غیر ضروری کیمیائی مواد کا استعمال مضر اثرات اور بیماریوں کی جڑ ہے۔ یہ بنی نوع انسان کیلئے ایک عذاب اور لمحہ فکریہ بن گیا ہے۔ سفید آٹا جس کیلئے اتنا بڑا بحران وجود میں آیا ہے‘ اس میں سفید کرنے والا کیمیکل ملایا جاتا ہے جسے ایلوکسن (alloxan) کہا جاتا ہے۔ یہ جز انسانوں میں ذیابیطس کا موجب ہے۔ یہ انسانوں کیلئے تباہ کن ہے۔ سفید آٹے کی روٹی کھانے سے ذیابیطس کی بیماری لاحق ہونے کے خطرات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ روٹی‘ چپاتی‘ نان‘ ڈبل روٹی اور بَن ہماری غذا کا جزو ہیں‘ سفید اور خوبصورت بنانے کے طریقے میں اس کیمیکل کا استعمال بڑے پیمانے پر لبلبے کو ناکارہ کرنے اور ذیابیطس کا موجب ہے۔ اس کی معلومات سائنسدانوں کو کئی سالوں سے ہے یہاں تک کہ اس کا استعمال لیبارٹری میں چوہوںمیں ذیابیطس پیدا کرنے کیلئے کیا جاتا ہے۔ آٹا جو کہ ایک بنیادی غذا اور ضرورت ہے اسے سفید کرنے والے ایلوکسن سے پوری انسانیت کا نقصان ہو رہا ہے۔ یہ عمومی طور پر زہر دینے کے برابر ہے۔
ایلوکسن یورک ایسڈ کا Derivativeہے۔ یہ لبلبہ میں Blood-Cells کو Damage کرتا ہے۔ یہ ٹھوس طور پر ثابت ہوجاتا ہے کہ ایلوکسن ذیابیطس کرتا ہے جیسا کہ کولیسٹرول دل کی شریانوں کو تنگ کرتا ہے اور عارضہ قلب کا موجب ہوتا ہے۔
ذیابیطس دنیا میں ایک وباءکی طرح پھیل رہی ہے۔ اس میں کثرت سے کھانا‘ مرغن غذا کا استعمال‘ موٹاپا ‘ ورزش کا نہ ہونا بھی وجوہات میں شامل ہیں۔ یہ انسانیت پر کیمیائی جنگ ہے۔ یہ بیماری اکثر گھرانوں میں سرایت کر گئی ہے۔ انتہائی ضروری ہے کہ اس کا نوٹس لیا جائے۔ ڈاکٹر حضرات‘ سائنسدان خاص طور پر ارباب عقل و شعور اس معاملے کو سلجھائیں اور اس کا سد باب کریں۔ آٹے کی خوبصورتی ایک سفید موت بن گئی ہے۔ ذیابیطس سے بینائی دوران خون‘ گردے‘ قلب اور جگر متاثر ہوتا ہے۔ لوگ ڈایالسس پر آجاتے ہیں‘ بازور اور خاص طور پر ٹانگیں کٹ جاتی ہیں۔ یہ حس رکھنے والے حضرات کیلئے ایک امتحان ہے۔ آئیے ہم سب مل کر اس چیز سے سب انسانوں کو آگاہ کریں۔
خالص آٹے کا استعمال‘ سفید کرنے والے بلیچنگ ایجنٹ ایلوکسن سے بہتر ہے۔ آنتوں کیلئے خالص گیہوں کافی بہتر ہے ۔ اس سے کینسر کا بھی امکان کم ہو جاتا ہے۔ یہ Refined اور غیر فطری غذا ہم سب کیلئے مضر ہے۔ آئیے ہم سب صحتمند زندگی اور اپنی نسل کے تابناک مستقبل کیلئے کام کریں۔ ہمارے محکمہ زراعت و صحت کو ہنگامی طور پر اس کیلئے تحقیق کا انتظام کرنا چاہیے۔ کہیں یہ بے حسی ہم کو ڈس نہ لے اس لئے اس سے پہلے کہ مکافات عمل ہمیں گھیر لے اس سے بچاﺅ کیلئے سوچ‘ غور و فکر اور تحقیق لازمی ہے۔
پاﺅں دھوئیں ٹینشن سے نجات پائیں
عید کی خریداری کا موقع ہو یا شادی بیاہ کی تیاریاں ہو رہی ہوں۔ بازاروں میں پسند کی چیزیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے‘ دکانداروں سے مول بھاﺅ کرتے کرتے جب ہم گھر واپس آتے ہیں تو تھک کر نڈھال ہو جاتے ہیں۔ کبھی سردرد کی شکایت ہوتی ہے اور کبھی شدید اضمحلال طاری ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال سے نجات کیلئے ہم سوائے اسپرین کی گولیاں نگلنے کے اور کر بھی کیا سکتے ہیں لیکن چین میں ایسا نہیں ہوتا‘ وہاں کے لوگ خواہ وہ امیر ہوں یا غریب ‘جب زندگی کے ہنگاموں اور بھاگ دوڑ سے بہت زیادہ تھک جاتے ہیں اور سکون کے متلاشی ہوتی ہیں تو وہ ” پاﺅں دھونے والوں“ کے پاس چلے جاتے ہیں ۔ چین میں ذہنی یا جسمانی دباﺅ سے نجات کا یہ تیر بہدف علاج سمجھا جاتا ہے۔
اگر آپ کبھی چین جائیں اور وہاں کی مصروفیات سے اسٹریس محسوس کرنے لگیں تو ” فٹ واش“ (Foot Wash) کی کوئی دکان یا پارلر تلاش کریں۔ یہاں پاﺅں دھونے والا نوجوان آپ کے پاﺅں کو ہاتھوںمیں لے کر ہولے ہولے مساج کرے گا۔ گاہے بگاہے چھوٹی بادامی آنکھوں سے آپ کی طرف دیکھتے ہوئے آپ سے یہ بھی پوچھے گا کہ ” میری مالش سے آپ آرام محسوس کر رہے ہیں؟ زیادہ بھاری تو نہیں لگ رہا؟ بہت ہلکا تو نہیں ہے؟ “ پاﺅں دھونے کے بعد جب وہ اس پر مساج کے ساتھ مرہم ملتے ہوئے ہلکے ہاتھوں سے پاﺅں کو تھپتھپائے گا تو آپ کو ایسا لگے گا جیسے آپ ہر قسم کی ٹینشن سے نجات پا چکے ہیں۔ مساج کے دوران پاﺅں کے ایک حصے کو دبا کر وہ آپ کو یہ بھی بتا سکتا ہے کہ یہ پیٹ ہے اور ایڑی کی طرف دباﺅ ڈال کر اسے گردے کی جگہ قرار دے گا۔ غرضیکہ جسم کے تمام حصوں میں درد اور بے آرامی کا مداوا پاﺅں کی اس مالش میں پنہاں ہے۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ کے اس پر کیف تجربے سے آپ کے جسم کو اتنی راحت محسوس ہو گی کہ شاید وہاں سے اٹھنا بھی نہ چاہیں۔
پاﺅں دھونے کا یہ فن چین میں ایک انتہائی مقبول تفریحی سرگرمی سمجھی جاتی ہے ۔ دوسرے لوگوں کے پاﺅں دھو کر اور مساج کر کے روزی کمانے والے فٹ پاتھوں پر بھی مل جائیں گے اور فائیو اسٹار لگژری ہوٹلوں کے پارلرز میں بھی وہ دستیاب ہوتے ہیں لیکن چارجز میں اسی طرح کا فرق ہوتا ہے جس طرح ہمارے ہاں کے فٹ پاتھ پر بیٹھے حجاموں اور ایئر کنڈیشنڈ سیلو ن کے خوش پوش‘ مہذب ہیئر ڈریسرز کے معاوضے میں ہوتا ہے۔ ہوٹلوں میں ” فٹ واشنگ“ کے مخصوص کمرے ہوتے ہیں ۔ چینی خاتون لکڑی کے ایک تسلے میں گرم پانی لے کر آتی ہیں۔ جس میں خوشبو دار جڑی بوٹیاں بھی پڑی ہوتی ہیں اور کمرہ اس کی خوشبو سے معطر ہو رہا ہوتا ہے۔ پہلے وہ پاﺅں کو تسلے میں بھگوتی ہیں‘ اسے آہستہ آہستہ رگڑکر صاف کرتی ہیں‘ مختلف زاوئیے سے ہاتھوں میں لے کر دباتی ہیں اور اتنی یکسانیت کے ساتھ تھپتھپاتی اور سہلاتی ہیں کہ پاﺅں دھلوانے والے کو نیند آنے لگتی ہے۔ اس کمرے میں آنے والے مہمانوں کی جڑی بوٹیوں والی چائے سے تواضع بھی کی جاتی ہے۔
آج آپ کو جین کے ہر شہر میں XI‘YUکے اشتہارات والے نیون سائز نظر آئیں گے جو ” پاﺅں کی دھلائی“ کے چینی متبادل الفاظ ہیں۔ یہ نیون سائن اوربورڈز بوسیدہ تہہ خانوں کی کوٹھڑیوں اور کھوکھوں کے علاوہ پرائیویٹ میڈیکل کلینک کے اوپر بھی جگمگاتے نظر آتے ہیں۔ فٹ واشنگ کیلئے سینما گھروں کی طرح وسیع ہال بھی موجود ہیں جہاں آپ پاﺅں پر مساج کے ساتھ آرام کرسی پر بیٹھ کر تازہ ترین فلم سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔ پر تکلف جگہوں پر ڈیڑھ گھنٹے پاﺅں کی مالش اور دھلائی کیلئے پانچ سے دس پاﺅنڈ تک معاوضہ وصول کیا جاتا ہے اور سستی جگہوں پر ایک سے دو پاﺅنڈ میں کام ہو جاتا ہے ۔
چین میںپاﺅں دھو کر گز ربسر کرنیوالوں کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جو دور دراز کے پسماندہ دیہی علاقوں سے ہجرت کر کے شہروں میں اس امید کیساتھ آئے ہیں کہ یہاں اپنا معیار زندگی بلند کرینگے یا جن لوگوں کو اپنے پیچھے گھر چھوڑ کر آئے ہیں ان کیلئے پیٹ بھر نے کا سامان مہیا کرسکیں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں