Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

خدمت کا صلہ یا غیبی مدد (عزیز الرحمان عزیز‘ پشاور)

ماہنامہ عبقری - دسمبر 2011ء

میرے ایک سکول کے استاد محترم جن کا نام گرامی زمان خان تھا۔ پشتو سپیکنگ تھے بڑے صحت مند‘ قد آور بڑی خوبصورت ڈاڑھی تھی مجموعی طور پر مزاج میں قدرے غصہ رہتا تھا۔ تمام لڑکے بمعہ میرے ان سے بہت ڈرتے تھے جب بھی ان کا پریڈ ہوتا‘ تمام لڑکے تقریباً سہم سے جاتے بچوں میں آج آپ کیلئے لکھنا چاہتا ہوں شاید کہ میرے پھول سے ننھے بچوں کو میری تحریر پسند آجائے اور آپ کی وساطت سے اگر ایک ننھا پھول ہی اپنی خوشبوئوں سے ملک و ملک کی معطر کردے تو مجھے بڑی خوشی ہوگی اور حقیقتاً یہی تو مجھ جیسے بوڑھوں کو بچوں سے لگائو اور محبت و شفقت کی انتہائی ضرورت ہے۔ میرے پوتے‘ پوتیاں‘ نواسے‘ نواسیاں‘ بیٹے اور بیٹی مجھ سے انتہائی پیار کرتے ہیں۔ شاید آپ کے علم میں یہ بات ہو یا نہ ہو کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی والا مقولہ شاید آپ کے علم میں ہو تو بہتر ورنہ میں آپ کو تفصیلاً بتادوں۔ میرے بچے‘ بچیاں مجھ سے کیوں پیار کرتے ہیں شاید اس لیے کہ مجھے اپنے والدین سے محبت تھی اور اب بھی ہے اور تاحیات بفضل تعالیٰ رہے گی۔ شاید یہ میرے والدین کی دعائوں کا نتیجہ ہو؟ کیونکہ میرے والدین نے مجھے ادب کرنا اور محبت بانٹنا سکھایا تھا۔ اساتذہ سے محبت ادب تعبداری احترام یہ لازمی جز ہے استاد کا احترام کرنا۔ ایک واقعہ یاد آگیا وہ میں آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں کہ شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میرے بات....!!! میرے ایک سکول کے استاد محترم جن کا نام گرامی زمان خان تھا۔ پشتو سپیکنگ تھے بڑے صحت مند‘ قد آور بڑی خوبصورت ڈاڑھی تھی مجموعی طور پر مزاج میں قدرے غصہ رہتا تھا۔ تمام لڑکے بمعہ میرے ان سے بہت ڈرتے تھے جب بھی ان کا پریڈ ہوتا‘ تمام لڑکے تقریباً سہم سے جاتے اور اپنی عمر اور شوخی کے برعکس تقریباً خاموش ہوجاتے اور جب وہ ہمارے استاد محترم کلاس میں داخل ہوتے تو واقع یہ ہوتا کہ شاید کلاس میں کوئی نہیں ہے سوائے استاد محترم کی بیساکھیوں کی ٹھک ٹھک کے اور کوئی بھی آواز نہیں آتی تھی اور ہم پوری کی پوری کلاس کے بچوں کے ذہنوں پر یہ سوالیہ نشان ہوتا کہ ان جیسا قدر آور قدرے ترش مزاج استاد کی ایک ٹانگ کہاں گئی؟ معلوم تو ایسا ہی ہوتا تھا کہ یہ پیدائشی لنگڑا پن نہیں اسی طرح وت گزرتا رہا اور ایک دن عصر کے وقت میں نے ہشتنگری بازار میں جہاں کہ ایک زنانہ ہسپتال ہے وہاں حالت پریشانی میں ٹہل رہے تھے مجھ پر ان کی نظر پڑی مگر انہوں نے توجہ نہ دی مگر میرے دل میں ان کا ادب احترام تو تھا ہی میں نے جرات کرکے انتہائی احترام سے ان سے پوچھا کہ محترم خیریت ہے تو مجھ سے مخاطب ہوئے کہ خیریت ہے بس اس ہسپتال میں کچھ کام تھا میں نے دوبارہ پوچھا کہ شاید کسی مریض کا پوچھنے آئے ہونگے تو وہ حضرت گویا ہوئے کہ تمہاری استانی صاحبہ کچھ بیمار ہیں میں نے کہا کہ شاید آپ کے ساتھ کوئی استانی جی کے سوا کوئی خاتون نہیں ہیں‘ انہوں نے نفی میں سر ہلایا تو میں نے کہا کہ میرا گھر بالکل قریب ہے میں ہر طرح کی خدمت کیلئے تیار ہوں اگر آپ کہیں تو میں اپنی والدہ محترمہ کو استانی جی کی خدمت کیلئے بلالائوں ان کا چہرہ پررونق ہوگیا اور پہلی دفعہ ان کے چہرے پر مسکراہٹ کے آثار دکھائی دئیے تو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ اپنی والدہ کو لے آئیں پہلے میرے ساتھ اپنی استانی صاحبہ کو دیکھ لو اور پھر اپنی والدہ کو لیکر آجائو یہ سب کچھ کرنے کے بعد میں اپنی والدہ کو لیکر آیا اور ہسپتال استانی صاحبہ کے بیڈ پر پہنچایا اور ان دونوں کا آپس میں تعارف کروایا۔ اب یہ دونوں آپس میں گھل مل گئیں میں باہر نکلا تو استاد صاحب گیٹ پر مل گئے تو میں ان کے ساتھ واپس ہوا میں نے انہیں بتا دیا تھا کہ والدہ محترمہ آگئی ہیں۔ یہ دراصل زچگی ہسپتال ہے اب دوسرے دن شام کو والدہ صاحبہ واپس آگئی تھی والدہ نے بتایا اب تمہاری استانی صاحبہ گائوں چلی گئی ہیں۔ اس واقعہ کے بعد میرے استاد محترم زمان خان صاحب کا مجھ سے رویے اور لہجے میں نمایاں فرق آگیا تھا تمام کلاس کے لڑکے حیران تھے کہ کیا وجہ ہے ماسٹر صاحب کا رویہ بڑا مشفقانہ ہوگیا ہے۔ انہیں تو معلوم نہیں تھا کہ وجہ کیا ہے جو کہ میں نے تفصیل سے بتائی سب بڑے خوش ہوئے کہ خوش قسمت ہو کہ یہ خدمت اللہ نے تمہارے نصیب میں رکھی۔ پھر ایک دن تمام لڑکوں نے متفقہ فیصلہ کیا کہ ماسٹر زمان سے صرف آپ ہی پوچھ سکتے ہیں کہ ان کی ٹانگ کیسے کٹی؟ میں نے حامی بھرلی۔ اگلے دن جب ماسٹر صاحب حاضری لگا کر فارغ ہوئے تو میں نے کھڑے ہوکر ماسٹر صاحب کی طرف دیکھا تو ماسٹر صاحب نے مسکراہٹ بھرے انتہائی نرم لہجے میں پوچھا کیوں عزیز بیٹا کیا کہنا چاہتے ہو تو میں نے کسی تمہید کے بغیر ہی اپنا مدعا بیان کردیا کہ ماسٹر صاحب آپ کی ایک ٹانگ کہاں گئی؟ کیا کوئی حادثہ ہوا یا جو بھی ہوا تمام کلاس کے سامنے بتائیں۔ ماسٹر صاحب کے چہرے پر عجیب و غریب خوشی و غمی کے تاثرات پڑھے جاسکتے تھے۔ بڑے دھیمے انداز میں گویا ہوئے کہ بچو! میری ٹانگ کیونکر کاٹی گئی اورکیسے کٹی آپ کو معلوم ہے کہ میں دیہاتی ہوں‘ ہماری تھوڑی بہت زرعی زمینیں بھی ہیں۔ جوانی کا عالم تھا ابھی غیرشادی شدہ تھا۔ رات کے وقت پانی زمینوں کو لگایا جاتا ہے‘ اس رات پانی کھولنے کیلئے میں زمینوں پر گیا۔ بندوق دونالہ ساتھ تھی کودال بھی ساتھ تھی تاکہ پانی کھول کر واپس آجائوں جب میں زمین پر پہنچا تو بندوق رکھ کر کودال سے ڈکا کھولنا چاہا تو ہمارے دشمنوں نے جو پہلے سے چھپے بیٹھے مجھ پر فائر کھول دیا ان کا پہلا فائر مجھے لگ گیا اور میں ساتھ گڑھے میں گر گیا مجھے اٹھنے کی مہلت ہی نہ ملی کہ دشمن میرے سر پر پہنچ گئے اور انہوں نے مجھ پر اٹھائیس فائر کیے اتنے میں میرے گائوں والوں کی طرف سے فائرنگ ہوئے تو میرے دشمن اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر فرار ہوگئے۔ گائوں والوں نے مجھے زخمی حالت میں ریڈی لیڈنگ ہسپتال پہنچایا‘ میرا بچنا بڑا مشکل دکھائی دیتا تھا مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘ میرا گڑھے میں گرنا میرے لیے بہتر تھا کہ میں آج آپ کے سامنے ہوں یہ سب اس بچانے والے کے طریقے ہیں۔ ڈاکٹر پوری محنت اور مہارت سے مجھے بچانے میں اللہ کے فضل سے کامیاب ہوگئے مگر اس تمام کوششوں کے باوجود صرف میری ایک ٹانگ کو باامر مجبوری کاٹنا پڑا۔ جب ماسٹرصاحب نے اپنی قمیض اتاری تو ان کے پورے جسم پر اور بازوئوں پر گڑھے ہی گڑھے تھے بلکہ جو ٹانگ تھی شلوار اٹھا کر وہ ٹانگ بھی دکھائی وہ بھی زخموں کے گڑھوں سے محفوظ نہ تھی۔ پوری کلاس کے طلبہ خاموش اور حیرت اور محبت سے ماسٹرزمان خان کی طرف دیکھ رہے تھے۔
Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 620 reviews.