اس ماہ کا دکھی خط
ایڈیٹر کی ڈھیروں ڈاک سے صرف ایک خط کاانتخاب نام اورجگہ مکمل تبدیل کر دیئے ہیں تاکہ رازداری رہے۔ کسی واقعہ سے مماثلت محض اتفاقی ہو گی۔اگر آپ اپنا خط شائع نہیں کراناچاہتے تو اعتماد اور تسلی سے لکھیں آپ کا خط شائع نہیں ہوگا۔ وضاحت ضرور لکھیں
السلام علیکم جناب حکیم صاحب!میں اپنی پوری کوشش کروں گی کہ حالات کو اپنے طریقے سے بیان کرسکوں اگر دانستہ یا نادانستہ کوئی بات رہ جائے تو معافی چاہوں گی۔ میں نے 1999ءمیں ایف اے پاس کیا اور اب حالات کی وجہ سے گھر کے کاموں میں مصروف ہوں۔ میرے پانچ بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ سب نے ایف اے کیا ہوا ہے سب سے چھوٹا تھرڈ ائیر میں پڑھ رہا ہے۔ میرے والد صاحب ایک انتہائی مشکل زندگی گزار کر 3 دسمبر 2009ءکو انتقال فرما گئے۔
میرے والد صاحب نے اٹھارہ سال گھٹنے کی شدید تکلیف میں گزارے ہر طرح کے علاج معالجے کے باوجود بھی انہیں کہیں سے بھی شفاءنصیب نہیں ہوئی ۔ آخرکار وہ غربت اور بیماری کے ہاتھوں ہار گئے۔ انتہائی تکلیف کے باوجود میرے والد صاحب نے ہمیں حلال رزق کھلایا۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ ہم سب پڑھ لکھ کر دین و دنیا دونوں میں کامیابی حاصل کریں لیکن مشکل حالات کی وجہ سے ہم اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ میں بہت توجہ سے پڑھا کرتی تھی اور ہمیشہ اسکول میں پوزیشن حاصل کرتی تھی۔ میں نے بچپن سے اپنے گھر میں پسماندہ حالات دیکھے۔ شاید اسی وجہ سے میں بے حد حساس ہوگئی اور اپنا بچپنا میں نے وقت سے بہت پہلے چھوڑ دیا اور جان گئی کہ ہمیں سخت محنت کرنا ہے۔ میرے بڑے بھائی اور بہن نے کبھی مجھ سے پیار سے بات نہیں کی۔
ہمیشہ چیخ چیخ کر بات کرتے ہیں‘ہر وقت گالی گلوچ اور لڑائی کرنے کےلئے تیار رہتے ہیں۔ بچپن ختم ہوا تو بھائی نے پڑھائی چھوڑ کر کام سیکھنا شروع کردیا لیکن اس کے رویے میں تبدیلی نہ آئی۔ حالات کی وجہ سے بہن کو کڑھائی والی مشین لے دی اور میں نے ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھانا شروع کردیا۔حالات کی وجہ سے میں پچھلے چھ سال سے بیمار ہوں۔ گھر میں ہمیںکبھی بھی کوئی اچھی چیز نہ مل سکی۔ کچھ حالات کی وجہ سے اور کچھ بے توجہی کی وجہ سے بچپن میں بھی آرزوئیں پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکیں حتیٰ کہ عید پر بھی ہمیں کبھی نئے کپڑے اور جوتے نہیں ملے۔ ہمیشہ ہم نے اپنی کزنز کی اتری ہوئی جوتیاں پہنیں جو وہ ہم پر ترس کھاکر دے دیا کرتی تھیں اور ہم پہن لیا کرتی تھیں۔جو چھوٹی چھوٹی ضروریات خواہشات کی صورت میں ہمارے دل میں آتی تھیں ان کو میں نے مار دیا اور انہوں نے مجھے۔ میری بڑی بہن میری نسبت بہت مختلف ہے ‘وہ اپنا سوٹ اور جوتے وغیرہ عید پر ضرور بناتی ہے جبکہ میں ایسا نہیں کرپاتی اور اب تو نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ میں خوش رہنا بھی بھول گئی ہوں‘ بہت کم ہنستی ہوں، زیادہ میل جول کسی سے نہیں رکھتی اور نہ ہی زیادہ بات کرتی ہوں، ذہن خالی سا رہتا ہے۔ دوسرے لوگوں سے گھبراہٹ اور خوف آتا ہے۔
چاہتی ہوں کہ خودکشی کرلوں لیکن اللہ سے ڈرلگتا ہے کہ کچھ تیاری نہیں کی۔ جس دن میںنے آپ کو خط لکھااس دن میں بہت روئی تھی کیونکہ اس دن کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ صبح شام ہمارے ہاںسستی اور بچی کھچی سبزی کے سوا کبھی کچھ نہیں پکتا تھا۔ گوشت ہمارے گھر صرف بکرا عید پر ہی آیا کرتا تھا۔ میں بیمار تھی اور ہر ڈاکٹر یہی کہتا تھا کہ خوراک بہتر کرو اور خوش رہا کرو اور یہ میرے بس میں نہیں تھا، تب میں نے آپ کو سب کچھ لکھ دیا آج بھی میں سوچوں تو میری آنکھیں بھر آتی ہیں کیونکہ میں نے خط بہت رو رو کر ‘ شدید ذہنی اذیت میں لکھا ہے
اب اگر میں آپ کو اپنے مالی حالات کے بارے میں بتاﺅں تو یہی کہوں گی کہ آج سے پچیس سال پہلے ہم جس مقام پر تھے آج بھی ہم وہاں ہی ہیں۔ باوجود کوشش اور جدوجہد کے ہم اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوپارہے۔ کفالت کرنے والے صرف میرے بڑے بھائی ہیں جو کہ مقامی اخبار میں بطور پرنٹر کام کرتے ہیں جہاں سے انہیں ماہانہ تقریباً آٹھ یا شاید نو ہزار ملتے ہیں اس قدر مہنگائی کے دور میں اتنی کم رقم بنیادی ضروریات کوبھی پورا نہیں کرپاتی۔ مجھ سے چھوٹا بھائی ابھی سنیاروں کا کام سیکھ رہا ہے اور ہم بہنوں کا کام پچھلے چار پانچ مہینے سے بند ہے ‘میں اکثر بیمار رہنے کی وجہ سے کام نہیں کرپاتی۔ ایسے حالات میں ہم اپنا گھر کیسے بناسکتے ہیں؟ اور اپنے بہن بھائیوں کی شادیوں جیسے مشکل کام کیسے انجام دے سکتے ہیں؟ میری چھوٹی بہن شادی کرنا چاہتی ہے‘ وہ بہت ہی منہ پھٹ ہے۔ امی سے طنز کرتی ہے کہ آپ کو کوئی پرواہ نہیں ہے کہ ہم اب جوان ہوچکے ہیں۔ امی اس کی حرکتوں اور باتوں کی وجہ سے اکثر بیمار رہنے لگی ہیں اور اکثر روتی رہتی ہیں کہ کیا کریں؟
رشتے داروں کی طرف سے ہمارے کردار پر شک اور طرح طرح کی باتیں کی جاتی ہیں۔ ہمارے کردار و اخلاق کا گواہ اللہ ہے۔ ہمارے پاس صرف ایک کردار ہی تو ہے لیکن اس پر بھی طعن وتشنیع ہوتی ہے۔ جو کچھ میری نظر میں تھا وہ میں نے بیان کردیا اور بھولے سے کچھ رہ گیا ہو یا غلطی سے کچھ جھوٹ ہو تو میں آپ سے اور اپنے رب سے معافی مانگتی ہوں۔ رمضان المبارک کی آمد میں ہم سب بہن بھائی روزہ رکھتے ہیں۔ والدہ صاحبہ نہیں رکھ پاتیں کیونکہ وہ بلڈپریشر اور گیس ٹربل کی مریضہ اور جسمانی طور پر کمزور ہیں۔ افطاری کے نام پر روٹی سالن اور سکنجبین اور سحری میں روٹی سالن کے علاوہ کچھ نہیں بنتا۔ غذائی کمی کی وجہ سے میں اور میرے چھوٹے بھائی خصوصامیں ہڈیوںکا ڈھانچہ بن گئی ہوں۔ ایسے جیسے ایتھوپیا کے فاقہ زدہ لوگ ۔ایسی صورت حال میں ہم جسمانی کمزوری کیساتھ ساتھ ذہنی اور نفسیاتی کمزوری کا شکار تو ہیں لیکن اخلاقی گندگی کا ہرگز نہیں‘ جس پر میں اپنے رب کی بے حد شکر گزار ہوں۔
پچھلے دو تین رمضان سے میں روزہ نہیں رکھ پارہی۔ جسمانی کمزوری مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی اگر رکھ لوں تو جسم کانپتا ہے۔ بولا تک نہیں جاتا۔ نہ کوئی کام کاج کرسکتی ہوں اور نہ نماز ادا کرنے کی سکت رہتی ہے۔ روزہ چھوڑنے پر مجھے بے حد افسوس ہوتا ہے لیکن کچھ کر نہیں سکتی۔ البتہ میں صبح سحری کے وقت اٹھتی ہوں تہجد ادا کرتی ہوں۔
ذہنی طور پر میں بری طرح تباہ ہوچکی ہوں سب سے ڈرتی ہوں۔ سچی اور درست ہونے کے باوجود بھی خوف زدہ اور ڈری ہوئی چھپتی پھرتی ہوں‘ ذہن خالی رہتا ہے۔ بات سمجھ میں نہیں آتی‘ کوئی بات کررہا ہو تو ذہن بات کو جذب نہیں کرتا‘ بس کان سنتے ہیں۔ کسی بات کاجواب نہیں دینا آتا‘ غصہ بے حد بڑھ گیا ہے۔
(قارئین الجھی زندگی کا سلگتا خط آپ نے پڑھا ، یقینا آپ دکھی ہو ئے ہو ں گے ۔ پھر آپ خو د ہی جوا ب دیں کہ اس دکھ کا مدا و ا کیا ہے ؟)
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 751
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں