چند سال قبل کا واقعہ ہے کہ گھر میں مہمان آئے ہوئے تھے‘ اماں کافی عجلت میں کچن کے کام کر رہی تھیں کہ زمین پر کچھ گرا‘ غالباً پکےہوئےچاول تھے ۔ ہمارے ہاں کھانے کی چیز جھاڑو سے نہیں سمیٹتے‘ اس لئےاماں جی نے جلدی جلدی کپڑا اُٹھایا اورچاولوں کو سمیٹنے لگیں کہ کسی کے پائوں میں نہ آ جائیں۔ باورچی خانہ پُرانے زمانے کا تھا‘ کچے پکے‘ اونچے نیچے فرش والا‘ اماں نے جلدی جلدی سمیٹنے کے چکر میں یہ نہ دیکھا کہ فرش پر پہلے سے تنکے‘ پتھر‘ کنکر بھی ہیں‘ بس وہ زور زور سے چاول سمیٹنے لگیں کہ اچانک ان کی انگلی میں کچھ چُبھا۔ انہوں نے کپڑا فوراً پھینک کر انگلی دیکھی‘ اسے دبایا‘ ٹٹولا‘ دوسروں کو بھی دِکھایا کہ شاید کسی اور کو نظر آ جائے۔ چُبھن بالکل ایسی تھی جیسے ’’چھلتر‘‘ چُبھتی ہے مگر دو گھنٹے دیکھنے کے بعد بھی وہ چھلتر کسی کو نظر نہ آئی اور نہ ہی کوئی نشان نظر آیا بس ایک احساس تھا کہ اندر کچھ ہے۔
خیر اماں کچھ روز تک تو برداشت کرتی رہیں پھر اس حصے میں ریشہ پڑ گیا اور باقاعدہ درد محسوس ہونے لگا۔ کچھ وقت گزرا تو متاثرہ جگہ اُبھری ہوئی محسوس ہونے لگی۔ ڈاکٹر کو دِکھایا گیا‘ اس نے ریشہ جلانے والی دوائی دے دی‘ کچھ لگانے کیلئے مرہم دی مگر کوئی فرق نہیں پڑا۔ اب ڈاکٹر نے ایکسرے کا کہہ دیا‘ ایکسرا کروایا تو جان کر حیرانگی ہوئی کہ انگلی کی موٹائی جتنا ٹکڑا اندر تھا۔ ڈاکٹر کہنے لگے کٹ لگا کر نکالنا پڑے گا۔ اماں ڈر گئیں‘ انہوں نے ابا کو کہا کہ میں نے کوئی کٹ نہیں ڈالوانا‘ گھر چلو۔ ابا نے اماں کو کافی دیر تک سمجھایا‘ پر وہ نہ مانیں اور آخر دونوں واپس آ گئے۔
اماںکے آنسوئوں پرابا جی عاجز آگئے!
کئی دن گزرنے کے باوجود تکلیف اُدھر کی اُدھر ہی تھی۔ مجھے آج بھی یاد ہے اماں ایک ہاتھ سے آٹا گوندھنے لگی تھیں‘ ڈاکٹر کے پاس نہ جاتیں کہ ڈر لگتا ہے‘ گھر پر اماں پریشان تو سب ہی پریشان۔ ابا ہومیو پیتھک ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے‘ انہوں نے بھی دوا دے دی مگر زیادہ فرق نہ پڑا‘ اب ہار مان کر اماں نے ابا کی بات مان لی۔ چھوٹا سا کٹ لگنا تھا لیکن اماں کا ڈر تھا کہ دوسری بار بھی مقررہ وقت پر ڈاکٹر کے پاس گئیں مگر رو کر واپس آ گئیں‘ اب کی بار ابا بھی عاجز آ گئے۔ ابھی وہ واپس آئے ہی تھے کہ ہماری پڑوسن نے انہیں دیکھ لیا۔ اماں کے چہرے کی پریشانی دیکھ کر ساتھ ہی اندر چلی آئیں۔ اماں کا دل پہلے ہی بھرآیا ہوا تھا‘ آہستہ آہستہ سب کچھ انہیں بتاتی چلی گئیں۔ غالباً وہ خاتون اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا فرشتہ ہی تھیں‘ ان کے الفاظ کی تسلی آج بھی سب کو یاد ہے۔ وہ کہنے لگیں ’’باجی! مسئلہ ہی کوئی نہیں‘ میری نواسی کے گھٹنے پر بھی دانہ نکلا تھا‘ نہ ریشہ سڑتا تھا‘ نہ باہر نکلتا تھا‘ بہت ڈاکٹروں کو دِکھایا‘ سب کٹ لگوانے کا کہتے تھے مگر بچی ڈرتی تھی۔ ہم نے اس کی نیت کر کے بالکل نیا جھاڑو لا کر مسجد میں رکھوایا اور ساتھ تین مرتبہ ہر روز’’سورۃ المزمل‘‘ پڑھ کر لعاب اس کے دانے پر لگایا‘ کچھ دنوں بعد خود ہی ریشہ نکل گیا اور بچی کو سکون آ گیا ہے۔آپ پریشان مت ہوں اللہ خیرکرے گا آپ بھی ٹھیک ہو جائو گی۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ اماں نے اسی وقت لباس بھی تبدیل نہیں کیا تھا کہ وضو کر کے یہ عمل شروع کر دیا‘ جھاڑو بھی مسجد میں رکھوا دی اور بس تواتر سے سورۃ المزمل تین مرتبہ پڑھ کر لعاب انگلی پر لگاتی رہیں۔غالباً ہفتہ‘ دس دن گزرے تھے کہ ایک دن اماں اپنے ہاتھ کو دیکھ کر کہنے لگیں کہ اس دانے کا منہ بن رہا ہے ۔ انہوں نے انگلی کو سرسری سا دبایا تو اندر کوئی چیز حرکت کرتی محسوس ہوئی جیسے باہر آ رہی ہو‘ وہ دبائو دیتی گئیں اور واقعی میں منہ کھلتا چلا گیا اور کچھ ہی دیر بعد پوری انگلی کی ’’پور‘‘ کے جتنی پیلی موٹی چھلتر نکل کر ان کے ہاتھ میں آ گئی۔ سب حیران رہ گئے وہ جو پیلا پیلا ریشہ سمجھ رہے تھے‘ وہ چھلتر کا منہ تھا۔ کہاں وہ چھلتر جو چُبھی تو نظر تک نہ آ رہی تھی اور کہاں یہ پور جتنی‘ واقعی اللہ کے کلام میں برکت ہےکہ اس ٹس سے مَس نہ ہونے والی چھلتر کو تحریک دے کر باہر نکال ڈالا۔ اس کے کچھ روز بعد تک بھی والدہ سورئہ مزمل پڑھتی رہیں اور لعاب لگاتی رہیں‘ زخم بھی جلد مندمل ہوا اور درد بھی رفع ہو گیا۔
اس کے بعد بھی اس عمل کے کافی مشاہدات دیکھنے میں آئے ہیں۔ پَس والے پھوڑے پر پڑھ کر لعاب لگائیں یا دَم کریں تو پَس جلد نکل جاتی ہے اور دانہ نشان بھی نہیں چھوڑتا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں