Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

جان بچی‘ سو لاکھوں پائے (اقصی یاسر‘میاں چنوں)

ماہنامہ عبقری - ستمبر 2010ء

ایک مرتبہ ایک چڑیا نے چار انڈے دیئے۔ ان انڈوں سے چار بچے نکلے۔صبح سویرے چڑا سیر سپاٹے کے لئے نکلتا تو سورج ڈھلے واپس لوٹتا۔ چڑیا باجرے کے کھیت پر جاتی، دانہ دنکا چگتی اور جلد ہی گھونسلے میں آکر چاروں بچوں کو اپنی چونچ سے کھلاتی۔ تھوڑی دیر میں بچوں کو پھر بھوک لگتی۔ چڑیا پھر سے اڑ کر باجرے کے کھیت پر جاتی۔ اپنا پیٹ بھرتی اور واپس لوٹ کر اپنے بچوں کا پیٹ بھرتی۔ یہ روز کا معمول تھا۔ ایک کسان کنویں کے پاس پیڑ کی چھاﺅں میں بیٹھا یہ تماشا دیکھتا اور دل ہی دل میں سوچتا کہ میں محنت کرتا ہوں۔ خون پسینہ ایک کرتا ہوں جب کہیں یہ فصل نظر آتی ہے، مگر یہ چڑیا چپکے چپکے آکر میرا دانہ چراکر لے جاتی ہے۔ اس نے چار پائی پر بیٹھے بیٹھے حساب لگایا کہ فصل کٹنے تک یہ چڑیا اس کا کتنا باجرا ہڑپ کرچکی ہوگی۔ آخر اس نے سوچا کہ اس چڑیا کو مزہ چکھانا چاہئے۔ اگلے دن کسان نے بڑی چالاکی سے جال بچھایا اور دور بیٹھ کر تماشا دیکھنے لگا۔ چڑیا روز کی طرح اپنے گھونسلے سے آئی۔ کھیت پر اتری ہی تھی کہ جال میں پھنس کر پھڑپھڑانے لگی۔ کسان تو انتظار کر ہی رہا تھا۔ اس نے لپک کر چڑیا کو پکڑا اور چھوٹے سے پنجرے میں بند کردیا۔ چڑیا نے لاکھ منت سماجت کی کہ کسان بھیا! مجھے چھوڑ دے۔ گھونسلے میں میرے بچے بھوک سے بلک رہے ہوں گے۔ دانہ نہ ملا تو مرجائیں گے، مگر کسان نے ایک نہیں سنی اور کہنے لگا کہ چڑیا ری چڑیا! اب تو تیرا میرا انصاف بادشاہ سلامت کے دربار میں ہوگا۔ کسان پنجرہ ہاتھ میں لٹکا کر شہر کی طرف چل دیا۔ راستے میں کوئی مسافر آتا تو چڑیا گڑگڑا کر فریاد کرتی کہ اے بھیا! مجھے اس ظالم کسان سے چھٹکارا دلادو۔ گھونسلے میں میرے بچے بھوکے مرجائیں گے، مگر کسان یہی کہتا کہ چڑیا اور میرا انصاف تو بادشاہ سلامت کے دربار میں ہی ہوگا۔ اچانک ایک جوتوں کا تاجر گاﺅں کی طرف آتا دکھائی دیا۔ چڑیا نے اس سے فریاد کی۔ تاجر نے کہا: ”بھائی کسان! تو ایک جوڑی جوتے کی لے لے، اس بیچاری ننھی سی جان کو چھوڑ دے، مگر کسان اپنی ضد پر قائم تھا کہ بس اب تو اس چڑیا کا اور میرا انصاف بادشاہ کے دربار میں ہوگا۔ کچھ آگے چلے تو ایک کھلونوں والا آتا نظر آیا۔ چڑیا نے اس سے فریاد کی۔ اس نے کسان سے کہا کہ بھائی! تو اپنے بچوں کے لیے دو تین کھلونے مفت لے لے، اس کو آزاد کردے۔ تیرا بڑا احسان ہوگا، مگر کسان بھلا کہاں مانتا۔ اس پر تو یہی دھن سوار تھی کہ اب تو اس چڑیا کا اور میرا انصاف بادشاہ ہی کرے گا۔ ایک پنساری ملا جو گاﺅں میں اپنی دکان کے لیے شہر سے مال خرید کرلارہا تھا۔ چڑیا نے پھر فریاد کی۔ پنساری نے کسان سے کہا کہ بھیا کسان! اس بیچاری پر رحم کھا۔ تو اپنے گھر کے لیے ہفتے بھر کا سامان مفت لے لے۔ اس کی جان بخش دے، مگر کسان نہ مانا اور کہا کہ اب تو ہمارا انصاف بادشاہ کرے گا۔ چلتے چلتے شہر بھی آگیا۔ کسان لوگوں سے پتہ پوچھ کر شاہی دربار پہنچا۔ دیکھا تو بادشاہ سلامت دربار لگائے بیٹھے ہیں لوگ اپنی اپنی شکایتیں سنارہے ہیں اور بادشاہ سلامت فوراً انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیتے ہیں جو مجرم ثابت ہوجاتا اسے سزا ملتی۔ کسان کی باری آئی۔ اس نے اپنی شکایت سنائی: ”کہ یہ چڑیا نہ جانے کتنا باجرا چرا چرا کر کھا گئی۔ میں سال بھر محنت مشقت کرتا ہوں اور یہ مزے اڑاتی ہے۔ اب انصاف آپ ہی کیجئے“۔ بادشاہ سلامت نے وزیر کو حکم دیا کہ کسان کو پانچ سیر باجرا دے دو اور کسان کو حکم دیا کہ چڑیا کو آزاد کردو، مگر کسان نے کہا کہ نہیں بادشاہ سلامت یہ تو انصاف نہیں ہوا۔ بادشاہ سلامت نے حکم دیا کہ کسان کو دس سیر باجرا دے کر چڑیا کو آزاد کرایا جائے، مگر کسان نے کہا کہ نہیں جی نہیں۔ میں تو انصاف چاہتا ہوں۔ بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ تم اس احمق کسان کو سمجھاﺅ۔ وزیر نے کہا: ”میاں کسان! اپنی عقل کے ناخن لو۔ اس بیچاری چڑیا نے زیادہ سے زیادہ سیر بھر باجرا ہی کھایا ہوگا اور تمہیں معلوم ہے اس چڑیا نے تم پر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔ پرندے کھیت سے کیڑے چن کر کھاتے ہیں، اگر پرندے ایسا نہ کریں تو فصل کو کیڑے کھا جائیں۔ یہ بھی تو سوچو کہ اس ننھی سی چڑیا نے تمہارے کھیت سے کتنے کیڑے صاف کیے ہوں گے۔ کسان نے پھر رٹ لگائی: ”مجھے تو انصاف چاہئے“۔اب تو بادشاہ سلامت کو غصہ آگیا۔بادشاہ سلامت غصے میں آکر کھڑے ہوگئے اور داروغہ کو بلاکر حکم دیا: ”یہ بے وقوف کسان ہم سب کا وقت ضائع کررہا ہے۔ یہ نہیں سمجھتا کہ اس نے ایک معصوم پرندے کو جال میں پھنسا کر خود ایک جرم کیا ہے۔ اب اسے واقعی انصاف ملنا چاہئے۔ اسے ایک ہفتے کے لئے جیل میں بند کردو اور اس چڑیا کو اسی وقت اس سے چھین کر آزاد کردو“۔ وزیر نے کہا: ”اب بتاﺅ! تمہیں انصاف مل گیا؟ مگر ٹھہرو۔ میں بادشاہ سلامت سے درخواست کرتا ہوں کہ تمہاری بے وقوفی کی وجہ سے تمہیں بھی واپس گاﺅں جانیکی اجازت دیدیں“۔ کسان خوش تھا کہ جان بچی سولاکھوں پائے۔ اب انصاف اور مہربانی کے معنی اس کی عقل میں آگئے تھے۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 730 reviews.