محترم شیخ الوظائف صاحب اسلام علیکم !زندگی میں خوشیوں سے مکمل طور پر مایوس ہو چکی ہوں‘اتنی پریشانیاں اور مسائل ہیں کہ دل چاہتا ہے زمین پھٹے اور میں اس کے اندر دھنس جائوں۔ہر دن کسی نہ کسی پریشانی اورمصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ والدین کے آپس کے جھگڑے‘ ایک دوسرے کو لعن طعن کرنااور پھر بات کا اتنا بڑھ جاناکہ والد والدہ کو طلاق کی دھمکیاں دینا شروع کر دیتے اور جب زیادہ غصہ آتا تو مارنے پیٹنے سے بھی گریز نہ کرتے‘ ایسے ماحول میںپل بھر کرجوان ہوئی ہوں۔مال و دولت اور جائیداد آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی ہے۔ہماری یہ پریشانیاں ‘ مشکلات اور آزمائشیں شروع سے نہ تھیں‘ مجھے یاد ہے بچپن کا کچھ حصہ بہت خوشگوار گزرا‘ اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتیں‘ خوشحالی‘ دولت‘صحت سب کچھ تھا۔
والد کے ساتھ بدتمیزی
ایک دن والد صاحب کا دادا ابو کے ساتھ کسی بات پر سخت جھگڑا ہوا جس کے بعددادا اور دادی جی ہمیشہ کے لئے ہمارا گھرچھوڑ کر اپنی بیٹی یعنی ہماری پھوپھو کے پاس چلے گئے۔دراصل والد صاحب نے ہمارے دادا جی کے ساتھ کافی سخت لہجے میں بات کی اور بدتمیزی پر اتر آئے تھے جس وجہ سے وہ سخت ناراض اور دلبرداشہ ہو گئے تھے۔لیکن والد صاحب اپنے اس عمل پر نادم ہونے کے بجائے مطمئن رہے اور انہیں منانے کی کوشش تک نہ کی۔بیٹے کی نافرمانی کا غم لئے دادا جی چند دن بعد فوت ہو گئے۔
مال و دولت کا تکبر
والد صاحب اپنی انا پر قائم رہے ‘مال و دولت کے نشہ میں اس قدر مگن رہے کہ دادا جی کے جنازے میں بھی شامل نہ ہوئے اور والدہ کو افسوس کے لئے پھوپھو کے گھر بھیج دیا۔دادی جی کبھی کبھار گھر آجاتیں کہ شاید والد صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا۔کچھ عرصہ بعد دادی جی کا بھی انتقال ہو گیا‘ بس اس دن کے بعد ہمارا زوال اور مکافات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔والد صاحب اپنے والدین سے دعائیں لینے کے بجائے ان کی آہ لے بیٹھے مگر انہیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ان کے اس گناہ اور ظلم کا خمیازہ ان کے ساتھ ساتھ ان کی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔
ہمارے رشتہ داروں نے والد صاحب کی رویہ کی وجہ سے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا۔ہمارے گھر کے قریب کنسٹریکشن کا کام شروع ہوا جس وجہ سے ہمارا آدھا سے زیادہ گھر باہر سڑک سے نیچے چلے گیا ۔جب بھی بارش ہوتی تو گھر ڈوب جاتا اور سخت نقصان ہوتا۔بڑی بہن جوان ہوئی تو گھر والوں نے ایک رشتہ دیکھ کر اس کی شادی کردی۔
خوشیاں غموں میں تبدیل!سب مٹ گیا
گھر کے ماحول کی وجہ سے بہن کافی منہ زور ہو چکی تھی‘ مکافات کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا ۔بہن کی شادی کے چند ماہ بعد جس دن بھائی کی شادی تھی اس خوشی کے موقع پربہن کو طلاق ہو گئی اور یوں ایک دن جو خوشی کا ملنا تھا ہم اس سے بھی محروم ہو گئے۔شادی کےدن سے ہی بھابھی کے لڑائی جھگڑے شروع ‘ آخر چند دن بعد ہی طلاق ہو گئی اور بھائی کا گھر بھی ٹوٹ گیا ‘بھابھی کے گھر والوں نے کیس کردیا جس وجہ سے کئی ماہ تک ہم عدالتوں میں خوار ہوتے رہے۔والدہ بھی اولاد کے غم سے بیمار رہنے لگیں ‘ان کی صحت ڈھل چکی تھی اورآخر وہ بھی اس دنیا فانی سے کوچ کر گئیں۔ہمارا گھر آج زندہ لوگوں کا قبرستان بن چکا ہے۔ہر فرد بیماریوں ‘ پریشانیوں اور علتوں کا شکار ہے۔کچھ عرصہ قبل بھائی اچانک بیمار پڑ گیا‘مہرے کا سنگین مسئلہ بن گیا اور مزید کئی بیماریاں گلے پڑ گئیں۔ بھائی کا آپریشن کروانا پڑا اور کافی عرصہ علاج چلتا رہا جس کی مد میں ہمیں گھر کا آدھا حصہ فروخت کرنا پڑا۔
والد صاحب بھی بے بسی کی زندگی جی کر اپنے دن پورے کر رہے ہیں لیکن ان کے والد یعنی دادا ابو کی آہیں آج بھی ان کا تعاقب کر رہی ہیں‘گھر‘ اولاد ‘ کاروبار کسی جانب سے بھی ان کو سکون کا ایک لمحہ میسرنہیں ہے مگر ان کے اپنے والدین کے ساتھ کیے ظلم کابدلہ اب بھی ہم چکا رہے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں