Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔

بچوں کی تربیت میں یہ غلطیاں ساری عمر کاپچھتاوا

ماہنامہ عبقری - دسمبر 2024ء

قارئین ہم آج آپ کوچند اہم باتیں بتاتے ہیں جو بچوں کی اچھی کارکردگی میں رکاوٹ بنتی ہیں اور اگر ان پہلوئوں کا خیال رکھا جائے اور بچے کی درست انداز میں رہنمائی کی جائے تو بہترین اور مثالی نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔
گھرکا کشیدہ ماحول
گھر میں اگرپریشان کن ماحول ہے توبچے کا دبائومیں آنا فطری ہے۔آج کی بدلتی طرززندگی میں رشتوں کی معتبریت کم ہوجاتی رہی ہے اور طلاق کے معاملات بڑھتے جارہے ہیں۔ میاں بیوی کے درمیان اچھے تعلقات نہ ہونے کا بھی بچوں پر اثر پڑتا ہے۔ والدین کو اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے اختلاف کو بچوں کے سامنے زیادہ نہ اچھالیں۔ کوشش کریں کہ اختلافات کی صورت میں الگ سے بات کی جائے۔ بچوں کے ذہن بہت معصوم اور حساس ہوتے ہیں۔ والدین میں لڑائی جھگڑا نہیں سخت ذہنی اذیت سے دوچار کرسکتا ہے۔ وہ توجہ کے ساتھ اپنی تعلیمی ذمے داریاں نہیں پوری کرسکے گا۔گھر میں اچانک ہونے والے حادثےبھی بچوں پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں ایسی صورت میں حتی الامکان بچوں کو دور رکھنا چاہیے۔
والدین کا غیرمساویانہ سلوک :والدین کا سلوک اور رویہ بچے کی زندگی پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔ بعض گھرانوں میں اولاد سے غیر مساویانہ سلوک کی بھی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ماں اور باپ میں سے کوئی ایک کسی ایک بچے کو زیادہ چاہتے ہیں۔ اس کے ناز نخرے زیادہ اٹھائے جاتے ہیں۔اس طرح کارویہ بھی بچوں کو ذہنی دبائو کا شکارکردیتا ہے۔
بچوں کو کامیاب بنانے کے اصول
پریشر نہ ڈالیں:اکثر والدین بچوں کو سب سے آگے رکھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ایسے میں والدین کو سمجھنا چاہیے کہ ہر انسان کی الگ الگ صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ والدین کو بچوں پر مختلف امتحانات، کھیلوں اور دوسری سرگرمیوں میں اول آنےکیلئے کسی بھی قسم کا دبائو نہیں ڈالنا چاہیے کہ ہر صورت میں والدین اپنے بچے کے ساتھ ہیں۔ اس سے بچے میں خود اعتماد ی اور اعتماد پیدا ہوتا ہے او روہ ٹینشن فری، ہوکر بہتر کارکردگی بھی پیش کرتا ہے۔
دوست بن جائیں:کچھ والدین بچوں کوچھوٹی چھوٹی غلطیوں پر انہیں ڈانٹ دیتے ہیں۔ ان کی کوئی بھی بات سنے بغیر صرف اپنے فیصلے تھوپتے رہتے ہیں۔ اس رویہ کی وجہ سے بچوں کے دل میں والدین کیلئے ڈر اور خوف کا احساس پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی باتیں کہنے سے ڈرنے لگتا ہے۔ والدین کو اپنے بچوں کا دوست بننا بھی ضروری ہے تاکہ وہ اپنی تمام باتوںکو ان سے اشتراک کریں۔ بچے کے ساتھ سکول میں یا باہر کوئی بھی انہونی واردات ہوتی ہے یا ایسا کچھ ہوتا ہے جس سے وہ ٹینشن میں آجاتے ہیں تو اسے صبرسے سنیں اور سمجھنے، حل کرنے کی کوشش کریں۔ ایسے میں بچوں کوڈانٹنا مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔
کمپیوٹر، ٹی وی اور موبائل:ٹی وی، کمپیوٹر اور موبائل جیسے جدید آلات زیادہ تر لوگوں کی زندگی کا حصہ بن گئے ہیں اور بچے بھی اپنا زیادہ وقت انہی میں صرف کرنے لگے ہیں۔ اس طرح کی عادات کی وجہ سے ان میں کچھ صحت کے مسائل بھی سامنے آرہے ہیں۔ وہ سست اور موٹاپے کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ بچوں کو ان جدید آلات سے مکمل طور پر پردہ نہیں رکھا جاسکتالیکن والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ اپنا ٹائم ان چیزوں پر صرف کررہے ہیں ۔ اس کے لیے والدین کو سختی بھی کرنی پڑی تو ضرور کریں اوربچوں کوکسی بھی طرح حدود کے اندر رکھیں۔
بچے وقت مانگتے ہیں:بچے سب سے زیادہ اپنے والدین کے قرب ہوتے ہیں۔ والدین کے ساتھ ہونے سے ان میں اعتماد آتا ہے لیکن آج کل اکثر گھروں میں ماں اورباپ دونوں ملازمت کرتے ہیں۔ ایسے میں وہ اپنے بچوں کےساتھ وقت نہیں گزار پاتے اور بچے خود کو اکیلا محسوس کرتے ہیں۔ یہی اداسی اور تنہائی کا احساس بھی ان کی اچھی کارکردگی میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
ذہنی اور جسمانی ٹارچر : اذیت رسانی خواہ جسمانی ہو یا ذہنی، وہ کسی کو بھی ذہنی دبائومیں مبتلا کرسکتی ہے

پھر بچوں کا دل تو بہت نرم ہوتا ہے اور وہ اس سے نبرد آزما ہونے کے قابل نہیں ہوتے۔ ایسے میں وہ گم صم رہنے لگتے ہیں۔ بچوں کےساتھ سکول میں یا گھر میں کہیں بھی اس طرح کی صورتحال پیش آسکتی ہے۔ کبھی کبھی والدین ہی بچوں کومارنے پیٹنے لگتے ہیں۔ خود پر ہی نہیں، گھر میں دوسروں کے ساتھ ٹارچر کا اثر بھی بچوں پر پڑتا ہے۔ جو بچوں میں ذہنی تنائو کو جنم دیتا ہے اگر بچہ دبائو میں ہے تو اس کے اردگرد کے ماحول کو خوشگوار بنانے کی کوشش کریں۔ سب سے پہلے یہ توجہ رکھنی چاہیے کہ گھر کے ماحول میں گرم جوشی رہے۔
بچہ مشاہدے سے سیکھتا ہے۔ جو کچھ وہ اپنے اردگرد دیکھتا ہے اُس کا اثر قبول کرتاہے اور پھر ردعمل بھی ظاہر کرتاہے کیونکہ وہ لاشعوری طور پر بھی اپنے والدین سے سیکھ رہا ہوتاہے۔ بجائے اس کے کہ ہم ہر دومنٹ بعد نصیحت کریں بہتر یہ ہے کہ جو کچھ ہم اُن کو بنانا چاہتے ہیں اُن کے سامنے عملی نمونہ پیش کردیں۔ اپنی زندگی کا ایک سنہرا اُصول بنانا چاہیے کہ جو ہم اپنے بچوں کو بنانا چاہتے ہیں پہلے وہ ذاتی مثال بنا لیں۔ تربیت کا عمل اپنے آپ سے شروع کریں۔

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 853 reviews.