2002ءمیں میرے بڑے بھائی فوج کی نوکری کو جوائن کیے ابھی تیسرا سال تھا۔ ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی روئیداد انہی کی زبانی سنئیے۔ بتانے لگے! میری پوسٹنگ کراچی ہوگئی۔ ایک شام میں نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ موٹرسائیکل پر دور جانے کا پلان بنایا اور ہم چل پڑے۔ چاندنی رات تھی‘ ہم ایک خاموش سڑک پر چلے جارہے تھے ‘ہم چار لڑکے تھے اور دو موٹرسائیکل۔ اچانک ایک موٹرسائیکل خراب ہوگیا‘ ہم وہیں رک گئے۔ اردگرد دور دور تک کوئی انسان تو کیا چرند پرند بھی نہ تھا۔ ایک ہو کاعالم تھا۔ تین دوست مل کر موٹرسائیکل چیک کرنے لگے اور میں اپنی موٹرسائیکل پر تھوڑی دور درختوں کے اندر جاکر رکا۔ موٹرسائیکل بند کی اور اپنی بانسری نکال کر بجانے لگا۔ مجھے کافی سرور محسوس ہوا کہ اچانک ہوا کا جھونکا سا آیا اور مجھے خوف محسوس ہوا۔ میں فوجی تھا اس لیے خود پر قابو پاکر پھر بانسری بجانا شروع کردی۔ دوسری بار پھر ہوا کا جھونکا سا ٹکرایا۔ میں اٹھا بانسری سنبھالی اور موٹرسائیکل پر آہستہ آہستہ چلتا ہوا دوستوں کی طرف بڑھنے لگا کہ مجھے جھاڑیوں کے پاس ایک لڑکی نظر آئی جو کافی پریشان تھی۔ میں نے سوچا یہ لڑکی جو اس وقت اس ویرانے میں موجود ہے یا تو جاسوس ہے یا پھر کوئی آوارہ۔ دال میں کچھ کالا ہے۔ یہ سوچ کر میںنے موٹرسائیکل اس کی طرف موڑا۔ بڑے لمبے اور خوبصورت بالوں والی دبلی پتلی گوری لڑکی لیکن شکل پر اندھیرا تھا۔ میں اسے پہچان نہ سکا۔ سوچا کہ نرمی سے پوچھوں کیا بات ہے؟
پاس جاکر موٹرسائیکل روکا اور نیچے ایک پاوں اتارتے ہوئے دیکھا تو نظر اس کے پاوں پر جاکر رکی جو الٹی طرف تھے۔ میں نے ویسے ہی اپنے پاوں کو زمین پر رکھے بغیر اٹھایا اور اتنی تیزی سے موٹرسائیکل سٹارٹ کیا کہ قابو میں مشکل آرہی تھی۔ پیچھے سے چیخوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی اشفاق اب کی بار بچ گئے دوبارہ آنا میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی۔
میں نے پیچھے نہ دیکھا۔ دوستوں کے پاس پہنچا وہ مجھے دیکھ کر پریشان ہوگئے۔ موٹرسائیکل ٹھیک ہوچکا تھا جلدی سے واپسی پکڑی اور دوبارہ اتنی دور وہ بھی رات کو جانے کی ہمت کبھی نہ کی۔ چاندنی رات آج بھی پسند ہے لیکن بانسری بجانا بھول گیا ہوں۔
قارئین!اگر آپ اپنے گھروں میںابدی راحت وسکون چاہتے ہیں تواپنے گھروں سے آلات موسیقی کو دور بھگائیے کیونکہ یہ آلات موسیقی شریر جنات کی رہائش گاہیں ہیں جنات ایسے گھروں میں ڈیرا ڈال لیتے ہیں جس میں موسیقی یا آلات موسیقی موجود ہوں اوراس گھر کے تمام افراد کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں۔(سدرہ بتول)
سانپ بلی بن گیا
یہ واقعہ میرے ابو جان کے ساتھ پیش آیا تھا‘ اس وقت میری عمر تقریباً دو سال تھی۔ آج جب ابو نے یہ واقعہ مجھے سنایا تو مجھے یہ سن کر بہت زیادہ خوف آیا۔ ابو کہنے لگے میں ایک بار جتوئی گیا‘ گرمیوں کے دن تھے تمہارے نانا جان اس وقت ڈیرہ غازی خان میں لائن سپریڈینٹ تھے اور ایک مہینے بعد جتوئی آتے تھے۔ میں جس دن جتوئی گیا تو اتفاقاً تمہارے نانا جان بھی آگئے۔ اگلی ہی صبح تمہارے نانا جان کے کھیتوں سے مزارع آگیا اور کہنے لگا کہ کپاس پر سنڈیوں نے حملہ کردیا ہے اسے چیک کروانا ہے کسی زراعت والے کو میرے ساتھ بھیج دیں تو تمہارے نانا مجھے کہنے لگے کہ جاو بھئی منیر ہماری کپاس چیک کردو اور دوائی یعنی سپرے بھی لکھ کردے دینا۔ میں اس آدمی کو موٹرسائیکل پر بٹھا کر لے گیا۔ کھیت میں جاکر میں نے کپاس چیک کرنا شروع کردی۔ اتنے میں تین چار کسان میرے پاس آگئے۔ میں نے انہیں سنڈیوں کی نشاندہی کرائی ایسے ہی کپاس چیک کرتے ہوئے میں آگے بڑھا تو کسان بھی میرے ساتھ ساتھ تھے کہ اچانک ہم نے دیکھا کہ کپاس کی ایک نالی میں انسانی پنڈلی سے زیادہ موٹا اور قریباً 10 یا 12 فٹ کا سانپ تھا جیسے ہی اس نے منہ اٹھایا تمام کسان بھاگ کھڑے ہوئے۔ مجھے بھی خوف محسوس ہوا لیکن میں نے اپنے آپ پرقابو پانے کی کوشش کی اور کوئی ایسی چیز ڈھونڈنے لگا جس سے اسے مار سکوں جیسے ہی میں نے اس پر سے نظر ہٹائی تو میں حیران رہ گیا کہ ایک سفید بلی میرے آگے سے اس جگہ جہاں یہ سانپ تھا نکل کر بھاگی۔ میں نے خوب اچھی طرح دیکھا لیکن بعد میں مجھے سانپ کہیں نظر نہیں آیا۔ میں پریشانی کے عالم میں واپس آگیا۔ آج بھی میںسوچتا ہوں کہ آخر وہ ایسی کیا بلا تھا۔ (کائنات منیر‘ روہیلانوالی)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں