Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

متکبر کا تھپڑ اور غریب کی بددعا (سید واجد حسین بخاری‘ احمد پور شرقیہ)

ماہنامہ عبقری - دسمبر 2011ء

یہ دنیا مکافات کا عمل ہے اللہ کا نظام چل رہا ہے جو کسی سے ذرہ برابر بھی زیادتی کرتا ہے اس کو اس کا بدلہ ہرحال میں چکانا ہوتا ہے مگر ہم اس طرف توجہ نہیں دیتے اور ہم معمولی واقعہ سمجھ کر بھول جاتے ہیں کہ اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں مگر جب اللہ کا حکم چلتا ہے تو ظالم کو کہیں جگہ نہیں ملتی اور جلدی معافی بھی نہیں ملتی۔ جب تک وہ شخص معاف نہ کردے جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اس وقت تک سزا کا سلسلہ چلتا رہتا ہے اس طرح کے کئی واقعات ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں۔ ہمارے علاقے میں ایک شخص رہتا ہے۔ ساری عمر محکمہ پولیس کے بہت بڑے دفتر میں بطور سپرنٹنڈنٹ زندگی گزاری۔ کیونکہ صاحب کے ساتھ خصوصی تعلق تھا اس لیے تمام پولیس والے اور علاقے کے لوگ بھی ڈرتے تھے کیونکہ وہ صاحب کو کہہ کر ماتحت افسران کو ذلیل و خوار کراتا تھا جبکہ عوام الناس کے ساتھ سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتا تھا۔ اگر کوئی شخص اس کے سامنے کسی بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتا تھا تو اس کو غصہ آجاتا تھا اور وہ بلاوجہ تھپڑ مارنا شروع کردیتا تھا۔ پیسہ کی فراوانی تھی۔ اقتدار عروج پر تھا وہ انسان کو انسان نہیں سمجھتا تھا گردن ہر وقت اکڑی رہتی تھی ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا تھا۔ ہے تو یہ محاورہ مگر وہ حقیقتاً ایسا ہوگیا تھا۔ اگر کسی وجہ سے مکھی اس کے دفترمیں آجاتی تھی وہ چپڑاسی کو تھپڑ مارنے لگتا تھا کہ تم کہاں تھے کہ مکھی دفتر میں کیوں گھس آئی ہے۔ اس دوران مدت ملازمت ختم ہوگئی موصوف ریٹائر ہوکر گھر آگئے مگر اکڑ ختم نہ ہوئی۔ اب بھی بات بات پر تھپڑمارنا شروع کردیتا تھا۔ تمام گھروالے اس کے اس رویہ سے تنگ تھے اور اس کو سمجھاتے تھے کہ تم کھلم کھلا عذاب خداوندی کو دعوت دیتے ہو اور تھپڑ مارنا غرور اور تکبر کی علامت ہے اور غرور اللہ پاک کو سخت ناپسند ہے مگر دولت اور ہر جگہ ”واہ واہ“ کہنے کی وجہ سے اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی ایک دن صبح دروازہ پر گھنٹی بجی۔ باہر دیکھا تو اس کا غریب سید ہمسایہ کھڑا تھا اور کوئی بات کہنا چاہتا تھا وہ شخص بلاوجہ الجھنے لگا کہ گھنٹی کیوں بجائی ہے اور تھپڑمارنے لگا۔ دیگر ہمسائیگان بھی آگئے اور اس شخص کو منع کیا کہ اس غریب سید کو بلاوجہ تھپڑ نہ مارے مگر وہ باز نہ آیا۔ غریب سید تھپڑ کھا کر چلا گیا اور صرف اتنا کہا کہ ”خدا پوچھے گا“۔ وہ شخص ایک ہفتہ بعد موٹرسائیکل پر سوار ہوکر گھر آرہا تھا کہ پیچھے سے ٹرک نے ٹکر مار دی۔ وہ سیدھا سڑک پر گرا اور سر میں شدید چوٹ آئی اور بیہوش ہوگیا۔ ہسپتال لے گئے‘ دماغی چوٹ شدید تھی‘ ہوش توآگیا مگر پورا جسم مفلوج ہوگیا۔ صرف آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور سانس چل رہی تھی‘ خود کھاپی نہیں سکتا تھا۔ ہاتھ ہلا نہیں سکتا تھا جس ہاتھ سے تھپڑ مارا تھا اس ہاتھ نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ اپنے منہ پر بیٹھی مکھی نہیں ہٹا سکتا تھا۔ پیشاب‘ پاخانہ کا پتہ نہیں چلتا تھا کہ کب پیشاب و پاخانہ نکل گیا ہے جب بو آتی تھی تب بیٹوں کو پتہ چلتا تھا کہ پاخانہ کردیا ہے۔ نہ کھانے کا ہوش‘ نہ کپڑے پہننے کا ہوش‘ صرف ایک زندہ لاش کی مانند ہوگیا‘ نہ دن کا پتہ نہ رات کا علم‘ نہ روشنی کا پتہ نہ اندھیرا معلوم‘ نہ ذائقہ کا پتہ نہ غذا کی پہچان۔ کوئی پتہ نہ چلتا تھا کہ میرے سامنے کون کھڑا ہے‘ زبان ہل نہیں سکتی تھی‘ زبان ایک لفظ بھی ادا نہ کرسکتی تھی اور ہاتھ ایک اشارہ بھی نہیں کرسکتا تھا۔ صرف آنکھوں سے ہروقت آنسو رواں رہتے تھے۔ اگر معافی مانگنا چاہتا تھا تو زبان ساتھ نہیں دیتی تھی اگر ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنا چاہتا تو ہاتھ ساتھ نہیں دیتے تھے۔ ایک ایک لمحہ بہت بھاری تھا ایک ماہ گزرا‘ ایک سال گزرا‘ اسی حالت کو چلتے چلتے نوسال بیت گئے‘ گھر والے تنگ آگئے‘ سردیوں میں یہ احتیاط کہ کہیں ٹھنڈ نہ لگ جائے‘ کہیں ایسی غذا نہ چلی جائے جو ری ایکشن ہوجائے اور دست لگ جائیں‘ نو سال بہت بڑا عرصہ ہے لیکن نو سال جب ایک ایک لمحہ کا حساب لے کر گزرے تو گزارنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ وہ غریب ہمسایہ اکثر باہر سے خیریت پوچھ کر چلا جاتا تھا۔ نو سال بعد اس غریب نے کہا کہ میں اندر آنا چاہتے ہوں بادل نخواستہ اس غریب ہمسائے کو گھر کے اندر اس کمرے میں لے گئے جہاں وہ شخص لیٹا ہوا تھا جیسے ہی غریب ہمسایہ نے اس کو دیکھا تو اس کی دھاڑ نکل گئی اور بہت رونے لگا اور جھولی پھیلا کر اللہ سے فریاد کرنے لگا کہ اے اللہ میں نے اس کو معاف کردیا ہے اے اللہ! توبھی معاف کردے‘ گڑگڑا کر معافی مانگنے لگا‘ اپنے لیے اور اس شخص کیلئے۔ حتیٰ کہ عصر سے مغرب کا وقت ہوگیا۔ وہ غریب ہمسایہ بھی روتا رہا اور اس شخص کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں رہے۔ لیکن اس کی آنکھوں سے لگتا تھا کہ وہ بھی معافی مانگ رہا ہے۔ مغرب کی اذان کے وقت غریب روتا ہوا باہر آگیا۔ رات کے کسی پہر اس شخص کی آنکھ کھلی تو اسے پہلی دفعہ محسوس ہوا کہ پیشاب آرہا ہے اور پہلی دفعہ یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ خود اٹھ کر پیشاب کرآئے اور اس نے نوسال بعد خود بستر سے اٹھنے کی کوشش کی۔ اٹھنے کی کوشش میں ٹانگیں کانپنے لگیں اور وہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور بچوں کو آواز دی تو آواز بھی مکمل نکل رہی تھی اس شخص نے رونا شروع کردیا اور سجدہ میں گرگیا کہ وہ چل بھی سکتا ہے اور بول بھی سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے معافی دیدی ہے اور تمام اوسان بحال کردئیے ہیں اور اعضاءنے کام کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ شفاءکا نظام اللہ کے پاس ہے جب اوپر سے معافی کے دروازے کھلتے ہیں تو تمام کام خودبخود ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ مگر ہم نے الٹ سمجھ رکھا ہے کہ شفاء دوائوں میں ہے انسان یہ سمجھتا ہے کہ میں ہی سب کچھ ہوں‘ میں نے مرنا نہیں ہے‘ قبر روزانہ صدا دیتی ہے ہمیں پکارتی ہے‘ مگر ہم سب اندھے ہوچکے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ حقوق اللہ تو اللہ کی رحمت سے معاف ہوسکتے ہیں مگر حقوق العباد اس وقت تک معاف نہیں ہوں گے جب تک وہ شخص معاف نہ کردے جس سے ہم نے زیادتی کی ہے۔ اب بھی وقت ہے ہم اللہ تعالیٰ سے اور اس شخص سے معافی مانگ لیں جس کے ساتھ ہم نے زیادتی کی ہے۔
Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 624 reviews.