خوشیوں سے بھی محروم
مجھے بچوں کے بغیر زندگی ادھوری لگتی ہے ۔ میرے شوہر کو پرواہ نہیں مگر میںچاہتی ہوں ۔ شادی کو دس سال ہو چکے ہیں۔ اپنے بھائی کی بیٹی کوگودلینا چاہتی ہوں تو شوہر انکار کر دیتے ہیں۔ وہ اپنے بھائی کا بچہ گود لینا چاہتے ہیں تو میں انکار کر دیتی ہوں۔ اس کشمکش میں وقت گزرتا جا رہا ہے۔ در اصل اب میرے شوہر بہت زیادہ مذہبی ہو گئے ہیں۔ بچے کے بڑے ہونے کے بعد محرم اور نا محرم کے حوالے سے فکر کرتے ہیں۔ میری ان کیساتھ ذہنی ہم آہنگی نہیں وہ زندگی کی بڑی تو کیا چھوٹی خوشیوں سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔ (غزالہ نعیم، گوجرانوالہ)
جواب:خوشیوںکو محسوس نہ کرنے والا رویہ درست نہیں ہوتا۔ اس کےلئے انہیں سمجھنے کی ضرور ت ہے۔ مذہب سے قریب ہونے والے لوگ تو خوشیوں اور سکون سے زیادہ قریب نظر آ سکتے ہیں اور شریک حیات سے بھی ذہنی ہم آہنگی ممکن ہے۔ آپ کے شوہر کے مزاج میں تبدیلی کی وجہ مذہب سے قربت نہیں کوئی اور بات ہو گی۔ آپ ہی اپنی سوچ کو بدلیں۔ بچے سب پیارے ہوتے ہیں۔ اختلاف رائے نہ رکھتے ہوئے شوہر کے رشتے داروں میں سے ہی کوئی بچہ لے لیںتاکہ وہ بھی اس پر مکمل توجہ دے سکیں اور بچے کے گھر میں آنے سے ہی آپ لوگوںمیں ذہنی ہم آہنگی ہو جائے۔
کیا کروں
میرے شوہر نے مجھے تنہا چھوڑ دیا ہے ۔ اس وقت مجھے ا ن کے ساتھ کی ضرورت تھی۔ بچوں کو بھی میرے پاس ہی چھوڑ گئے ‘ پھر میں نفسیاتی مریضہ ہو گئی۔ بھائیوں نے علاج کروایا۔ شوہر نے یکے بعد دیگرے تین شادیاں کیں جو ناکام ہوگئیں۔ میں بیمار ہوئی تو بچے بھی ان کے پاس چلے گئے۔ اس وقت میری عمر 35 سال ہے ۔ میری بہت اچھی دوست اپنے بھائی سے میری شادی کرنا چاہتی ہے۔ اس کا بھائی بھی نفسیاتی مریض ہے۔ میں نے اس کے بارے میں سوچا تو مجھے ڈر لگنے لگا ۔ ایک مشکل سے نکل کر دوسری مشکل میں نہ پھنس جاﺅں اور پھر شاید بچے بھی نہ ملیں۔ (صفیہ....لاڑکانہ)
جواب:زیادہ تر نفسیاتی مریض جلد ٹھیک نہیں ہوتے۔ صبر و تحمل سے طویل عرصے تک علاج کروانا پڑتا ہے اور ان امراض کا شکار لوگوں کی شادیاں ناکام ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ آپ اپنے معالج سے مشورہ کر لیں اور جن صاحب سے شادی کی بات چل رہی ہے۔ ان کے مرض کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرنی ضروری ہے کہ وہ شدید مریض ہیں یا معمولی بیمارہیں۔ تنہائی میں جو کچھ بھی سوچاہے اس پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔
محبت کی شادی کا نتیجہ
میں نے والدین کی مرضی کے خلاف اپنی ضد پر شادی کی۔ لڑکی زیادہ رضا مند نہیں تھی ‘ وہ بھی میرے اصرار کرنے پر راضی ہوئی۔ اس کے گھر والے بھی مجھے پسند نہیں کرتے تھے۔ میری اتنی آمدن نہیں کہ اسے الگ گھر میں رکھوں۔ اب سب کے ساتھ رہنے میں مسائل ہو رہے ہیں۔ وہ بہت آزاد خیال ہے جبکہ میرے گھر کی خواتین سخت پردہ کرتی ہیں اور میری بیوی کی آزاد خیالی پر اسے باتیں سناتی ہیں۔ وہ کہتی ہے تم نے ضد میں مجھ سے شادی کی۔ میں بھی اب تمہارے گھر والوں کے کہنے پر نہیں چل سکتی۔ اس نے ماسٹرز کیا ہوا ہے ۔ جاب کرنا چاہتی ہے‘ اس پر گھر والوں کو اعتراض ہے۔ بتا نہیں سکتا کہ کس قدر مسائل میں گھرا ہوا ہوں اور یہ مسائل اب نفسیاتی رنگ اختیار کر گئے ہیں۔( ندیم مغل.... کراچی)
جواب: بہت زیادہ آزاد خیالی یا بے جا پابندیوں میں رہنا‘ دونوں روئیے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ آپ نے ضد کا ذکر کیا ہے تو شادی جو عمر بھر کا ساتھ ہے‘ اس میں ضد کی گئی ‘ اس رشتے کےلئے خلوص اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے اور یقینا آپ لوگوں میں محبت ہو گی کیونکہ ساتھ رہ رہے ہیں۔ اس سے قبل کہ آپس کے اختلافات بڑھ کر مشکلات کا سبب بنیں ۔ گھر والوں کو سمجھائیں کہ وہ آپ کی بیوی پر پابندیاں نہ لگائیں۔ اس کے رویئے میں اچھی تبدیلی چاہتے ہیں تو اپنے اخلاق اور کردار سے متاثر کریں۔ اگر کوئی کسی سے متاثر ہو کر اپنے رویئے میں اچھی تبدیلی لاتا ہے تو وہ مستقل ہوتی ہے لیکن زبردستی تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے تو وہ عارضی ہوتی ہے۔ اگر آپ کی بیوی جاب کرنا چاہتی ہیں تو انہیں اجازت دینے میں کوئی حرج نہیں۔ آپ انہیں ان کے حقوق دیں‘ آپکے گھر والوں کی طرف سے غیر ضروری مداخلت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ وہ آپ کی بات ماننے کی پابند ہے۔
دماغ کا خلل
میں نے کسی سے عشق کیااور اسے حاصل بھی کر لیا۔ کافی وقت ہم نے ساتھ گزارا۔ اب وہ اپنے ایک پرانے دوست سے ملنے لگی‘ تب میرا دم گھٹتا ہے‘ حسد ہوتا ہے۔ میں ملنا چھوڑ دیتا ہوں تو وہ مجھ سے معافی مانگتی ہے۔ معاف کر دوں تو کچھ عرصہ تو معاملات ٹھیک چلتے ہیں مگر پھر وہی پرانی ملاقاتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ تین مرتبہ معاف کر چکا ہوں‘ اب یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیا اسے مجھ سے محبت ہے؟ (ذ۔ع‘ کراچی)
جواب: حاصل کر لینے سے آپ کا کیا مطلب ہے‘ یہ واضح نہ ہو سکا۔ محبت کے بعد شادی کرلینا حاصل کر لینا ہوتا ہے ۔ آپ کا خط واضح نہیں‘ بہر حال اگر آپ لوگوں کے درمیان دوستی ہے تو غلط ہے۔ آپ کسی سے عشق کرتے ہیں‘ وہ کسی سے ملے تو حسد کا شکار ہو جائیں گے۔ آپ کو اسے روکنے کا حق نہ ہو اور بار بار روکیں‘ معافیاں مانگی جائیں اور نتیجہ پھر بھی کچھ حاصل نہ ہو تو یہ دماغ کا خلل ہی ہوا۔ زندگی گزارنے کا وہی انداز بہتر ہے جو اسلام نے ہمیں دیا ہے۔ اس سے دور ہونگے تو پریشان ہوجائینگے۔
خوشی کی بجائے مایوسی
میری بہن کا بچہ تین سال کا ہونے کے باوجود چل نہیں سکتا‘ پتہ نہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ ہم لوگوں نے بہت غور کیا‘ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ گاﺅںمیں رہتی ہیں‘ آج کل ہم سے ملنے آئی ہیں تو ہم بجائے خوش ہونے کے افسردہ ہو گئے ہیں کہ اس کے ہاں پانچ سال بعد بیٹا ہوا اور وہ بھی کمزور۔ بہن کو جیسے ہی اس کی کمزوری کا احساس ہوتا ہے وہ رونے لگتی ہے۔( بشریٰ‘لاہور)
جواب:بہن کو بچے کی کمزوری کا احساس دلانے کی بجائے بچے کو کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھائیں۔ بیماری کا صرف سبب معلوم کر لینے سے آرام نہیں آئیگا بلکہ بچے کو تو ٹانگوں کی کمزوری کے علاوہ دماغ کی کمزوری کا مسئلہ لگتا ہے۔ اس کا مکمل طبی معائنہ کروانے کی ضرورت ہے۔ معالج وجہ سمجھ کر آپ کو بھی بتا دیں گے اور علاج کے بارے میں بھی آگہی ہو جائے گی اور یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ بچہ کتنی عمر تک چلنے کے قابل ہو گا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں