ہفتہ وار درس سے اقتباس
میرے عزیزو! اگر ہم یہ طے کرلیں اور یہ فیصلہ کرلیں کہ یا اﷲ! تیرے نام کی لذت کو پاناہے جو قبر میں کام آئے گئی ،جو موت کے وقت کام آئے گی، جو حشر میں کا م آئے گی۔ دنیا کی ساری ڈگریا ں اس زندگی میں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔میں قبرستان جاتا ہوں تومیانی صاحب سے آگے چوک آتا ہے وہاںبائیں ہاتھ پر ایک قبر ہے۔ اس قبر پہ بہت بڑ ا کتبہ لگا ہوا ہے ۔اوپر سے لے کر نیچے تک ساری ڈگریاں لکھی ہوئی ہیں۔ آپ اوپر سے پڑھتے چلے جائیں جب نیچے پہنچیں گے تو ایک لفظ لکھا ہو اہے ”تاریخ وفات“.... وہاں ساری داستان ختم ہوگئی ۔ اﷲکے ہاں کونسی ڈگری چلے گی؟ یہ میاں چنو ں کا واقعہ ہے ۔بائیسو یں گریڈ کا ایک افسر تھا، اس کا بیٹا سبزی لینے گیا۔سبزی والے نے بیٹے سے کچھ اونچی نیچی بات کرلی۔وہ بیٹے کو ساتھ لے کے سبزی والے کے پاس گیا۔غصے میں بھراہو اتھا ۔سبزی والے نے توتکرار کی تو اس نے کہا:تو نہیں جانتا میں بائیسویں گریڈ کا آدمی ہوں ۔سبزی والا ہنس پڑا اور کہا بائیس کریٹ تو میرا بیٹا بھی ٹماٹر کے بیچ لیتا ہے ۔تو ہم سے کیا بڑا ہوا ۔اس سبزی والے کو کیا پتہ بائیسویں گریڈ کا ۔ اب وہ افسرمنہ دیکھے ۔کسی کہنے والے نے کہا جس طرح سبزی والے کے سامنے گریڈ کی کوئی حیثیت نہیں ۔اسی طرح اﷲکے ہاں دنیاوی گریڈ کی کوئی حیثیت نہیں ۔اﷲ کے ہاں تو اس شخص کی حیثیت ہے جس کے با ل گھنگریالے ہیں ،جس کا جسم کالاحبشی جیسا لیکن اس کا دل منور ہے۔ اس کو بلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ جس کو دنیا نہیں جانتی تھی،بے حیثیت سا شخص تھا لیکن عرش کے فرشتے جانتے ہیں اور عرش پر اور جنت میں اس کے پاﺅں کی چاپ سنی جارہی ہے ۔دنیا میں بے حیثیت ہے مگرکوئی نہیں جانتا ،اﷲ جل شانہ ،کے ہاں اس کی حیثیت کیا ہے۔وہ صرف (اﷲ)جانتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ایران کی فتح میں مال غنیمت آیا ،بہت قیمتی ہیرے آئے ،ایک قالین تقریباً دو ایکٹر کا تھا ۔اسکی ایک بالشت جب کاٹی گئی تو اس دور میں وہ پچیس ہزار درہم کی تھی، اسکا موازنہ آج کے دورسے کرو تو لاکھوں روپے کا بنے گا۔ انتیس من کا تخت تھا اور تیرہ کلو کا تاج تھا جو ا س تخت کے اوپر لٹکتا تھا جس کے نیچے بادشاہ بیٹھتا تھا۔اس انتیس من سونے کے تخت کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے کلہاڑوں سے کاٹا تھا اور محدثین نے لکھا ہے تیرہ کلو کا تاج ایک کمزور سا آدمی ،ایسے گھسیٹ کے لے جارہا تھا جس طرح مردار جانور یا اتری ہوئی کھال کو۔ جب یہ سارا سامان مسجد نبوی میں ڈھیر ہو ا توحضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر چیز کو اٹھاتے اور پوچھتے تھے کہ یہ کون لایا یہ کو ن لایا؟کچھ بہت قیمتی جوہرات تھے۔ انکے بار ے میں پوچھا کہ یہ کون لایا تو خاموشی رہی پھر پوچھا کون لایا؟۔پھر خاموشی رہی۔پھر پوچھا،پھر خود ہی جواب دیا کہ عمر رضی اللہ عنہ تیرے جاننے یا نہ جاننے سے کیا ہوگا ۔وہ اﷲ تو جانتا ہے ۔معلوم یہ ہوا کہ وہ شخص اپنا آپ ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔ مگر وہ رب خوب جانتا ہے ۔اس شخص کی اﷲ کے ہاں کیا قیمت ہے؟ ایک اﷲ والے کو دیکھا۔ وہ آنکھیں بند کرکے وعظ کرتے تھے اور دعا کرکے پھر آنکھیں کھولتے تھے اور پھر چلے جاتے تھے ۔کسی نے پوچھا کہ حضرت آنکھیں بند کرکے کوں درس دیتے ہیں فرمایا میں چاہتا ہوں کہ کسی مسلمان کی حقارت میرے دل میں نہ آئے کہ میں انسان بہت کم دیکھتا ہوں، اس کے علاوہ بہت کچھ دیکھتا ہوں۔ قرآن خود کہتا ہے وہ جانورنہیں بلکہ اس سے بد تر ہو جاتے ہیں۔ جب وہ ایمان اور اعمال کی زندگی کے تعلق کو چھوڑتے ہیں ۔میرے محترم دوستو! اس کے نام کے تعلق کو حاصل کریں، جو محنت تنہائوں میں ہوتی ہے وہ جلوتوں میں نہیں ہوسکتی ۔فرمایا: انہی تنہائوں میںآدمی جرائم کرتا ہے اور انہی تنہائوں میں آدمی اﷲ جل شانہ، کا قرب اتنا حاصل کر لیتا ہے کہ فرشتے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور انہی تنہائوں میں اتنی دوری حاصل کرسکتا ہے کہ شےطان بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔اور رات کی تنہائیاں اور رات کے اندھیرے اور اﷲ جل شانہ کانام لینا،اﷲ کے سامنے زاری کرنا کیا لطف دیتا ہے۔سردوں کی راتوں میں تو اﷲ والے خوش ہوتے تھے کہ واہ واہ اب اﷲکے نام کے مزے لوٹیں گے ۔حضرت رابعہ بصریہ رحمتہ اللہ سے کسی نے وصال کے بعد خواب میں پوچھا کہ اﷲ کی بندی کیا بنا۔ کہاکچھ کا م نہیں آیا بس اندھیروں کی عبادات کام آگئیں۔ رات کے آخری پہر کی تنہائیاں بڑی کام آئیں۔
سلسلہ کے کچھ احباب کراچی میںایم ۔بی ۔بی۔ایس کا امتحان دے رہے تھے ۔میں نے ایک جوان سے کہا عامر تو موٹا ہوگیا ہے۔کہنے لگا جی بیٹھ بیٹھ کر رات کو جاگ جاگ کر۔کہنے لگا واک کروں گا تو ٹھیک ہوجاﺅں گا۔ ساری رات جاگتا ہو ں کیونکہ امتحان ہیں۔میںنے کہا بھئی واقعی کسی بھی کمال تک پہنچنے کے لئے رات کو جاگنا ضروری ہے۔ دنیا کا کمال ہو یا رب تک پہنچنے کا کمال ہو ۔رات کو جاگے بغیر تو کوئی کمال ملتا ہی نہیں۔ ایک صاحب کہنے لگے چائے لگ گئی ہے اس لئے کہ میں پڑھتاتھا اور تیز چائے پیتا تھا کہ مجھے نیند نہ آئے اور بس پھر چائے لگ گئی ۔اب اس کا عادی بن گیا ہوں۔کبھی ہم میں سے کسی نے یہ بھی کہا کہ میں چائے اس لئے پیتارہا کہ مجھے نیند نہ آئے اور رب کے سامنے آہ وزاری کرتا رہوں ۔ایک صاحب میرے پاس آئے کہنے لگے کہ میں نے پہلے نیند نہ آنے کی دوائی لی کونکہ میرا دفتری حساب کتاب اٹکا ہو ا تھا۔ بہت سارا مال آیا ہوا تھا اورمیں نے اس کو لگانا تھا، بہت کام کرنا تھا ۔تین دن تین راتیں مسلسل میں کوشش کرتارہا اور محنت کرتا رہا اور کام میرا ہو گیا ۔اس کے بعد نیند آئی ہی نہیں، میں نے سونے کی کوشش بھی کی۔پھر ایک دم میں نے نیند لانے کی دوائی لی اور میرا سارا انتظام بگڑ گیا ۔یہ مثالیں دینے کی کوشش اس لئے کررہا ہوں کہ دنیا کے نظام کوپانے کیلئے،دنیا کی ترقی اور عارضی ترقی کو حاصل کرنے کیلئے تاجر کتنی کوشش کرتاہے، زمیندار کتنی کوشش کرتا ہے، دکاندار کتنی کوشش کرتا ہے، صنعتکار کتنی کوشش کرتا ہے اور اﷲ جل شانہ، کی محبت اور اﷲکا تعلق پانے کیلئے ہم کتنی کوشش کرتے ہیں؟ہر آدمی اپنے گریبان میں خود جھانکے۔اس دنیا کو چھوڑ کر میں نے ہمےشہ کیلئے چلے جاناہے اور نشان ہی ختم ہوجائے گا،داستان ہی ختم ہوجائے گی ۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں