روزگار کیلئے بیرون ممالک جانے والے تین مسائل میں مبتلا
گزشتہ تیس سال سے زیادہ عرصہ گزرا ہے مخلوق خدا کے مسائل سن رہا ہوں‘ دکھ، تکالیف، مشکلات، الجھنیں مسلسل میرے کانوں میں‘ گفتگو کے ذریعے‘ فون کے ذریعے اور نظروں میں خطوط کے ذریعے اور اس کے علاوہ بے شمار ملاقاتوں کی صورت میںیہ مسائل سامنے آتے ہیں۔ آج تک مجھے ایسے لوگ بہت کم ملے ہیں جو بیرون ملک گئے‘ کسی کو دس سال‘ کسی کو چالیس سال اور کسی کی تیسری یا چوتھی نسلیں ان میں اکثریت سے بھی زیادہ اکثریت ایسے لوگوں کی ملی ہے کہ جو تین مسائل میں مبتلا ہیں۔
پہلا نقصان:پہلا نقصان اولاد کا‘ اولاد ہاتھ سے نکل گئی اور اولاد کے لیے جتنا سوچا تھا‘ جتنا کمایا تھا‘ جتنی جان ماری تھی اور جتنی محنت کی تھی‘ وہ سب کچھ ختم یا تو تنہا زندگی گزار رہے ہیں یا پھر ایسی زندگی جس میں اولاد کی اپنی راہیں ہیں اور والدین کی اپنی راہیں۔
دوسرا نقصان:دوسرا نقصان جو سب سے بڑا ہوا کہ میاں بیوی کی آپس میں کبھی نہ بن سکی اور چند فیصد خاندان ہیں جو محبت اور پیار سے رہ رہے ہیں‘ باقی گھر ٹوٹ گئے‘ شوہر کی زندگی علیحدہ‘ بیوی کی زندگی جدا‘ اور شوہر اپنا علیحدہ محنت مزدوری جاب کام کرکے دن رات طےکررہا اور بیوی علیحدہ۔
تیسرا نقصان: اس معاشی مسئلے کا ہوا جس کی چمک انہیں وہاں لے گئی تھی‘ وہاں کی کرنسی‘ وہاں کا مال‘ وہاں کا طرز زندگی‘ لیکن جب معلومات ہوئی‘ پتہ چلا یا تو ساری زندگی مکان کا قرض دیتے دیتے بڑھاپے میں پہنچ گئے یا پھر جتنا کمایا کھالیا‘ ادھر اپنے وطن میں جب وہ کبھی کبھار آتے بھی ہیں تو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید ان کے پاس مال بہت زیادہ ہوگا اس تیس سالہ تجربہ میں میں نے صرف بیرون ملک جانے والوں کو پانچ فیصد مالدار دیکھا ہے اس کے علاوہ بس سفید پوشی کا بھرم ہے جو کہ نظام چل رہا ہے۔
بڑوں سے سنا تھا برکت بھی کوئی چیز ہوتی ہے؟
قارئین! ایسا کیوں ہے؟ اور اس کی وجہ کیا ہے؟ بڑوں سے شروع سے ایک لفظ سنا تھا کہ برکت کوئی چیز ہوتی ہے؟ اور یہ برکت وہ آسمانی تقسیم ہے جو نصیب اور قسمت والے کو ملتی ہے اور ہر اس شخص کو ملتی ہے جو اعمال نبویﷺ کو اپنے سینے سے لگائے اور اس کو یہ بہت زیادہ ملتی ہے۔ برکت ایک نعمت ہے اور ایک عطا ءہے جو عرشوں سے اتر کر فرشوں پر رنگ بکھیر دیتی ہے۔
جو اولاد اور بیوی کو چھوڑ کر بیرون ملک گئے! ان کا کیا بنا؟
میں نے بارہا اپنے ہر ملاقاتی سے پوچھا کہ اتنا کماتے ہیں کہاں جاتا ہے؟ اور اتنی محنت کرتے ہیں بیوی بھی‘ اولاد بھی‘ خود بھی‘ ہر فرد گھر کا کام کررہا‘ محنت کررہا‘ جاب اور مزدوری کررہا اور حاصل کچھ نہیں۔ میرے تین نکات جو میں نے عرض کیے ہیں یعنی اولاد، میاں بیوی کی زندگی، اور معاشی مسئلہ۔ ان نکات کو آپ ذرا کبھی غور سے پہچانیے گا‘ دیکھئے گا تو آپ کو احساس ہوگا کہ میری باتیں شاید حقیقت کے بہت قریب ہیں۔ آج سے پہلے آپ نے بہت غور کیا تھا لیکن اب ذرا مزید غور کیجئے۔ بیرون ملک جانے والے کتنے فیصد ایسے ہیں جو اولاد اور بیوی کو چھوڑ کر گئے‘ ان کا کیا بنا؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے‘ جس کا جواب میں آپ پر چھوڑ رہا ہوں! انہوں نے جو مال بھیجا کتنا بچا؟ کتنالگا؟ اور کتنا برباد ہوا؟ اولاد کے اخلاق‘ کردار اور تربیت کا کیا بنا؟ بیوی شوہر کے ہوتے ہوئے بیوگی کی زندگی گزار رہی انجام کیا ہوا؟ یا پھر وہ خاندان جو اکٹھے بیرون ملک زندگی کا سفر طے کررہے تھے ان کی نسلوں کا کیابنا؟
اپنے وطن میں برکت‘ سکون اور نسلوں کی ترقی دیکھی ہے!
قارئین! میرا وطن کتنا عظیم ہے اس میں لاکھ کمیاں ہزار کوتاہیاں لیکن میں نے اپنے وطن میں برکت بھی دیکھی ہے‘ سکون بھی دیکھا ہے‘ اور اگر نسلوں پر توجہ کرلی جائے تو نسلوں کی پروان اور ترقی بھی دیکھی ہے اور نسلوں کے ساتھ ماں باپ کا رہنا بھی دیکھا ہے۔ قرآن پاک کی ایک آیت ہے وَ بَنِیْنَ شُہُوْدًا(مدثر13) کبھی اس کے معنی میں ڈوب جائیں ‘ اس کے اندر یہی ہے کہ وہ اولاد جو بڑھاپے میں کام آئے اور بڑھاپے میں ساتھی بنے۔
میرے سامنے کا واقعہ ہے کہ والد ستانوے سال کی عمر میں ڈرائیور کے رحم و کرم پر تھا‘ تقریباً پانچ کنال کا بنگلہ تھا ایک بیٹا کینیڈا اور ایک بیٹا انگلینڈ‘ حتیٰ کہ بیٹے اپنی نوکری سے ریٹائرڈ ہوگئے اور باپ ستانوے سال کی عمر لے کر مرا لیکن ڈرائیور کے رحم و کرم پر۔ کیا اپنے اور اپنی نسلوں کے درمیان ہم اتنا فاصلہ چاہتےہیں کہ نسلوں کو کبھی کبھی دیکھ سکیں اور پھر نسلیں اسی طرح لاحاصل زندگی گزار کر جوان ہوجائیں اور ہم بوڑھے ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوجائیں۔
آئیے! عہد کریں نسلوں کو وقت ‘ محبت اور پیار دیں
آئیے! عہد کریں اپنی نسلوں کووقت دیں اور اپنے جوانوں کو محبت اور پیار کا وقت لیکن ایک خاص بات ہے جب وقت دیں تو اس وقت اپنے بلڈپریشر کا بٹن اپنے ہاتھ میں رکھیں کیونکہ بچوں کی لاابالی کیفیت اور جوانوں کا الہڑ پن کہیں آپ کو غصہ نہ دلا دے صبر‘ تحمل‘ بردباری کے ساتھ اپنی نسلوں کاساتھ دینا بھی ہے اورپھر لینا بھی ہے اور آپ اپنے وطن میں رہیں تھوڑا ملے‘ سوکھا ملے روکھا ملے کوئی حرج نہیں محنت کریں محنت کا میدان بہت(باقی صفحہ نمبر 52 پر)
(بقیہ: بیرون ملک ہجرت کرنے والوں کا المیہ)
وسیع ہے۔ محنت کرنے والا ہمیشہ پاتا ہے اور میں بھی اور آپ بھی فیصلہ کریں ہم اپنی اس محنت میں غرباء کو بھی شامل کریں گے اور اپنے رزق کا کچھ فیصد نکال کر ایسے لوگوں کو ضرور دیں گے جو سوال نہیں کرتے کیونکہ گلی محلے میں سوال کرنے والے اپنا گھر پورا کرلیتے ہیں بلکہ گھر کے بعد بینک بھی پورا کرلیتے ہیں اور وہ سفید پوش جو سوال نہیں کرسکتے شرم حیا بھرم ہمیشہ رہتے ہیں ان کو ہم نے پیش نظر رکھنا ہے ہماری زندگی میں اگر سکون اور راحت آئے گی تو میرے وطن میں ہی آئے گی۔ اس کی قدر کریں۔ کہیں مال و دولت اور چمک دار سڑکیں اور راستے ہماری نسلیں ہم سے نہ چھین لے۔ میاں بیوی کو ایک دوسرے سے نہ چھین لے اور سدا کا منگتا اور خالی نہ کردے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں