ذیل میں اکابر صوفیا کے ارشادات کا انتخاب ان کے ملفوظات سے پیش کیا جاتا ہے۔
حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمتہ اللہ علیہ
بہترین عمل
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: ”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، کونسا عمل افضل ترین ہے؟“ فرمایا: ”صدقہ۔ کیونکہ وہ دوزخ اور صدقہ دینے والے کے درمیان حجاب بن کر حائل ہو جاتا ہے۔“ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے ایک بار پھر دریافت کیا: ”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، کونسا صدقہ افضل ترین ہے؟“ ارشاد ہوا: ”قرآن کی تدریس“ اس سلسلے میں عبداللہ ابن مبارک رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ستر برس تک ریاض و نفس کشی کی، مگر پتہ چلا کہ یہ ساری محنت و مشقت بیکار تھی۔بارگاہ الٰہی میں اس کی کچھ پذیرائی نہ ہوئی، نہ دل کے دروازے ہی کھلے، چنانچہ میں نے محنت و ریاض کو خیرباد کہا اور جو کچھ مال و متاع میرے پاس تھا سب اللہ کی راہ میں دے دیا۔ تب کہیں قرب ِدوست حاصل ہوا۔
فرمایا: ابراہیم بن ادھم رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب آثار اولیاءمیں لکھا ہے کہ ایک درہم صدقہ دینا ایک سال تک مسلسل روزے رکھنے اور شب ِبیداری کرنے سے بھی افضل ہے۔
کسب ِحلال
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس میں رونق افروز تھے۔ صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم چاند کے گرد ہالا کیے بیٹھے تھے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے پیشے کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ اچھا ہے یا برا؟“
”تم کیا کام کرتے ہو؟“۔ عرض کیا: ”درزی ہوں۔“
فرمایا : اگر تم دیانت و امانت سے کام کرو، تو یہ پیشہ ازحد بزرگ ہے، قیامت کے روز ادریس علیہ السلام کی معیت میں جنت میں جاﺅ گے۔“
ایک اور صحابی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرا پیشہ کیسا ہے؟“
فرمایا: ”تم کیا کرتے ہو؟“ عرض کیا: ”معمار ہوں۔“
ارشاد فرمایا: ”یہ پیشہ بڑا مبارک اور نفع بخش ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام یہی کام کرتے تھے۔ قیامت کے روز تم ان کے ساتھ جنت میں رہو گے۔“
ایک اور صحابی رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: ”حضور صلی اللہ علیہ وسلم ، میرے پیشے کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟“
فرمایا: ”تم کیا کرتے ہو؟“۔ عرض کیا: ”میں معلم ہوں۔“
ارشاد ہوا: ”تمہارا پیشہ اللہ کو بے حد پسند ہے، بشرطیکہ خلوص ِنیت کے ساتھ لوگوں کو پند و نصیحت کرتے رہو۔“ ایک اور صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : ”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، کچھ میرے پیشے کے متعلق بھی ارشاد فرمائیے۔“
دریافت کیا : ”تم کیا کام کرتے ہو؟“۔ ”سوداگری“۔
انہوں نے جواب دیا۔ ”ارشاد ہوا: اگر صدق و راستی سے کاروبار کرو گے تو قیامت کے روز جنت میں میری رفاقت نصیب ہوگی۔“ پھر ارشاد فرمایا ”محنت مشقت کرکے روٹی کمانے والا شخص اللہ کا دوست ہے۔ شرط یہ ہے کہ نماز کے وقت سستی نہ کرے۔ جونہی موذن پکارے فوراً مسجد میں پہنچ جائے اور حدود شریعت سے باہر ذرا بھی قدم نہ رکھے۔“
مرد ِمیدان
مرد ِمیدان وہ ہے جو نہ تو دنیا سے دل لگاتا ہے اور نہ اس کی خاطر دین کو چھوڑتا ہے۔ اگر دنیا سے اس کو کچھ ملتا ہے تو جمع کر کے نہیں رکھتا، بلکہ اللہ کی راہ میں لٹا دیتا ہے۔
حسد: حسد کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ اس سے بچنا چاہیے۔ بدترین حسد وہ ہے جو علما ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ دنیا داروں کا حسد تو ایک ناپائیدار شے ہے کہ وہ مال و متاع کی بنیاد پر کرتے ہیں جو خود ایک عارضی چیز ہے، لیکن علما کا حسد پائیدار ہے، کیونکہ علم ایک لازوال شے ہے۔
حرماں ِنصیب
تین طرح کے لوگ جنت میں نہیں جائیں گے۔ دروغ گو فقیر، مالداربخیل اور خائن سوداگر۔ جب درویش جھوٹ بولنے لگے، مالدار بخیل ہو جائیں اور تجارت کاروبار فریب بن جائے اس وقت حق تعالیٰ زمین سے برکت اٹھالے گا۔
قرب ِقیامت کے آثار
حدیث شریف میں ہے، آخری زمانے میں حکمران ظالم و جابر ہو جائیں گے۔ علماءعلم دین کو کاروبار بنا لیں گے۔ دنیا میں ایسا فتنہ رونما ہوگا کہ زمین اور پہاڑ تک اس سے متاثر ہوں گے۔ لوگوں پر ان کی زندگی تنگ ہو کر رہ جائے گی۔ پھر فرمایا: آخری زمانے میں حکمران ناجائز ،مالدار بخیل اور علما عاجز و درماندہ ہوں گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ دنیا سے برکت اٹھ جائے گی۔ شہر ویران ہو جائیں گے اور دین میں بگاڑ پیدا ہو جائے گا۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ
ظلم و جبر کا انجام
ایک بادشاہ تھا۔ ظالم و جابر، خلق خدا کو عذاب دیتا اور تیغ ِظلم سے ہلاک کرتا تھا۔ ایک مدت کے بعد لوگوں نے اسے بغداد میں مسجد کے دروازے پر خاک آلود، مضطرب اور خستہ حال کھڑے دیکھا۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور بدن پر چیتھڑے لٹک رہے تھے۔ ایک شخص نے اسے پہچان لیا۔ پوچھا: ”تم وہی بادشاہ ہو جو مکے میں خلق ِخدا پر ظلم ڈھایا کرتا تھا۔“ وہ بڑا شرمندہ ہوا اور کہنے لگا ”تم نے مجھے کیسے پہچانا؟“،”میں تمہیں اس روز سے جانتا ہوں جب تم بڑے ٹھاٹ باٹ سے رہتے اور بندگان ِخدا پر ظلم توڑا کرتے تھے۔“ اس نے جواب دیا۔ ”ہاں بھائی، میری بدبختی، وہی ظلم و ستم مجھے لے ڈوبا اور آج اس حال میں دیکھ رہے ہو۔“
نہی عن ِالمنکر
جن دنوں میں بغداد میں تھا۔ دجلہ کے کنارے ایک خانقاہ میں ایک بزرگ رہا کرتے تھے۔ ایک روز میں خانقاہ میں گیا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے اشارے سے سلام کا جواب دیا اور پھر اشارے ہی سے بیٹھ جانے کو کہا۔ میں تھوڑی دیر خاموش بیٹھا رہا۔ پھر وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:’ ’اے درویش“ میں یہاں پچاس برس سے خلوت گزیں ہوں۔ پہلے میں بھی تمہاری طرح سیر و سفر کا دلدادہ تھا۔ ایک روز میرا گزر ایک شہر میں ہوا۔ وہاں ایک دنیا دار آدمی رہتا تھا جو لوگوں کو لین دین کے معاملات میں بڑا تنگ کرتا تھا۔ میں نے اسے اپنی آنکھوں سے لوگوں پر دست ِتعدی دراز کرتے دیکھا لیکن اسے ٹوکنے کی بجائے میں چپ چاپ نکل گیا۔ یکایک ہاتف ِغیبی نے آواز دی: ”اے درویش! اگر تو اس دنیا دار سے کہتا کہ خدا سے ڈر اور اس کے بندوں پر ظلم نہ کر تو شاید وہ تیری بات مان لیتا اور جبر و ظلم سے باز آتا مگر تو نے سوچا کہ کہیں وہ دنیادار تجھے اپنی نگاہ لطف و کرم سے محروم نہ کردے۔“ وہ دن جاتا ہے اور آج کا دن میں نے اس خانقاہ سے باہر قدم نہیں رکھا۔ بس ہر وقت یہی فکر سوار رہتی ہے کہ کل قیامت کے روز جب مجھ سے ا س معاملے کی پرسش ہوگی تو میں کیا جواب دوں گا۔
صحبت کا اثر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اصحبة توثر۔ صحبت اثر کرتی ہے۔ خدا کے نیک بندوں کی صحبت انسان کو نیک بنا دیتی ہے اور برے لوگوں کا ساتھ برا بنا دیتا ہے۔ پھر فرمایا: ”نیک صحبت، نیک کام سے بہتر ہے اور بری صحبت برے کام سے کہیں بدتر۔
موت
موت ایک ایسا پل ہے جو دوست کو دوست تک پہنچاتا ہے۔ دوستی یہ ہے کہ آدمی دوست کو زبان سے نہیں دل سے یاد رکھے اور دوست کے سوا سب کی باتیں ترک کر دے۔ فرمایا: ”دل کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ وہ عشق کے گرد گھومے اور طواف کرے۔“ اور وہ عشق صرف اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو۔
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 975
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں