یہ زیادہ تر مچھلیوں، مینڈکوں، کیڑے مکوڑوں، سانپوں، رینگنے والے جانوروں، پرندوں اور بھیڑ بکری اور ہرن کے بچوں کا شکار کرتا ہے۔ عقاب اس قدر طاقتور ہوتے ہیں کہ اپنے سے دگنے تگنے بھاری شکار کو آہنی پنجوں میں اٹھاکر اڑ سکتے ہیں
صدیوں سے عقاب کی بلند پروازی انسان کو متاثر کرتی چلی آرہی ہے۔ قبل از تاریخ کا عقاب فی الواقع بڑے ہیبت ناک جثے کا مالک تھا۔ اس کی نسل سے تعلق رکھنے والا ایک عقاب حال ہی میں فلوریڈا کے ایک غار سے ملا جس کا وزن تقریباً بیس کلوگرام اور اس کے پروں کا پھیلاﺅ 12 فٹ تھا۔ اس سے بھی بڑا ایک اور عقاب نیواڈا میں پایا گیا جس کے پروں کا پھیلاﺅ 17فٹ تھا۔
اس دور میں عظیم الجثہ عقاب صرف دو علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ ہارپی عقاب، براعظم امریکہ کے گرم علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ دوسری قسم ”بندر خور عقاب“ ہے جو فلپائن میں ملتا ہے۔ ان کے پروں کا پھیلاﺅ ان کے آباﺅ اجداد سے ایک تہائی ہے۔ یہ دونوں قسم کے عقاب کبھی کبھار ہی فضا میں بلند پروازی کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ انہیں اس کی ضرورت کچھ زیادہ محسوس نہیں ہوتی۔
عقاب آہستہ آہستہ بڑھتے پھولتے ہیں۔ عقاب تین سال کی عمر سے پہلے کبھی گھونسلہ نہیں بناتے۔
عقاب ایک شکاری پرندہ ہے۔ یہ زیادہ تر مچھلیوں، مینڈکوں، کیڑے مکوڑوں، سانپوں، رینگنے والے جانوروں، پرندوں اور بھیڑ بکری اور ہرن کے بچوں کا شکار کرتا ہے۔ ہرن اور بھیڑ بکری کے بچوں کا شکار کرنے والے عقاب اس قدر طاقتور ہوتے ہیں کہ اپنے سے دگنے تگنے بھاری شکار کو آہنی پنجوں میں اٹھاکر اڑ سکتے ہیں۔
امریکی نسل کے بعض عقاب گوشت خور جانور ”سنژ کس“ کو بھی ہڑپ کر جاتے ہیں جو چلتے وقت ناقابل برداشت بدبو دار ہوا نکالتا ہے۔ عقابوں کی مار سے ”خارپشت“ جیسے جانور ہی محفوظ رہتے ہیں۔ نوخیز عقاب خارپشت کو شکار کرنے کی غلطی کر بیٹھے تو اس کی دردناک سزا اسے بھگتنی پڑتی ہے۔ خارپشت کے تیز نوکیلے کانٹوں سے عقاب کے سر اور گردن پر گہرے زخم آجاتے ہیں اور ان زخموں کی وجہ سے اس کی موت بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے۔
یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ عقاب جیسا جری جانور مردار بھی کھاتا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ مردہ جانور کا گوشت اسے بڑا ہی مرغوب ہے اور اس لالچ میں آکر بعض اوقات اپنا پیٹ اس قدر بھر لیتا ہے کہ اس کے لئے اڑنا بھی دوبھر ہوجاتا ہے۔ افریقہ کے بعض علاقوں میں گرمی کی شدت سے جھاڑیوں اور گھنے جنگلوں میں خود بخود آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ عقاب اس امید پر ان بھڑکتے ہوئے شعلوں کی طرف بھاگے چلے آتے ہیں کہ آگ میں جھلسے اور بھنے ہوئے جانوروں کی ضیافت اڑائیں۔ مشہور ماہر حیوانیات کلارک سن لکھتا ہے: ”ایک دفعہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے یہ عجیب و غریب منظر دیکھا۔ جھاڑیوں میں آگ کے شعلے ٹھنڈے پڑچکے تھے لیکن راکھ ابھی تک دہک رہی تھی۔ کچھ عقاب شدید گرم راکھ کرید کرید کر جھلسے ہوئے جانوروں کو باہر کھینچ رہے تھے۔ وہ انہیں کچھ دیر کے لئے زمین پر پٹخ دیتے کہ وہ ٹھنڈے ہوجائیں۔ اس کے بعد ان کی بوٹیاں نوچ نوچ کر ہڑپ کرجاتے“۔
عقاب انسانوں کے لئے اکثر مفید ثابت ہوتے ہیں۔ یہ فصل اور گوداموں میں پڑی اجناس اپنے سے چھوٹے اور کمزور عقابوں کو بھی لقمہ تر بنالیتے ہیں۔ اس کے علاوہ خرگوش اور مینڈک بھی ان کا من بھاتا کھاجاتے ہیں۔
گنجاعقاب بحری عقاب کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ گنجا عقاب صرف شمالی امریکہ میں پایا جاتا ہے۔ گنجا عقاب بہت جلد جوان نہیں ہوتا بلکہ اس کی افزائش نہایت دھیمی رہتی ہے۔ یہ تین سال کی عمر تک گھونسلہ بناتا ہے نہ جنسی ملاپ کرتا ہے بلکہ خالصتاً ”صوفیانہ“ زندگی گزارتا ہے۔
گنجے عقاب کا انحصار زیادہ تر مچھلیوں پر ہے۔ وہ کئی کئی گھنٹے کسی درخت کی شاخ پر جھیل یا دریا کنارے اس بات کا منتظر رہتا ہے کہ کب کوئی مچھلی پانی کی سطح پر آئے اور وہ جھپٹ کر اسے شکار کرلے۔ مچھلیوں کے علاوہ پانی کی سطح پر اڑنے والے پرندے بھی اس کا شکار بنتے ہیں۔
بحری پرندوں کے گھونسلے عام طور پر گنجے عقاب سے محفوظ نہیں رہتے۔ یہ ہمیشہ انہیں تاراج کرتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ کینیڈا کی قازیں، پہاڑی تیتر، خرگوش، لومڑیاں اور نوعمر ہرن بھی رغبت سے کھاتا ہے۔ مردہ سامن مچھلی اس کی دل پسند غذا ہے۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 495
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں