یہ کہانی سچی اور اصلی ہے۔ تمام کردار احتیاط سے دانستہ فرضی کر دئیے گئے ہیں‘ کسی قسم کی مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی۔
آج اپنی زندگی کی داستان عبقری کے لئے تحریر کر رہی ہوں جس کا مقصد میری طرح بے شمار بھٹکے ہوئے لوگوں تنبیہ کرنا اور راہ راست پر لانا ہے۔اپنے سینے کے راز پہلی بار لکھ رہی ہوں کیونکہ مجھے یقین ہے عبقری رازداری کا لحاظ رکھتا ہے۔
آخر بُری صحبت کا شکار ہوگئی
چند سال پہلےتعلیم حاصل کرنے کی غرض سےملک کے ایک بڑے شہر کی معروف یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔اس شہر میں کوئی قریبی رشتہ دار موجود نہ تھا لہٰذا مجبوراًیونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہائش اختیار کرنی پڑی۔دوپہر کے وقت اپنی تعلیمی سرگرمیوں سے فارغ ہو جاتی اور اس کے بعد گھر کچھ دیر بات ہو جاتی‘پھر سارا دن فارغ رہتی ۔ہاسٹل کے کمرے میں میرے ساتھ جو سٹوڈنٹس تھیںجن کا پڑھائی کی طرف رجحان کم اور فضول کاموں کی طرف زیادہ ہوتا تھا۔شروع شروع میں خود کو ایسے لوگوں سے دور رکھا مگر آخر کار آہستہ آہستہ ان کے ساتھ دوستی ہو گئی۔ان کی دیکھا دیکھی اور صحبت کا اثرتھا کہ کچھ گناہوں اور علتوں میں مبتلاہو گئی۔نا محرم سے باتیں کرنا شروع کردیں اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گناہ بھی بڑھتے گئے۔پہلے روزانہ گھر فون پر بات ہوتی تھی ‘اب ہفتوں گزر جاتے مگر فرصت نہ ملتی۔جب کبھی گھر جاتی تو یہی بتاتی کہ تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے وقت نہیں ملتا جبکہ حقیقت میںتعلیم کی طرف توجہ ختم ہو چکی تھی۔ دن اور رات گناہوں میں ڈوبتے چلے جا رہے تھے۔چھوٹے چھوٹے گناہ بڑھتے گئےاوربہت سے کبیرہ گناہوں میںمبتلا ہو گئی۔
گناہ کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانےد یا
میں ایسے گناہوں میں مبتلا ہو چکی تھی کہ جن کے بارے میںایک نیک اور پاکباز عورت صرف سوچ کرشرم سے پانی پانی ہو جائے۔میں نے ایسا کوئی گناہ نہیں چھوڑا جس سے اللہ پاک کی ناراضگی کو مول نہ لیا ہو اور اس وقت مجھے ان گناہوں کی نحوست کا اندازہ بھی نہیں تھا۔میںنے گناہ کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ان گناہوں اور علتوں کے بارے میں بس مختصر اتنا بتائوں گی کہ اگر میرے گھر والوں کو ان کبیرہ گناہوں کے بارے میں پتہ چل جائے تو شاید مجھے زندہ جلا دیا جائے یا کسی بھی طرح قتل کر دیں اور کوئی قبر پر آنا بھی پسند نہ کرے۔اس غلاظت بھری زندگی کے باوجود اللہ کی شان کریمی تھی کہ میرے ان تمام گناہوں کا پردہ رکھا۔میرے گھر والوں اور عزیز و اقارب کو میری اس زندگی کے بارے میں کوئی علم نہ تھا۔تعلیم مکمل کرنے اور ہاسٹل چھوڑنے کے باوجود بھی ان گناہوں سے نجات نہ ملی۔زندگی میں کئی مواقع ایسے آئے کہ یہ نحوست زدہ زندگی دوسروں پر عیاں ہو سکتی تھی مگر ہر بار اللہ تعالیٰ نے میرا پردہ رکھا۔اللہ تعالیٰ کی اس ستار پوشی کی صفت نے ہی مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا اورمیں نے خود کو بدلنے کا فیصلہ کیا۔
شانِ کریمی نے دل کی دنیا بدل دی
اس دوران کئی بار رکاوٹیں آئیں اور مجھے ڈر تھا کہ استقامت نہ ملی تو شاید پہلے سے بھی زیادہ بھٹک جائوں۔اس دوران عبقری سے تعارف ہوا‘روحانی اعمال کرنا شروع کیے اور آپ کی روحانی محافل کو سننا شروع کیا جس کی برکت سے گناہوں سے نفرت ہونا شروع ہو گئی۔گھر والوں کے ساتھ تسبیح خانہ لاہور آئی اور یہاں کے روحانی نظام نے میرے اندر کو بدل کر رکھ دیا۔تسبیح خانہ کا لنگر کھایا‘پُر تکلف کھانوں میں بھی کبھی وہ لذت محسوس نہ ہوئی جو اس نورانی لنگر میں تھی۔ واپس جانے کو دل ہی نہیں کر رہا تھا‘واپسی پر گاڑی میں بیٹھ کر روتی رہی کہ کاش ساری زندگی تسبیح خانہ کے روحانی ماحول میں گزار دوں‘اپنے گناہوں پر سخت نادم ہوئی ۔آپ نے مجھے اللہ سے باتیں کرنا سکھا دیا۔میرے دن اور رات بدل چکے تھے‘اللہ تعالیٰ نے مجھ گناہگار کو عمرہ کی سعادت عطا فرمائی۔آپ نے فرمایا تھا کہ ریاض الجنہ میںدعائیں قبول ہوتی ہیں۔میںنے وہاں کھڑے ہو کر دعا کی کہ یا اللہ مجھے بھی اپنےحبیبﷺ کی زیارت نصیب فرما‘اپنے گناہوں پر ندامت تھی مگر اللہ کی شان کریمی پر پورا(باقی صفحہ نمبر59)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں