Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

ازدواجی خوشیاں اور گھریلو خوشگواریاں (دین محمد، اوکاڑہ)

ماہنامہ عبقری - اگست 2009ء

ازدواجی امور کے مشہور مغربی ماہر پال پیرسن نے ایک جگہ لکھا ہے۔ میں گزشتہ پچیس برسوں سے پیشہ ورانہ ازدواجی معالج کے طور پر کام کر رہا ہوں۔ ان طویل برسوں کے دوران میر اپالا سینکڑوں ایسے افراد سے پڑا ہے جو اپنے ازدواجی تعلق سے مایوس ہو چکے تھے۔ ان کی ازدواجی زندگی بوجھ بن گئی تھی۔ اگر وہ بوجھ نہ تھی تو بور اور مایوس کرنے والی ضرور تھی۔ اس میں کوئی کشش‘ کوئی ولولہ اور کوئی چاہت باقی نہ رہی تھی۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جذبے کیسے زہر بن جاتے ہیں۔ ایسے افراد سے مل کر مجھے ہمیشہ دکھ ہوتا ہے۔ محبت سے محرومی واقعی رنج دینے والی بات ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو محبت کھو دیتے ہیں یا پھر ہمیشہ اس سے محروم ہی چلے آتے ہیں۔ اپنا دکھ بھرا قصہ مجھے سناتے ہوئے ایک خاتون نے خاتمہ اس جملے پر کیا” ہم ایک دوسرے کو ٹوٹ کر چاہتے تھے۔ خدا جانے اب کیا ہو گیا ہے“ ۔ ایک اور فرد کا کہنا تھا ” ہر رات خدا جانے اس قدر تنہائی کیوں محسوس کرتا ہوں حالانکہ وہ ” میری بیوی“ میرے پہلو میں ہوتی ہے۔ آخر شادی اس قدر بے معنی کیوں ہو گئی ہے۔ ازدواجی زندگی بھرپور کیوں نہیں ہو سکتی؟“ خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ ازدواجی زندگی بھرپور ہو سکتی ہے۔ ایک بار مجھے ایک جوڑے کی ساٹھ سالہ سالگرہ کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ وہ دونوں واقعی خوش نصیب افراد تھے۔ طویل رفاقت کے باوجود وہ خوش باش دن گزار رہے تھے۔ میاں صاحب سے میں نے پوچھا ” کبھی آپ تنہائی کا شکار ہوئے ہیں؟ کبھی آپ کو خیال آیا ہے کہ آپ کی اور آپ کی بیگم کی محبتیں وہ نہیں رہیں جو کبھی ہوا کرتی تھیں؟“ میرے سوال سن کر بڑے میاںہنسنے لگے انہوں نے کہا کہ ” اگر پرانی محبتوں کے ولولے باقی نہ رہیں‘ رشتے اگر کمزور پڑنے لگیں تو کبھی سوچا ہے کہ ذمہ دار کون ہوتا ہے؟ ہم ہوتے ہیں ! ہاں ہم ہی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ محبت کی جان کسی طوطے میں نہیں ہوتی یہ میرے اور دوسرے کے تعلق کا نام ہے۔ تو پھر رشتہ کمزور پڑ جائے اور محبت باقی نہ رہے تو ذمہ دار بھی ہم ہی ہوئے “۔ مجھے معلوم ہے کہ ہم ٹوٹ کر ‘ شدت سے اور دل کی گہرائیوں سے محبت کر سکتے ہیں۔ ہم کبھی نہ ختم ہونے والی محبتوں کے اہل ہیں۔ میں نے ایسی محبتیں دیکھی ہیں تو آئیے یہاں ہم ایسی گہری اور پائیدار محبتوں کے اصول درج کریں۔ بہت سے لوگوں کےلئے وہ مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ -1شریک حیات کووقت دیجئے خوش گوار ازدواجی زندگی کی بنیادی ضرورتوں اور تقاضوں میں سے ایک یہ ہے کہ زوجین ‘ میاں بیوی سب سے پہلے ایک دوسرے کےلئے وقت نکالیں۔ایک دوسرے کےلئے وقت کو وہ اپنی پہلی ترجیحات میں شامل کریں۔ جدید تہذیب میں ہر کوئی اپنے آپ میں مگن ہو گیا ہے۔ ہر کوئی نفسا نفسی میں مبتلا ہو گیا ہے۔ ہر کوئی اپنا گھر بھرنے لگا ہے۔ رشتے ناطے پیچھے چلے گئے ہیں۔ اجتماعی گھر کا کسی کو خیال نہیں رہا۔ اپنی خودی‘ اپنی ذات ‘ اپنی خواہشیں اور اپنے مفادات ہر ایک کا مطمع نظر بن گئے ہیں لیکن صحت مند تہذیبی نشو ونما اور رشتوں ناطوں کی طرح پائیدار محبت اور خوش گوار ازدواجی زندگی کےلئے خود پرستی پر‘ اپنے آپ تک محدود رہنے کی عادت پر قابو پانا لازم ہے۔ اس لئے ” میں“ کے بجائے ” ہم “ کی اصطلاح میں سوچنا اور عمل کرنا پڑتا ہے اور جہاں محبتیں ہیں وہاں وقت دینا پڑتا ہے۔ کئی جوڑوں نے اکٹھے گزارے جانے والے وقت کی قدر کرنے کا درس کسی نہ کسی المناک واقعہ سے حاصل کیا ہے۔ ایک شوہر نے اپنا قصہ مجھے بھی سنایا تھا وہ کہتا ہے کہ ”میں حادثے کے بعد ہسپتال کے کمرے میں پڑا تھا۔ بیوی کو اندر آنے کی اجازت نہ تھی مگر میں اس کو کھڑکی کے شیشے سے دیکھ رہا تھا۔ وہ مسلسل روئے جارہی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں اس محبت کرنے والی بیوی کے ساتھ کافی وقت گزارے بغیر ہی اس دنیا سے رخصت ہو جاﺅں گا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب میں نے خود سے عہد کیا کہ میں صحت مند ہو کر گھر واپس گیا تو اپنا چلن بدلوںگا۔ سب سے پہلے میں اپنی بیوی کےلئے وقت نکالا کروں گا۔ اس وعدے کو دس سال بیت چکے ہیں مگر میرے معمول میں فرق نہیں آیا۔ ہم دونوں روزانہ اکٹھا وقت گزارتے ہیں۔ آپ کو نتیجہ بتاﺅں؟ نتیجہ یہ ہے کہ ہماری ازدواجی زندگی مثالی حد تک خوشگوار ہے۔ دوست احباب ہم پر رشک کرتے ہیں۔ ہم دونوں میں سے کسی کو ایک پل کےلئے بھی کبھی تنہائی کا احساس نہیں ہوا اور نہ ہمیں شکوہ ہے کہ پرانی محبتیں باقی نہیں رہیں۔ 2۔ مشکل وقت پر اکٹھے ہو جائیے پال پیرسن نے ایک واقعہ لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ شام کا وقت تھا اور ایک جوڑا اپنے ازدواجی مسائل پر رہنمائی حاصل کرنے کےلئے میرے دفتر آیا ہوا تھا۔ واپس جانے کےلئے جونہی وہ میاں بیوی باہر نکلے تو پستول چلنے کی آواز سنائی دی۔ میں فوراً کرسی سے اٹھا۔ کھڑکی کی طرف گیا۔ باہر جھانکا تو وہ جوڑا اپنی گاڑی کی طرف بڑھتا ہوا نظر آیا۔ اس کے ساتھ ہی سٹریٹ لائٹ کے پاس کسی بڑی سی چیز کا سایہ دکھائی دیا۔ میاں بیوی نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور وہ گاڑی کی طرف تیز تیز قدم اٹھا رہے تھے۔ سایہ بھی تیزی سے ان کی طرف بڑھنے لگا ۔ پھر میں نے دیکھا کہ میاں بیوی اپنی گاڑی کی طرف بھاگنے لگے۔ میں سائے کو شناخت کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ آخر کار وہ اس قدر قریب آگیا کہ اس کو پہچاننا مشکل نہ رہا۔ وہ ہمارا ایک چوکیدار تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ گولی چلنے کی آواز کا کوئی تعلق اس جوڑے سے نہ تھا مگر وہ اس بات سے بے خبر تھے اور سمجھ رہے تھے کہ ان کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ خطرے کے شدید احساس نے ان کے اکٹھے ہونے کے فطری جذبے کو بیدار کر دیا تھا۔ کینسر کے ایک سابق مریض نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے۔چند سال پہلے میں کینسر کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا۔ تب میں نے اور میری بیو نے مل کر ” چوکسی کا سرکل“ بنایا۔ جب کوئی ڈاکٹر میری کیفیت کے بارے میں کوئی مثبت خبر لے کر آتا تو ہم دونوں بہت گرم جوشی سے ایک دوسرے کومبارکباد دیتے۔ میری بیماری کے ابتدائی مرحلوں میں اس قسم کی اچھی رپورٹیں بہت کم ہوا کرتی تھیں۔ ایک روز ایک ڈاکٹر بہت ہی ڈرانے والی خبر لے آیا۔ اس کے ہاتھ میں کاغذ تھے اور وہ ان پر ایک نظر ڈال کر کہنے لگا تمہارے بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اس بری خبر سنانے والے سے کوئی سوال پوچھوں میری بیوی اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگی آﺅ یہاں سے چلیں۔ یہ شخص تمہاری صحت کےلئے خطرہ ہے۔ وہ مجھے کھینچتی ہوئی دروازے کی طرف لے گئی۔ ڈاکٹر ہماری طرف بڑھا ‘ وہ کہہ رہا تھا۔ ” میری بات سنئے‘ سنئے“ میری بیوی جواب دے رہی تھی۔ دور رہیے۔ دور رہیے۔ ڈاکٹر کے کمرے سے نکل کر ہم دونوں ہال میں پہنچ گئے تو ڈاکٹر تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ہمارے پیچھے آیا۔ وہ ہم تک پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میری بیوی کہنے لگی چلتے جاﺅ۔ ہمیں اس شخص کی بات سننے کی ضرورت نہیں۔ ہم کسی ایسے شخص سے بات کریں گے جس کو واقعی اصل بات کا علم ہو۔ پھر اس نے مڑ کر ڈاکٹر کی طرف دیکھا اور کہنے لگی ہمارے نزدیک مت آئیے ہم آپ سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ ہم دونوں ایک جان ہو کر چلتے گئے۔ ہمارے قدم ایک ساتھ اٹھ رہے تھے اور دل ایک ساتھ دھڑک رہے تھے۔ یہاں تک کہ اس منحوس ڈاکٹر کی پہنچ سے باہر نکل گئے۔ اب ہم ایک ایسے ڈاکٹر کے پاس تھے جو ہمیں تحفظ اور امید کا احساس دلا سکتا تھا اور جو مریض کی کیفیت کی بنیاد پر فتوے دینے کا عادی نہ تھا۔ یہ پرانی بات ہے۔ اب میں خدا کے فضل سے مکمل طور پر صحت مند ہو چکا ہوں۔ لیکن میں نے کبھی یہ بات فراموش نہیں کی ہے کہ میں صحت کی طرف واپسی کا سفر کبھی اکیلا طے نہ کر سکتا تھا۔ یہ میری بیوی ہے جس کی پر خلوص رفاقت کی وجہ سے یہ سارے مرحلے طے ہوئے ہیں۔ 3۔ پیار کی نظر ہم اپنے شریک حیات کو جس انداز سے دیکھتے ہیں ‘ عموماً اس کا تعین اس بات سے نہیں ہوتا کہ وہ کیسا نظر آتا ہے‘ بلکہ اس کا تعین اس امر سے ہوتا ہے کہ ہم کیسے ہیں۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب بالکل سیدھا سادہ ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ساتھی خوبصورت اور دلفریب ہو‘ دلکش اور پُرکشش ہو تو ہم اس کو پیار کی نظروں سے دیکھیں گے۔ اس کے بجائے اگر ہمارے دل میں اس کےلئے محبت ہے‘ اس کی قدر ہے اور ہم اس کے ساتھ رشتے ناطے کی گرمی محسوس کرتے ہیں تو یہ سارے جذبے اور یہ سارے احساسات ہماری نظروں سے جھلکیں گے۔ جب ہم اس کی طرف دیکھیں گے تو ہماری نظروں میں محبت ہو گی‘ احترام ہو گا اور رفاقتوں کی حرارت ہو گی۔ یاد رکھیے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کےلئے سامعین نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ ایک دوسرے کی زندگیوں میں شریک مبصرین ہوا کرتے ہیں۔ ” شادی سے پہلے یہی صاحب جو اب میرے شوہر ہیں بہت ہی محبت کرنے والے اور پرجوش ہوا کرتے تھے۔ ” ایک بیوی نے اپنا قصہ سناتے ہوئے مجھے بتایا پھر.... ہماری شادی ہو گئی۔ خدا جانے کس کی نظر لگ گئی۔ پہلے ہر وقت ان کا جی میرے ساتھ باتیں کرنے کو چاہا کرتا تھا۔ کہتے تھے تمہارے جیسی میٹھی باتیں میں نے کبھی سنی نہیں ہیں۔ ہم گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے اور ان کا جی نہ بھرتا تھا۔ اب سارا دن گزار کر شام کو گھر آتے ہیں تو ٹیلی وژن کے سامنے جا بیٹھتے ہیں وہ باتیں‘ وہ رفاقتیں خواب و خیال ہو گئی ہیں۔ آپ نے میاں صاحب سے اس موضوع پر کبھی بات کی ہے؟۔ میں نے پوچھا۔ ہاں کئی بار کی ہے۔ اچھا تو وہ کیا کہتے ہیں؟ میں نے دوسرا سوال کیا۔ ” وہ کہتے ہیں کہ ذرا اپنی صورت اور اپنے انداز تو دیکھو۔ کبھی اپنا جائزہ تو لو۔ جب ہماری شادی ہوئی تھی توتم کتنی خوبصورت اور سمارٹ ہوا کرتی تھیں۔ اپنا کس قدر خیال رکھتی تھیں۔ اب ہر وقت منہ پھلائے رہتی ہو اور کچھ نہیں تو اپنا ہی خیال رکھا کرو“۔ دل دکھانے والے یہ بچگانہ قسم کے دلائل ظاہر کرتے ہیں کہ کیسے بہت سے میاں بیوی ایک دوسرے میں محبت تلاش کرنے کے بجائے نقص تلاش کرتے رہتے ہیں۔ یہی باتیں نرمی سے کہی جا سکتی ہیں۔ رنجیدہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھانے کے انداز میں بھی کہی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر جس شوہر کا استدلال ہم نے یہاں درج کیا ہے وہ اگر نرمی اور محبت سے کام لینے کا طریقہ جانتا ہوتا تو وہ یہ کہہ سکتا تھا کہ ” میں محسوس کرتا ہوںکہ تم اپنے آپ سے لا پروا ہ ہوتی جا رہی ہو۔ میں مانتا ہوں کہ تم پر کام کا اور ذمہ داریوں کا بہت بوجھ ہے۔ پہلے جیسی فرصتیں نہیں رہیں۔ مگر تمہیں اپناخیال رکھنا چاہیے۔ اپنے لئے وقت نکالنا چاہیے“۔ پائیدار محبت کا تقاضا ہے کہ ہم دوسرے میں نقص تلاش کرتے نہ رہیں۔ جہاں کہیں کوئی خامی ہو تو بھی محبت سے کام لیں۔ محبت کا شعلہ اپنے دل میں روشن رکھیں اور دوسرے شریک سفر کو اس کی روشنی میں دیکھیں۔ -4 تناظر بدل ڈالئے ” میری ماں کے بارے میں تمہارا رویہ ہمیشہ ہی غلط ہوتا ہے۔ ” ایک ناراض بیوی اپنے شوہر سے کہہ رہی تھی۔ ” وہ جب بھی آتی ہیں ‘ تمہار اموڈ بگڑ جاتا ہے۔ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ مہربانی سے پیش آتی ہیں۔ مگر تم ہو کہ سیدھے منہ بات ہی نہیںکرتے۔ “” یہ کیا کہہ رہی ہو!“ اس کے شوہرنے جواب دیا۔ ” تھوڑی سی عقل رکھنے والا شخص بھی جان سکتا ہے کہ تمہاری ماں کس قدر مصیبت ہے“۔ یہ استدلال جو باتیں ہمیں بتاتا ہے ان میںسے ایک یہ ہے کہ کس طرح بعض لوگ ساری زندگی اپنی شریک حیات کا ذہن بدلنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ ہمیشہ قائم رہنے والی محبت میںمبتلا جوڑے اس بھونڈے طرز عمل سے گریز کرتے ہیں۔ وہ ابتداءہی میں اس بات کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ ہر شخص ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ اختلاف ہی ہم سب کو اپنی اپنی جگہ امتیازی حیثیت عطا کرتا ہے۔ لہٰذا وہ امتیازات کو ختم کرنے کے بجائے مختلف نقطہ ہائے نظر کو قبول کرنا سیکھتے ہیں۔ اس جوڑے نے جب ایک دوسرے کا ذہن بدلنے کی تگ و دو ترک کر دی تو ان کے مسئلے بھی حل ہو گئے۔ ” مجھے اپنی ماں سے پیار بہت ہے۔ وہ بھی مجھے بہت چاہتی ہیں۔ آخر ماں جو ہوئیں۔ مگر کبھی کبھی وہ مسائل کا سبب بھی بن جاتی ہیں۔“ یہ الفاظ اسی خاتون کے ہیں جس کا ابھی ہم نے اوپر حوالہ دیا تھا۔ آپ نے دیکھا کہ اب اس کا نقطہ نظر یک طرفہ نہیں رہا۔ ایک اور شوہر نے اپنی بیوی کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے۔ ” وہ میری آنکھیں کھولنے والی ہے۔ وہ ‘ وہ کچھ دیکھ لیتی ہے جو میں کبھی نہ دیکھ سکتا تھا۔ میں بھی یہی کام اس لئے کرتا ہوں۔ یوں جب ہم مل کر کوئی فیصلہ کرتے ہیں تووہ ان فیصلوں سے بہتر ہوتا ہے جو ہم اپنے طور پر ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہ کر کرتے۔“ تخلیقی ازدواجی بندھن دو افراد کے باہمی رشتے کو گہرا اور مضبوط بناتا چلا جاتا ہے۔دونوں ایک ساتھ زندگی کے تجربوں سے‘ اس کے نشیب و فراز سے گزر تے ہیں اور ایک دوسرے کے قریب تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ -5 دوسرے کا خیال رکھیے محبت ایک بہت ہی طاقتور صحت افزا توانائی کو جنم دیتی ہے۔ محبت کرنے والوں کو اس کی توانائی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ اس کی قدر کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ توانائی ان کو بہتر انسان بناتی ہے۔ جھگڑے منفی قسم کی توانائی کا سبب بنتے ہیں:جھگڑا اس وقت ہوتا ے جب دو افراد آپس میں ٹکراتے ہیں۔ جب میں کسی میاں بیوی کو آپس میں تکرار کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو جی کرتا ہے کہ چیخ کر ان سے کہوں ” کیوں لڑتے ہو! بند کرو جھگڑا۔ لڑنے کی بجائے پیار کرنا سیکھو۔“ ہاں یہ سیدھی سی بات ہے۔ یہ اچھا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے محبت کرنا سیکھیں۔ ازدواجی زندگی میں اپنی ذاتی فتح کی کوشش نہ کیجئے۔ بلکہ ازدواجی زندگی کو زیادہ مسرت انگیز بنانے کی کوشش کیجئے۔ محبت اور شادی دینے کا نام ہے لینے کا نہیں۔ یہ قربانی مانگتی ہے اور وہی سرخرو ہوتے ہیں جو قربانی دینا جانتے ہیں ۔ جو حوصلہ مند ہوتے ہیں اور جن کے دل فراخ ہوتے ہیں۔ جب آپ صرف اپنے لئے لڑتے ہیں تو شاید آپ جیت سکتے ہیںلیکن جب آپ اپنے بندھن کےلئے لڑتے ہیں تو جیت آپ دونوں کی ہوتی ہے۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 949 reviews.