زندگی کےحالات کچھ ایسے آزمائشی تھے کہ شادی کے بعد بھی سکول میں پڑھاتی تھی‘شوہر دوسرے شہر میں ملازمت کرتے تھے۔والد صاحب کی شفقت تھی کہ انہوں نے گھر پر ہی رہنے کے لئے جگہ دی ہوئی تھی۔زندگی کی گزر بسر ہو رہی تھی۔والد صاحب بہت نیک انسان تھے‘ایک دن مسجد میں دوران نماز ان کی روح پرواز کر گئی۔ہمسایوں سے جب یہ خبر ملی تو میں حواس باختہ ہو گئی‘ پائوں تلے زمین نکل گئی۔تقریباً سارا شہر جنازے میں امڈ آیا‘ ان کی پیشانی نور سے چمک رہی تھی‘ جنازہ کااتنا ہجوم‘والد صاحب کا پُر نور چہرہ اور خاتمہ بالخیر دیکھ کر لوگ ہمیں مبارکباد دے رہے تھے۔
والد کے بعد بھائیوں نےمنہ موڑ لیا
ابا جی کے وصال کو کچھ وقت گزرا تو میرے بہن بھائیوں نے گھر خالی کرنے کا مطالبہ شروع کردیا : تم اپنے بچوں کے ساتھ کہیں کرائے کا مکان لے لو، ہم یہ گھر فروخت کرنا چاہتے ہیں ،ساتھ ہی خریدنے والے بھی آنا شروع ہوگئے۔ والد کی زندگی میں بھائی اس گھر سے دور علیحدہ علیحدہ رہتے تھے مگر انتقال کے بعد حصہ کے لئے فوراً سب چلے آئے۔ ہم دونوں میاں بیوی پر عجب مشکل طاری تھی۔ نہ ملازمت چھوڑ سکتے تھے نہ گھر کا بندوبست کرسکتے تھے پھر یہ محلہ اور لوگ بھی دیکھے بھالےتھے۔
بچوں سمیت گھر سے نکلنےکی دھمکی
اجنبی محلے میں اجنبی لوگوں کے ساتھ اکیلی عورت کا جس کی بچیاں بھی جوان ہورہی تھیں اکیلا رہنا مشکل تھا جبکہ میں صبح کی گئی شام کے قریب واپس آتی تھی۔ بہن بھائیوں کی رشتہ داروں کے ذریعے دھمکیاں آنے لگیں۔ بھائیوں سے زیادہ بھابھیاں میدان میں آگئیں، پھر بہنیں بھی پیچھے نہ رہیں سب کو رقم چاہیے تھی‘ یہ معاملہ طول پکڑنے لگا۔ نہ مجھے گھر میں چین تھا نہ سکول میں بلکہ پڑھانا ناممکن تھا۔ کسی نے مشورہ دیا کہ تم دونوںمیاں بیوی اپنے بہن بھائیوں سے مکان کا حساب کرلو چاہے قسطوں میں قیمت لگا لینا ۔مگر ایک بھابھی نے دھمکی دی کہ کالے چور کو مکان بیج دیں گے اس کو بچوں اور سامان سمیت گھر سے باہر نکال پھینکیں گے۔ ہم سب کا کھانا پینا ختم ہوچکا تھا۔ بیٹیاں نماز پڑھ کر دعائیں کرتی رہتیں۔میں بھی اللہ کے سامنے رو رو کر دعا کرتی ۔ یہ میر ے اپنے تھے اور ان کارویہ جارحانہ ہونے لگا تھا ۔ لگتا تھا زمین تنگ اور آسمان دور ہے۔کچھ سمجھ نہ آرہی تھی کے ان حالات میں کیا کروں۔ایک دن میری ساتھی ٹیچرنے ایک کتاب لاکردی کہ اس میں کوئی عمل کرو ان شاء اللہ تمہارا مسئلہ ضرور حل ہوجائے گا۔اس میں ایک آیت لکھی تھی کہ رات کو سونے کے بعد جب بھی آنکھ کھلے تو ویسے ہی لیٹے لیٹے اس آیت کو 100 بار پڑھ کر اول و آخر درود ابراہیمی پڑھنا ہے ‘اپنے مخالف کا تصور کرکے پھونک ماردو اور دوبارہ کروٹ لے کر سوجائو وہ آیت یہ تھی۔
فَسَيَكْـفِيْكَـهُـمُ اللّٰهُ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُo۔میں نے اس عمل کوصرف پڑھا نہیں بلکہ اس کے ذریعے اللہ سے مانگنا شروع کر دیا‘ابھی چند دن ہی ہوئے تھے جو مخالف تھے وہ خود ہی گھر آئے اور پھر اللہ کے کرم سےمیرے بہن بھائیوں کے ساتھ مکان کے فروخت کا معاملہ بخیرو خوبی طے ہوگیا۔ ہم دونوں میاں بیوی کے پاس تنخواہیں تھی، کوئی جمع جوڑ رقم نہ تھی لیکن دعائوں کی طاقت تھی جس کی برکت سے غیب سے مدد آگئی تھی۔ادائیگی رقم قسطوں میں طے پائی تھی۔ہمارا آپس میں سارا جھگڑا ختم ہوگیا۔ ہم بہن بھائیوں میں دوبارہ پرانی محبت جاگ گئی، ملنا جلنا بھی شروع ہوگیا گویا شیرو شکر ہوگئے۔ عدالت میں مکان کے کاغذات بنواتے وقت میں درود شریف پڑھ کر اللہ سے دعا مانگتی رہی‘ اللہ کا کرم شامل حال رہا۔یہ سب اس مالک کی عطا اور کرم تھا کہ ناممکن ممکن ہوا۔ میرے والدین کی دعائیں میرے کام آگئیں۔ مانگنے کا انداز ہونا چاہیے ورنہ اللہ کا کرم تو اپنے بندوں پر ہمیشہ متوجہ رہتا ہے مگر یہ پکار سچے دل کی پکار ہو ایک بےچین اور بے قرار دل کی پکار ہو۔شاید اس کو وجد کی سی کیفیت کہتے ہیں جو دعائوں اور ذکر کے دوران خوش نصیبوں کو ملتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں