بچپن سے ہماری پرورش ایک اسلامی گھرانے میں ہوئی‘ میرےوالد صاحب نے میری پرورش میں بہت مدد کی‘ تمام اسلامی تعلیم میرے والد کی وجہ سے مجھے ملی۔ مگر میں باقاعدگی سے نماز نہیں پڑھتی تھی مگر یہ چیز مجھے بہت بےقرار اور بے چین کرتی تھی‘ شادی ہوئی‘ شادی کے بعد کینیڈا شفٹ ہوگئی۔ میرے شوہر بھی کوئی خاص پکے نمازی نہیں تھے لیکن کوئی چیز تھی جو مجھے بےقرار رکھتی‘ رات سوتے میں جاگ جاتی تو یہ ہی خیال آتا ’’تونے نماز نہیں پڑھی‘ اسی میں مرگئی توکیا ہوگا؟‘‘ بس یہی خوف آتا‘ پھر چار دن نماز باقاعدگی سے پڑھتی پھر چھوڑ دیتی‘ یوں کرتے کرتے ماشاء اللہ چار بچے ہوگئے۔ پھر ان میں مصروف ہوگئی لیکن بچوں کی تربیت صحیح اسلامی کی‘ الحمدللہ نماز سکھائی اور ہر سوال جو انہوں نے کیا اس کا جواب اسلامی نقطہ نظر سے دیا‘ پردہ حجاب سب سکھایا‘ ماشاء اللہ میری اولاد بہت اچھی اور دین دار نکلی لیکن اس کے ساتھ 2003ء میں پاکستان گئی تو میں نے وہاں اپنی نند کو دیکھا جس پر آسیب تھا یا کچھ اثر تھا۔ اس کو اس حالت میں دیکھ کر میں اندر ہی اندر بہت زیادہ ڈر گئی‘ دوسرے دن ہم نے واپس کینیڈا آنا تھا‘ ہم آگئے۔ اس وقت میرے بچوں کی عمریں دو سے لےکر نو سال تک تھیں۔ جب واپس گھر پہنچی تو جیسے ہی رات ہوئی‘ مجھے وہ خیال ڈرانے لگا‘ جو حال میں نے اپنی نند کا دیکھا تھا۔ ایک غلطی میں نے کی کہ اپنی نند کی ٓآنکھوں میں جھانک لیا تھا اس وقت جب اس پر آسیب کا اثر تھا۔ اپنے گھر آکر بھی مجھے وہی خیال آیا اور مجھے یوں لگا کہ دل پر سخت دباؤ ہے‘ کوئی میرے کندھوں کو زور سے دبا رہا
ہے‘ بچے سورہے تھے اور میں اکیلی تھی کیونکہ میاں رات کی شفٹ پر تھے‘ میں بہت ڈری مگر میں نے اسی حالت میں سورۂ یٰسین کی تلاوت شروع کردی‘ پھر آہستہ آہستہ وہ دباؤ کم ہونا شروع ہوا اور میں سر سے پاؤں تک پسینے میں شرابور ہوگئی‘ یوں نڈھال ہوگئی کہ جیسے میں نے میلوں کا سفر طے کیا ہو‘ اسی وقت میں نے ایمبولینس کال کی وہ آئے چیک کیا‘ کہنے لگے: تمہارا دل بالکل ٹھیک‘ ہارٹ اٹیک نہیں تھا۔ اس دن کے بعد میں بہت ہی زیادہ بیمار رہنے لگی‘ بچوں اور میاں کے ساتھ دل نہ لگنا‘ ہروقت ذہن پر وہی خیال سوار رہنا‘ نماز پڑھتی یا جو بھی ذکر کرتی رات کو نیند نہ آتی۔ پھر میں نے جاب (نوکری) شروع کردی اور آہستہ آہستہ اس خیال کو بھول گئی مگر میرے گھر میںلڑائی جھگڑے آہستہ آہستہ شروع ہوگئے لیکن پھر 2010ءمیں پاکستان دوبارہ گئی‘ واپس آئی تو پھر بیمار‘ وجہ کیا بنی‘ پیشاب کی تکلیف شروع ہوگئی۔ اس مرض کیلئے دوا کھائی تو وہ ری ایکشن کرگئی‘ میرا سارا جسم نڈھال ہوگیا حتیٰ کہ چھری اٹھا کرسبزی نہیں کاٹ سکتی تھی‘ پھر ایک اللہ والے بزرگ ملے‘ پاکستان میں فون پر ان سے رابطہ ہوا۔ انہوں نے کہا سورۂ فاتحہ سو مرتبہ پانی پر دم کرکے پیو‘ پانی ختم ہو تواور سو بار پڑھ لو‘ دم کرو‘ اس سے مجھے افاقہ ہوا۔ میں بالکل ٹھیک ہوگئی اس دوران ٹی وی پر ایک اللہ والے کا بیان سنا‘ جس نے مجھے بہت رلایا اور میں پانچ وقت کی نمازی بن گئی‘ اس سے مجھے بہت سکون ملا۔ ماشاء اللہ 2011ء میں حج کی سعادت بھی حاصل ہوئی‘ حج کے بعد میں باقاعدہ تہجد گزار بنبچپن سے ہماری پرورش ایک اسلامی گھرانے میں ہوئی‘ میرےوالد صاحب نے میری پرورش میں بہت مدد کی‘ تمام اسلامی تعلیم میرے والد کی وجہ سے مجھے ملی۔ مگر میں باقاعدگی سے نماز نہیں پڑھتی تھی مگر یہ چیز مجھے بہت بےقرار اور بے چین کرتی تھی‘ شادی ہوئی‘ شادی کے بعد کینیڈا شفٹ ہوگئی۔ میرے شوہر بھی کوئی خاص پکے نمازی نہیں تھے لیکن کوئی چیز تھی جو مجھے بےقرار رکھتی‘ رات سوتے میں جاگ جاتی تو یہ ہی خیال آتا تونے نماز نہیں پڑھی اسی میں مرگئی توکیا ہوگا؟‘‘ بس یہی خوف آتا‘ پھر چار دن نماز باقاعدگی سے پڑھتی پھر چھوڑ دیتی‘ یوں کرتے کرتے ماشاء اللہ چار بچے ہوگئے۔ پھر ان میں مصروف ہوگئی لیکن بچوں کی تربیت صحیح اسلامی کی‘ الحمدللہ نماز سکھائی اور ہر سوال جو انہوں نے کیا اس کا جواب اسلامی نقطہ نظر سے دیا‘ پردہ حجاب سب سکھایا‘ ماشاء اللہ میری اولاد بہت اچھی اور دین دار نکلی لیکن اس کے ساتھ 2003ء میں پاکستان گئی تو میں نے وہاں اپنی نند کو دیکھا جس پر آسیب تھا یا کچھ اثر تھا۔ اس کو اس حالت میں دیکھ کر میں اندر ہی اندر بہت زیادہ ڈر گئی‘ دوسرے دن ہم نے واپس کینیڈا آنا تھا‘ ہم آگئے۔ اس وقت میرے بچوں کی عمریں دو سے لےکر نو سال تک تھیں۔ جب واپس گھر پہنچی تو جیسے ہی رات ہوئی‘ مجھے وہ خیال ڈرانے لگا‘ جو حال میں نے اپنی نند کا دیکھا تھا۔ ایک غلطی میں نے کی کہ اپنی نند کی ٓآنکھوں میں جھانک لیا تھا اس وقت جب اس پر آسیب کا اثر تھا۔ اپنے گھر آکر بھی مجھے وہی خیال آیا اور مجھے یوں لگا کہ دل پر سخت دباؤ ہے‘ کوئی میرے کندھوں کو زور سے دبا رہا
ہے‘ بچے سورہے تھے اور میں اکیلی تھی کیونکہ میاں رات کی شفٹ پر تھے‘ میں بہت ڈری مگر میں نے اسی حالت میں سورۂ یٰسین کی تلاوت شروع کردی‘ پھر آہستہ آہستہ وہ دباؤ کم ہونا شروع ہوا اور میں سر سے پاؤں تک پسینے میں شرابور ہوگئی‘ یوں نڈھال ہوگئی کہ جیسے میں نے میلوں کا سفر طے کیا ہو‘ اسی وقت میں نے ایمبولینس کال کی وہ آئے چیک کیا‘ کہنے لگے: تمہارا دل بالکل ٹھیک‘ ہارٹ اٹیک نہیں تھا۔ اس دن کے بعد میں بہت ہی زیادہ بیمار رہنے لگی‘ بچوں اور میاں کے ساتھ دل نہ لگنا‘ ہروقت ذہن پر وہی خیال سوار رہنا‘ نماز پڑھتی یا جو بھی ذکر کرتی رات کو نیند نہ آتی۔ پھر میں نے جاب (نوکری) شروع کردی اور آہستہ آہستہ اس خیال کو بھول گئی مگر میرے گھر میںلڑائی جھگڑے آہستہ آہستہ شروع ہوگئے لیکن پھر 2010ءمیں پاکستان دوبارہ گئی‘ واپس آئی تو پھر بیمار‘ وجہ کیا بنی‘ پیشاب کی تکلیف شروع ہوگئی۔ اس مرض کیلئے دوا کھائی تو وہ ری ایکشن کرگئی‘ میرا سارا جسم نڈھال ہوگیا حتیٰ کہ چھری اٹھا کرسبزی نہیں کاٹ سکتی تھی‘ پھر ایک اللہ والے بزرگ ملے‘ پاکستان میں فون پر ان سے رابطہ ہوا۔ انہوں نے کہا سورۂ فاتحہ سو مرتبہ پانی پر دم کرکے پیو‘ پانی ختم ہو تواور سو بار پڑھ لو‘ دم کرو‘ اس سے مجھے افاقہ ہوا۔ میں بالکل ٹھیک ہوگئی اس دوران ٹی وی پر ایک اللہ والے کا بیان سنا‘ جس نے مجھے بہت رلایا اور میں پانچ وقت کی نمازی بن گئی‘ اس سے مجھے بہت سکون ملا۔ ماشاء اللہ 2011ء میں حج کی سعادت بھی حاصل ہوئی‘ حج کے بعد میں باقاعدہ تہجد گزار بن گئی‘ اب میں ماشاء اللہ بہت بہتر ہوں۔ مگر 2010ء سے میرے بچوں نے جیسے ہی جوانی میں قدم رکھنا شروع کیا‘ میرے گھر میں ہروقت لڑائی جھگڑا‘ گالی گلوچ‘ مار دھاڑ‘ اس طرح لڑتے تھے کہ کسی کو مار دیں گے۔ میں پہلے تو برداشت کرتی‘ روکتی مگر یہ اتنا شدید غصے میں ہوتے کہ سنتے ہی نہیں تھے۔ بہت لڑتے تھے۔ میں منع کرکرکے تھک جاتی‘ آخر میری برداشت بھی جواب دے جاتی اور میں ان کو برا بھلا کہہ جاتی۔ انسان ہوں کتنا برداشت کرتی‘ میاں ہروقت روزی روٹی کے چکر میں لگے رہتے‘ تھکے ہوئے گھر آتے‘ آگے جھگڑا چل رہا ہوتا تو وہ بھی آپے سے باہر ہوجاتے‘ وہ بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ مار پیٹ کرتے۔ جب غصہ اترتا تو میں دو نفل توبہ کے پڑھتی اور اللہ تعالیٰ سے رو رو کر معافی مانگتی‘ یااللہ میری برداشت سے باہر ہوگیا‘ میرے منہ سے غلط ملط نکل گیا معاف کردینا‘ تو کریم جانتا ہے کہ انہوں نے مجھےستایا اتنا ہے‘ میں بھی آخر انسان ہوں‘ باہر جاب کرکے آتی ہوں‘ گھر کے کام کاج کرتی ہوں‘ بچوں کی دیکھ بھال‘ گھر کا نظام اوپر سے ان کی لڑائیاں‘ اللہ سے بہت صبر مانگتی مگر پتہ نہیں کیا تھا۔ پھر 2012ء دسمبر ہنستے کھیلتے گھر میں غم کا بادل آگیا‘ دسمبر کے مہینے اچانک میرے بیٹے کی بائیں ران میں درد شروع ہوا‘ کرتے کرتے وہ بڑھتا گیا‘ 7 جنوری 2014ء کو ڈاکٹروں نے یہ خبر دی کہ اس کو ہڈی کا کینسر ہے وہ بچہ جس کو آج تک زکام نہیں ہوا تھا وہ اتنی ہولناک بیماری میں مبتلا ہوگیا۔ بہت اعمال کی‘ علاج کروایا لیکن وہ 20 اپریل 2014ء کو وفات پاگیا۔ اس کی تربیت عین اسلامی تھی‘ 13 سال کی عمر میں حافظ قرآن بنا‘ رمضان المبارک میں مقامی مسجد میں نماز تراویح پڑھاتا‘ لوگ اس کے تعریفیں کرتے نہ تھکتے۔ ابھی اس کا غم بھلا نہ پائی تھی کہ اسی سال میری چھوٹی بیٹی زینب کو وہی تکلیف اسی جگہ بائیں ران میں شروع ہوگئی‘ ایک اور پہاڑ ٹوٹا اب ہم اس کے علاج کی طرف لگ گئے‘ میں اس کو لے کر جولائی 2014ء میں روحانی علاج کی تلاش میں پاکستان گئی‘ وہاں نام نہاد عاملین نے جی بھر کر لوٹا کہ باہر سے آئے ہیں‘ مگر افاقہ کہیں سے نہیں ہورہا تھا۔ اس کی صحت دن بدن گرتی چلی گئی‘ انہی دنوں ماہنامہ عبقری میگزین اگست 2014ء میری دوست کے گھر پڑا تھا‘ وہ میں آتے ہوئے اٹھا کر لے آئی‘ اس نے میری زندگی بدل دی ۔ اس میں علامہ لاہوتی پراسراری کا مضمون ’’جنات کا پیدائشی دوست‘‘ پڑھا۔ اس میں علامہ صاحب نے یَاقَہَّارُ کے فوائد و فضائل کھل بتائے۔ میں نے یَاقَہَّارُ پڑھنا شروع کردیا‘ اس عمل نے میرے اوپر بہت زیادہ چیزیں کھول دیں۔ یہ اکتوبر 2014ء کی بات ہے‘ مجھے محسوس ہوا میرے جسم میں کوئی چیز ہے اور وہ ڈر کر کپکپارہی ہے۔ پھر میں نے خود کو بہترمحسوس کرنا شروع کیا‘ میں دن بدن بہتر ہورہی تھی‘ میں نے اپنے شوہر اور بچوں کو بھی اسی عمل پر لگادیا کہ یہی پڑھو‘ وہ بھی پڑھنے لگے۔میں نے عبقری شمارہ میں دیکھ کر عبقری کی ویب سائٹ پر گئی‘ وہاں جاکر میں نے آپ کے درس سننا شروع کردئیے۔ ایک رات مجھے نیند نہیں آرہی تھی‘ بیٹے کی موت کے بعد بہت دکھی تھی۔ تو میں نے کان میں ہیڈفون لگا کر لیٹے لیٹے آپ کا درس لگالیا‘ اس درس کا عنوان روح کی غذا تھا وہ سننے لگی‘ میں جاگ رہی تھی مگر ایک دم غنودگی سی آئی‘ میں دیکھ رہی ہوں کہ میں دفتر ماہنامہ عبقری میں آپ کا انتظار کررہی ہوں‘ اچانک لوگوں کی آوازیں آتی ہیں کہ حکیم صاحب آگئے‘ میں بہت پریشان بیٹھی ہوں‘ آپ نے آتے ہی میرا حال پوچھا اور میں اداس ہوگئی‘ مجھے ایسے محسوس ہوا کہ جیسے آپ نے میرے سر پر ہلکا سا ہاتھ مارا‘ میرے جسم سے کوئی چیز کرنٹ کی صورت میں نکلی‘ میں جاگ گئی‘ سر سے پیر تک کرنٹ لگا۔ اس کے بعد میں نے اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کیا‘ میرا دھیان نماز میں اچھا ہوگیا اور ذکر اذکار میں بہت روانی آگئی اس سےپہلے میں سستی کررہی تھی مگر دھیان نہیں لگتا تھا اور میں روتی تھی یااللہ میں نماز تو پڑھتی ہوں مگر میرا دل کیوں مائل نہیں ہوتا‘ اس واقعہ کے دن بعد میں نے خواب دیکھا کہ میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے روضہ مبارک کی زیارت کیلئے لائن میں لگی ہوں۔
اس کے بعد پھر ایک خواب دیکھا کہ میرے گھرکے اندر ایک کالے رنگ کی ہانڈی ہے اور ہنڈی میں کالے رنگ کا چمچہ ہے‘ وہ چولہے پر چڑھی ہوئی اور آگ اتنی بھڑک رہی ہے کہ بس‘ ساتھ ایک کالا ڈرم ہے جس میں کالے رنگ کا سانپ بیٹھا ہے‘ میں بہت ڈر گئی اچانک کہیں سے آواز آئی پڑھ ’’اللہ جل جلالہ‘‘ میں نےوہ پڑھا اور پڑھتے پڑھتے میری آنکھ کھل گئی۔ ایک رات میری بیٹی (جس کا ذکر میں نے اوپر کیا کہ وہ سخت بیمار ہے) سو نہیں رہی تھی اس کو آرام نہیں آرہا تھا‘ وہ سخت تکلیف میں اور بے چین تھی‘ اور میں سخت پریشان‘ شاید وہ تہجد کا وقت ہوگا میری آنکھ لگ گئی کسی نے کہااَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم پڑھ وہ جیسے ہی میں نے پڑھا میری بیٹی آرام سے سو گئی‘ پھر کیا ہوا کہ دسمبر 2014ء کی چھٹیاں ہوئیں تو ہم نے دوسرے شہر جانا تھا‘ بیٹی کی خواہش پر اس کو گھمانے وہاں گئے‘ راستے میں ایک عالم ملے‘ ہم نے کہا چلو زینب (میری بیمار بیٹی) کو دم کرالیں۔ وہاں گئے‘ وہ کہنے لگے: تم کیا کررہی ہو؟ بچی سخت مشکل میں ہے۔ چند دنوں بعد ہم گھر واپس آگئے‘ پھر سات جنوری 2015ء کو زینب ہسپتال داخل ہوگئی اور میں اس کے ساتھ تھی‘ انہی دنوں میں نے بہت ذکر کیا‘ جو کچھ یاد تھا پڑھتی‘ استغفار کرتی‘ رات رات بھر جاگ جاگ کر اللہ تعالیٰ کے آگےروتی اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا چار فروری کو صبح فجر کے وقت میری زینب اللہ کو پیاری ہوگئی۔ میرے اردگرد ملنے ملانے والے مجھ سے خوفزدہ ہوگئے کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے‘ ابھی اچانک بیٹا فوت ہوا اور اب بیٹی بھی فوت ہوگئی۔ لوگوں نے ڈر‘ خوف یا اچھوت سمجھ کر ملنا چھوڑ دیا‘ فون پر بات کرنا بند کردی۔ ان دنوں جب میں بالکل اکیلی تھی مجھے آپ کے درس سے بہت افاقہ ہوا۔ اسی کی برکت سے مجھے نئے ہمدرد ملے لوگ رو رو کر مجھے ملتے دلاسہ دیتے‘ مگر وہ جو برسوں سے میرے ساتھ تھے جن پر مجھے مان تھا سب راہ بدل گئے‘ مگر مجھے کوئی غم نہیں‘ مجھے اب رب مل گیا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اعمال پر لگادیا ہے عبقری رسالہ نہ پڑھا اور جب تک درس نہ سنوں مجھے سکون نہیں ملتا۔ علامہ لاہوتی پراسراری کے بتائے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کے تین نصاب پڑھ چکی ہوں اسی طرح مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللہِ کا پہلا نصاب جاری ہے۔ استغفار کی کئی تسبیحات دن میں پڑھ لیتی ہوں‘ یَاقَہَّارُ روزانہ صبح و شام گیارہ گیارہ تسبیح پڑھتی ہوں۔ یہ سب علامہ لاہوتی اور آپ کی بدولت اللہ کا کرم ہوا ہے کہ اس نے مجھے اپنے ذکر کیلئے چن لیا ہے۔ اب تو میں نے اپنے بچوں کو بھی یَاقَہَّارُپڑھنے پر لگا دیا ہے۔ میرا بیٹا ماشاء اللہ ‘ اللہ نظربد سے بچائے پندرہ سال کا ہوگیا ہے‘ وہ اپنی ہر نماز کے بعد ایک تسبیح یَاقَہَّارُ کی پڑھتا ہے اس عمل سے اس میں بہت اچھی تبدیلی آئی ہے۔ اب وہ نماز خود بخود باقاعدگی سے پڑھتا ہے اورمیرا اور اپنے والد کا بہت زیادہ خیال رکھتا ہے۔ پڑھائی میں دل لگاتا ہے۔ مگر اب بھی کبھی کبھی شیطان اس بیٹے کے بار ے میں الٹے الٹے خیال دلاتا ہے کہ کہیں اس کو بھی کچھ نہ ہوجائے۔ یہ تیرے بچوں کے ساتھ کیا ہوا؟ ایسا کیوں ہوا؟ یہ جادو ہے ‘ دوسرے دو بچوں کا خیال کر ‘ ان کا کیا بنے گا؟ اس مرتبہ خزاں آئے گی تو نجانے کیا ہوگا؟ کیونکہ میرے دونوں بچوں کی تکلیف پچھلے دو خزاں کے موسم میں شروع ہوئی تھی ۔ یہی باتیں شیطان دماغ میں ڈالتا ہے اور مجھے کمزور کرتا ہے۔مگر میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء میں لگ جاتی ہوں تو یہ وساوس نہیں آتے۔ (عابدہ اکبر‘ کینیڈا)
بچپن سے ہماری پرورش ایک اسلامی گھرانے میں ہوئی‘ میرےوالد صاحب نے میری پرورش میں بہت مدد کی‘ تمام اسلامی تعلیم میرے والد کی وجہ سے مجھے ملی۔ مگر میں باقاعدگی سے نماز نہیں پڑھتی تھی مگر یہ چیز مجھے بہت بےقرار اور بے چین کرتی تھی‘ شادی ہوئی‘ شادی کے بعد کینیڈا شفٹ ہوگئی۔ میرے شوہر بھی کوئی خاص پکے نمازی نہیں تھے لیکن کوئی چیز تھی جو مجھے بےقرار رکھتی‘ رات سوتے میں جاگ جاتی تو یہ ہی خیال آتا ’’تونے نماز نہیں پڑھی‘ اسی میں مرگئی توکیا ہوگا؟‘‘ بس یہی خوف آتا‘ پھر چار دن نماز باقاعدگی سے پڑھتی پھر چھوڑ دیتی‘ یوں کرتے کرتے ماشاء اللہ چار بچے ہوگئے۔ پھر ان میں مصروف ہوگئی لیکن بچوں کی تربیت صحیح اسلامی کی‘ الحمدللہ نماز سکھائی اور ہر سوال جو انہوں نے کیا اس کا جواب اسلامی نقطہ نظر سے دیا‘ پردہ حجاب سب سکھایا‘ ماشاء اللہ میری اولاد بہت اچھی اور دین دار نکلی لیکن اس کے ساتھ 2003ء میں پاکستان گئی تو میں نے وہاں اپنی نند کو دیکھا جس پر آسیب تھا یا کچھ اثر تھا۔ اس کو اس حالت میں دیکھ کر میں اندر ہی اندر بہت زیادہ ڈر گئی‘ دوسرے دن ہم نے واپس کینیڈا آنا تھا‘ ہم آگئے۔ اس وقت میرے بچوں کی عمریں دو سے لےکر نو سال تک تھیں۔ جب واپس گھر پہنچی تو جیسے ہی رات ہوئی‘ مجھے وہ خیال ڈرانے لگا‘ جو حال میں نے اپنی نند کا دیکھا تھا۔ ایک غلطی میں نے کی کہ اپنی نند کی ٓآنکھوں میں جھانک لیا تھا اس وقت جب اس پر آسیب کا اثر تھا۔ اپنے گھر آکر بھی مجھے وہی خیال آیا اور مجھے یوں لگا کہ دل پر سخت دباؤ ہے‘ کوئی میرے کندھوں کو زور سے دبا رہا ہے‘ بچے سورہے تھے اور میں اکیلی تھی کیونکہ میاں رات کی شفٹ پر تھے‘ میں بہت ڈری مگر میں نے اسی حالت میں سورۂ یٰسین کی تلاوت شروع کردی‘ پھر آہستہ آہستہ وہ دباؤ کم ہونا شروع ہوا اور میں سر سے پاؤں تک پسینے میں شرابور ہوگئی‘ یوں نڈھال ہوگئی کہ جیسے میں نے میلوں کا سفر طے کیا ہو‘ اسی وقت میں نے ایمبولینس کال کی وہ آئے چیک کیا‘ کہنے لگے: تمہارا دل بالکل ٹھیک‘ ہارٹ اٹیک نہیں تھا۔ اس دن کے بعد میں بہت ہی زیادہ بیمار رہنے لگی‘ بچوں اور میاں کے ساتھ دل نہ لگنا‘ ہروقت ذہن پر وہی خیال سوار رہنا‘ نماز پڑھتی یا جو بھی ذکر کرتی رات کو نیند نہ آتی۔ پھر میں نے جاب (نوکری) شروع کردی اور آہستہ آہستہ اس خیال کو بھول گئی مگر میرے گھر میںلڑائی جھگڑے آہستہ آہستہ شروع ہوگئے لیکن پھر 2010ءمیں پاکستان دوبارہ گئی‘ واپس آئی تو پھر بیمار‘ وجہ کیا بنی‘ پیشاب کی تکلیف شروع ہوگئی۔ اس مرض کیلئے دوا کھائی تو وہ ری ایکشن کرگئی‘ میرا سارا جسم نڈھال ہوگیا حتیٰ کہ چھری اٹھا کرسبزی نہیں کاٹ سکتی تھی‘ پھر ایک اللہ والے بزرگ ملے‘ پاکستان میں فون پر ان سے رابطہ ہوا۔ انہوں نے کہا سورۂ فاتحہ سو مرتبہ پانی پر دم کرکے پیو‘ پانی ختم ہو تواور سو بار پڑھ لو‘ دم کرو‘ اس سے مجھے افاقہ ہوا۔ میں بالکل ٹھیک ہوگئی اس دوران ٹی وی پر ایک اللہ والے کا بیان سنا‘ جس نے مجھے بہت رلایا اور میں پانچ وقت کی نمازی بن گئی‘ اس سے مجھے بہت سکون ملا۔ ماشاء اللہ 2011ء میں حج کی سعادت بھی حاصل ہوئی‘ حج کے بعد میں باقاعدہ تہجد گزار بن گئی‘ اب میں ماشاء اللہ بہت بہتر ہوں۔ مگر 2010ء سے میرے بچوں نے جیسے ہی جوانی میں قدم رکھنا شروع کیا‘ میرے گھر میں ہروقت لڑائی جھگڑا‘ گالی گلوچ‘ مار دھاڑ‘ اس طرح لڑتے تھے کہ کسی کو مار دیں گے۔ میں پہلے تو برداشت کرتی‘ روکتی مگر یہ اتنا شدید غصے میں ہوتے کہ سنتے ہی نہیں تھے۔ بہت لڑتے تھے۔ میں منع کرکرکے تھک جاتی‘ آخر میری برداشت بھی جواب دے جاتی اور میں ان کو برا بھلا کہہ جاتی۔ انسان ہوں کتنا برداشت کرتی‘ میاں ہروقت روزی روٹی کے چکر میں لگے رہتے‘ تھکے ہوئے گھر آتے‘ آگے جھگڑا چل رہا ہوتا تو وہ بھی آپے سے باہر ہوجاتے‘ وہ بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ مار پیٹ کرتے۔ جب غصہ اترتا تو میں دو نفل توبہ کے پڑھتی اور اللہ تعالیٰ سے رو رو کر معافی مانگتی‘ یااللہ میری برداشت سے باہر ہوگیا‘ میرے منہ سے غلط ملط نکل گیا معاف کردینا‘ تو کریم جانتا ہے کہ انہوں نے مجھےستایا اتنا ہے‘ میں بھی آخر انسان ہوں‘ باہر جاب کرکے آتی ہوں‘ گھر کے کام کاج کرتی ہوں‘ بچوں کی دیکھ بھال‘ گھر کا نظام اوپر سے ان کی لڑائیاں‘ اللہ سے بہت صبر مانگتی مگر پتہ نہیں کیا تھا۔ پھر 2012ء دسمبر ہنستے کھیلتے گھر میں غم کا بادل آگیا‘ دسمبر کے مہینے اچانک میرے بیٹے کی بائیں ران میں درد شروع ہوا‘ کرتے کرتے وہ بڑھتا گیا‘ 7 جنوری 2014ء کو ڈاکٹروں نے یہ خبر دی کہ اس کو ہڈی کا کینسر ہے وہ بچہ جس کو آج تک زکام نہیں ہوا تھا وہ اتنی ہولناک بیماری میں مبتلا ہوگیا۔ بہت اعمال کی‘ علاج کروایا لیکن وہ 20 اپریل 2014ء کو وفات پاگیا۔ اس کی تربیت عین اسلامی تھی‘ 13 سال کی عمر میں حافظ قرآن بنا‘ رمضان المبارک میں مقامی مسجد میں نماز تراویح پڑھاتا‘ لوگ اس کے تعریفیں کرتے نہ تھکتے۔ ابھی اس کا غم بھلا نہ پائی تھی کہ اسی سال میری چھوٹی بیٹی زینب کو وہی تکلیف اسی جگہ بائیں ران میں شروع ہوگئی‘ ایک اور پہاڑ ٹوٹا اب ہم اس کے علاج کی طرف لگ گئے‘ میں اس کو لے کر جولائی 2014ء میں روحانی علاج کی تلاش میں پاکستان گئی‘ وہاں نام نہاد عاملین نے جی بھر کر لوٹا کہ باہر سے آئے ہیں‘ مگر افاقہ کہیں سے نہیں ہورہا تھا۔ اس کی صحت دن بدن گرتی چلی گئی‘ انہی دنوں ماہنامہ عبقری میگزین اگست 2014ء میری دوست کے گھر پڑا تھا‘ وہ میں آتے ہوئے اٹھا کر لے آئی‘ اس نے میری زندگی بدل دی ۔ اس میں علامہ لاہوتی پراسراری کا مضمون ’’جنات کا پیدائشی دوست‘‘ پڑھا۔ اس میں علامہ صاحب نے یَاقَہَّارُ کے فوائد و فضائل کھل بتائے۔ میں نے یَاقَہَّارُ پڑھنا شروع کردیا‘ اس عمل نے میرے اوپر بہت زیادہ چیزیں کھول دیں۔ یہ اکتوبر 2014ء کی بات ہے‘ مجھے محسوس ہوا میرے جسم میں کوئی چیز ہے اور وہ ڈر کر کپکپارہی ہے۔ پھر میں نے خود کو بہترمحسوس کرنا شروع کیا‘ میں دن بدن بہتر ہورہی تھی‘ میں نے اپنے شوہر اور بچوں کو بھی اسی عمل پر لگادیا کہ یہی پڑھو‘ وہ بھی پڑھنے لگے۔میں نے عبقری شمارہ میں دیکھ کر عبقری کی ویب سائٹ پر گئی‘ وہاں جاکر میں نے آپ کے درس سننا شروع کردئیے۔ ایک رات مجھے نیند نہیں آرہی تھی‘ بیٹے کی موت کے بعد بہت دکھی تھی۔ تو میں نے کان میں ہیڈفون لگا کر لیٹے لیٹے آپ کا درس لگالیا‘ اس درس کا عنوان ’’روح کی غذا‘‘ تھا‘ وہ سننے لگی‘ میں جاگ رہی تھی مگر ایک دم غنودگی سی آئی‘ میں دیکھ رہی ہوں کہ میں دفتر ماہنامہ عبقری میں آپ کا انتظار کررہی ہوں‘ اچانک لوگوں کی آوازیں آتی ہیں کہ حکیم صاحب آگئے‘ میں بہت پریشان بیٹھی ہوں‘ آپ نے آتے ہی میرا حال پوچھا اور میں اداس ہوگئی‘ مجھے ایسے محسوس ہوا کہ جیسے آپ نے میرے سر پر ہلکا سا ہاتھ مارا‘ میرے جسم سے کوئی چیز کرنٹ کی صورت میں نکلی‘ میں جاگ گئی‘ سر سے پیر تک کرنٹ لگا۔ اس کے بعد میں نے اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کیا‘ میرا دھیان نماز میں اچھا ہوگیا اور ذکر اذکار میں بہت روانی آگئی اس سےپہلے میں سستی کررہی تھی مگر دھیان نہیں لگتا تھا اور میں روتی تھی یااللہ میں نماز تو پڑھتی ہوں مگر میرا دل کیوں مائل نہیں ہوتا‘ اس واقعہ کے دن بعد میں نے خواب دیکھا کہ میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے روضہ مبارک کی زیارت کیلئے لائن میں لگی ہوں۔ اس کے بعد پھر ایک خواب دیکھا کہ میرے گھرکے اندر ایک کالے رنگ کی ہانڈی ہے اور ہنڈی میں کالے رنگ کا چمچہ ہے‘ وہ چولہے پر چڑھی ہوئی اور آگ اتنی بھڑک رہی ہے کہ بس‘ ساتھ ایک کالا ڈرم ہے جس میں کالے رنگ کا سانپ بیٹھا ہے‘ میں بہت ڈر گئی اچانک کہیں سے آواز آئی پڑھ ’’اللہ جل جلالہ‘‘ میں نےوہ پڑھا اور پڑھتے پڑھتے میری آنکھ کھل گئی۔ ایک رات میری بیٹی (جس کا ذکر میں نے اوپر کیا کہ وہ سخت بیمار ہے) سو نہیں رہی تھی اس کو آرام نہیں آرہا تھا‘ وہ سخت تکلیف میں اور بے چین تھی‘ اور میں سخت پریشان‘ شاید وہ تہجد کا وقت ہوگا میری آنکھ لگ گئی کسی نے کہااَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم پڑھ وہ جیسے ہی میں نے پڑھا میری بیٹی آرام سے سو گئی‘ پھر کیا ہوا کہ دسمبر 2014ء کی چھٹیاں ہوئیں تو ہم نے دوسرے شہر جانا تھا‘ بیٹی کی خواہش پر اس کو گھمانے وہاں گئے‘ راستے میں ایک عالم ملے‘ ہم نے کہا چلو زینب (میری بیمار بیٹی) کو دم کرالیں۔ وہاں گئے‘ وہ کہنے لگے: تم کیا کررہی ہو؟ بچی سخت مشکل میں ہے۔ چند دنوں بعد ہم گھر واپس آگئے‘ پھر سات جنوری 2015ء کو زینب ہسپتال داخل ہوگئی اور میں اس کے ساتھ تھی‘ انہی دنوں میں نے بہت ذکر کیا‘ جو کچھ یاد تھا پڑھتی‘ استغفار کرتی‘ رات رات بھر جاگ جاگ کر اللہ تعالیٰ کے آگےروتی اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا چار فروری کو صبح فجر کے وقت میری زینب اللہ کو پیاری ہوگئی۔ میرے اردگرد ملنے ملانے والے مجھ سے خوفزدہ ہوگئے کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے‘ ابھی اچانک بیٹا فوت ہوا اور اب بیٹی بھی فوت ہوگئی۔ لوگوں نے ڈر‘ خوف یا اچھوت سمجھ کر ملنا چھوڑ دیا‘ فون پر بات کرنا بند کردی۔ ان دنوں جب میں بالکل اکیلی تھی مجھے آپ کے درس سے بہت افاقہ ہوا۔ اسی کی برکت سے مجھے نئے ہمدرد ملے لوگ رو رو کر مجھے ملتے دلاسہ دیتے‘ مگر وہ جو برسوں سے میرے ساتھ تھے جن پر مجھے مان تھا سب راہ بدل گئے‘ مگر مجھے کوئی غم نہیں‘ مجھے اب رب مل گیا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اعمال پر لگادیا ہے عبقری رسالہ نہ پڑھا اور جب تک درس نہ سنوں مجھے سکون نہیں ملتا۔ علامہ لاہوتی پراسراری کے بتائے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کے تین نصاب پڑھ چکی ہوں اسی طرح مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللہِ کا پہلا نصاب جاری ہے۔ استغفار کی کئی تسبیحات دن میں پڑھ لیتی ہوں‘ یَاقَہَّارُ روزانہ صبح و شام گیارہ گیارہ تسبیح پڑھتی ہوں۔ یہ سب علامہ لاہوتی اور آپ کی بدولت اللہ کا کرم ہوا ہے کہ اس نے مجھے اپنے ذکر کیلئے چن لیا ہے۔ اب تو میں نے اپنے بچوں کو بھی یَاقَہَّارُپڑھنے پر لگا دیا ہے۔ میرا بیٹا ماشاء اللہ ‘ اللہ نظربد سے بچائے پندرہ سال کا ہوگیا ہے‘ وہ اپنی ہر نماز کے بعد ایک تسبیح یَاقَہَّارُ کی پڑھتا ہے اس عمل سے اس میں بہت اچھی تبدیلی آئی ہے۔ اب وہ نماز خود بخود باقاعدگی سے پڑھتا ہے اورمیرا اور اپنے والد کا بہت زیادہ خیال رکھتا ہے۔ پڑھائی میں دل لگاتا ہے۔ مگر اب بھی کبھی کبھی شیطان اس بیٹے کے بار ے میں الٹے الٹے خیال دلاتا ہے کہ کہیں اس کو بھی کچھ نہ ہوجائے۔ یہ تیرے بچوں کے ساتھ کیا ہوا؟ ایسا کیوں ہوا؟ یہ جادو ہے ‘ دوسرے دو بچوں کا خیال کر ‘ ان کا کیا بنے گا؟ اس مرتبہ خزاں آئے گی تو نجانے کیا ہوگا؟ کیونکہ میرے دونوں بچوں کی تکلیف پچھلے دو خزاں کے موسم میں شروع ہوئی تھی ۔ یہی باتیں شیطان دماغ میں ڈالتا ہے اور مجھے کمزور کرتا ہے۔مگر میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء میں لگ جاتی ہوں تو یہ وساوس نہیں آتے۔ (عابدہ اکبر‘ کینیڈا)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں