بے حسی برداشت نہیں ہوتی
ایک ماہ قبل ہم نے اپنے بیٹے کی شادی کی ہے۔ وہ کسی طرف توجہ ہی نہیں دیتا۔ ماں باپ کو تو بالکل نظرانداز کردیا ہے۔ بس یہ چاہتا ہے کہ سب مل کر اس کا خیال رکھیں‘ اس سے گھر کے اخراجات کی بات نہ کی جائے نہ ہی یہ بتایا جائے کہ اس کی شادی پر ہم نے کتنا قرض لیا ہے۔ وہ ہر طرف سے لاتعلق ہوکر صرف خوش رہنا چاہتا ہے۔ مجھ سے یہ بے حسی برداشت نہیں ہوتی۔ میری بیوی بھی ہر وقت مایوس رہتی ہے۔ (لطیف علی‘ کراچی)
مشورہ: والدین جس خوشی سے اپنی اولاد کی شادی کرتے ہیں بعد میں بھی اسی خوشی کا اظہار کرنا چاہیے جبکہ مایوسی‘ بدمزگی پیدا کرنے کا سبب ہوتی ہے۔ شادی سادگی سے کرنی اچھی ہے اس طرح قرض نہیں ہوتا جبکہ قرض کی رقم سے حاصل ہونے والی خوشی وقتی ہوتی ہے۔ بہرحال اس وقت بیٹے اور بہو کو خوش رہنے دیں بلکہ آپ بھی ان کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آئیں۔ اس طرح آپ لوگوں کے درمیان بڑھنے والے فاصلے کم ہوں گے تب بیٹے کو اخراجات اور قرض کی ادائیگی کے حوالے سے سمجھایا جاسکتا ہے۔
ماں کی خدمت‘ باپ کی خودغرضی
آج سے 18 سال قبل میرے شوہر سعودیہ گئے۔ چندہ ماہ تک ان سے رابطہ رہا‘ اس کے بعد وہ کہیں گم ہوگئے۔ پھر جومجھ پر گزری وہ میں بیان نہیں کرسکتی۔ میں نے خود ملازمت کرکے بیٹے اور بیٹی کی پرورش کی۔ آج یہ دونوں بچے اپنے باپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ اس باپ سے جس نے ان کی ماں کو دھوکا دے کر غائب ہوکر دوسری شادی رچالی۔ اب وہ واپس پاکستان آگئے ہیں میں ان کی شکل تک دیکھنا نہیں چاہتی۔ (عروسہ‘ راولپنڈی)
مشورہ: یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ا ٓپ کے جذبات جو اپنے شوہر کیلئے ہیں اور بچوں کے جذبات جو باپ کیلئے ہیں دونوں میں فرق ہے۔ وہ ملنا چاہتے ہیں تو انہیں نہ روکیں۔ ان کے سامنے آپ کی خدمات بھی ہیں اور باپ کی خودغرضی بھی۔ یہ بات وقت کے ساتھ ان کی سمجھ میں آجائے گی جبکہ پابندیاں لگانے سے وہ الجھ جائیں گے۔
رویہ بگڑ گیا ہے
میری بیٹی اپنے شوہر کے ساتھ کینیڈا میں رہتی ہے پتہ نہیں اسے کیا ہوا ایک مرتبہ اس نے خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور اس کے بعد بچوں کے ساتھ مار پیٹ کی۔ میں یقین نہ کرتی لیکن میری سگی بہن بھی وہیں ہے اس نے مجھے رو رو کر بتایا۔ اس کے بعد اس کے شوہر نے اس پر گھر سے باہر اکیلی یا بچوں کے ساتھ جانے پر پابندی لگادی۔ اب بیٹی مجھ سے فون پر کہتی ہے کہ میں داماد سے کہوں وہ پابندی ہٹائے۔ مجھے بھی یہ بات ظلم لگتی ہے اور میرا دل چاہتا ہے کہ میں ضرور بات کروں کہ میری بیٹی اکیلی نہیں۔ (عروج‘ اسلام آباد)
مشورہ: یہ ٹھیک ہے کہ آپ کی بیٹی اکیلی نہیں لیکن اس حقیقت کو بھی قبول کرنے کی ضرورت ہے کہ آپ اس سے دور ہیں اب اگر اس کا رویہ بگڑ گیا ہے یا وہ خود کو نقصان پہنچانے کی بھی پروا نہیں کررہی تو اس پر پابندیاں لگانی‘ اس کے اور بچوں کے حق میں بہتر ہے۔
مسئلہ کا حل طلاق نہیں
میری بہن جوانی میں بیوہ ہوگئیں وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ ہمارے گھر میں ہیں۔ والدہ ان کا بہت خیال رکھتی ہیں۔ میری بیوی کو یہ بات برداشت نہیں ہوتی۔ وہ ان سے بدتمیزی کرتی ہے۔ میں نے اسے ایک طلاق دیدی ہے وہ اب بھی نہیں سدھری۔ اس کے گھر والے اس کی ہی حمایت کرتے ہیں حالانکہ وہ اپنے گھر میں بھی سب سے لڑتی تھی۔ (محمدمدثر‘ لاہور)
مشورہ: لڑائی جھگڑے‘ غصہ‘ بدتمیزی اور بدسلوکی کو روکنے کا یہ طریقہ نہیں کہ آپ طلاق دیدیں۔ ازدواجی زندگی کے درمیان یہ لفظ نہ ہی آئے تو اچھا ہے۔ بیوی کا رویہ بہتر کرنے کیلئے اسے سمجھانا چاہیے۔ مشکلات برقرار رہیں تو گھر کے کسی گوشے میں اس طرح رہنے کی سہولت دیں کہ وہ وہاں خود کو زیادہ پرسکون محسوس کرسکے۔ والدہ اور بہن کو بھی سمجھائیں کہ محبت سے رہیں‘ خاص طور پر وہ جس طرح بیٹی کا خیال رکھتی ہیں اسی طرح بہو سے بھی پیارو محبت سے پیش آئیں۔
یہ لوگ مجھے سمجھتے کیا ہیں؟
کوئی میرا دل توڑے‘ یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔ میں ہر ایک سے محبت سے پیش آتی ہوں‘ سب کو تحفے دیتی ہوں اگر کوئی مذاق بنادے تو بگڑ جاتی ہوں۔ پھر کوئی ہنستا ہے تو شدید غصہ آجاتا ہے۔ آخر یہ لوگ مجھے سمجھتے کیا ہیں؟ (افشین‘ لاہور)
مشورہ: اگر آپ سب سے خلوص سے پیش آئیں گی تو مسئلہ نہ ہوگا لیکن غیرضروری التفات کریں گی تو مایوسی ہوگی۔ اس کے علاوہ آپ اگر لوگوں کو تحائف محض اس لیے دیں گی کہ وہ آپ کی قدر کریں تو مایوسی ہی ہوگی کیونکہ ہر شخص تو آپ کے تحائف کا مستحق نہ ہوگا اس لیے وہ مذاق بھی بنائے گا۔ لہٰذا فضول خرچی کو روکیں اس کے ساتھ درگزر کا رویہ بھی اپنانا ضروری ہے تاکہ غصے میں توانائی ضائع نہ ہو۔
انسان انسان ہے مشین نہیں
میں سکول میں پڑھاتا ہوں۔ وہاں سے آنے کے بعد والد کی دکان پر چلا جاتا ہوں اور رات گئے تک ان کے ساتھ مصروف رہ کر واپس لوٹتا ہوں تو ذہن بے حد تھکا ہوا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود نیند نہیں آتی۔ کافی دیر تک جاگنے کے بعد آنکھ لگ جاتی ہے اور صبح سکول پہنچنے میں دشواری ہوتی ہے۔ پرنسپل کو مجھ سے شکایتیں رہنے لگی ہیں کہ تم کام میں سنجیدہ نہیں ہو۔ ادھر والد بھی گھر آکر کہتے ہیں کہ اس کا ذہن کاروبار میں نہیں چلتا۔ میں ان لوگوں کی خواہش پر مشین تو بن گیا ہوں‘ اب اور کیا کروں؟ (عاطف علی‘ حیدرآباد)
مشورہ: انسان کو انسان رہنا چاہیے‘ مشین نہیں۔ صبح سے لے کر رات تک کی مصروفیت میں کچھ آرام کا وقت نکالنا ضروری ہے۔ ذمہ داری اور تحمل مزاجی سے اسی وقت کام کیا جاسکتا ہے جب ذہن پر کسی قسم کا بوجھ نہ ہو۔ سکول سے آنے کے بعد آرام کیا جاسکتا ہے یا پھر والد کیساتھ کام میں شامل رہیں۔ ایک جانب مکمل توجہ رہے گی تو کارکردگی سے اچھے نتائج حاصل ہونگے۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 311
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں