کا وعدہ کرتا ہوں‘ بار بار میرے ہاتھوں کو چومتے رہے‘ ان پر بہت رقت طاری ہوئی اور بولے یہ جگہ تو اللہ کی محبت میں بیٹے کو قربان کردینے کی یادگار ہے‘ یہاں جان دیدے تو جان بھی دی ہوئی اسی کی ہے۔ اس سے بھی کہاں حق ادا ہونے والا ہے‘ ہم اللہ کی محبت میں اپنی صورت بھی اس کے نبی کی سی نہیں بناسکتے‘ یہاں جان بھی قربان کردیں تو کم ہے‘ بہت دیر تک وہ روتے رہے اورعربی میں استغفار کرتے رہے‘ مغرب کی نماز کھڑی ہوگئی اگلے روز 8 ذی الحجہ تھی حج کی گویا پہلی تاریخ‘ شیخ سبیل حفظہ اللہ نے نماز پڑھائی‘ سورہ صف کی آیات پڑھنا شروع کیں‘ وہ ہچکیوں سے روتے رہے اور دیکھتے دیکھتے گرپڑے‘ میں نے نیت توڑی زمزم لاکر ان کے منہ میں ڈالا‘ پولیس والوں کو اطلاع دی‘ ان کے منہ پر رومال سے ہوا کی‘ وہ روتے روتے انما اشکو بثی و حزنی الیک پڑھ رہے تھے اچانک وہ: رضیت باللہ ربا وبالا سلام دینا و بمحمد نبیا ورسولا پڑھنے لگے۔ پولیس والے اسٹریچر لے کر آئے مگر وہ اپنے رب کی آغوش رحمت میں سوگئے تھے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون‘ اس حقیر نے ایسا محسوس کیا جیسے کسی نے اوپر سے کلام محبوب پڑھا ہو: جال صدقواماعاھدو اللہ علیہ‘ فمنھم من قضیٰ نحبہ ومنھم من ینتظر۔
اس خوش قسمت شہید محبت تائب نصوح کے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر یہ شعر یاد آیا:
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
مجھے اس شہید محبت نے گویا یہ نصیحت کی کہ ظاہری شکل دیکھ کر بدگمان نہ ہونا‘ نہ جانے اندر کون سا لعل چھپا ہو۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 648
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں