اچانک صحابی بابا کی آواز آئی کہ چلیں نا تب جاکر میں چونکا میں نے صحابی بابا اور حاجی صاحب سے اور ایک جیل کے دروغہ تھے ان سے سوال کیا کہ یہ کیا کیفیت ہے ؟باقی حضرات خاموش ہوگئے لیکن صحابی بابا مسکرا دئیے فرمایا کہ یہ اولیاءاللہ اورصالحین کی تربتوں پر جو اللہ جل شانہ کی طرف سے انوارات اور برکات نازل ہوتی ہیں یہ وہ چیز تھی۔ اس کی تازگی اس کی خوشبو اور اس خوشبو کا ایک انوکھا احساس ابھی یہ بیان کرتے ہوئے بھی میں محسوس کررہا ہوں اور شاید یہ احساس مجھے کبھی نہ بھول سکے۔
قارئین! آپ نے الفاظ تو پڑھے ہی ہونگے میرا احساس کون پڑھے.... اور پڑھ بھی کیسے سکتا ہے۔ مجھے بے شمار ملنے والے خطوط میں لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ سب واقعات دھوکہ اور فریب ہیں‘ وہ کہتے ہیں یہ محض ایک ڈھکوسلہ ہے لیکن اکثریت میرے اس کالم سے اور میرے ان مشاہدات سے نفع اٹھارہی ہے۔
کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس سلسلے کو بند کردیا جائے جو حضرات یہ باتیں کہتے ہیں وہ بھی سچے ہیں ان کا برتن ہی اتنا ہے‘ ان کا ظرف ہی اتنا ہے۔ روحانی دنیا سے ان کو شناسائی ہے ہی نہیں۔ انہوں نے ظاہر کی دنیا کو اور مادی دنیا کو دیکھا ہے۔ اس دنیا کو کیسے سمجھ پرکھ سکتے ہیں۔ اس دنیا کو وہ کیسے پڑھ سکتے ہیں۔ خیر میں صحابی بابا کے اصرار پر اٹھا جبکہ اٹھنے کو میرا دل نہیں چاہ رہا تھا لیکن اٹھ تو گیا چل نہیں سکا۔ میں پھر بیٹھ گیا۔ میں نے ان سے کہا کہ کوئی نادیدہ سی قوت ہے جو مجھے اٹھنے نہیں دے رہی میں کیا کروں۔ پہلے کی طرح سب خاموش لیکن صحابی بابا مسکرا رہے تھے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ ہی بتائیے کہ اس نہ اٹھنے کی وجہ کیا ہے؟ وہ فرمانے لگے صاحب مزار جو کہ صاحب کمال درویش ہیں وہ چاہتے ہیں کہ آپ ابھی ہمارے ساتھ اور بیٹھیں اور کچھ کہیں کچھ سنیں سورہ اخلاص کا مزید ہدیہ دیں۔ میں بیٹھ کر مزید پڑھنا شروع ہوگیا۔ بہت دیر تک حالت سکرات میں سورہ اخلاص پڑھتا رہا اور اللہ سے عرض کرتا رہا کہ اے اللہ اپنے اس بندے کی روح کو میری طرف سے ہدیہ پہنچا‘ بہت دیر کے بعد میں نے محسوس کیا کہ میرے جسم میں جان آنا شروع ہوگئی ہے‘ میری ٹانگوں میں‘ میرے دل میں‘ میرے پائوں میں جان اور حرکت پیدا ہوئی۔ میں سمجھ گیا کہ ان کی طرف سے اجازت ہے‘ میں سلام کرکے اٹھا‘ صحابی بابا اور دیگر جنات میرے منتظر تھے۔ مجھ سے فرمانے لگے ان کو آپ سے محبت ہے۔ اس لیے آپ کو جانے نہیں دے رہے تھے۔
میں نے ان سے کہا میں جب بھی حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر پر جاتا ہوں وہاں بھی مجھے روک لیا جاتا ہے‘ ابھی نہ جائو۔ وہاں بھی مجھ بے حیثیت سے بہت زیادہ محبت کی جاتی ہے۔ ایک بے ذرہ اور بے حیثیت سے اتنی زیادہ محبت.... میں کیا اورمیری اوقات کیا۔ لیکن ایک چیز جو بار بار میرے تجربات اور دیکھنے میں آئی ہے وہ یہ کہ جن لوگوں کو میں نے یہ چیز بتائی ہے کہ کثرت سے سورہ اخلاص اور درود شریف پڑھیں! یہ دو چیزیں ایسی ہیں جو اللہ کی بارگاہ میں بندے کو صاحب مقام بنادیتی ہیں اور صاحب کمال بنادیتی ہیں جو اللہ کی بارگاہ میں بندے کو ایسا جسم عطا کرتی ہیں جو جسم لاہوتی ہوتا ہے۔ وہ جسم مٹی کا بنا ہوا نہیں ہوتا‘ وہ نورانی جسم ہوجاتا ہے۔ وہ جسم پھر سیر کرتا ہے عالم لاہوت کی‘ ملکوت کی‘ عالم جبروت کی اور ایسے عالم ہیں جن کے بارے میں قلم رک جاتا ہے۔ زبان گنگ ہوجاتی ہے۔
الفاظ ٹھہر جاتے ہیں‘ عقل کے سانچے پگھل جاتے ہیں سوچوں کے دھارے رخ بدل لیتے ہیں‘ نگاہیں پتھرا جاتی ہیں اور سانسیں رک جاتی ہیں۔ کیوں؟ وہ ایسی پراسرار دنیا ہیں جس کا میں نے ایک مرتبہ پہلے بھی تذکرہ کیا تھا۔ جن کو ہم عام طور پر اڑن طشتریاں کہتے ہیں وہ اس دور کی دنیا ہے اور ان کی سائنس ہم سے کہیں زیادہ اونچی ہے‘ ان کی دنیا ہم سے کہیں زیادہ اونچی ہے اور ان کی کائنات ہم سے زیادہ اونچی ہے۔ ہم ان کی ترقی تک پہنچ بھی نہیں سکتے جس ترقی اور ٹیکنالوجی تک وہ پہنچ چکے ہیںایک دفعہ مجھے صحابی بابا اس جہان میں لے گئے‘ وہاں جاکر مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں ایک شخص آئے کہنے لگے کہ شیخ آپ کی خدمت میں تزکیہ نفس کیلئے آیا ہوں دل کی دنیا کو اللہ کی محبت میں ڈبونے کیلئے آیا ہوں‘ کچھ اللہ اللہ کے بول سیکھنے آیا ہوں۔ اگر آپ کے قدموں میں جگہ مل جائے۔ شیخ کی خدمت میں بہت عرصہ رہے‘ بہت عرصہ رہے۔ حضرت کی خدمت میں رہتے ہوئے زندگی کے بہت سے دن رات گزر گئے‘ ایک دفعہ عرض کرنے لگے کہ شیخ اللہ کی کائنات بہت وسیع ہے میں اللہ کی قدرت کے مظاہر اور مناظر دیکھنا چاہتا ہوں چونکہ صاحب استعداد ہوگئے تھے‘ برتن بڑا ہوگیا تھا‘ شیخ فرمانے لگے اچھا ٹھیک ہے۔ یہ روٹیاں لو اور جنگل میں جاو۔ وہاں ایک ریچھ ملے گا اس ریچھ کو یہ روٹیاں ڈال دینا۔ وہ روٹیاں منہ میں ڈال کر چلے گا تم اس کے پیچھے چلتے جانا اور پھر قدرت کے جو مظاہر و مناظر نظر آئیں وہ مجھے آکر بتانا‘ انہوں نے روٹیاں لیں اور چل پڑے۔ بہت دیر چلتے رہے‘ آخر جنگل میں بالکل سیاہ ایک ریچھ ملا اس کو روٹیاں ڈالیں‘ اس نے منہ میں لیں اور بھاگنا شروع ہوگیا یہ اس کے پیچھے بھاگتے رہے‘ وہ ایک غار میں چلا گیا بہت لمبی غار تھی‘ اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ چلتے رہے چلتے رہے.... آخر اس غار کا دھانہ قریب آیا تو روشنی نظر آئی وہ ریچھ وہاں غائب ہوگیا اور یہ وہاں پہنچ گئے اور حیران ہوئے کہ یہ کونسی دنیا ہے؟ وہاں ایک شخص ملا۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں