محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! عزیز دوست کی وفات کے بعد چند ملنے والے احباب ایک جگہ اکٹھے ہوئے ایصال ثواب کے بعد ایسے دنیاوی باتوں کا سلسلہ چل نکلا ۔ ایک دوست کہنے لگا کہ کسی عزیز کی وفات پر مجھے یہ فرض سونپا گیا کہ مرحوم کی قبر کی تیاری تمہاری ذمہ داری ہے۔ مختلف موضوعات پر گورکن سے باتیں ہوتی رہیں۔ گورکن بتانے لگا کہ بعض لوگوں کی قبر کھودتے وقت نہ تو ہمیں تھکن محسوس ہوتی ہے اور جگہ بھی ایسی آجاتی ہے کہ وہاںزیادہ محنت بھی نہیں کرنی پڑتی ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ مرحوم بے ضرر قسم کاانسان تھا اور اس نے اپنی زندگی میں کسی کو کوئی تکلیف نہیں دی اور جو لوگ سخت دل ہوتے ہیں اور عام لوگوں سے ان کا سلوک اچھا نہیں ہوتا ایسے آدمی کی قبر کھودتے ہوئے اتفاقاً جگہ بھی سخت مل جاتی ہے اور ہم لوگ تھکن سے چُور چُور ہو جاتے ہیں۔
ایک دوست کہنے لگا میں آپ کو واقعہ سناتا ہوں کہ ایک گورکن نے بوقت ملاقات اپنا مشاہدہ بیان کیا، کہنے لگا کہ میں ایک قبر کھود رہا تھا اورجب تقریباً قبر تیار ہوگئی تو اچانک مجھ سے کدال غلط چل گئی اوراتفاق سے ساتھ والی قبر سے جو بالکل قریب ہی تھی۔ مٹی کا ایک ٹکڑا اس قبر میںآگرا جو میں تیار کررہا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ ساتھ والی قبر سے کوئی روشنی ادھر آرہی تھی میں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اور اپنے دونوں ہاتھوں پر زور دے کر اس سوراخ سے دوسری طرف جھانکنے لگا جو کہ تقریباً پانچ سے چھ انچ لمبا چوڑا سوراخ تھا وہاں مجھے یوں محسوس ہوا کہ ساتھ والی قبر سے کوئی روشنی ادھر آرہی تھی۔ وہاں مجھے ایک عجیب کیفیت نظر آئی وہ روشنی دنیاوی روشنی سے مختلف تھی اور میرے سامنے جوعلاقہ تھا وہاں ایک باغ تھا، باغ کے درمیان ایک پلنگ بچھا تھا اس پر سفید بستر بچھاہوا تھا وہاں ایک خاتون بیٹھی تکیہ پر رکھی کوئی کتاب پڑی رہی تھی میرے اندازے کے مطابق وہ قرآن شریف تھا میں محتاط ہوکر یہ منظر دیکھ رہا تھا کہ اس خاتون کو احساس ہوا کہ ادھر سے مجھے کوئی دیکھ رہا ہے وہ فوراً میری طرف متوجہ ہوئی اور مجھ سے غصہ کی حالت میںپوچھا کہ کیا قیامت قائم ہوئی ہے میں نے جواب دیا ’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں میری غلطی تھی کہ مٹی گرپڑی‘‘اس نے فوراً مجھے کہا کہ فی الفور اس سوراخ کو بند کرو خاموش رہو اور اپنا کام کرو ۔ اب حیرت اور تجسس کے عالم میں میں نے قبر مکمل کی مقررہ وقت پر بندے میت کو لائے دفن کیا اور عام طور پر جیسے لوگ دفناکر اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں دفناکر کے چلے گئے۔ اب میں کئی روز اس واقعہ کو بھول نہ پایا اور کچھ عرصہ میں اس کھوج میں لگارہا کہ یہ قبر کس خوش نصیب عورت کی ہے بالآخر دو اڑھائی مہینے کے شدید انتظار کے بعد ایک مرد آیا اس نے کچھ پڑھا اور قبر پر پھول رکھ کر جانے لگا تو میں بھی وہاں جا پہنچا میں نے سوال کیا کہ میرے بھائی یہ مرنے والا کون تھا؟ تو اس نے جواب دیا تم کون ہو مجھ سے یہ بات پوچھنے والے؟ تو میں نے کہا بھائی جان آپ ناراض نہ ہوں اگر آپ نہیں بتاتے تو آپ کی مرضی لیکن اگر بتائیں گے تو میں آپ کو ایک بہت ہی اچھی بات سنائوں گا جسے سن کر آپ کی روح بھی خوش ہو جائے گی۔ یہ بات سن کر پہلے تو اس کی آنکھوں سے چند آنسو گرے پھر وہ مناسب جگہ پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اب میری اگلی بات سنو یہ قبر میری مرحومہ بیوی کی ہے۔ بہت عرصے پہلے کی بات ہے کہ میں جب جوان تھا اور والدین کا اکلوتا بیٹا تھا تو انہوں نے اپنے بیٹے کے ماتھے پر سہرا سجانے کے لیے ایک دلہن کی تلاش شروع کردی اورمناسب گھر میں رشتہ کی بات شروع کردی اور سارے معاملات طے ہوکر شادی کی تیاری شروع کردی بالآخر شادی ہوگئی۔ مجھے اپنی حالت کا پتہ تھا یعنی میں شادی کے لائق نہیں تھا۔ شرم سے والدین کو بتا نہیں سکتا تھا خاموش رہا بہرحال شادی ہوگئی تو جب میں دلہن کے (باقی صفحہ نمبر56 پر )
(بقیہ:شوہر کی تابع دار خاتون کا خوشگوار خاتمہ)
کمرے میں پہنچا تو میں نے اسے کہا میری مرضی کے خلاف آپ کولایا گیا میں ماں باپ کا دل نہیں توڑنا چاہتا نہ میرے اندر اتنی جرأت تھی کہ میں حقیقت حال انہیں بتا سکتا میں آپ کو کوئی خوشی نہیں دے سکتا تو ایسے کرتے ہیں کہ ہم آپس میں لڑائی کرلیتے ہیں اورمیں مصنوعی غصہ دکھا کر آپ کوطلاق دیتا ہوں اور عدت گزرنے کے بعدجہاں آپ کے والدین چاہیں گے وہاں آپ کی شادی کردیں گئے پہلے تو یہ بات سننے کے بعد وہ خاتون سوچ میں غرق ہوگئی پھر اس نے خاموشی کو توڑا اورکہنے لگی کہ جو میرے مقدر میں لکھا تھاوہ مجھے مل گیا اگر ہم دونوں بطورمیاں بیوی نہیں رہ سکتے تو دو دوستوںکی طرح بھی رہنا مشکل نہیں ہے۔ آپ سوچیں اور بتائیں اگر اس بات پر آپ رضا مند ہیں تو دنیا کہ سامنے ہم بطور میاں بیوی رہیں گے اور بطور خاتون خانہ آپ کی خدمات بھی بجا لائوں گی اور آپ کے والدین کی بھی بطور بہو خدمت کروں گی اور اس طرح ہم زندگی کے دن پورے کرلیں گے۔ اس طرح وقت آہستہ آہستہ گزرتا رہا کچھ عرصے پہلے وہ خاتون بیمار ہوئی اور مجھے داغ مفارقت دے کر اس نئے گھر میں آبسی اور میں اب کبھی کبھار آتا ہوں کچھ کلام پڑھ کر کچھ آنسو بہا کر اور قبر پر پھول چڑھا کر چلا جاتا ہوں۔ گورکن نے اس شخص کی تمام باتیں سن کر اسے اپنی آنکھوں دیکھا حال سنایا اور یہ بات ہم دونوں پر واضح ہوگئی کہ کوئی خاتون جب جوانی کے متلاطم دریا کو اپنے قابو میں کرلیتی ہے تو اسے کیا انعام ملتا ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ والی زندگی میں بہشت کی حقدار ہو جاتی ہے جیسا کہ گورکن نے مشاہدہ کیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں