پانچویں صدی قبل مسیح کا یونانی حکیم بقراط، طب کا باپ مانا جاتا ہے وہ کھمبی کو ہڈیوں اور پٹھوں کا درد رفع کرنے کے لئے استعمال کرواتا تھا طریقہ علاج یہ تھا کہ درد والی جگہ پر کھمبی کا سفوف رکھ کر پٹی باندھ دی جاتی تھی جس سے درد میں افاقہ ہو جاتا۔ اس طرح یونانی ماہر طب ڈائیو سکارڈس (Dioscorides) کہتے ہیں کہ گنگن(Agarik) نامی کھمبی میں خون کو منجمد کرنے کی خاصیت موجود ہے۔ اس کی تاثیر گرم ہوتی ہے اسی بنا پر یہ درد قولنج مروڑ اور زخمی اور سوجے ہوئے اعضا کے علاج کے لئے بھی مفید ہے۔ یہ ہڈی کی ٹوٹ پھوٹ کے علاوہ اس وقت بھی استعمال ہوتی ہے جب جسم چوٹ لگنے سے زخمی ہو۔ بخار کی حالت میں شہد ملا کر استعمال کرنے سے بخار اتر جاتا ہے۔ اسی طرح یہ جگر، دمہ، یرقان، اسہال، پیچش اور گردے کی تکلیف کے لئے بھی مفید ہے۔ مورجھا روگ یا اختناق الرحم (ہسٹریا) اور صرع یا مرگی میں اس کو شہد اور ادرک کے ساتھ ہم وزن ملا کر استعمال کرنے سے بھی افاقہ ہوتا ہے۔ اگر بیماری کے حملے سے پیشتر ہی اس کا استعمال کیا جائے تو یہ بدن کو سخت ہو کر اکڑا جانے سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ شہد کے ساتھ اس کا استعمال قبض کشا ہے سانپ کے کاٹے اور زخم پر لگانے سے تریاق کا کام دیتی ہے۔ آج بھی ناروے، سویڈن اور فن لینڈ کے باشندے کھمبی کو درد رفع کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ چینی اور جاپانی طریقہ علاج جسے موکسابھی کہتے ہیں، اسی اصول کے پیش نظر وضع کیا گیا ہے۔
لوگ پٹھوں کے درد اور کھنچے ہوئے پٹھوں کے لئے اس مخصوص کھمبی کا سفوف استعمال کرتے ہیں جس کا بیج گیند نما ہوتا ہے۔اسے پف بال کہتے ہیں۔ یہ کھمبی نشہ آور دوا کے طور پر خاصے عرصے تک آپریشن میں استعمال ہوتی رہی ہے۔ اس کا سفوف اگر جلایا جائے تو اس کے بخارات کلوروفارم جیسے ہوتے ہیں۔ اس کے سفوف کا دھواں آج بھی شہد کی مکھیوں کو چھتے سے علیحدہ کر کے شہد نکالنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سفوف دیہات میں آج بھی خون بند کرنے کی مجرب دوا خیال کیا جاتا ہے۔ کھمبی کی ایک قسم ہوگ مشروم انتڑیوں کی سوزش اور مقعد کے پھوڑے پھنسی کے لئے مفید ہے اس کے استعمال سے چہرے کے داغ دھبے ختم ہو جاتے ہیں۔ اس سے جلدی امراض دور کرنے کا محلول (لوشن) تیار کیا جاتا ہے جو آنکھوں کے درد کا بھی موثر علاج ہے۔ کھمبی سڑے ہوئے بدبودار ناسور اور سر کے پھوڑے پھنسی وغیرہ کے لئے فائدہ مند ہے۔ باﺅلے کتے کے کاٹے ہوئے زخم پر پانی میں بھگو کر اس کا مرہم استعمال کیا جاتا ہے۔ مشہور انگریز حکیم جیرالڈ لکھتے ہیں کہ یہ کھمبی پیلے یرقان اور شدید نزلہ زکام کا شرطیہ علاج ہے۔ یہ بطورمرہم کسی زہریلے کیڑے کے کاٹے ہوئے پر لگانے اور کھمبی کو بطور غذا کھانے سے شفا ہوتی ہے۔ یہ پیشاب آور بھی ہے۔ علاوہ ازیں عورتوں کی ماہواری کو باقاعدہ رکھتی ہے اور حسن کو نکھارتی ہے۔
کھمبی کی ایک قسم Jewsear قے اور دست آور دوا ہے۔ گلے کی سوجن اور دیگر تکالیف میں دودھ میں ابال کر استعمال کی جاتی ہے۔ فومزنامی کھمبی ہمارے ہاں جنگلات میں بکثرت اُگتی ہے۔ اسے قدیم حکماءجراح کی کھمبی کہتے تھے نوزائیدہ حالت میں اسے کاٹ کر کچھ عرصہ کے لئے رکھ دیا جاتا ہے پھر اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے موگری سے کوٹ کر سفوف بنا لیتے ہیں جسے خون بند کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ کریمبال نامی کھمبی اینٹھین اور مروڑ رفع کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ دودھ والی کھمبی تاثیر میں پسینہ لانے والی اور پیشاب آور ہے۔ اس کا استعمال پتھری کے مرض میں مفید ہے یہ مسوں اور سخت دانوں (Warts) کے علاج کے لئے استعمال ہوتی ہے ۔ اس کا ٹنکچر ہیضے یا پیشاب جس میں چربی آتی ہو اور باری کے بخار میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
اس کا مسلسل استعمال خون میں کولیسٹرول کی مقدار بتدریج کم کر دیتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ بلڈ پریشر اور دل کے مریضوں کی مثالی دوا اور غذا ہے۔ اس کھمبی میں پائے جانے والے میلائن مرکبات بالوں کو سیاہ رکھتے اور نسوانی حسن کو جلا بخشتے ہیں۔ اس کے بیج میں ایک ایسا عنصر موجود ہوتا ہے جو کینسر کے وائرس کو ختم کر کے شفا کا باعث بنتا ہے۔ اس کھمبی میں حیاتین بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں جو بہت سی بیماریوں کا قدرتی علاج ہیں۔ اس میں موجود حیاتین ڈی 2کئی جنسی ہارمونز سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس بنا پر اس کا استعمال جنسی ٹانک ثابت ہوتا ہے۔ حیاتین بی1، بی2، بی6 اور ڈی 2 کی موجودگی کی وجہ سے یہ ایک اہم غذا ہے۔ ان حیاتین کی کمی سے بچوں کو ہڈیوںکی کمزوری یا ریکٹس کا عارضہ لاحق ہوتا ہے جس کے لئے کھمبی شفا کا درجہ رکھتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں