ایک ایسے شخص کی سچی آپ بیتی جو پیدائش سے اب تک اولیاءجنات کی سرپرستی میں ہے۔ اس کے دن رات جنات کے ساتھ گزر رہے ہیں۔ ماہنامہ عبقری کے اصرار پر قارئین کیلئے سچے حیرت انگیز انکشافات قسط وار شائع ہونگے لیکن اس پراسرار دنیا کو سمجھنے کیلئے بڑا حوصلہ اور حلم چاہیے
سات ذبح شدہ بکرے:بزرگ مکی جنات جن سے میری مکلی کے قبرستان میں ملاقات ہوئی تھی جنہوں نے مجھے اپنے سینے سے لگا کر انوارات میرے سینے میں منتقل کیے تھے‘(ملاقات کا تمام احوال جون 2018ء کے شمارے میں آچکا ہے) جن سے میری ملاقات جوگی عبدالواسع (نومسلم) نے کروائی تھی۔یہ مکی جنات جو کہ اپنے رشتہ دار جو کہ مکلی کے قبرستان میں رہتے ہیں ان کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے۔میرا اشتیاق تھا کہ میں ان سے ان کے حالات پوچھوںکہ مکہ ہمارا قبلہ ہے محور و مرکز ہے اور جذبہ بھی تھا اشتیاق بھی تھا بس یہ ملی جلی کیفیات ایسی تھیں کہ جس نے مجھے اسی طرف راغب کیا‘ میں ان کو ساتھ لے کر مکی مہمانوں کے پاس حاضر ہواتھا‘ جب وہاں میری حاضری ہوئی تو بزرگ مکی جن کا حلیہ یہ تھا کہ وہ بہت بوڑھے ہیں‘ بہت سفید ڈاڑھی ہے‘ سفید پگڑی‘ سفید لباس‘ ہاتھ میں لکڑی کی موٹی تسبیح لیے لیکن عجب بات یہ ہے کہ ان کے سامنے سات بڑے بڑے بکرے ذبح ہوئے پڑے ہیں ایک بکرا ہلکی سی حرکت کررہا تھا اور یہ محسوس ہورہا تھا کہ ا بھی تازہ تازہ اس پر چھری پھیری گئی ہے اور ذبح ہوا ہے ۔ سلام دعا تو ان سے پہلے ہی ہوچکی تھی‘ جب میں ان کے پاس بیٹھا تو انہوں نے میرا ‘میری والدہ کا نام اور میرے والد کا نام بتادیا اور میرے دل کے اندر کی جتنی بھی کیفیات تھیں وہ ساری عیاں کردیں اور فرمانے لگے: آپ جذبہ نیک لے کر آئے ہیں۔ آپ کے دل کی تمنا پڑھ لی: آپ کے اندر نسبت مکہ کا بہت احترام اور اکرام ہے اور اس نسبت مکہ کی وجہ سے آپ سے ہم سے ملاقات کررہے ہیں اور ہم نے آپ کے دل کی وہ تمنا بھی پڑھ لی ہے کہ کچھ ہمیں حالات سنائیں اور چونکہ آپ مخلوق جنات سے ملنے آئے ہیں تو ہم آپ کو جنات کی مخلوق کے ہی حالات سنائیں گے اور ان کے واقعات بتائیں گے پھر تھوڑی دیر ہوئی وہ فضاؤں میں ایسے گھورنے لگے جیسے پچھلی پرانی زندگی کے حالات و واقعات یاد کررہے ہوں اور پچھلی پرانی زندگی کے مشاہدات اورتجربات بھولی بسری زندگی کے ساتھ اپنی یادداشت کوواپس لوٹارہے ہیں۔
میرے والد کا تجارتی قافلہ اور قذاق جنات:تھوڑی دیر کے بعد بولے: میں اس وقت بہت چھوٹا تھا جب میں نے صحابی رسولﷺ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی زیارت کی‘ اس کا بھی عجیب واقعہ ہوا۔ میرے والد زیتون‘ انجیر اور کھجور کا کام کرتے تھے اور اس میں سب سے زیادہ زیتون کا کام بہت مہنگا اور مالدار تاجروں کا سمجھا جاتا تھا ‘یہ چیزیں میرے والد جنات میں بھی بانٹتے تھے اور انسانوں میں بھی بانٹتے تھے یعنی اس کا کاروبار کرتے تھے اور میرا ایک مالدار گھرانے سے تعلق ہے۔ میرے باپ‘ دادا‘ پڑدادا وہ سب اسی جنس کا کام کرتے تھے۔ میرے والد مسلمان ہوگئے تھے اور ان سے پہلے کے لوگ ہم سب مشرک تھےاور غیرمسلم تھے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ میرے والد اپنا ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ لے کر جارہے تھے جس میں اس دور کا ہزاروں درہم اور دینار آج کے کروڑوں اور اس سے بھی کہیں زیادہ کا سرمایہ تھا۔ تین جنات قتل کردئیے: راستے میں جدوان ایک وادی آتی ہے اس وادی کے پاس سے گزر رہے تھے کہ جنات ڈاکوؤں نے شب خون مارا اور ہمارے تین جنات قتل کردئیے‘ باقی سب کو یرغمال بنالیا اور تمام قیمتی مال اپنے قبضے میں لے لیا‘ ان میں اکثر جنات مسلمان تھے اور باقی کچھ غیرمسلم بھی تھے۔ان کا کام ہی یہی ہے: پتہ چلا کہ وہ ڈاکو قذاق جنات غیرمسلم‘ مشرک اور ہزاروں سالوں سے اسی وادی میں رہتے ہیں‘ ان کا کام ہی یہی ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ میرے والد اپنے تجارتی مال کا قافلہ اس سے پہلے کئی بار یہاں سے لے کر نکلے اور گزرے ہیں‘ یہ کوئی پہلی دفعہ وہاں نہیں جارہے لیکن آج تک کوئی بھی حادثہ ان کے ساتھ نہیں ہوا آخر یہ حادثہ کیوں ہوا اور اس حادثہ کی وجہ کیا؟میری والدہ کا انوکھا خواب: یہ مسئلہ بعد میں سمجھ آیا اب ہم پریشان کہ اتنے عرصہ سے ہمارےوالد قافلہ لے کر گئے ہیں‘ نہ تجارتی قافلہ واپس آیا نہ اس کی اطلاع آئی ‘آج کل کے مواصلاتی نظام تو تھے نہیں‘ مہینوں اور ہفتوں کے بعد کسی قافلے یا کسی فرد کی اطلاع ملتی تھی۔ ایک رات کو میری والدہ نے خواب دیکھا اور خواب میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ تشریف لائے اور فرمانے لگے : آپ کے شوہر قید میں ہیں اور فلاں فلاں وادی میں ان کو قذاق جنات ڈاکوؤں نے پکڑلیا ‘تین جنات ان کے قتل ہوگئے باقی سارے جنات اور ان کا مال انہی کے قبضہ میں ہے لیکن پریشان نہ ہونا‘ ہم دعا کررہے ہیں۔ماں مجھ سے کچھ چھپارہی تھیں:بس یہ خواب دیکھا تو میری والدہ اٹھ کررونا شروع ہوگئیں‘ ہم بچے تھے ہم بھی اٹھ بیٹھےا ور حالات پوچھے والدہ نے ہمیں کچھ نہ بتایا بس والدہ فرمانے لگیں: مجھے کوئی تکلیف ہورہی ہے اس کی وجہ سے میں رو رہی ہوں لیکن میں اپنے بہن بھائیوں میں بڑا تھا۔ میں والدہ کی بے چینی بے قراری اور اضطراب کو محسوس کررہا تھا ور احساس ہورہا تھا کہ نہیں وجہ کچھ اور ہے‘ یہ چھپا رہی ہیں!میرا شک یقین میں بدل گیا: تھوڑی دیر ہوئی‘ ہمارے ساتھ پڑوس میں ہماری ممانی رہتی تھیں‘ وہ بھی رونے کا سن کر آگئیں‘ انہوں نے بات کی تو دونوں ایک کونے میں چلی گئیں اور سرگوشیوں کے انداز میں آپس میں باتیں کرنے لگیں اب میرا شک یقین میں بدل گیا کہ کوئی وجہ ضرور ہے جو ہمیں نہیں بتائی جارہی اور حقیقت کچھ اور ہے۔ بیٹا تیرے باپ کو ڈاکوؤں نے اغوا کرلیا:آخر کار میں نے والدہ سے اصرار کرکے پوچھا تو والدہ نے بتایا کہ بیٹا تیرے والد کو ڈاکوؤں نے اغوا کرلیا‘ سامان چھین لیا ‘تیرے والد کےتین خادم انہوں نے قتل کردئیے ہیں‘ میں نے پوچھا آپ کو کس نے بتایا: کہنے لگے تیرے والد کے رہنما رہبر ا ور پیرو مرشد نے یہ بات بتائی ہے۔ تو میں نے پوچھا کب
بتائی وہ تو نہیں آئے‘ کہنے لگی بیٹا انہوں نے خواب میں بتائی اور خواب میں یہ سب دکھا بھی دیا‘ مجھے حیرت ہوئی اور میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ خوابوں کے ذریعے اطلاع اور خوابوں کے ذریعے حالات کی آگاہی کا واقعہ سنا۔ ہم بے بس تھے:اب ہم بے بس تھے کیا کر تے؟ آخر کار میری والدہ نے اپنے دونوں بھائیوں کو ساتھ لیا اور مجھے بھی ساتھ لیا‘ مجھے ساتھ اس لیے لیا کہ میرا اصرار تھا کہ اپنے والد کے پیرو مرشد رہبر و رہنما کی زیارت کروں ‘ہم جب پہنچے تو شیخ عصر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد ارادو وظائف میںمشغول تھے۔ ہم ان کے پیچھے بیٹھ گئے۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد فارغ ہوئے اپنے ہاتھوں پر پھونک ماری اور وہ ہاتھ پورے بدن پر پھیرے اور مجھے بلا کر اپنی گود میں بٹھایا اور میرے ماتھے پر پیار کیا۔ میں سمجھ گیا ہوں تم کس مقصد کیلئے آئے ہو:فرمانے لگے: پریشان نہ ہو‘ میں سمجھ گیا ہوں‘ تم کس مقصد کیلئے آئے ہو ؟سب مسئلہ حل ہوجائے گا‘ دراصل وہ مشرک جنات ہیں اور وہ کسی کی بات نہیں مانتے لیکن مجھے ایک آدمی ایسا ملا ہے اس کی بات سوفیصد مانتے ہیں اور ان شاء اللہ وہ اسی کی بات مانیں گے اور مسئلہ حل ہوجائے گا۔ آپ یہیں رہیں آپ کے کھانے اور رہائش کا انتظام کردیا ہے‘ آپ پریشان نہ ہوں لیکن تین دن ضرور لگیں گے اگر زیادہ زور ڈالا تو ہمیں خطرہ ہے کہ وحشی درندے جنات ان کو قتل نہ کردیں۔ہم آپ کا ساتھ دیں گے: مال کی تو کوئی حیثیت نہیں پر جان زیادہ عزیز ہے‘ لہٰذا بالکل تسلی رکھیں‘ اطمینان کریں ہم آپ کا سا
تھ دیں گے۔ میری والدہ کو بہت تسلی ہوئی اور ماموں بھی بہت مطمئن ہوئے اور میں ان کا چہرہ دیکھتا رہ گیا۔اللہ کے نبیﷺ کے فیض یافتہ: یہ بات کہتے ہوئے وہ مکی جن پھر فضاؤں میں گھورنے لگا اور پھر ٹھنڈی آہ بھر کر وہ مکی جن بولے: ان کا چہرہ کیا تھا؟ ایسے تھا جیسے چاند کی کرنیں ‘روشنی کا ہالا‘ ان کے ماتھے پر نور تھا‘ ان کی گالوں سے نور نکل رہا تھا‘جب وہ بولتے تھے ایک روشنی سی محسوس ہوتی تھی ‘مجھے بعد میں احساس ہوا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ کے فیض یافتہ ہیں اور ان کانور انہوں نے حاصل نہیں بلکہ جذب کیا ہے اور ایسا جذب کیا تھا کہ اتنا بڑا مقام پایا۔ ویسے بھی یہ سب سے آخر میں وصال پانے والے صحابہؓ میں سے ہیں اور لمبی عمر پانے والے صحابہؓ میں سے ایک صحابیؓہیں۔دل میں ٹھنڈک پڑگئی:ان کی گفتگو میں ملائمت تھی‘ لہجہ میں نرمی تھی‘ پیار تھا‘ شفقت تھی اور محبت تھی۔ ان کا لہجہ دل گیر اور دلفریب تھا جس میں خلوص ٹپک رہا تھا اور محبت کی پرچھائیاں ان کے لہجے سے عیاں تھیں ہم وہاں رہ گئے‘ ہمارے لیے فوراً ثرید کھجور کا شربت لایا گیا اور ثرید اور کھجور کے شربت سے ہماری تواضع کی گئی‘ ہم نے جی بھر کھانا کھایا ‘بس میری والدہ کئی دن کی جاگی ‘تڑپتی ‘چیختی ‘چلاتی ہوئی تھیں‘وہ تو ایسی سوئیں ایسے جیسے ان کو دل میں ٹھنڈک پڑگئی ہو اور تھوڑی ہی دیر کے بعد مجھے بھی نیند آگئی۔شاید یہ آپ کے آنے کا کمال ہے: ہم جب سوئے تو صبح ہوئی اور صبح نمازفجر کے بعد ہمیں شیخ نے اپنے پاس بلایا اور فرمانے لگے: شاید آپ حضرات کے آنے کا یہ کمال ہے کہ جومسئلہ تین دن میں حل ہونا تھا وہ یہاں جلدی حل ہوگیا ہے اور جس مسئلہ کو ہم نے بہت مسئلہ بنایا ہوا تھا وہ اللہ کے فضل سے بہتر ہوگیا ہے۔ میں آپ کے ساتھ خود جاؤں گا:اب میں آپ کے ساتھ خود جاؤں گا اور ان کو رہائی ملے گی‘ تھوڑی ہی دیر ہوئی وہ جناتی جہاز آگیا ۔میں اسے جناتی جہاز کہوں اڑن کھتولہ کہوں یا گدھ نما ‘ایک نشست جس میں پڑوں کی بنی ہوئی کرسیاں اور سخن نما نہایت نرم ۔وہ اترا‘ حضرت انس بن مالک صحابی ؓ، ان کے دو خادم اور ہم تمام افراد اور کچھ اٹھارہ جنات تھے جو اس میں سوار تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے وہ مکی جن اپنی بات کو دہراتے ہوئے کہنے لگا: ان جنات میں کچھ کچھ جنات مجھے بہت معزز اورمحترم محسوس ہورہے تھے اور ایسے احساس ہورہاتھا کہ شاید ان کا بہت مقام مرتبہ اور ان کابہت بڑا کمال معاشرے میں ہے اور حضرت انس رضی اللہ عنہٗ ان حضرات کو خصوصاً ساتھ لے کر جارہے ہیں تاکہ ان کی وجہ سےمیرے والد اور دیگر کی رہائی میں آسانی ہو اور خیر ہو۔ حضرت انس ؓ کے ہاتھ میں تسبیح اور ذکر: مجھے ایک بات بتانا بھول گئی‘ مکی جن نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے مجھے متوجہ کیا : حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ہاتھ میں کھجور کی گٹھلیوں کی بنی ہوئی ایک تسبیح ہوتی تھی جس پر اکثر وہ کچھ پڑھتے رہتے تھے‘ یہ مجھے بعدمیں پتہ چلا کہ وہ صرف سورۂ اخلاص ہی پڑھتے رہتے تھے ۔خیر ہم تھوڑی ہی دیر میں اس وادی میں پہنچے‘ ہماری سواری اتری اب وہ جنات جو حضرت انس رضی اللہ عنہٗ کے ساتھ تھے‘ ان کے پاس اسلحہ تھا اور انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہٗ کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا اورڈھالیں تانی ہوئی تھیں کہ کہیں دور سے کوئی تیر نہ آئے اور ان کو تکلیف نہ ہو۔ ہمارا گھرانہ ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا جس جگہ ہمارے والد کے قافلے کو لوٹا گیا‘ ان قذاقوں اور ڈاکوؤں کا ٹھکانہ اس جگہ سے زیادہ دور نہیں تھا۔ یہ ساری معلومات حضرت انس رضی اللہ عنہٗ نے اپنے جنات دوستوں کے ذریعے معلوم کرا لی تھیں۔صحابی رسول ؓ کا سلام اور طوفان: انہوں نے جاکر زور سے سلام کیا اور ان کا سلام وادی میں گونجا‘ صدائیں بازگشت ہوا اور ان کے سلام کرنے کے تھوڑی ہی دیر ہوئی ۔ایک غبار آیا‘ آندھی کی طرح بگولہ آیا‘ جس میں بڑے بڑے پتھر بھی اڑنے لگے اور وہ بگولہ ہماری طرف آرہا تھا۔خونخوار جنات: تمام جنات خاموش کھڑے ہوئے تھے ہم سے کچھ تھوڑا دور وہ بگولہ ایک دم میں ختم ہوگیا اور اس میں سےخونخوار جنات سامنے آئے۔ ان جنات کا لہجہ تلخ تھا۔ ادب ‘احترام‘ وقار ان کے اندر نہیں تھا حضرت انس رضی اللہ عنہٗ نے پہلے ہی سب کوحکم دے دیا تھا کہ آپ میں سے کسی نے کوئی بات نہیں کرنی‘ ان سے بات میں ہی کروں گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہٗ نے انہیں متوجہ کیا اور کچھ حصہ قرآن پاک کا پڑھ کر سنایا۔کیا تمہیں کسی کو قتل کرنے کی اجازت ہے: پھر فرمانے لگے تم مسلمان نہیں ہو‘ تم جس مذہب سے بھی تعلق رکھتے ہو کیا اس مذہب میں ایسا کرنے کی اجازت ہے؟کیا اس مذہب میں کسی کو قتل کرنے کی اجازت ہے؟کیا اس مذہب میں کسی کے مال اور جان کو لوٹ لینا اور ختم کردینا جائز ہے؟ اگر آپ میرے ان سوالوں کے جواب دے دیں ‘حضرت انس رضی اللہ عنہٗ کے لہجے میں ایسا رعب عظمت اوروقار تھا کہ ان کے ہاتھوں میں تنی ہوئی تلواریں نیچے ہوگئیں اور کسے ہوئے کمانوں میں تیر ختم ہوکر واپس ہوگئے اور اٹھی ہوئی ڈھالیں پلٹ گئیں۔ ان کے سر جھک گئے اور وہ خاموش تھے۔ کچھ دیر سناٹا رہا‘ پھر حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ گویا ہوئے اور آپ رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا: میں ایک نسبت رکھتا ہوں کہ میں اللہ کے نبی ﷺ کا غلام ہوں اور میں نے ساری زند گی ان کی غلامی کی پھر ان کے بعد میں نے بڑے بڑے صحابہؓ اہل بیتؓ کی غلامی کی ہے‘ وہ سارے میرے بڑے اس دنیا سے پردہ فرماگئے ۔میرے رب کی طاقت:اب جتنے بھی بڑے بڑے محدثین‘ علماء‘ فقہا ‘تابعین اور تبع تابعین ہیں‘ مجھے اپنا سردار کہتے ہیں۔ شاید میں آپ کی نظر میں سردار ہوں یا نہیں لیکن میں آپ کو اتنا بتادوں کہ میرے ساتھ ایک بہت بڑی طاقت ہے اوروہ طاقت میرے رب کی ہے۔ آپ سب سے لڑ سکتے ہیں شاید مجھ سے نہ لڑسکیں اس لیے جو کہہ رہاہوں اللہ کی طاقت کے بھروسے پر کہہ رہا ہوں اور جو کہہ رہا ہوں اللہ کی طاقت کےاحساس میں کہہ رہا ہوں۔ میری زندگی میں یہ سب کچھ موجود ہے لیکن میں تم سے پھر بھی درخواست کررہا ہوں کہ ان کا مال واپس دیں‘ ان کے قتل کا قصاص دیں اور ان کےقیدی واپس کریں۔میں اکیلا تم سب سے لڑوں گا: اگر آپ میری درخواست نہیں مانو گے میں اللہ کی طاقت کو سامنے لاکر تم سے لڑوں گا‘ مجھے احساس ہے کہ تمہارے پاس قذاقوں اور ڈاکوؤں کی فوج ہے لیکن میں تم سب کیلئے اکیلا لڑوں گا‘ میں اپنے بڑھاپے کے باوجود اپنے اندر ایک ہیبت‘ شان و شوکت پاتا ہوں۔ اس کی وجہ میرے رب کی طاقت اور میرے نبی ﷺ کی غلامی میرے ساتھ ہے۔بس یہ آخری بات تھی: بس یہ شاید حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ کی آخری بات تھی ان ڈاکوؤں کا تکبر سارے کا سار ا ٹوٹ گیا اور ان کے اندر کی سب گرمیاں نرمیوں میں بدل گئیں اور ان کے سر جھک گئے کوئی طاقت تھی جس نے ان کے ہتھیار چھین لیے اورکچھ کے ہاتھوں سے گر گئے اورکچھ نے نیچے رکھ دئیے اور وہ یکایک بیٹھ گئے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہٗ کی طرف سے اٹھی ہوئی جتنی ڈھالیں تھیں‘ جنات نے جو ان کی حفاطت کیلئے تانی گئی تھیں جو ہمارے جناتی سواری میں ہمارے ساتھ گئے تھےانہوں نے نیچے کرلیں۔ میں تمہیں دعوت دیتا ہوں‘ کلمہ پڑھ لو:تھوڑی ہی دیر بعد جنات سواری سے ایک کرسی جوکہ پرندوں کے پروں سے بنی ہوئی ایک بہترین مسند تھی لائی گئی اور حضرت انس رضی اللہ عنہٗ اس پر تشریف فرما ہوئے اور ان سب کو پھر دعوت دین شروع کی اور پھر خطبہ مسنونہ کے بعد فرمانے لگے: میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ تم اللہ کے دین کو اپنے سینے پر سجا لو‘ کلمہ پڑھ لو اور ایمان اعمال کی زندگی میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ۔ میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ تم سچی دنیا کے سچے راہی بن جاؤ اور ایسی دنیا کے راہی بن جاؤ جس میں بعد میں پچھتا وا نہیں‘ گھاٹا نہیں‘ فریب نہیں‘ دھوکہ نہیں‘ پریشانی نہیں اورمیں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ مرنے سے پہلے بھی سرخرویاں پالو اور مرنے کے بعد سرخروئیوں میں آگے سے آگے چلے جاؤ‘ میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ تم اپنی زندگی میں کلمہ لے آؤاور کلمہ والی زندگی اپنا لو‘ سچوں میں شامل ہوکر اور سچوں میں داخل ہوکر سچی زندگی پر آجاؤ اور میں تمہیں اس بات کی دعوت دیتاہوں کہ تمہارا خاتمہ ایمان پر ہوجائے ‘تم مرنے سے پہلے بھی مت پچھتاؤ اور مرنے کے بعد بھی مت پچھتاؤ اورتمہارا پچھتا واہرگز نہ ہو اور میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ تم ذلت کی زندگی سے نکل کر عزت کی زندگی پاؤ ‘شرافت کی زندگی میں آکر سروں پر شرافت کا تاج سجاؤ‘ لوگوں کی جان مال کے دشمن اس وقت تم گردانے جاتے ہو‘ میں چاہتا ہوں کہ لوگوں کی جان مال اور عزت کے محافظ بن جاؤ۔ تم عزت دار جنات بن جاؤ ۔تمہیں وقار ‘شان و شوکت ملے‘ تمہاری زندگی میںراحت‘ خوشیاں اور خوشحالیاں ہوں‘ تمہیں صحت اور تندرستی ملے‘ تمہارا بڑھاپا بھی قدردانی کا ذریعہ اور تمہاری موت بھی فرشتوں کو رلانے کا ذریعہ بنے۔ گفتگو کا جاہ و جلال:وہ مکی جن یہ بات کہتے کہتے خاموش ہوگیا اور میں خاموشی سے اس مکی جن کی باتیں سن رہا تھا‘تھوڑی دیر ہوئی کہ مکی جن کی آنکھوں سےآنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے ‘اس کا درد ایسا تھا کہ مجھے حیرت ہوئی اور میری بھی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔میں نے پوچھا آپ رو کیوں رہےہیں؟ کہنے لگے آج بھی وہ بچپن یاد‘ حضرت انس رضی اللہ عنہٗ کا چہرہ مبارک‘ گفتگو کی جاہ وجلال یاد اور وہ خلوص اور ایمان کی تازگی یاد۔ولایت کے شہنشاہ کی بات کا اثر:رو اس لیے رہا ہوں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہٗ کی اس گفتگو پر وہ ظالم جنات جو نسل در نسل سے ڈاکو اور لٹیرے تھے اور لوگوں کولوٹنا اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھو نا سمجھتے تھے‘ انہیں احساس نہ ہوا کہ لوگوں کو قتل کرکے جنات اور انسانوں کو تڑپارہے ہیں لیکن ایک اللہ کے ولی اور ولایت کے شہنشاہ کی بات کا وزن اور خلوص ایسا تھا کہ وہ سب رو رہے تھے اور اتنا روئے کہ ان کی ہچکیاں بندھ گئیں ان میں کچھ جنات ایسے تھے جو اپنے مذہب کے مطابق اپنا منہ پیٹ رہے تھے جبکہ اسلام نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے‘ کچھ لوگ ایسے تھے جو اپنے مذہب کے مطابق اپنا گریبان چاک کررہے تھے جبکہ اسلام نے منع کیا ہے کچھ لوگ ایسے تھے جو حضرت انس رضی اللہ عنہٗ کی اس معتبر اور مبارک گفتگو کے بعد زمین پر لوٹ پوٹ رہے تھےا ور زمین پر تڑپ رہے تھے ان کی تڑپ‘ ان کی بے چینی‘ ان کی بے کلی اور بےقراری ایسی بڑھی ایسی بڑھی کہ ہر طرف آہ و بکا تھی‘ ہر طرف درد ہی درد تھا‘ غم ہی غم تھا اور تڑپ ہی تڑپ تھی اور ہرطرف شور وپکار ‘معافی توبہ‘ وہ کیا منظر تھا؟ کسی کو ایسے روتے نہ دیکھا:میں آج بوڑھا ہوگیا ہوں۔ صدیاں گزر گئیں اور شاید اور صدیاں گزر جائیں‘ اپنی زندگی سے وفا نظر نہیں آرہی‘ بہت کچھ گزار بیٹھا ہوں لیکن میں نے آج تک ان صدیوں میں بہت سے لوگوں کو روتے دیکھا‘ تڑپتے دیکھا‘ اپنے آنسوؤں کے ساتھ ابلتے دیکھا‘ غم میں دیکھا‘ دکھ میں دیکھا‘ اللہ کی محبت میں بھی روتے دیکھا اور غم کی تڑپ میں بھی روتے دیکھا لیکن آج تک ایسا رونا میں نے کہیں نہیں دیکھا اور ایسا رونا مجھے زندگی میں کہیں نظر نہیں آیا‘ وہ کیا تھے؟ جتنے ظالم تھے آج اتنے مظلوم نظر آرہے تھے؟ وہ جتنے سفاک‘ سنگ دل اور پتھر تھے‘ آج وہ اتنے موم بن گئے تھے‘ شاید زندگی میں کبھی کسی کو تڑپا کر قتل کرکے ان کا آنسو تو دور آہ بھی کبھی نہیں نکلی۔ہمیں قتل کردیا جائے:انہوں نے ہمیشہ قہقہے لگائے‘ انہوں نے لوگوں کو تڑپا کر ہمیشہ خوشی کا اظہار کیا۔ وہ جھومے اورجھومتے رہے لیکن آج منظر عجیب تھا‘ وہ رو رہے تھے اور تڑپ رہے تھے پھر تھوڑی ہی دیر ہوئی۔ ان کے تین سردار سامنے آئے اور تلوار حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ کے ہاتھوں میںپکڑا دی۔ کہنے لگے: ہمیں ان تین کے بدلے میں قتل کردیا جائے اور اسی تھوڑی دیر میں رسیوں سے بندھے میرے والد اور باقی سب کو سامنے لایا گیا۔ خنجروں سے ان کی رسیاں کاٹیں‘ سب ان کے پاؤں کو چومنے لگے‘ ان کو سجدہ کیا۔ ہم ایمان کی موت مرنا چاہتے ہیں:یہ ان کے مذہب کے مطابق تھا‘ اسلام میں اللہ کے سوا باقی سب کے سجدوں کو حرام قرار دیا اور اس کے بعد انہوں نے میرے والد اور سب کو عزت اور وقار سے بٹھایا‘ اب ان کا اصرار تھا کہ سب سے پہلے ہمیں کلمہ پڑھائیں تاکہ ہم ایمان کی موت مرنا چاہتے ہیں اور اس کے بعد اس تلوار کے ایک ہی وار سے سر تن سے جدا کردیا جائے‘ ہم مجرم ہیں‘ ہمارا منہ کالا ہے‘ ہم قاتل ہیں‘ ہم دنیا کے گھٹیا انسان ہیں‘ ہم نے یہ پہلے تین لوگ نہیں مارے‘ ہماری درندگی کی فہرست بہت لمبی ہے جس میں ہم نے لوگوں کو قتل کیا‘ ان کی عزتیں آبروئیں لوٹیں ان کے مال و دولت کو لوٹا اور گناہوں اور عیاشی میں خرچ کیا‘ ہمارے شب و روز بہت سیاہ ہیں۔اے کاش! ہم آپ کو پہلے دیکھ لیتے:اے کاش! ہم پہلے آپ کو دیکھ لیتے‘ ان میں سےایک صاحب کہنے لگے میں نے محمد( ﷺ )کی( یعنی حضرت محمد ﷺ کی طرف اشارہ )محفل دیکھی ہے آپ (ﷺ)کے پاس سے گزرا ہوں‘آپ(ﷺ) کو قرآن پڑھتے دیکھا‘آپ (ﷺ) کو اللہ کے سامنے روتے دیکھا ‘رکوع سجدہ کرتے دیکھا ‘ میں نے محمد(ﷺ) کا وصال دیکھا‘ میں نے ان کے بعد ان کے ساتھیوں کو دیکھا پرمیرا دل بہت سخت پتھر کی طرح تھا۔ اے کاش میں ان پر ایمان لے آتا‘ آج مجھے بھی صحابیتؓ کا رتبہ اور مقام ملتا۔ اے کاش! میں اپنی آنکھوں کو کھول بیٹھتا ‘میری آنکھیں بہت بند اور ایسی بند کہ دل کی آنکھیں بھی نہیں‘ چہرہ کی آنکھیں بھی نہیں ‘وہ یہ سب باتیں کہتے ہوئے رو رہا تھا۔ اس کی چیخ و پکار سب سے بڑھ گئی تھی۔
میں وہ بدقسمت جن ہوں:پھر تیسرا بولا میں وہ بدقسمت جن ہوںجس کا والد لات و عزیٰ (جو مشرکین کے بڑےمعبود اور خدا تھے) ان کا پجاری تھا جب جناب محمد(ﷺ) مکہ سے مدینہ گئے تو اس ہجرت کے واقعہ میں میرے والد کا بھی دخل تھا‘ میرے والد نے جناب محمد (ﷺ)اور ان کے ساتھیوں کوبہت تکالیف دی تھیں اور وہ جنات جو جناب محمد(ﷺ) کے ہاتھوں مسلمان ہوئے تھے ان کو بھی بہت اذیتیں دی تھیں‘ میں ان جنات میں سے ہوں جس کو ہمیشہ یہ فخر رہا تھا کہ جناب محمد(ﷺ) کو مکہ سے نکالنے میں میرے والد کا ہاتھ تھا۔ہم ازلی بدبخت تھے:میں ان جنات میں سے ہوں جس کو ہمیشہ یہ فخر رہا ہے کہ جناب محمد(ﷺ) اوران کے ساتھیوں کو تکلیف دینے میں میرےو الد کا بہت بڑا حصہ ہے لیکن آج احساس ہوا ہم محروم تھے‘ ہم ازلی بدبخت تھے‘ جس نے جناب محمد(ﷺ) جیسی ہستی کو دیکھ کر‘ پاکر بھی اپنا نصیب اور مقدر نہ سنوارا۔ اپنا نصیب اور مقدر بہترنہ کیا ‘ہم ذلتوں میں ڈوبے رہے‘ ذلتیں شاید ہمیں راس آگئی تھیں‘ ہم حرام کھاتے تھے ہم حرام پیتے تھے اور حرام زندگی ہم نے گزاری۔اور ان کا دل موم ہوگیا: آج تک حلال اور طیب راہوں کا ہمیں احساس نہ ہوا ‘وہ رو رہا تھا اور عجیب بات یہ ہے کہ یہ بات کہتے ہوئے مکی جن پھر رک گئے اور حسب معمول خلاؤں میں گھورنے لگے کیونکہ ان کی ٓانکھوں میں آنسو نہیں خون کے آنسو تھے ‘ مکی جن پھر گویا ہوئے:وہ مسلسل رو رہا تھا نہ معلوم حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ٗکی دلی کیفیات ایسی متوجہ ہوئیں کہ بس ان کا دل موم ہوگیا بلکہ موم سے بھی زیادہ پگھل گیا ‘اب ایک طرف وہ اصرار کررہے تھے کہ ہمیں کلمہ پڑھائیں اور دوسری طرف اصرار کررہے تھے کہ ان تلواروں سے ان کے سر قلم کردیں‘ آپ کا مال واپس کردیا‘ آپ کے قیدی ہم نے واپس کردئیے۔رحم کردیں‘ معاف کردیں: آپ نے ان تین کا قصاص مانگا قصاص کے بدلے میں غلام نہیں دیتے ہم تینوں اپنے قبیلےکے آقا ہیں اور ایک جو بڑا آقا جس نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں میں تلوار دی تھی ‘ سامنےبیٹھا اور اپنے قبیلے والوں کو آواز دے کر کہنے لگااورجتنے بھی ہیں سب کو بلاؤ اور عرض کرنے لگا: سب کو کلمہ پڑھائیں‘ ہزاروں جنات کا قافلہ‘ پہاڑوں کے پیچھے چھپا ہوا ہزاروں جنات کے قافلے میں عورتیں‘ مرد‘ بچے‘بوڑھے‘ جوان ضعیف‘ بیمار‘ صحت مند‘ تندرست سب موجود تھے اور وہ سب ایک ہی پکار پکار رہے تھے معاف کردیں‘ رحم کردیں‘ معاف کردیں‘ رحم کردیں۔ اور غیرمسلم جنات نے کلمہ پڑھ لیا: شیخ نے کلمہ پڑھا ان کے ساتھ ان سب نے کلمہ پڑھا اور کلمے کی ایک پکار تھی جو پہاڑوں کے درمیان اس وادی میں گونج رہی تھی۔ شاید ہزاروں لاکھوں سالوں میں اس وادی میں اتنا اونچا کلمہ‘ عظمت کبریائی اور اللہ کی عظمت کے ساتھ پڑھا ہوا کلمہ نہ دیکھا ہو ‘انہی حالات میں انہوں نے کلمہ پڑھا۔میں نے ان کو معاف کیا:میرے والد آگے بڑھے‘ فرمانے لگے: میں نے ان کو معاف کیا‘ اب یہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں باقی جہاں تک ان تین بندوں کا قصاص ہے میں خود انہیں ادا کروں گا۔ ان کے ورثاء کو راضی کروں گا۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ایک دم فرط محبت سے کھڑے ہوئے اورمیرے والد کو سینے سے لگایا۔ میں نے ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے اور اپنے والد کو بلک بلک اور تڑپ تڑپ کر ان کے سینےسے لگ کررو تے دیکھا اور روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی‘ ہچکی ایسے بندھی کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ خود بھی بہت زیادہ روئے اور ہمارا سارا قافلہ رو رہا تھا۔ میری والدہ میں میرے دونوں ماموں ہمارے ساتھ جناتی سواری میں آنے والے سب رو رہے تھے۔ یہ گلے لگ کر روتے رہے آخر جب غم ٹھنڈا ہوا‘ جدا ہوئے اور میرے والد نے عرض کیا کہ حضرت کچھ جنات ایسے ان کے درمیان بطور معلم چھوڑ
جائیں جو ان کو دین اسلام ‘کلمہ‘ نماز‘ حلال و حرام‘ ذکر تسبیحات سکھاتے رہیں تو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ نے دو جنات جو کہ عالم حافظ قاری ان کو وہاں چھوڑ دیا۔ کیا عجب دنیا تھی:کیا زندگی تھی ‘وہ کیا منظر تھا ‘وہ کیا عجب دنیا تھی ،آخر کار یہی فیصلہ ہوا کہ دو عالم حافظ اور قاری جنات وہاں چھوڑ دیئے جائیںجو انہیں دین کی تعلیم دیں، اخلاق کی تعلیم دیں، انسانیت کی تعلیم دیں اور نماز، کلمہ، حلال ،حرام اور نعمتوں کے بارے میں بتائیں۔اب اگلا منظر شروع ہوتا ہے: اُس بزرگ نے میں اُسے بزرگ ہی کہوں گاکہ جس نے اتنی بڑی قربانی دی اور اپنے تین آدمی مروا کر بھی اُن سے کہنے لگا کہ ان کی دِیت میں خود دوں گا، اُن سب کو معاف بھی کیا ، اپنے تین آدمی بھی دیئے اور اُن کے لیے دعائے خیر کی۔ اب اگلا منظر شروع ہوتا ہے اور اگلا منظر اُس سے زیادہ حیرت انگیز ہےوہ یہ ہے کہ ایک طرف صحابیؓ رسول بیٹھے ہیںاور ایک طرف میرے والد بیٹھے ہیںاور وہ معاف کر دینے کا سارا کا سارا نظام چلا چکے ہیںاور انہوں نے معافی کا اعلان کردیا۔ اب جنات کی طرف سے ایک عجیب واقعہ ہوا۔جناتی شور شرابہ اور طوفان:وہ واقعہ یہ ہوا کہ جنات کی طرف سے ایک شور شرابہ اور حیرت انگیز طور پر طوفان اُٹھا، یہ مکی جن کہنے لگے کہ میں خوف زدہ ہوگیاکہ آخر یہ کیا ہوا؟ وہ تمام جنات کہنے لگے کہ جب خاموشی ہوئی اور آواز کانوں میں پڑنا شروع ہوئی تو کہنے لگے کہ آپ نے ہمارے ساتھ اتنا بھلا کیا‘اتنی
مہربانی کی اور اتنی شفقت اور اتنا کرم فرمایا ہم اب آپ کو احسان کے ساتھ جانے کا عرض کریں گے کہ ہم آپ کا
احسان ادا کریں آپ نے ہمیں اتنا معاف کیا اور اب تک ہم
نےانسانیت کی اتنی سخت توہین کی اب آپ کا احسان کیسے ادا کریں؟اور کس طرح ہم آپ کے ساتھ احسان ایسا ادا کریں کہ آنے والی دنیا آنے والے زندگی اور آنے والا نظام بھی اُس احسان کو یاد رکھے اور ایسا احسان یاد رکھے ہم اور ہماری نسلیں ایک داستان اور ایک واقعہ بیان کریں کہ اس طرح ہمارے پاس کچھ لوگ آئے تھے اور انہوں نے ہمیں درگزر کا سبق دیا تھا اور ہمیں معافی کا سبق دیا تھا۔ ہم جشن منانا چاہتے ہیں:لہٰذا آپ کچھ دن ہمارے پاس ٹھہریں ہم ایک جشن منانا چاہتے ہیں۔ لوگ تو کامیابی پر، گناہوں پر جشن مناتے ہیں ہم اس کانام جشن ِ توبہ رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم آپ کے ذریعے سے اپنے اور خاندان کے وہ مشرکین جو مختلف پہاڑوں پر دور پڑے پھیلے ہوئے ہیں اور یہاں سے سینکڑوں میل دور رہ رہے ہیں اُن کو دعوت دے کر بلوانا چاہتے ہیں آپ کا ذریعہ ہوجائے گا‘ آپ کا وسیلہ ہو جائے گا اور آپ ذریعہ بن جائیں گے‘ ان کی ہدایت کا اور ان کو ہدایت مل جائے گی اور اسی طرح ان میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو مختلف گناہوں، مختلف بدکاریوں اور مختلف نظام میں لگے ہوئے ہیں اور وہ بہت مطمئن ہیں اور اتنے مطمئن ہیںکہ شاید کوئی مطمئن نہ ہو کہ ہم جو زندگی گزار رہے ہیں یہی زندگی ٹھیک ہے‘ باقی ساری زندگیاں خراب ہیں حالانکہ ان کی اپنی زندگی خراب ہے، اُن کی اپنی زندگی میں نقص ہے۔ اب وہ منتیں کرنے لگے اور جو ان کے تین بڑے سردار تھے وہ بھی منتیں کرنے لگے کہ آپ یہاں ٹھہر جائیں‘ ہم آپ کی خدمت وتواضع کریں گے۔آپ کا رزق حرام ہے!: لیکن اچانک ایک اچھی بات ہوئی کہ حضرت انس بن مالکؓ فرمانے لگے ہم آپ کے پاس ٹھہریں گے ، ہم کھائیں گے پئیں گےتو آپ کا رزق حرام ہےآپ کا رزق ناپاک ہے‘ یہ وہ رزق ہے جو لوٹ مار کا اور خون ریزی کا ہے،آپ نے ہمارے قافلہ کا رزق اور سامان واپس کردیا لیکن ہم سے
پہلے کتنے بے شمار واقعات ایسے ہیں جن کے ساتھ آپ نے ظلم و زیادتی کی تو ان کے رزق کا کیا بنے گا؟ اب وہ سوچ میں پڑگئے، تھوڑی دیر سوچتے رہے۔ پھر کہنے لگے اچھا ایسے کرتے ہیں کہ آپ یہاں رہیںہم آپ کے ساتھ آپ کا ساتھ دیں گے، لیکن ہم کہیں سے اُدھار پیسے لے آتے ہیں، اُدھار برتن لے آتے ہیںاور آپ کے لیے پاک رزق اور پاکیزہ کھانے اور پاکیز برتن اور پاکیزہ بچھونے حتیٰ کے ہمارے بچھونے ہمارا سارا نظام ہم بدل دیتے ہیں لوگوں سے لے آتے ہیں۔ جب یہ بات ہوئی تو حضرت انس بن مالکؓ بھی راضی ہوئے اور میرے والد نے تو راضی ہونا تھا
کیونکہ وہ ان کے غلاموں کے غلام تھے ، اب کیا منظر تھا اُن کا کہ کچھ دیر میں بہترین بستر، بہترین کھانے، لاجواب مسہریوں اور ایک انوکھا نظام تھاجو میں نے بچپن میں دیکھا۔ اے کاش! وہ منظر بہت لمباہوجاتا: وہ مکی جن تھوڑی ہی دیر بعد خلائوں اور فضائوں میں گھورنا شروع کردیتا ، شاید وہ اپنی پرانی زندگی کے واقعات کو کرید کریدکر اپنی یاد داشتوں سے نکال رہا تھااور کہنا شروع کرتا اے کاش! اے کاش!وہ منظر بہت لمبا ہو جاتا بہت طویل ہو جاتا میں اللہ کے اُس غلام صحابیؓ کی زیارت بار بار کرتا، لیکن میں یہ بار بار نہ کرسکا اور ایک وقت وہ بھی آیا کہ مجھے علم ہوا کہ اُن کا وصال ہوگیا ہے اور میں ان کے جنازہ میں شامل ہوا۔ جنات کا اتنا بڑا ہجوم کبھی نہ دیکھا: خیر ہم وہاں سات دن رہے، آٹھ راتیں سات دن ہم وہاں رہے، تیسرے دن وہاں ایک جشن ہوا، بہت کھانے پکائے گئے،اور بہت بچھونے بچھائے گئے، بہت زیادہ مخلوق آئی نامعلوم اتنے جنات کہ ہم خود بھی جنات ہیں، اتنا جنات کا ہجوم اور اتنا جنات کا اکٹھا ہونا میں نے تو زندگی میں کہیں نہیں دیکھا اور وہ کیا اُن کااکٹھا ہونا تھا ان کے بوڑھے، ان کے بچے، ان کی عورتیں، ان کے مرد گاتے ہوئے آرہے تھے مختلف ساز بجا رہے تھے‘ گاتے ہوئے آرہے تھےظاہرہے وہ ایمان والے نہیں تھے لیکن اب یہ ایمان والے تھے۔ حکمت و بصیرت: اب ان حالات میں حضرت انس بن مالکؓ نے ایک عجیب حکم صادر فرمایا جس پر آج بھی مجھے حیرت ہیں ان کے اندر کسی کو لانے کی حکمت بصیرت کیا تھی کسی کے دل میں اپنی محبت ڈالنے میں اللہ تعالیٰ نے ان کو کیا مرتبہ دیا تھا۔فرمانے لگے جس طرح گاتے ہوئے آرہے ہیں اور جس طرح یہ اپنی محفلوں میں آرہے ہیںان کو نہ روکنابس ان کو محبت کیساتھ کھلانا پلانا پھر ہم ان سے خود بات کریں گےاور ایسی بات کریں گے کہ ان کے دل اور ان کے سینے نرم اور منور ہو جائیں گے۔اور ان کا ایک ایک پل قیمتی گوہر بن جائے گا۔ایک دن مسلسل اُن کی دعوت ہوئی انہوں نے ناچنے گانے کا خوب جشن منایا ‘اس جشن کے دوران حضرت انس بن مالکؓ شامل نہیں ہوئے‘ آپ بہت دور ایک جھونپڑی تھی وہاں تشریف لے گئے اب میرے والد بھی ساتھ تھے ہمارا سارا قافلہ بھی ساتھ تھاجہاں کوئی آواز نہیں آرہی تھی اور آپؓ نے اس خاندان کو حکم دیا کہ اس کے قریب رہواور ان کے اس گناہ میں شامل نہ ہونا‘ تمہارے دل میں اس گناہ کے حرام اور غلط ہونے کا سو فیصد یقین ہولیکن اس حالت میں فی الحال اُنہیں نہ روکنااور مجھے آج وہ دلیل نظر آتی ہے کہ اللہ کے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کفار کے میلوں میں تشریف لے جاتےتھےاور وہاں دعوت
کی نیت اور دعوت کے جذبہ سے جاتے تھے اور ان کو وہاں کسی چیز سے منع نہیں فرماتے تھے ، روک ٹوک نہیں کرتے تھے، بس وہاں اُن کو دعوت دیتے تھے اور آج وہی منظر پھر میرے سامنے تھا اور اُس منظر کا ایک ایک لمحہ ایک ایک لحظہ اور خاص طور پر حضرت انس بن مالکؓ نے یہ تلقین بھی فرمائی کہ جتنا ہوسکے محبت پیار سے اور اگر ان میں سے کسی کے ساتھ آپ کا بہت گہرا تعلق ہےاس کو کسی حرام کام سے ، ناجائز ناچ گانے سےپیار سے روک سکتے ہو تو ضرور روکوورنہ اُن کے ساتھ سختی اور زیادہ منع نہ کرنا۔حضرت انس بن مالک ؓکی دل میں عظمت: اب یہ نصیحتیں دے کر حضرت انس بن مالکؓ تو تشریف لے گئےاور ہم بھی سارے وہاں سے چلے گئے، دوسرے دن انہوں نے حضرت انس بن مالکؓ کی وہاں گفتگوکی سارے جنات وہاں اکٹھے‘ عورتیں، مرد ہجوم لیکن ایک انوکھا منظر یہ دیکھا کہ ان جنات نے جنہوں نے ڈاکہ اور قزقی سے توبہ کی تھی اور ان میں ایک عجب چیز دیکھی کہ انہوں نے حضرت انس بن مالکؓ کی عظمت دل میں ایسی بیٹھی اُس ایک ڈیڑھ دن کی ملاقات میں کہ جب حضرت انس بن مالکؓ تشریف لائےتو حضرت انس بن مالکؓ کی عظمت میں فوراً کھڑے ہوگئے، سر جھکا لیا، خاموش ہوگئے اور اُن کا سر جھکا ہوا تھا۔ ان کے ہاتھ پیٹ پر‘ سینے پر بندھے ہوئے تھے۔نورانی موتی اور روحانی کمال: پھر بیٹھ گئے تو حضرت انس بن مالکؓ کی گفتگو شروع ہوئی بس وہ گفتگو کیا تھی‘ وہ موتی تھے اور وہ نورانی موتی اور روحانی ایک کمال کی برکتیں خیریں تھیں۔ حضرت انس بن مالکؓ نے انہیں کلمے کی طرف ، آخرت کی طرف ، موت کی طرف، اللہ کی طرف اور نبی کریمﷺ کی رسالت کی طرف بلایا۔ آپﷺ کے معجزات سنائے، آپ ﷺ کے کمالات سنائے، واقعہ عرش بیان کیا، واقعہ معراج بیان کیا، کوئی دو گھنٹے سے زیادہ حضرت انس بن مالکؓ کی گفتگو جاری رہی، ان میں سے بہت سے لوگ خاموشی سے سنتے رہے اور بہت سے ایسے تھے جو ساتھ روتے رہے اور بہت سے ایسے تھے جو اتراتے بھی رہے اور
کچھ ایسے بھی تھے ایسے جامدوساکت کہ وہ حیرت زدہ تھے، اور ان میں سے بہت سے بعض اوقات کھڑے ہوکر گفتگو کے درمیان بولنا شروع کردیتے کہ ہاں یہ باتیں ہم نے سنی تھیں خودنبی علیہ الصلوٰۃ و السلام سے سنی تھیں ، وہ اپنے غلاموں کو تلقین فرما رہے ہوتے تھے ہم چھپ کر سنتے تھے‘ پر ہمارے بڑوں نے ہمیں اُس نبی( ﷺ )کے بارے میں وہ وہ باتیں بتائی جن سے ہم غلط فہمیوں کا شکار ہوئے۔اے کاش ہم ایمان لے آتے: کاش! ہم اُس وقت اس نبی( ﷺ)پر ایمان لے آتے اتنی قیمتی باتیں اور اتنے قیمتی کمال اور اتنی برکات بس اب پچھتاوا ہی پچھتاوا ہے۔ اُس کے بعد حضرت انس بن مالکؓ نے انہیں کلمے کی دعوت دی اور فرمایا دیکھو وہ وقت دور نہیں گزرا ابھی تو میرے نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام کو اس دنیا سے پردہ کیے زیادہ عرصہ نہیں گزرا‘ اب بھی تمہارے لیے موقع ہے وقت ہے کہ اپنی آخرت سنوار لو‘ اپنی دنیا بنا لو‘ مرنے سے پہلے موت کا سامان کرلو اور آخرت کے لیے کچھ سرمایہ بنا لو۔ پھر آپ نے سب کو کلمہ پڑھایا: پھر آپ نے ان تمام کو کلمہ پڑھایا اور سب نے بہت وسعت دل سے کلمہ پڑھا۔ وہ کتنے قبیلے تھا وہ کتنے ہزاروں لاکھوں جنات تھے‘ میں اعداد و شمار نہیں کرسکتا۔ مکی جن پھر خلائوں میں گھورتے ہوئے اس بات کو بیان کررہے تھے اور کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئے اور اس کے بعد میرے دونوں کندھوں کو پکڑ کر جھنجھوڑا اور کندھوں کو پکڑ کر بیٹھتے ہی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فرمانے لگے: اگر میںاللہ کے نبیﷺ کو دیکھ لیتا تو کتنا خوش قسمت ہوتا۔ میرے بڑے تو بدقسمت تھے اور کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اسلام کو قبول نہیں کیالیکن میرا خاندان اور میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں‘ میں نے ان کے چہرے پر اتنانور دیکھا‘ ان کے چہرے پر اتنی برکت دیکھی اور ان کے چہرے پر اتنی خیریں دیکھیں کہ خود مجھ گمان و خیال نہیں کہ یہ کیا ہو گیا۔ اتنی برکت اتنا نور اور اتنی رحمت ان کے چہرے پر میں نے دیکھی اور ان کے چہرے کو روحانی نورانی دیکھا اور خیر و برکتوں سے مزین دیکھا۔ نومسلم جنات کیلئے دعائیں:اس کے بعد حضرت نے رخصت چاہی اور رخصت ہوتے ہوئے ان سب کے لیے دعا کی۔ آج بھی مجھے وہ یاد ہے جو حضرت انس بن مالکؓ نے ان کے لیے دعا کی اور اس دعا کے الفاظ کچھ بیان کرتا ہوں کہ یا اللہ ان کے سینوں کو کفر سے پاک کردے۔یا اللہ انہوں نے کلمہ پڑھ لیا ہے تیری توحید اور تیرے نبیﷺ کی رسالت کا سو فیصد اقرار کرلیا ہے‘ یااللہ ان کو ان لوگوں میں شامل نہ کرنا جو مردہ لوگ ہوں گے‘ اے اللہ ان لوگوں میں شامل نہ کرنا جو ملعون ہوں گے، اے اللہ ان لوگوں میں شامل نہ کرنا جن کو قیامت کے دن رسوائی کا سامنا کرنا پڑے۔ یااللہ! ان لوگوں کو ان لوگوں میں شامل کرنا جو قیامت کے دن سرخرو ہوں گے اور نبیﷺ جن کے سفارشی ہوں گے‘ اے اللہ ان کے سینوں کو پاک کر کے ان کے سینوں میں نور ِ علم بھر دے اور دل میں محبت اور پیار بھر دے اور شفقت اور مہربانی بھر دے، یا اللہ ان کو آپس میں شیرو شکر محبتیں بہت زیادہ بڑھا دے۔ یا اللہ ان کے دل کی دنیا بدل دے‘ ان کے جذبوں اور سوچوں کی دنیا بدل دے۔ یااللہ ان کو قیامت کے دن اپنے نبی کریم علیہ الصلوٰۃو السلام کے جھنڈے کے نیچے کھڑا کر ، اے اللہ ان کی آنے والی نسلوں کو کفر سے بچا، بت پرستی سے بچا، چوری ڈاکہ زنی اور ظلمت سے بچا، اے اللہ ان کو ظالموں میں شامل نہ فرما اگر ظالموں میں شامل ہیں تو ان کی توبہ کو قبول فرما اور ان کو ایسے لوگوں میں شامل کر جو تیرے محبوب بندے ہیں اور ایسے بندے ہیں جن سے تو محبت کرتا ہے اور وہ تجھ سے محبت کرتے ہیں۔ پروردگار عالم ان کو خوشیاںخوشحالیاں عطا فرما ان کو خیر و برکت سے مالا مال فرما ۔بس! یہ کچھ دعا کے الفاظ مجھےیاد رہے۔ ان کی دعا بہت لمبی تھی وہ دعا ہی کیا تھی ‘ اس محفل میں بیٹھا ہر شخص رو رہا تھا‘ گڑگڑا رہا تھا اور بھکاری بن کر اللہ کے سامنے فریادی تھا اور پل پل ان کا ایسا تھا کہ بس ابھی ان میں سے کچھ جنات شاید مر جائیں گے اور ایسا ہوگیا میرے دل میں اچانک خیال آیا اور ایسا ہوگیا اور جب دعا سے فارغ ہوئے تو ان میں پندرہ جنات ایسے تھے جنہوں نے اس دعا کی وجہ سے تڑپ تڑپ کے جان دیدی جن میں ایک میرے والد کے ساتھ جو قافلے میں گئے تھے اور ایک ان میں سے ایک فرد تھا باقی چودہ اس قافلے کے بندے تھے یعنی وہاں کے مقامی تھے جنہوں نے تڑپ تڑپ کے جان دی۔ اب یہ عجیب واقعہ ہوا رونا ہوگیا اور ایک دم کی کیفیت ہوگی لیکن آگے بات یہ ہے کہ ان کے ورثاء اس بات پر شکرگزاری کا جذبہ ان کے دل میں تھا کہ ان کی اموات توبہ کے ساتھ ہوئیں اور ان کی اموات ایسی حالت میں ہوئیں ہیں کہ ان شاء اللہ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور اللہ ان کو معاف کرےگا اور ان کی دنیا و آخرت اللہ بہتر کرے گا ایسی حالت میں ان کی موت ہوئی وہ کیا گھڑی تھی وہ کیا لمحے تھے‘ وہ کیا اوقات تھے۔ میں خود آج تک ان لمحوں گھڑیوں ان اوقات کو نہیں بھول سکا۔ ہم تو ابھی اور باتیں کریں گے:یہ بات کر کے کہنے لگے کہ علامہ صاحب آپ کو اس واقعہ میں بہت کچھ ملا ہوگا آپ کو شاید یہ واقعہ متاثرکرے یا نہ کرے لیکن میری زندگی کا یہ واقعہ بہت متاثر کن ہے اور میں نے اپنی زندگی میں اس واقعہ سے بہت کچھ سیکھا ‘میں نے محسوس کیا کہ شاید وہ گفتگو کا سلسلہ ختم کرنا چاہ رہے ہیں لیکن انہوں نے میرے دل کی کیفیت کو پڑھ لیا کہنے لگے نہیں نہیں ہم تو ابھی اور باتیں کریں گے لیکن آپ کو پہلے کھانا کھلائیں گے اور مشروب پلائیں گے تھوڑی دیر ہوئی ان کی طرف سے میرے لیے کھانے اور مشروب کا سلسلہ شروع ہوا۔انوکھا مشروب‘ لاجواب ذائقہ: ایک ایسا مشروب جو آج تک میں نے نہیں پیا، پیتل کے برتن میں قلی کیا ہوا ایک کٹورا اس میں وہ لے آئے‘ میں نے جب دیکھا تو پوچھا یہ کیا ہے؟ مسکرا کر فرمانے لگے ہم یہ مکہ مکرمہ سے ساتھ لائے ہیں آپ پہلے پیجئے: میں نے ایک گھونٹ پیا مجھے ایسے محسوس ہوا کہ یہ نہ میٹھا ہے نہ کھٹا ہے‘ ذائقہ انوکھا اتنا برا بھی نہیں ہے۔ مجھ سے فرمانے لگے تین گھونٹ کے بعد اس کا فیصلہ ہمیشہ ہوا کرتا ہے۔ ایک اور گھونٹ پیجئے ایک گھونٹ اور پیا تو اس کا ذائقہ اور بدل گیا، اور پھر میں نے تیسرا گھونٹ پیا تو اس کا ذائقہ عجیب و غریب ہوگیا۔ میں نے کہا یہ کیا ہے؟ فرمانے لگے اب آپ نے تین گھونٹ پی لیے اب میں اس کی حقیقت آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں۔ حضرت انس بن مالکؓ کی پگڑی مبارک کاٹکڑا:اس کی حقیقت بھی اُن صحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ کے ساتھ منسلک ہے وہ ایسے ہیں کہ حضرت انسؓ کی ایک پگڑی تھی جو انہوں نے ساری زندگی استعمال کی۔ ایک بار میرے والد نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت یہ پگڑی اگر آپ مجھے عنایت فرما دیںتو میں آپ کو اس کی جگہ نئی پگڑی دے دوں گا۔ فرمانے لگے نہیں میرے پاس اور پگڑی ہے لیکن یہ ہے بہت پرانی اور یہ وہ پگڑی ہے جس کو پہنے پہنے میں نے مسجد نبویؐ میں سجدے بھی کیے اور اللہ کے نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام کی میں نے پیشانی کا بوسہ بھی لیا او رہاتھوں کا بوسہ بھی لیا اور یہ شاید وہی پگڑی ہے اور پھر فرمانے لگے یقیناً وہی پگڑی ہے جو میں نے پہن کر آپﷺ کے ہاتھ مبارک کے بوسے لیے‘ یہ پگڑی بھی ساتھ آپ کے جسم اطہر کو لگی مس ہوئی اس میں وہ برکت شامل ہے پھر خود ہی فرمانے لگے میں یہ پگڑی جس مریض کے سر پر رکھ دوں وہ صحت یاب ہو جائے اور جس بیمار پر رکھ دوں وہ تندرست ہو جائے گا اور جس علیل بندے کے جسم سے مس کردوں وہ صحت یاب ہو جائے گا،جادو کا ڈسا، جنات کامارا اور نظر بد کا کاٹ ہوا جب میں اس کے جسم سے یہ پگڑی لگاتا ہوںوہ ایسے ٹھیک ہو جاتا ہے جیسے آج تک اسے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ میرے پاس اور بھی پگڑیاں دو موجود ہیں جن کو میں نے پہن کر حضورﷺ کے دور مبارک کی برکات لیں تھیں تو لہٰذا یہ پگڑی میں آپ کو ہدیہ دیتا ہوں اور بہت خوشی سے اور بہت خلوص سے وہ پگڑی شیخ نے مجھے نہایت کرم نوازی سے عطا فرمائی۔ اب میرے والد نے کیا کیا اس پگڑی کو رکھ دیا اس کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا کاٹ لیا اور اس ٹکڑے کو ایک پانی کے مٹکے میں ڈال دیا اور فرمانے لگے بیٹا اپنی نسلوں کو بھی کہنا کہ اس پانی کے مٹکے میں کبھی پانی ختم نہیں ہوگا اور پھر ایک دفعہ آپ نے یہ بھی فرمایا اگر پانی ختم بھی ہو جائے تو بھی کوئی حرج نہیں‘ مٹکا خشک ہو جائے لیکن یہ کپڑے کا ٹکڑا اگر خستہ بھی ہو جائے بوسیدہ بھی ہو جائے تو اس مٹکے میں اس کی تاثیر ہمیشہ باقی رہے گی اور اس مٹکے کو بس پانی سے بھرتے رہنا اور اس کا پانی نکالتے رہنا‘ کوئی مریض ہے، کوئی علیل ہے اور کوئی ضرورت مند ہے جب اس کا پانی اس کو پلاؤ گے یہ پانی اس کی صحت کا ذریعہ بن جائے گا اورعجب واقعہ یہ ہوا جس دن ہم نے مٹکے میںحضرت انس بن مالکؓ کی پگڑی مبارک کا وہ ٹکڑا ڈالا اس کا پانی سنہرے رنگ کا ہوگیا اور اس میں سنہری لہریں تھیں اور ہلکا دودھیا تھا اور اس کا ذائقہ یہی دل فریب تھا۔یہ پانی شاید جنت کا پانی ہے: وہ مکی جن ٹھنڈی سانس لے کر کہنے لگے میرا خیال ہے میں دعویٰ نہیں کرتا کہ یہ پانی شاید جنت کا پانی ہے اور جنت کی نہروں میں سے ایک نہر ہے جو اللہ نے
حضرت انس ؓکی برکت سے ہمیں عطا فرمائی اور یہ جنت کی برکتوں میں سے ایک برکت ہے جب میں نے یہ بات سنی تو میں نے وہ مشروب کا پیالہ لبوں سے لگایا اور اب میری چاہت تھی کہ یہ پیالہ ختم نہ ہو اور یہ پیالہ میں پیتا رہوں آہستہ آہستہ پیتا رہوں اس واقعہ کے سننے کے بعد میرے دل کی کیفیت بدل گئی ‘میرا اندر بدل گیا اور حیرت انگیز طور پر بدلا اور میں ایسا بدلا کہ بس میں نے وہ پیالہ پیا آج بھی اس کی لذت اور ذائقہ میرے دل میں موجود ہے۔ پیالہ روحانیت و نورانیت کو بڑھا گیا:بس وہ مکی جن کے بزرگ کا پیالہ میرے دل کی نورانیت کو روحانیت کو ایسا بڑھا گیا کہ میں ان کا ممنون ہوں‘ شاید قدرت نے مجھے وہاں لے جانا تھا وہ پیالہ پلانا تھا وہ روحانیت دلانی تھی میں تو کسی خدمت کے جذبہ سے وہاں گیا تھا اللہ بڑا کریم ہے اللہ بندوںکی قربانی کو ضائع نہیں کرتا اور اللہ نے اس خدمت کے جذبہ کا صلہ مجھے دیا۔ اب وہ پیالہ پی لیا‘ کچھ میوے آئے کچھ کھانے آئے وہ بھی انہوں نے فرمایا کہ ہم یہ مکہ مکرمہ سے لائے ہیں وہ کھا لیے اب میرے دل میں ایک بات آئی کہ میں ان سے کہوں کہ اس پگڑی کا ایک چھوٹا سے ٹکڑا مجھے بھی مل جائے تو میرے تو دن روشن ہو جائیں گے میری تو اندھیری راتیں چاندنی ہو جائیں گی ‘میرے تو نصیب مقدر بگڑتے بھی بن جائیں گے‘ اس میں کیا برکت اس میں کیا تاثیر اس میں کیا طاقت ۔کیا آپ کو علم تھا؟:بس فوراً میری اس نیت کو بھانپ لیا۔ فرمانے لگے: ان شاء اللہ آپ کی یہ خواہش ہم پوری کریں گے اور پھر اپنے بیٹے کو بلوا کے اپنی وہ گٹھری منگوائی اور منگوا کر کہنے لگے اس کے اندر ایک لکڑی کابکس ہے وہ نکالو اور لکڑی کا بکس نکال کر میرے سامنے رکھ دیا اور کھول کر دکھایا‘ اس میں ایک بوسیدہ پگڑی کا چھوٹا سا بڑے بادام بقدر ٹکڑا تھا‘ فرمانے لگے یہ بکس سمیت آپ کو دیتے ہیں اور پھر فرمایا ہم یہ پہلے سے لائے تھے میں حیران ہوگیا کہ ہماری تو ملاقات اب ہوئی ہے آپ پہلے سے کیسے لائے تھے؟ کیا آپ کو علم تھا؟ سورۂ بقرہ کا خاص عمل:فرمانے لگے میں نے کعبہ کے اندر بیٹھ کر پورے چار سال سورئہ بقرہ روزانہ 70 بار پڑھی ہے‘ اللہ کا فضل ہے قرآن مجھے بہت زبانی یاد ہے اور میری زبان پر رواں دواں ہے اور دل پر رواں دواں ہے۔ سورئہ بقرہ کا یہ کمال مجھے ملا ہے کہ آئندہ جس سے ملاقات ہونی ہے جو واقعہ ہونا ہے اورجو چیز مجھ پر بیتنی اور گزرنی ہے وہ ساری چیزیں میرے سامنے آجاتی ہیں۔ میں نے چار سال میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا جو کعبہ کے اندر نہ گیا ہوں کیونکہ کعبہ کے تالے توانسانوں کے لیے ہیں۔زمین کے نیچے سارے خزانے دیکھنے کیلئے: ہمارے لیے تالے نہیں ہوتے ہمارے لیے دیواریں دیواریں نہیں ہوتی ہمارے لیے کوئی بند بندنہیں ہوتے تو میں کعبہ کے اندر جاکر ۷۰ بار سورئہ بقرۂ پڑھی اور یہ سترہ بار سورۂ بقرہ مجھے ایک بڑے صحابی نے بتائی تھی اور انہوں نے فرمایا تھا کہ میں نے یہ عمل خود کیا ہے اس سے زمین کے ساتھ زمین کے نیچےکے خزانے سارے تیرے اوپر کھل جائیں گے اور سات آسمان کے اوپر اور اوپر کے تمام راز اور انکشافات وہ سارے عیاں ہو جائیں گے اور تو دنیا کا خوش قسمت انسان ہوگا اگر تو یہ عمل کر لے پر شرط یہ ہے کہ ایک دن بھی عمل چوک گیا تو تیری زندگی میں وہ ساری کی ساری خیریں جواس عمل کے کرنے سے ملی تھیں چلی جائیں گی اور ایک دن بھی عمل نہ چوکا تو پھر تیری زندگی میں وہ خیریں وہ برکتیں آئیں گی‘ وہ عزتیں شان و شوکتیں آئیں گے وہ نعمتیں تجھے ملیں گی تو شاید کبھی سوچ بھی نہ سکے۔اسے غریب جنات سے محبت ہے: بس میں نے وہ پڑھی تھی جب میں یہاں آنے لگا تھا تو مجھے یہ سارا منظر پہلے سے دیکھا دیا گیا تھااور بتا دیا گیا تھا کہ ایک شخص آئے گا فلاں جگہ کا رہنے والا ہوگا اس کا یہ نام ہوگا اور بے شمار جنات کا اس سے تعلق ہے اور دوستی بھی ہے اور جنات اس سے عقیدت بھی رکھتے ہیں اور بچپن سے ہی جب وہ شیرخوار تھا تو ان کے گھر میں نیک اولیا ءصالح جنات رہتے تھے جو اس سے محبت کرتے تھے اور اسی محبت کے صلے میں وہ جنات اس کے آج بھی قریب ہیں اسے اپنی دعوتوں میں لے جاتے ہیں اپنے نکاحوں میں‘ اپنی شادیوں میں غریب جنات بہت زیادہ اس کے قریب ہیں اور میری آنکھوں میں آنکھ ڈال کر کہنے لگے مجھے علم ہے آپ کے پاس بڑے بڑے مالدار آتے ہیں مگر آپ کے دل میں غریب جنات کی محبت ہے اور پھر فرمانے لگے اس محبت کو سدا باقی رکھیں‘ اللہ تعالیٰ کو غریب بہت پسند ہیں‘ اس کے حبیبﷺ کو غریب بہت پسند ہیں اور غریب سے محبت اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے اور مجھے اسی وقت پتہ چل گیا تھا کہ ایسے واقعہ ہوگا میں ان کو اسی برکت والے پانی کا پیالہ پلاؤں گا اس کا ذائقہ اچھا لگے گا اس کی برکتیں ان کو ملیں گی تو وہ کہیں گے کہ مجھے بھی اس پگڑی کا ٹکڑا دیں تو میںانکار تو کر نہیں سکتا کیونکہ سخی میں انکار نہیں ہوتا تو لہٰذا میں نے یہ ٹکڑا آپ کے لیے رکھا ہے۔ سورۂ بقرہ کی برکات کیسے ملیں؟:باتوں ہی باتوں میں میرے دل میں آیا کہ میں سورئہ بقرہ کے کمالات اور سورئہ بقرہ کے فضائل اور سورئہ بقرہ کی برکات مزید ان سے پوچھوںکہ کون سا ایسا انداز ہے کہ جس کی وجہ سے سورئہ بقرہ کی برکت انہیں ملی ہے۔ تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو یہ سورئہ بقرہ کی برکات کیسے ملیں؟ وہ آپ نے بتائی پر کچھ اور بھی آپ نے اس کی برکت پائی ہے تو آپ بتا دیں ۔ دیکھ کر مسکرائے اور کہنے لگے مجھے یہ بھی پتہ تھاکہ آپ مجھ سے یہ سوال بھی کریں گے اور اس کا جواب میرے پاس موجود ہے اور پھر فرمایا کہ انسان کے لیے سورئہ بقرہ روزانہ ستر بار پڑھنا مشکل ہے۔سورۂ بقرۂ کا عمل اور تین مشکلات: نہ انسان کے بس میں ہے کوئی ایسا جواں مرد ہو اور وہ اس کو پڑھ لے اور پھر دوسرا کعبہ کے اندر انسانوں کا جانا مشکل ہے ہمیشہ کعبہ کا تالا رہا ہے‘ ازل سے اور اس کی چابی ہمیشہ شروع سے ایک خاندان کے پاس چلی آرہی ہے اب اس میں دو مشکلیں ہیں ایک مشکل یہ ہے کہ کعبہ کا دروازہ بند انسان نہیں جاسکتا اور دوسری مشکل یہ ہے کہ ستر بار سورئہ بقرہ شاید انسان کے بس کی بات نہیں اور تیسری مشکل یہ ہے کہ پورے چار سال لوگ تو شاید چار ماہ بھی اس کی پابندی کو نہ نبھا سکیں۔ اب یہ تین مشکلات بھی ہیں تین پابندیاں بھی ہیں اور جس کی وجہ سے یہ عمل انسان نہیں کرسکتے۔
اس عمل کے فوائد اور کمالات ضرور سننا چاہوں گا: میں نے ان سے عرض کیا ٹھیک ہے ہر انسان نہیں کرسکتا لیکن آپ کو اس کے کمالات جو اس کے فائدے اس کی برکات ملیں ہیں وہ میں ضرور سننا چاہوں گا تاکہ کوئی اللہ کا بندہ زندگی میں ایسا موقع پا لے یا پھر ہمارے ساتھ جنات بھی ہیں چلو یہ تو کر ہی سکتے ہیں ایک دم مسکرائے اور کہنے لگے ہاں ہاں! جنات تو واقعی ہی کرسکیں گے میں جنات کو تو بھول ہی گیا کہ جنات کرسکیں گے پر ایک افسردہ سانس لے کر کہنے لگے کہ آج کے جنات میں وہ تقویٰ نہیں رہا ‘وہ طلب نہیں رہی وہ تڑپ نہیں رہی وہ سچے جذبے سے محروم ہیں، زندگی کا وہ سچا جذبہ نہیں رہا، جس کی وجہ سے میں جنات کے بارے میں بھی یقین سے کہہ سکوں کہ جنات ایسا کرسکیں گے لیکن جنات پھر بھی یہ کرسکتے ہیں۔میں آپ کو یہ بتائوں گا کہ آپ اس کے کمالات اگر جاننا چاہیں گے پھر انہوں نے اس عمل کے کمالات مجھے بتاناشروع کیے۔زمین کے نیچے کیا ہے؟: فرمانے لگے کہ جو شخص یہ عمل کر لے ایک تو اسے کشف الارض ہوتا ہے اور کشف الارض یہ ہے کہ زمین کے نیچے جتنے بھی راز ہیں اس کے سامنے کھل جاتے ہیں اور زمین کے نیچے جنات کی آبادی ہے اور مخلوقات کی آبادی ہے۔ پھر فرمانے لگے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ زمین کے نیچے مٹی ہے یا معدنیات یا اور چیزیں ہیںحالانکہ زمین کے نیچے ایک زمین ہے یہ زمین تو ہمیں نظر آتی ہے باقی چھ زمینیں ہمیں نظر نہیں آتیں وہ میرے اللہ کے علم میں ہیں۔اس کی ایک سادہ سی مثال دی جو مجھے سمجھ آئی۔ سامنے کھڑے بیٹے کوفرمانے لگے: بیٹا پیاز لے آنا وہ دوڑا اور پیاز لے آیا اور پیاز کا ایک چھلکا اُتارا اور کہنے لگے اب آپ کہیں گیا بس پیاز کا چھلکا ہی ہے اوپر اور اس کے اندر ایک اور چھلکا ہوتا ہے اور پھر ایک اور چھلکا اتارا پھر ایک اور چھلکا اتار پھر ایک اور چھلکا اُتارا فرمانے لگے جس طرح پیاز کے نیچے چھلکا ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں شاید یہ آخری چھلکا ہوگا اس کے نیچے اور کچھ نہیں ہوگا اس طرح ایک زمین ایک چھلکا ہے اس کے نیچے دوسری زمین ہے جس کا علم ہمیں نہیں ہے وہ صرف اللہ نے اپنے علم میں
رکھا ہے۔سورۂ بقرہ کے اندر اسم اعظم ہے: اور اپنے کمال میں رکھا ہے بس جو شخص سورئہ بقرہ کا یہ عمل کرےگا اس کے پاس یہی زمین کا سات زمین کے نیچے کا علم اللہ اسے عطا فرمائے گا کیونکہ سورئہ بقرہ میں اصل میں اسم اعظم پوشیدہ ہے ۔ میں ان کی بات سن کا چونک پڑا میں نے مکی جن کے ہاتھ کو پکڑا اور ان کے ہاتھ پر بوسہ دے کر اور سینے سے لگا کر عرض کیا: یاشیخ! ٹھہریں اپنی گفتگو میں ذرا توقف دیں ، آپ نے کیسے فرمایا: سورئہ بقرہ کے اندر اسم اعظم ہے وہ فرمانے لگے کہ سورئہ بقرہ کے اسم اعظم کو اگر میں بتانا شروع کردوں تو سورئہ بقرہ کے یہ جو کمالات میں آپ کو بتا رہا ہوں تو یہ کمالات آپ نہیں سن سکیں گے تو پھرمیں ان کمالات سے بچھڑ جائوں گا۔تو لہٰذا سورئہ بقرہ کے اندر اسم اعظم میں آپ کو بتاتا ہوں اور ضرور بتائوںگا لیکن پہلے مجھ سے یہ کمالات سن لیں۔جاگتی آنکھوں سے زیرزمین خزانہ دیکھے گا:جو کمالات میں اس عمل کے بتا رہا ہوں لہٰذا وہ اپنی گفتگو کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے فرمانے لگے کہ سات زمین کے نیچے کے خزانے اس کے سامنے ایسے ہوں گے جیسے جاگتی آنکھوں سےہم ساری چیزیں دیکھتے ہیں۔ زیرزمین مخلوق: ایک زمین موجود ہے اس کے نیچے دوسری زمین ہے جس کا ایک اپنا نام ہے اس کا نام زمین ارتھ ہے اس کا نام ایک اور ہے، پھر تیسری زمین ہے اس کے نیچے ایک مخلوق رہتی ہے جو نہ انسان ہیں‘ نہ فرشتے اور نہ جن ہے اس کے بعد چوتھی مخلوق چوتھی زمین ہے اس کے اندر اللہ تعالیٰ کی خاص مخلوق رہتی ہے جن کے ذمہ زمین کے انسانوں کے لیے خدمت اور ان کا نظام بنانا خاص طور پرکس کے لیے بیٹے کا فیصلہ ہوگا ‘کس کے لیے بیٹی کا فیصلہ ہوگا اور کس کے لیے دولت کا‘ کس کے لیے غربت کا‘ کس کے لیے تنگ دستی کا اور ایسے فیصلے ہوں گے بادشاہ ظالم آئے گا، ہمدرد آئے گا، غاصب آئے گا، فاسق آئے گا فاجر آئے گا، بدکار آئے گا یا نیک آئے گا اور انہیں
زمین والوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو سامنے رکھتے ہوئے زمین پر یہ سارا نظام چلائیں گے۔تکوینی نظام ‘ چوتھی زمین اور چوتھا آسمان: اور ایک دم بولے علامہ صاحب آپ کو پتہ ہے یہ تکوینی نظام ہمیشہ چوتھی زمین سے چلتا ہے اور چوتھے آسمان تک چلتا ہے، اور پھر چوتھے آسمان سے عرش تک جاتا ہے،تکوینی نظام کی تاریں چوتھی زمین سے لے کر چوتھے آسمان تک اور چوتھے آسمان تک اللہ تعالیٰ کے عرش و کرسی تک، کیوں تکوینی نظام اللہ کے امر کے ساتھ چلتا ہے اور اللہ کے امر نے اس تکوینی نظام کی ممبر چوتھے آسمان کو اور چوتھی زمین کو بنایا ہوا ہے۔تکوینی نظام کا راز:میںچونک پڑا مجھے حیرت ہوئی تکوینی نظام کا سنا بھی تھا تکوینی نظام کو کچھ دیکھا بھی تھا اور تکوینی نظام کے لوگ میرے واقف بھی ہیں‘ تعلق بھی ہے‘ ان سے اٹھنا بیٹھنا بھی ہے اور ان کے ساتھ میری دوستی‘یاری‘ میری راتیں وہاں گزرتی ہیں، لیکن یہ تکوینی نظام کا راز میں نے پہلی دفعہ اس مکی بزرگ جن سے سنا، تو فرمانے لگے جو سورئہ بقرہ کا یہ عمل کرلیتا ہے‘ تکوینی نظام چوتھی زمین کا اس کے سامنے ایسے کھلتا ہے ایسے کہ بس جس طرح آپ کسی تہہ خانے میں جائیں تو پہلی سیڑھی اُتریں تو پہلی زمین، دوسری سیڑھی اُتریں تو دوسری زمین اور تیسری سیڑھی اُتریں تو تیسری زمین اور چوتھی سیڑھی اُتریں تو چوتھی زمین بس اتناسا فاصلہ ہوتا ہے قدم قدم اُترتے ہیں‘ زمین اور زمین کے اندر کے نظام اور زمین کے اندر کی مخلوق کا کمال اور اللہ تعالیٰ کی قدرت نظر آتی ہے کہ میرا رب ‘ رب العالمین ہے‘ رب صرف عالم کانہیں ہے بلکہ عالمین کا رب ہے، ایسے عالمین جو ہمارے گمان، خیال، احساس اور ادراک ہماری سوچ میں کبھی آہی نہیں سکتے اور شاید کبھی آئیں بھی نا اور اگر کوئی ان کو بیان بھی کریں تو پڑھنے اور سننے والا شک اور وہم میں پڑجائے کہ شاید بیان کرنے والا مبالغہ کررہا ہے‘ دھوکہ دے رہا ہے‘ جھوٹ بول رہا ہے یا اپنی شہرت کا خواہش مند ہےتو پھر فرمایا کہ تکوینی نظام کے جتنے بھی رجال ہیں‘ رجال غائب کہتے ہیں، جتنے بھی ان کے افراد ہیں ‘ان کے عہدے ہیں‘ ان سب کی تاریں چوتھی زمین سے جڑی ہوئی ہیں اور چوتھے آسمان تک وہ نظام چلتا ہے اور پھر اس کے اوپر ۔
ساتویں زمین کے نیچے کیا ہے؟: میں حیران ہوگیا تو فرمایا کہ جو یہ ستر بار سورئہ بقرہ کا عمل کرلے اس کے ساتھ یہی نظام چلے گا اور یہ نظام اس کے لیے ایسے ہوگا کہ بس یوں ایک سیڑھی اُترا تو پہلی زمین، دوسری سیڑھی اُترا تو دوسری زمین، پانچویں سیڑھی تو پانچویں، چھٹی سیڑھی تو چھٹی، ساتویں سیڑھی تو ساتویں، میں نے اچانک پوچھا کہ ساتویں زمین کے نیچے کیا ہے؟ فرمایا کبھی آپ نے اللہ ھو کو پڑھا ہے میں نے کہا کہ ہاں سنا ہے ہُوَ اللہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوْ قرآن میں ھو کا لفظ آتا ہے، اور بزرگ صالحین اللہ ھو کا ذکر بھی کرتے ہیں‘ فرمانے لگے اُس عالم کا نام عالمیں ھو ہے، بس وہ اللہ کے علم میں ہے اتنا بڑا عالم ہے ‘اتنا بڑا عالم ہے خوداس عالم میں یہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمین ایک چھوٹی سی گیند کے برابر ہوں وہ خود اتنا بڑا عالم ہے‘ اللہ کے علم میں ہے وہ اللہ کی قدرت میں ہے وہ اللہ کی طاقت میں ہے، اس عالم تک آج تک کوئی نہ عالم پہنچاہے نہ کوئی کامل پہنچا، کسی نبیﷺ کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن آج تک میں نے نہ کسی عامل نہ عالم نہ کسی ایسی صاحب کمال ہستی کے بارے میں سنا کہ وہ اُس عالم تک پہنچ سکا۔ بس وہ عالم ھو ہے جس میں ایک عالم ایسا ہے جس میں نہایت تاریکی ہے اور اس تاریکی میں اگر ایک ہزار سال تک بھی کوئی تیز رفتار گھوڑا دوڑتا رہے تو اُس کی پیمائش اتنی لمبی اتنی ہے کہ وہ ایک بالشت بھی ابھی تک وہ گھوڑاطے نہیں کرسکا اتنی تیز رفتاری سے اور اتنا عرصہ وہ دوڑتا بھی رہے اُس کے بعد دوسرا عالم ھو کا ایک نظام روشنی کا شروع ہوتا ہےجس میں روشنی ہے‘ موجودہ انسان کی آنکھیں اگر اُس روشنی کو اگر ایک لمحہ نہیں ایک لمحے کے کروڑویں حصے کو بھی دیکھ لے تو اُس کی آنکھیں پھٹ جائیں گی اور اس کے ڈیلے بہہ جائیں گے، اس کی پتلیاں جل جائیں گی اور اس کی پتلیاں ہی نہیں اس کا سارا پچھلا نظام ختم ہو جائے گا اور اس کا وجود جل کا راکھ ہو جائے گا، اُس کے دیکھنے کے لیے اللہ پاک ایک قدرت کی ایک اور آنکھیں دیں گے اور جو شاید جنتی کو ملیں گی اور یقینا ًجنتی کو ملے گیں۔ سورۂ بقرۂ میں ایک کائنات ہیں:فرمانے لگے کہ سورئہ بقرۂ میں ایک کائنات ہے، اب میرے جی میں نامعلوم کیا آیا میں نے
سوچا کہ اس مکی جن سے کوئی سورئہ بقرہ کا شارٹ کورس پوچھ لوں، شارٹ کورس ہی کہوں لیکن میری اس کیفیت کو بھی بھانپ گئے اور فرمانے لگے ابھی یہ سوال مت کرو، چلو! آپ کا یہ دوسرا سوال ہوا، پہلا سوال کہ سورئہ بقرۂ میں اسم اعظم ہے وہ کون سا لفظ ہے؟ جو سورئہ بقرہ میں ہے، جو سارا سورئہ بقرہ کا نچوڑ ہے، ساری سورئہ بقرہ کا دل ہے اور ساری سورئہ بقرہ کا ست اور طاقت ور وہ حرف و لفظ ہے، دوسرا سوال یہی ہے کہ جو بھی ابھی آپ کے سامنے بیان کیا کہ اُس کا کوئی شارٹ کورس ہو جائے تو فرمانے لگے بس آپ اس کو زیادہ بیان نہ کریں میں آپ کو خود ہی بتائوں گا۔مجھے موضوع سے نہ ہٹائیے: مجھے موضوع سے نہ ہٹائیے اگر آپ سوالات کرتے رہے تو میں موضوع سے ہٹ جائوںگا پھر انہوں نے فوراً مجھے حضرت موسیٰ اور خضر والے واقعہ کا اشارہ کیا اگر موسیٰ ہر سوال پوچھتے اور خضر ہر سوال کا جواب دیتے جاتےتو قدرت کےمظاہر اور مناظر اور تکوینی نظام کی ابتداء ہوئی تھی‘ وہاں سے انسانیت کے سامنے قرآن نے پردے کھولے ہیں ‘وہ شاید سامنے نہ آتے لہٰذا کچھ سوال ایسے ہوتے ہیں جن کا فوری جواب دینا ضروری نہیں‘ اس کے لیے کچھ وقت ضروری ہے اور کچھ صبر ضروری ہے۔سورۂ بقرہ کا اگلا کمال اور تکوینی بزرگ: پھر انہوں نے اپنی اگلی بات شروع کی اور فرمایا کہ سورئہ بقرہ ٔکا اگلا کمال جو شروع ہوتا ہے وہ ہے کہ تکوینی لوگ اس کے دوست بن جاتے ہیں ایسے لوگ جو تکوینی امور پر مامور ہوتے ہیں ، وہ اس کے دوست بن جاتے ہیں اور وہ وہ ہوتے ہیں جو بادشاہ بناتے ہیں ‘وہ وہ ہوتے ہیں جو حکومتوں کا تخت اُلٹ دیتے ہیں، وہ وہ ہوتے ہیں جو اللہ کے امر کے ساتھ چلتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر ایک تنکا بھی آگے نہیں بڑھ سکتےاور وہ اللہ تعالیٰ کے امر سے سارے نظام کو پورا کرواتے ہیں ‘وہ وہ لوگ ہیں جن کے وجود سے کائنات کو روشنی ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اُنہیں روشنی کا مینارہ بنایا ہوتا ہے اور وہ لوگ ہیں جن کا انسانوں اور جنوں میں رہنا عذابوں کو ٹالےرکھتا ہے‘ بلائوں کو ٹالے رکھتا ہےاور وہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں کہتے ہیں جن کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ یاد آجاتا ہے، اور ان کے اوپر قدرت کا نظام کھلتا ہے کائنات کا نظام عیاں ہوتا ہے اور وہ لوگ ہیں جن کے اوپر اللہ پاک کائنات کے راز کھولتا ہے تو جو شخص سورئہ بقرۂ کا یہ عمل کرلیتا ہے اس پر قدرت و کائنات کا نظام چلتا ہے اور وہ لوگ یعنی تکوینی امور کے بزرگان اس کے ساتھ ہوجاتے ہیں، اس کے ساتھ دوستی ہوتی ہے، پھر تکوینی امور کے یہ بزرگ ایک ایسا مقام بھی پالیتے ہیں جس میں پلک جھپکتے ہی یہ ہزاروں میلوں کا سفر کرلیتے ہیں اور سینکڑوںمیل ایک سانس پورا ہونے سے پہلے کرلیتے ہیں، تو میں نے ان سے عرض کیا آپ کوئی مجھے اپنا ایسا واقعہ سنائیے جس پر آپ کو یہ کمال ملا ہو، تو فرمانے لگے ہاں میں سنائوںگا۔جب میرا بیٹا گم ہوا؟: ایک بار ایسا ہوا میرا بیٹا گم ہوگیا اور مجھے وہ بیٹا بہت پیارا تھا‘ آج بھی ہے، میرے حاسدین بہت ہیں،ظاہر ہے جب کوئی شخص کسی کمال پر پہنچتا ہےتو اس کے حاسدین بھی ہوتے ہیں، شرپسند بھی ہوتے ہیں،مجھے یہ دکھ ہوااور احساس ہوا کہ شاید کسی حاسد نے میرےبیٹے کو چُرا لیا‘ اغواء کرلیا، یاخدانخواستہ وسوسہ پیدا ہوا کہ قتل کردیا۔ بس! اب یہ سوچیں مجھے مسلسل آرہی تھیں،تو میں اچانک اُٹھ بیٹھا اور پھر میں نے اپنے عام سفر کو ختم کردیا، پھر میں نے اللہ سے اللہ کی قدرت مانگی اور چونکہ اللہ نے یہ قدرت مجھے اپنے غائب کے خزانے سے عطا کی ہوئی تھی کہ مولا مجھے وہ قدرت عطا فرما میں پل جھپکتے ہی، تیری زمین کے چپے چپے کو چھان ماروں،تو پھر میں نے اللہ تعالیٰ سےوہ قدرت حاصل کی اور زمین کے چپے چپے کو چھانا، اور میرا پہلا قدم سینکڑوں میل کا تھا،پلک جھپکتے ہی میں ہوائوں سے زیادہ تیز ، آسمانی بجلی سے زیادہ تیز جگہ جگہ اپنے بیٹے کو ڈھونڈ رہا تھا اور ایک جگہ میں نے دیکھا ایک کھجور کا جھنڈہے اور کھجور کے جھنڈ میں میرا بیٹا رسیوں میں بندھا پڑا سسک رہا ہے اس کا منہ باندھا ہوا ہے شاید اگر میں دیر سے جاتاتو اس کا دم گھٹ کر نکل جاتا، میں نے فوراً اس کو رسیوں سے کھولا، اس کے سینے کو ملا اس کی سانسیں بحال ہوئیں اسے پیار کیا‘ میرے آنسو نکل گئے۔ میں نے اس سے پوچھا بیٹا کیا ہوا؟ فرمانے لگے کچھ لوگ ایسے تھے جنہیں آپ نے اسلام اور ایمان کی دعوت دی تھی تو ان کے کچھ رشتے دار جو آپ سے بغض رکھتے تھے تو ان لوگوں نے مجھے پکڑا اور مجھے بہت دور یہاں لے آئے ان کی رفتار کیونکہ جن تھے اور وہ جنوں کی کوئی خاص قسم تھی اور مجھے اتنا دور لے آئے بس ابھی لائے ہی تھے تو ان کا اگلے دن کا پروگرام تھا کہ انہوں نے مجھے یہاں لاکر پھینک دیا، انہوں نے میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے تھے اور وہ ٹکڑے پھر آپ کو بطورِ گفٹ ہدیہ بھیجنے تھے جب تک میں نے ان کی گفتگو سنی وہ یہی تھی۔ مجھے انہوں نے بے بس کردیا، بس میں نے اپنے بیٹے کو لیا اس بات کو چھوڑ دیا کہ میں ان سے انتقام لیتا ہوں تو کیا کرتا اور بیٹے کو لے کر ساتھ آیا۔اس طاقت کو میں نے آزمایا:اس طاقت کو میں نے آزمایا کہ اس سے زمین سمیٹ جاتی ہے فاصلے سمٹ جاتے ہیں، راستے سمٹ جاتے ہیں اور کائنات کا نظام ایسا سمٹ جاتا ہے کہ انسان کی عقل شعور احساس اور ادراک میں نہیں آتا۔تکوینی بزرگوںکے راز اورکمال: اور پھر بولے جب ان تکوینی بزرگوں کے ساتھ تعلق پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وہ تکوینی بزرگ اسے انوکھے کمالات دیتے ہیں اور کائنات کے انوکھے وظائف ، راز، بھید اورکائنات کے انوکھے کرشمات دیتے ہیں اور ایسے کرشمات دیتے ہیں جن کو کرنے سے انسان مشرک بھی نہیں ہوتا، کفر بھی نہیں ہوتا لیکن وہ آدم اور آدم سے پہلے جنات کی دنیا میں پہنچ جاتا ہے اور وہاں سے بہت کچھ حاصل کرلیتا ہے، میں یہ باتیں حیرت سے سن رہا تھا، یقین جانیے میں بہت سے جنات سے ملا پر یہ مکی بزرگ جن کمال جن تھا جس نے مجھے حیرت زدہ کردیا، میری سانس رک رہی تھی‘ میرا جسم سن ہوگیا، گویامیں سوچ نہیں پا رہا تھا، میرا خیال ، میرا گمان، میرا احساس، میرا ادراک ایک دم ٹھہر گیا، کس دنیا کی بات کررہے ہیں میں نے بھی روحانی دنیا تھوڑی سی چھانی ہے، دیکھی ہے، تکوینی دنیا کو بھی تھوڑا سا چکھا ہے اور تکوینی لوگوں سے میرا تعلق ہے لیکن یہ دنیا کچھ اور تھی اور یہ جو راز و نیاز بتا رہے تھے عام عقل انسانی ان رازوں کو تو پہنچ ہی نہیں سکتی تھی اور انسان کے گمان و خیال میں یہ چیز آہی نہیں سکتی تھی لیکن میں اُن کی یہ باتیں سن رہا تھا اور حیران ہورہا تھا اسی دوران مکی بزرگ جن پھر فرمانے لگے کہ تکوینی لوگ اس کے دوست بن جاتے ہیں اور ایسے دوست بن جاتے ہیں کہ ان سے کبھی جدا نہیں ہوتےاور ان کے ساتھ ان کا تعلق ، محبت پیار بڑھ جاتا ہے۔مکہ کے تکوینی بادشاہ: ایک واقعہ سنانے لگے کہ مکہ میں ایک امیر مکہ تھے (یعنی مکہ کے تکوینی بادشاہ)وہ ایک انسان تھے میرا ان سے تعلق اور دوستی ہو گئی تو مجھے ایک دفعہ کہنے لگے آئیں سفر کرتے ہیں۔تکوینی امور کے وہ بزرگ جنہوں نے مجھے فرمایا کہ آج میرے ساتھ چلیں سفر کریں میں ان کے ساتھ چل پڑا‘ ہم چلتے گئے حتیٰ کہ مکہ مکرمہ کی آبادی دور ہوگئی‘ ویرانہ شروع ہوگیا ہرطرف پہاڑ‘ خشک راستے اور اس کے بعد تو بالکل ویرانہ اور ڈراؤنی کیفیات یہ وقت نماز عصر کے بعد کا تھا‘ ہم نے نماز عصر حرم میں ادا کی اس کے بعد پھر اپنا سفر رواں دواں کیا۔ سفر کے بعد جب ایسی جگہ پہنچے جہاں بالکل ویرانہ تھا‘ وہاں مجھے احساس ہوا کہ یہ جگہ مکہ کی نہیں ہے‘میری ساری زندگی مکہ ہی میں گزری تو میں نے ان سے پوچھا یہ جگہ کون سی ہے؟ فرمانے لگے : ہم مکہ سے اس وقت ساڑھے انیس سو میل دور ہیں۔ میں حیران ہوا انہوں نے میری حیرت کا کوئی احساس نہیں کیا‘ بس وہ چل رہے تھے ہم ایسے ہلکے قدموں چل رہے تھے کہ اس انداز سے کہ ایسے محسوس ہورہا تھا کہ ہم تھکیں گے نہیں اور واقعتاً نہیں تھک رہے تھے اور مجھے احساس ہوا کہ ہمیں حرم سے نکلے ہوئے کوئی زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس منٹ بیت گئے ہوں گے یا اس سے بھی کم اور ہم اپنا سفر رواں دواں کیے اور تھوڑی ہی دیر کے بعد پہاڑ ختم ہوکر ہم میدان میں آئے لہلہاتے کھیت‘ کھیتیاں‘ درخت اور خوشبودار پھول منظرایک دم بدلا تو مجھے اور حیرت ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ ہم کتنا دور آئے ہوں گے لیکن وہ خاموش رہے‘ میں نے سمجھا کہ شاید سنا نہیں تو میں نے پھر سوال کیا لیکن وہ پھر خاموش رہے جب میں نے تیسری دفعہ سوال کیا تو انہوں نے اشارے سے منع کیا کہ خاموش رہو! اور اس اشارے میں ایسی ہیبت تھی کہ میں بالکل خاموش ہوگیا اور مجھے پھر کوئی احساس نہیں ہوا کہ مجھے کوئی سوال کرنا ہے بس میں ان کے ساتھ چلتا رہا۔ حتیٰ کہ وہ خوشبودار وادی ختم ہوئی تو وہاں ایک کونے میں بیٹھ گئے‘ ہم بیٹھے اس لیے نہیں تھے کہ تھک چکے تھے‘ نہ تھکن کا احساس ان کے اندر نہ تھکن کا احساس میرے اندر‘ احساس تو احساس گمان اور خیال ہی نہیں۔ وہ وادی جنت کی وادی تھی: بس ہم بیٹھ گئے اور پھر بولے دیکھو وہ وادی دراصل جنت کی وادیوں میں سے ایک وادی تھی‘ تھے ہم دنیا میں‘ جنت میں نہیں تھے لیکن اللہ نے دنیا میں ایک ایسی وادی پیدا کی ہے جو صرف رجال الغیب کو نظرآتی ہے جب کوئی رجال الغیب میں سےبیمار ہوتا ہے اورقریب المرگ ہوتا ہے تو اس کو یہیں لایا جاتا ہے اور اس کی روح یہیں نکلتی ہے‘ چاہے اس کا وجود دنیا کے کسی کونے میں نظر آئے لیکن اصل اس کا جو وجود روحانی ہے وہ یہی ہوتا ہے اور پھر بولے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہروقت فرشتوں کے جھرمٹ کے جھرمٹ نازل ہوتے رہتے ہیں اور فرشتے یہاں بہت زیادہ آتے ہیں اور رحمت الٰہی بہت زیادہ ہوتی ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں اللہ کے خاصان خاص ہی آسکتا ہے عام نہیں آسکتا۔انوکھی باتیں انوکھے روحانی راز: میں حیرت زدہ اس مکی جن کی باتوں کو سن رہا تھا‘ ایسے انوکھے انکشافات‘ ایسی انوکھی باتیں‘ ایسے انوکھے روحانی راز کہ خیال اور گمان سے بالاتر میں کیا دیکھ رہا ہوں‘ میں کیا سوچ رہا ہوں اور اب تک میں نے ان کے ساتھ جتنا وقت گزارا‘ میںنے کیا کچھ سیکھا اور کیا کچھ سنا‘ یہ خیال مسلسل میرے دل میں آرہا تھا اور مجھے اس بات کا احساس تھا کہ وہ میرے ہرخیال کو پڑھ بھی رہے ہیں‘ سمجھ بھی رہے ہیں‘ رب نے ان کے سینے کو کھول دیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے علوم میں سے غیبی علوم عطا فرمائے۔ میرا وقت آن پہنچا:میں ان کی باتیں حیرت سے سن رہا تھا۔ فرمانے لگے آج میں آپ کو یہاں ایسے نہیں لایا۔ تکوینی علوم کے جتنے بھی برزگ ہیں جو اس وادی کے قریب ہیں جب ان کا وقت قریب ہوتا ہے تو قدرت الٰہی سے انہیں اشارہ ہوتا ہے اور وہ خود چل کر یہاں پہنچ جاتے ہیں ویسے بھی تکوینی امور میں جتنے بھی رجال ہیں ان کیلئے کائنات کا کوئی حصہ دور نہیں لیکن ہرفرد کیلئے موت کی جگہ مقرر ہے اس نے کہاںمرنا ہے؟ مجھ سے فرمانے لگے: اٹھو میرے گلے ملو‘ ہمارا وقت آن پہنچا ہے ‘میں حیران ہوگیا مجھے ایک جھٹکا لگا : یہ کیا بات ہوئی‘ اچانک ہی ملاقات ہوئی‘ بہت عرصہ پہلے ہوئی‘ پھر آپس میں دوستی اور تعلق رہا‘ آج مجھے خود ہی فرمایا کہ چلو آپ کو قدرت ربی کے کرشمات اور کمالات دکھاتےہیں۔ اٹھو میرے گلے لگو اور تین نصیحتیں سن لو: یہ انہوں نے پہلے بھی کئی دفعہ دکھائے تھے لیکن اتنا لمبا سفر شاید پہلی مرتبہ کیا لیکن آج وہ سفر سے مجھ سےد ور ہوگئے تھے اور ہم ایک دوسرے سے دور ہوگئے‘ اور مجھے فرمانے لگے کہ اٹھو میرے گلے لگو‘ پھر خود اٹھے اور مجھے گلے لگایا اور تین نصیحتیں کیں فرمایا: دیکھیں میں یہاں لیٹ کر جان اللہ کے حوالے کررہا ہوں اور اللہ تعالیٰ کو میں حاضر وناظر جانتا ہوں‘ اللہ تعالیٰ کی توحید کا قائل ہوں‘ محمدﷺ کی رسالت کا قائل ہوں پھر وہ دین کے سارے عہد و پیمان کیے جو دین کیلئے ضروری ہیں۔ پھر آنکھیں بند کیں اور ان کا چہرہ خود ہی دائیں طرف لڑھک گیا۔ مجھے ان سے محبت تھی:میرے آنسو نکل گئے مجھے ان سے پیار تھا‘مجھے ان سے محبت تھی‘ بہت اچھا وقت ان کے ساتھ گزرا تھا جس میں ان کی موانست ‘محبت ‘موددت ‘ پیار اور انس اتنا میں نے ان کے قریب دیکھا کہ میں حیرت زدہ رہا اور میری طبیعت میں ان کے ساتھ ایک اچھا خاصا لگاؤ تھا پر آج وہ ساری چیزیں ایک دم جدا ہوگئیں‘ میرے تو گمان اور خیال میں ہی نہیں تھا کہ میں ان کے ساتھ آؤں گا اور وہ مجھ سے جدا ہوکر چلے جائیں گے۔گھڑ سوار فرشتوں کی فوج: میں نے ابھی سوچنا اور رونا شاید شروع ہی کیا تھا کہ اچانک میں نے ایسے محسوس کیا جیسے بادلوں کی گڑگڑاہٹ اور بجلی کی چمک میں سمجھا کہ شاید بارش ہورہی ہے مجھے احساس ہوا کہ وادی ایسی ہے کہ اس میں پانی بہت زیادہ آسکتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا جسم بہہ نہ جائے بس انہی خیالوں میں تھا کہ ایک دم محسوس ہوا کہ میرے سامنے سینکڑوں سے زیادہ گھڑسوار تھے جن کے ہاتھوں میں تلواریں‘ نیزے‘ کمانیں‘ ڈھالیں اور ان کے جسم پر زرہیں اور گھوڑوں کے جسموں پر بھی زرہیں لپٹی ہوئی تھیں سب نے مجھے سلام کیا اور سلام کرنے کے بعد مجھے مبارک دی اورکہا مبارک ہے وہ شخص جس نے اللہ کی امانت کو سنبھالا اور اللہ کی امانت کی حفاظت کی اور اللہ کی امانت کا ساتھ دیا۔ آخری مرتبہ دیکھ لو!:ہم اللہ کی ایک مخلوق ہیں اور ہم فرشتے ہیں ہم اسے اللہ کے پاس لینے کیلئے آئے ہیں تو نے ان کو آخری دفعہ دیکھنا ہےتو دیکھ لے میں نے ان کا آخری دیدار کیا‘ پیشانی پر بوسہ دیا اور اس کے بعد ایک دم ان کی میت میرے سامنے سے غائب ہوگئی۔غیبی آواز: میں حیران‘ پریشانی وہاں اکیلا کھڑا سوچ رہا تھااب نجانے کیا ہوگا اور میں واپس کیسے جاؤں گا؟ اچانک انہی تکوینی علوم کے درویش کی آواز ایسے ہواؤں اور فضاؤں میں گونجی جن قدموں سےا ٓئے تھے انہی قدموں سے واپس چلے جاؤ۔ ہمیں فنا ہے جس رب نے یہ منزلیں دی ہیں اس رب کو فنا نہیں‘ رب تمہاری خود مدد کرے گا میں نے دائیں بائیں دیکھا مجھے کچھ بھی نظر نہ آیا خیر میں وہاں ان راہوں کی طرف چل پڑا جن راہوں سے میں آیا تھا ابھی میں کچھ چند لمحے ہی چلا ہوں گا مجھے مکہ کی آبادی کے آثار نظر آئے‘ بہت حیرت ہوئی میرے قدم اور تیز اٹھنے لگے اور جتنی دیر میں میں عشاء کے فرض پڑھتا ہوں اتنی ہی دیر میں میں اپنے گھر کے قریب پہنچ گیا اور مجھے اس بات کی حیرت ہوئی کہ میں نامعلوم کتنے سینکڑوں ہزاروں میل دور تھا اور اب میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ حیران مت ہویہ سورۂ بقرہ کا چھوٹا سا کمال ہے: میں مکی جن کی یہ کہانی سن رہا تھا جو کہ سچی کہانی اور یہ بیتی زندگی کے واقعات تھے حیرت انگیز‘ عجب استجاب‘ عجب دنیا‘ میں حیرت ہی میں تھا اور وہ مجھے جھنجھوڑ کر کہنے لگے کہ حیران ہونے کی بات نہیں ابھی ہم نے سورۂ بقرہ کا ایک چھوٹا سا کمال بتایا ہے اگر تم کہو تو اس سے بھی بڑا کمال بتاتے ہیں تو میں نے ان سےعرض کیا کہ ضرور بتائیں فرمانے لگے کہ اچھا ایسا کرو اپنے دائیں ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی میرے ہاتھ میں پکڑاؤ میں نے دائیں ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی ان کے ہاتھ اور مٹھی میں دبا دی اور مجھے محسوس ہوا کہ مجھ پر غنودگی طاری ہوگئی اور میں بس ایسے جیسے کہ بے ہوشی کی کیفیت میں اور میرے ہوش و حواس بندہورہے ہیں اور میں نے اپنے آپ کومحسوس کیا کہ شاید میں ہواؤں میں تیر رہا اور فضاؤں میں اڑ رہا ہوں۔آنکھیں کھولو اور کمال دیکھو: یہ کیفیت مجھ پر طاری رہی‘ تھوڑی ہی دیر کے بعد میں نے محسوس کیا اور مجھے آواز آئی کہ آنکھیں کھولو‘ میں نے آنکھیں کھولیں‘ میں دور کسی ویرانےمیں تھا جہاں عجیب وغریب درخت تھے‘ نہ کھجور تھے نہ کسی اور قسم کے درخت تھے‘ موٹے موٹے تنے بہت بڑے درخت تھے۔ میں نے اپنے آپ کو وہیں پایا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ میں کہاں ہوں مجھ سے فرمانے لگے آنکھیں بندنہیں کرنی‘ میں نے مکی جن کی بات پر عمل کیا آنکھیں بند نہیں کیں۔ فرمایا: اگر آنکھیں بند کرلیں اس لمحے تو واپس اپنی منزل پر چلے جائیں گے جہاں سے ہم آپ کو لائے ہیں۔ میں نے آنکھیں بند نہیں کیں ‘میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ فرمایا دنیا کا آخری کنارہ ہے جہاں زمین ختم ہوجاتی ہے‘ ہم وہاں پہنچے‘ میں حیران ہوا کہ یہ ہمارے گھر سے جہاں ہم بیٹھے تھے کتنے سو میل ہوگا۔ فرمایا :کتنے لاکھ میل کہو؟ میری حیرت کی انتہا نہ رہی لیکن یقین اس لیے آگیا تھا کہ ان کی ان کیفیات پر‘ ان کے واقعات پر اور ان کے مشاہدات پر اور آنکھوں دیکھی چیزوں پر ویسی زندگی کی کیفیت تھی محسوس ہوا کہ جو یہ کہہ رہے ہیں بالکل سچ کہہ رہے ہیں۔ ان کی ہر بات عین الیقین ہے اور ان کی ہر بات عین تاثیر ہے‘ مجھ سے فرمانے لگے: یہاں تین دعائیں‘ پانچ دعائیں‘ سات دعائیں یا نو دعائیں جو بھی کرنی ہیں کرلیں لیکن نو سے زیادہ نہ ہوں اور ہر دعا اس وقت تک قبول ہوتی رہے گی جب تک آپ کی زندگی ہے۔میںتین دعائیں کروں گا:ہاںاگر آپ تین دعائیں کریں گے بلکہ سات نسلوں تک جائیں گی۔ میں نے سوچا میں تین دعائیں کرلوں۔ میں نے مکی جن سے عرض کیا آپ ہی بتائیں کیا دعا کروں‘ فرمانے لگے مجھے نہیں معلوم آپ کے دل میں کیا ہے کیا مرادیں ہیں؟ کیا چاہتیں ہیں؟ کیا جائز حاجتیں ہیں ‘کیا جائز تمنائیں ہیں مجھے تو خبرنہیں آپ کو ہی خبر ہے‘ وضو میرا تھا میں نے ایک جگہ دیکھا کہ بہترین خوبصورت گھاس ہے حالانکہ وہ ویرانہ تھا بے آب و گیاہ جگہ تھی نامعلوم گھاس کہاں سے آگیا شاید قدرت ربی نے نماز کا موقع دینے کیلئے گھاس کو میرے لیے اگایا تھا ایک خوبصورت گھاس ہے میں نے اس گھاس پر دو نفل ادا کیے شکرانے کے بھی اور حاجت کے بھی اس کے بعد اللہ پاک جل شانہٗ سے مانگا اور تین دعائیں مانگیں سب سے پہلے میں نے مولا سے مانگا کہ کریم آقا میری مغفرت فرما‘ ساری امت کی مغفرت فرما‘ دوسرا میں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا: یااللہ! میری نسلوں کو امت کو شکر والی زندگی عطا فرما ناشکری والی زندگی نہ عطا فرما اور تیسرامیں نے اللہ تعالیٰ سے مانگا کہ یااللہ برکت سدا مجھے‘ میری نسلوں اور پوری امت کو عطا فرما۔مبارک ہو! آپ کی دعا قبول ہوگئی: جب میں یہ دعا مانگ چکا تو مجھے فرمانے لگے مبارک ہو‘ آپ کی دعا قبول ہوگئی ہے اور تینوں دعائیں ان شاء اللہ آپ کے حق میں بھی آپ کی نسلوں میں اور ان شاء اللہ امت کے ان لوگوں میں کوئی اگر شکی اور بدبخت نہیں تو سب کے حق میں قبول ہوگئی ہے۔مجھے اللہ کی کوئی اور قدرت دکھائیں: مجھے بہت خوشی ہوئی میں نے ان سے عرض کیا کہ اس جگہ مجھے اللہ کی کوئی اورقدرت دکھائیں اور مناظر دکھائیں۔ مجھے فرمانے لگے میرے ساتھ چلو‘ میں ان کے ساتھ گیا جب آگے گیا تو ایک غار تھا مجھ سے فرمانے لگے اس غار میں آپ نے کسی چیز کوہاتھ نہیں لگانا یہ امانت ہے‘ یہ ہمارا ملک نہیں نہ ہماری اس پر کوئی حکومت ہے نہ اس پر ہمارا اختیار ہے بس یہ اللہ کی امانتیں ہیں اور کسی مخلوق کی امانتیں ہیں جب میں غار میں داخل ہوا تو سونے چاندی کے ڈھیر‘ ہیرے جواہرات کے ڈھیر‘ قیمتی موتیوں کے ڈھیر اور ایسے ڈھیر جو میں نے آج تک دیکھے ہی نہ تھے‘ اور وہ مجھے بتاتے جارہے تھے کہ یہ فلاں چیز کاڈھیر ہے یہ فلاں چیز کاڈھیر ہے۔ یہ فلاں قیمتی موتی ‘یہ فلاں پتھر کا ڈھیر ہے اور مجھے بتاتے بتاتے آگے بڑھتے گئے ۔ان چشموں کا تعلق جنت سے ہے:آگے گئے تو مختلف چشمے ابل رہے تھے فرمایا ان چشموں کا تعلق جنت سے ہے اور ان کے ذائقے بھی جنت کے ہیں لیکن ہم غار میں کسی کی اجازت کے بغیر یہ چیز لے نہیں سکتے۔ یہ شیر اصلی نہیں:میرے دل میں چاہت تو بہت ہوئی کہ کوئی چیز اس میں سے لے لوں لیکن حکم نہیں تھا اور حکم اصل چیز ہوتی ہے۔ اس کے بعد میں وہاں سے ان کے ساتھ آگے سے آگے بڑھتا چلا گیا ایک جگہ دیکھا تو غار میں تین شیر دو شیرنیاں اور نو بچے بیٹھے تھے‘ مجھے ایک خوف کا احساس ہوا جو کہ فطری عمل ہے مجھ سے فرمانے لگے یہ زندہ شیر نہیں ہیں‘ یہ سونے کے بنے ہوئے ہیں ان کی آنکھیں ہیرے کی ہیں اور ان کے اندر بھی سونا اورجواہرت ہیں اور تھوڑی ہی دیر ہوئی ایک شیر ایسے کھلا جیسے اندر سےکوئی ڈھکنا کھلتا ہے اور اس کے اندر سے ہیرے جواہرات چھن چھن کر نیچے گرے اور مجھے اس بات کا احساس دلایا جارہا تھا کہ ان کی بات سچ ہے اور ان کی بات حق ہے اور جو یہ کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں۔ مٹھائیوں کا ڈھیر:میں ان کی بات سن کر حیرت زدہ ہوا اور مجھے حیرت ہوئی کہ کیا کہہ رہےہیں ہم آگے بڑھے تو مٹھائیوں کا ایک ڈھیر دیکھا بہت خوبصورت اور ان میں خوشبو آرہی تھی تو مجھ سے فرمانے لگے کہ یہ مٹھائیاں نہیں ہیں‘ یہ قیمتی پتھر ہیں‘ سونے چاندی کے ڈ ھیر ہیں اور کائنات کے وہ قیمتی خزانے ہیں جن کو آج تک دنیا تلاش کرتےکرتے مرگئی ہے لیکن ان خزانوںکو دنیا پا نہیں سکی۔ آخر یہ خزانے کس کیلئے ہیں؟ میں نےان سے پوچھا آخر یہ خزانے کس کیلئے ہیں؟ فرمایا: یہ ہر اس شخص کیلئے ہے جو سورۂ بقرہ کا عمل کرے لیکن یہ صرف ملتے اس کو ہیں جو اس کا طلب گار ہو پھر مسکرا کر مکی جن کہنے لگے : سچ بتاؤں جوسورۂ بقرہ کا عمل کرلیتا ہے اس کو واقعتاً اس کی ضرورت خود رہتی ہی نہیں اور وہ بے نیاز ہوجاتا ہے‘ اس کا دل بھر جاتا ہے اس کا من بھر جاتا ہے‘ اس کے دل کی چاہتیں ختم ہوجاتی ہیں‘ اس کی لذتیں ختم ہوجاتی ہیں‘ اس کی چاہت بس اللہ اور اس کا حبیب ﷺ رہتا ہے دنیا کی چاہتیں اور دنیا کی لذتیں اس کے اندر سے ختم ہوجاتی ہیں۔ دائیں ہاتھ کی انگلی پکڑاؤ: میں ان کی باتیں حیرت سے سن رہا تھا اور ان کی باتوں پر حیرت سے توجہ کررہا تھا اور دیکھ رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ ان کی باتوں کے اندر سے حیرت انگیز خیر نکل رہی تھی اور برکت نظر آرہی تھی مجھ سے فرمانے لگے چلو ہم واپس چلتے ہیں پھر کھڑے کھڑے فرمانے لگے کہ اپنے دائیں ہاتھ کی وہی انگلی میرے ہاتھ میں پکڑاؤ دائیں ہاتھ کی وہی انگلی میں نے ان کے ہاتھ میں پکڑائی وہی غنودگی طاری ہوئی اور ہم واپس آگئے جب واپس آئے تو میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور مجھے ایک احساس ہوا کہ مکہ مکرمہ سے آئے مہمان ہیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ میں ان کا وقت بہت زیادہ لے لوں اور یہ محسوس نہ کرلیں۔ میری اس کیفیت کو وہ بھانپ گئے‘ ہرگز ہرگز نہیں میں کچھ محسوس نہیں کررہا بلکہ مجھے آپ کے ساتھ وقت گزار کر خوشی ہورہی ہے اور ایک لذت کا احساس کہ خود آپ اس روحانی دنیا کے خوشہ چین ہیں۔ روحانی دنیا کے جانشین:روحانی دنیا کے جانشین ہیں مجھے ایسے لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوشی ہوئی ہے اور جس دن مجھے کشف کی دنیا میں یہ بتایا گیا کہ ایک شخص ملے گا اور وہ آپ سے اس پگڑی کے ٹکڑے کا سوال کرے گا مجھے اس وقت آپ کا چہرہ دکھا دیا گیا تھا‘ پھر انہوں نے میرے بارے میں مجھے کچھ چیزیں بتائیں کہ فلاں وقت میں آپ کے ساتھ یہ چیز ہوگی؟ فلاں وقت میں یہ چیز ہوگی؟ فلاں وقت میں یہ چیز ہوگی کچھ چیزیں بتائیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان میں سے دو چیزیں واقعتاً ایسے ہوئی جو انہوں نے بتائی ہیںمجھے یقین ہے کہ ان کی باقی چیزیں بھی ویسے ہی ہوں جو یقیناً انہوں نے بتائی ہیں۔میں تو بتانا چاہتا ہوں‘ جلدی آپ کو ہے:آخر میں چلتے ہوئے میں نے ان سے عرض کیا کہ اگر آپ سورۂ بقرہ کے اور کمالات بتادیں تو پھر کھلکھلا کر فرمانے لگے: میں تو بتانا چاہتا ہوں جلدی تو آپ کو ہے میں نے کہا نہیں مجھے آپ کی مہمانی کا احساس ہے کہ آپ ہمارے قابل احترام مہمان ہیں‘ ایسا نہ ہو کہ آپ کی شان میں کوئی کمی کوتاہی ہوجائے اور آپ کا وقت میری وجہ سے ضائع ہوجائے ۔محفل میں بیٹھے جنات سے مخاطب:فرمانے لگے نہیں ہرگز نہیں مجھے خوشی ہورہی ہے پھر ایک اورواقعہ سنایا سورۂ بقرہ کے بارے میں فرمایا جو سورۂ بقرہ اس ترتیب سے پڑھتا ہے اور پھر ایک بات درمیان میں خود ہی روک کر فرمانے لگے: میرے قریب جتنے جنات بیٹھے ان سب سے کہوں گا کہ اپنے مزاج کی غفلت کو چھوڑیں اور سورۂ بقرہ اسی ترتیب سے بہت بہت لازم پڑھیں اوریقین سے پڑھیں تو ان شاء اللہ ان کو یہ تمام روحانی کمالات ان پر جاری و ساری رہیں گے اور روحانی کمالات ان پر عیاں ہوجائیں گے جو شخص یہ سورۂ پڑھے گا تو پھر اس کا اگلا واقعہ سنایا فرمانے لگے۔انبیاء کرام علیہم السلام سے ملاقات: ایک دفعہ مجھے خیال ہوا کہ یااللہ تو چاہے تو سب کچھ کردے ‘تیرے امر سے ساری کائنات کا وجود چل رہا تو چاہے ہر فیصلہ کرلے یااللہ ایسا ممکن نہیں کہ مجھے انبیاء سے ملاقات کرادے اور تمام نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام جتنے بھی ہیں ان سے مجھے ملاقات کرادے یامولا ایسا کردے جتنے بھی مشہور انبیاء ہیں ان سب سے میری ملاقات ہوجائے اور میں ان کی زیارت بھی کرلوں اور ملاقات بھی کرلوں‘ اللہ تیرے لیے کون سی دیر ہے اور تیرے لیے کون سی مشکل ہے تو ایسا کردے ۔بس سوچا ہی تھا اور:بس میں نے یہ سوچا ہی تھا کہ اچانک ایک ایسی تیز ہوا چلی کہ جیسے کہ عموماً آندھیوں کے دنوں میں چلتی ہےا ور دھول ساری اڑ رہی‘ اگلی ہوا چلی اس ہوا میں باریک باریک ذرے ریت کے ہیںکے وہ سب پھول بن گئے ‘وہ ایسے تہہ در تہہ بچھتے چلے گئے اور تاحد نظر پھولوں کی بارش ہوئی اور پھولوں کا فرش بن گئے اور پھر تیز ہوا چلی اور کچھ کرسیاں لگتی گئیں ‘لگتی گئیں‘ لگتی گئیں اور پھر تیز ہوا چلی کچھ لوگ آئے جو کرسیوں کےدائیں بائیں تلواریں اور نیزے سونپ کر کھڑے ہوگئے ۔یہ تو فرشتے ہیں:میں نے ان کو
دیکھا ان کے سر پر لوہے کی ٹوپیاں زرہیں پہنی ہوئی ہاتھ میں نیزے تلواریں ان کے چہرے بالکل ایسے محسوس ہورہے
تھے یہ انسان نہیں نہ جن ہیں یہ تو فرشتے ہیں اندر باہر سے محسوس ہو رہا تھا ان کے کہ وہ اپنی ذمہ داری اور ڈیوٹی پر متعین ہیں۔ انبیاء کرا م علیہم السلام کی آمد شروع: پھر تھوڑی دیر ہوئی ہوا چلی تو سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کرسی پر لایا گیا میں نے دیکھا حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا چہرہ انور سبحان اللہ کیا نورانیت لیکن حد سے زیادہ جلال اور بہت عظمت اور بہت وقار‘ اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کرسی پر لایا گیا اس کے بعد پھر انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ شروع ہوا آخر میں‘ درمیان میں ایک کرسی پڑی تھی جو سب سے زیادہ باوقار تھی‘ مجھے یقین ہوگیا کہ یہ ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کیلئے ہے۔ نبی اکرم ﷺ یار غار کے ہمراہ تشریف لائے: تھوڑی دیر ہوئی سارے انبیاء علیہم السلام تشریف لائے اور اکیلے تشریف لائے اور جب حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لائے تو حضورﷺ کے ساتھ ایک فرد بھی تھا اور اعلان ہوا کہ یہ حضور ﷺ کا وہ ساتھی ہے جو غار میں ان کے ساتھ تھا۔اتنی بڑی ہستیاں اور میری ان سے ملاقاتیں:میں اشتیاق اورشوق سے دیکھ رہا تھا اور حیرت سے میری نظریں پھٹیں کی پھٹیں رہ گئیں‘ یااللہ یہ کیا منظر ہے؟ کیا کمال ہے؟ یہ کیا زندگی ہے! اتنی بڑی ہستیاں اور میں ان کی ملاقاتیں‘ میرے سوچ گمان خیال میں ہی نہیں تھا میں سوچ ہی نہیں سکتا تھا ‘حکم ہوا کہ آپ کو اجازت ہے ان سب سے مصافحہ کرنے کی‘ میں آگے بڑھا‘ سب سے مصافحہ کیا‘ سب کے ہاتھ چوم رہا تھا‘ جب میں نے اپنے نبی ﷺ سے مصافحہ کیا تو مجھے اپنے سینے سے چپکا لیا ‘سینے سے اتنی خوشبو تھی ‘اتنی ر وحانیت تھی اور اتنا نور تھا اور اتنی خیرو برکت تھی کہ گمان اور خیال سے بالا تر۔ تو مجھے حیرت ہوئی میں حیران ہوا ۔ نبی کریم ﷺ نے ایک بات کان میں بتائی:ہمارے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نےمجھ سے ایک بات کان میں فرمائی۔ پھر میں ہر نبی علیہم السلام کے پاس پھر گیا۔ اپنی جھولی کو پھیلا دیا جیسے کوئی چندہ مانگتا ہے اور ہر نبی علیہ السلام نے مجھے ایک نصیحت کی ایک موتی دیا‘ ایک عمل دیا وہ سب انبیاء علیہم السلام سے وہ نصیحت وہ موتی وہ عمل لیتاچلا گیا اور لیتا چلا گیا۔ اب یہ ایک منظر تھا یہ ایک حیرت انگیز کیفیت تھی جو شایدمیں نے آج تک نہ کبھی دیکھی‘ نہ سنی‘ نہ کبھی سوچا‘ میرا گمان اورخیال ہی نہیں تھا کہ میں ایسا منظر کبھی دیکھ بھی پاؤںگا میرے احساس میں بھی نہیں تھا‘ میں ایک جگہ بیٹھ کر رونے لگ گیا۔دل سے اللہ اللہ کی صدائیں: مجھے روتا دیکھ کر وہ صاحب جن کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ صدیق اکبر ہیں وہ تشریف لائے اور مجھے اپنے سینے سے لگایا ان کے سینے سے عجیب خوشبو تھی اور ان کے دل کی دھڑکن جب سینے سے لگایا تو سینے سے اللہ اللہ کی آوازیں سن رہا تھا۔ میں نے کہا افسوس سے نہیں اپنی قسمت کے ناز پر رو رہا ہوں کہ میں اتنا نصیب اور بانصیب ہوسکتاتھا میں اپنی قسمت پر نازاں اور اپنی قسمت پر مجھے حیرت ہورہی ہے۔ خیرانہوں نے مجھے تسلی دی کہ نہیں آپ جو سورۂ بقرہ پڑھتے ہیں کیونکہ قرآن کی سب سے بڑی سورۂ ہے اور اس میں اسم اعظم ہے دراصل وہ اسم اعظم اور اسم اعظم سے یہ تمام کمالات حیرت کی بات نہیں بلکہ سعادت کی بات ہے اور ایسی ہستیوں سے ملاقات ہوتی ہے میں ان کا بہت مشکور و ممنون ہوا تھوڑی دیر کے بعد اچانک آواز آئی سارے انبیاء آپ کے لیے دعا کریں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کروائی:میں دیکھنے لگا کہ کون دعا کرواتا ہے آخر کار سب کی نظر حضرت محمد ﷺ پر اٹھی آپ نے ہاتھ اٹھائے اور پھر حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف نظر اٹھائی ایسے کہ جیسے ان کی چاہت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام دعا کروائیں تو حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعا کروائی۔ وہ کیا دعا تھی‘ دعا میںکیا رقت تھی‘ دعا میں کیا کیفیت تھی۔ دعاؤں کے اندر کیا کمالات تھے میں آج تک وہ دعا نہیں بھول سکتا‘ آج تک دعا کے وہ الفاظ کیفیات فراموش نہیں کرسکتا۔ تو انہوں نے وہ دعا فرمائی اور بہت دیر تک حتیٰ کہ میرے دل میں جو چاہتیں تھیں مرادیں تھی یا تمنائیں تھیں ان سب کو بھی انہوں نے دعا کے الفاظ میں بیان فرمایا۔تیز ہوا چلی اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام تشریف لےگئے : اس کے بعد دعا جب ختم ہوئی پھر ایک تیز ہوا چلی اور ایک ایک کرسی اڑ اڑ کر باوقار انداز میں جارہی تھی اور سب انبیاء علیہم السلام تشریف لے گئے اور سارا میدان پھر ایسے خالی ہوگیا اور میدان خالی ہونے پر پھر وہی کیفیت جو پہلے سے موجود تھی اور میں حیران کہ یہ میں نے کیا منظر دیکھا؟ اور اس منظر کے اندر کیا نورانیت ‘کیا روحانیت تھی اور کیا خیرو برکت تھی؟قبر پر گلدستوں کی بارش: میں اپنے احساسات و گمان اور خیالات میںاور سوچوں میں غرق تھا
اچانک مجھے اونگھ آگئی اور میں اونگھ میں چلا گیا میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بہت بڑا قبرستان ہے تاحد نظر قبریں ہی قبریں‘ سب قبریں پرانی اور کچی ہیں اور اچانک آسمان سے گلدستے گرنا شروع ہوجاتے ہیں اور ہر قبر پر گلدستہ گررہا ہے کسی پر چھوٹا کسی پر بڑا کچھ قبریںایسی ہیں جس کے اوپر ایک سے زائد گلدستے گررہے میں حیرت سے یہ دیکھ رہا تھا مجھے محسوس ہوا کہ وہ فلاں قبر میری ہے اور پھر اس کے اوپر گلدستے گرے ایک گرا دوسرا گرا تیسرا گرا اور پھر ستر گلدستے گرے‘ اتنے گرے کہ میری قبر نظر نہ آرہی تھی اور گلدستے ہی گلدستے نظر آرہے تھے اور مجھے بہت حیرت ہوئی میں بہت حیران ہوا کہ یہ کیا منظرہے۔کیایہ میری نسلوں کو بھی ملے گا: تو غیب سے آواز آئی جو سورۂ بقرہ کا یہ عمل کرتے ہیں مرنے کے بعد بھی انہیں عرشی گلدستے‘ عرشی رحمتیں‘ عرشی برکتیں ہمیشہ اور سدا ملتی رہتی ہیں اور وہ ہمیشہ تابندہ اور شاد و آباد رہتے ہیں میں نے خواب ہی میں پوچھا کہ یہ نعمت میری نسلوں کو ملے گی؟ جواب آیانہیں‘ اللہ نےچاہاتو نسلوں کو دے دے لیکن تمہاری نسلوں کو نہیں ملے گی تو میں رونے لگ گیا میرے روتے ہوئے عرش سے آواز آئی جا ہم نے تیری نسلوں کو بھی دے دیا اور تجھے بھی دے دیا۔ مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی اور بہت راحت ملی کہ اس کی برکات اس کے کمالات مجھے اتنے ملے۔اب آپ جاسکتے ہیں:یہ واقعہ سنا کرمکی جن کہنے لگے اب مجھے خود احساس ہورہا تھا کہ آپ کاوقت ہوگیا ہے اب آپ جاسکتے ہیں۔ لیکن یقین جانیے خود میرا دل اٹھنے کو نہیں کررہا تھا اور میرے من میں میری طبیعت میں چاہت تھی کہ میں ان سے کچھ اور سنوںاور وہ مجھے بتاتے چلے جائیں اور میں سنتا چلا جاؤں اورخیرو برکت کی یہ کیفیات میرے اندر ایسی پہلے سے زیادہ اترتی چلی جائیں۔ میں ان کی باتیں سن رہاتھا حیرت زدہ تھا۔ حیران کن باتیںتھیں اور ان کی باتوں میں نور ہی نور تھا خیر ہی خیر تھی‘ برکت ہی بر کت تھی۔سب رو رہے تھے: آخر میں نے ان سے عرض کیا کہ میرے لیے دعا فرمائیں اور مجھے دعاؤں کے ساتھ رخصت کریں پھر انہوں نے ہاتھ اٹھائے بہت دیر تک دل ہی دل میں دعا کرتے رہے اور ان کے بھی آنسو بہہ رہے تھے اور میرے ساتھ جتنے احباب تھے ان سب کے آنسو بہہ رہے تھے اور وہ سب کے سب رو رہے تھے‘ اٹھتے ہوئے مجھےوہ باکس دیا لکڑی کا چھوٹا سا صندوقچہ جس کے اندر وہ پگڑی مبارک کا ٹکڑا تھا میں نے وہ باکس سینے سے لگایا اور چلتے ہوئے مجھے ایک پرانا سکہ دیا جس پر کوئی نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔آپ کو ایک تحفہ دے رہا ہوں: جیسے پرانے وقت کا سکہ مجھ سے فرمانے لگے آپ کو ایک تحفہ دے رہا ہوں‘ ہماری نسل در نسل چلا آرہا ہے یہ وہ سکہ ہے جو اصحاب کہف کے پاس تھا‘ ان سکوں میں سے ایک سکہ ہے۔ یہ اسی دور کا ہے۔ اس کو سنبھال کر رکھیے گا رزق‘ دولت‘ کبھی ختم نہیں ہوگا جس کے پاس یہ سکہ ہوگا دنیا کا بڑے سے بڑا جادوگراس پر کوئی وار نہیں چلا سکے گا۔آج بھی وہ سکہ اور پگڑی کاٹکڑا میرے پاس ہے: جس کے پاس یہ سکہ ہوگا دنیا کا سب سے بڑا جن اسے قابو نہیں کرسکے گا جس کے پاس یہ سکہ ہوگا کوئی طاقت ور سے طاقت ور ترین چیز بھی تکلیف نہیں دے سکےگی میں نے وہ سکہ لیاچومااور آنکھوں سے لگایا‘ آج بھی وہ سکہ میرے پاس موجود ہے آج بھی پگڑی مبارک کا ٹکڑا میرے پاس موجود ہے‘ ا ن کےآنے کے بعد جو مجھ پر کمالات اور برکات کے دروازے کھلے وہ الفاظ خیال گمان سے بالاتر ہیں اور اس پگڑی کے بعد جو خیریں اور برکات مجھے ملیں وہ بھی میں گمان اورخیال بلکہ آپ کو بتا نہیں سکتا۔ قارئین! یہ میں نے اپنی چھوٹی سی ایک داستان بتائی ہیں۔
جنات کے ختم القرآن: اس(گزشتہ رمضان2018ء) رمضان کے حالات اگر مجھ سے پوچھیں گے اس رمضان نے تو مجھے بہت سفر کرائے اور خاص طور پر میرے سفر جنات کے ختم قرآن پر ہر دن ایک ختم قرآن نہیں کیونکہ جنات زیادہ سے زیادہ تین دنوںمیں ختم کرلیتے ہیں‘ اب کچھ جنات ایسے تھے جنہوں نے تین دن میں ختم کرلیے‘ میرے پاس وقت نہیں تھا تو میں نے انہیں اگلے دن کا وقت دیا تو انہوں نے اگلے دن کیلئے ایک پاؤ چھوڑ دیا‘ کسی نے ایک پارہ چھوڑ دیا کسی نے کچھ سورتیں چھوڑ دیں اور اگلے دن جب پہنچا تو ختم قرآن کا ایک عجیب منظر تھا اور عجیب برکت تھی اور ختم قرآن کے عجیب واقعات تھے ان شاء اللہ اگلی نشست میں ختم قرآن کی برکات اور ختم قرآن کی خیریں آپ کو بتاؤں گا کہ ختم قرآن پر اس رمضان میرے ساتھ کیا حالات بیتے۔ ان شاء اللہ۔قرآن سے محبت اور بے پناہ محبت:جنات تراویح، نوافل میں قرآن بہت سناتے ہیں یہ ان کیلئے جو محلات میں رہتےہیں یاجھونپڑیوں میں رہتے ہیں یا درختوں میں رہتے ہیں یا پانی کے کنارے یا قبرستان یا ویرانوں میں یا کھنڈرات میں یا ہواؤں میں فضاؤں میں پانی کے اوپر پانی کے نیچے پرانی قبروں میں بس ان کی رہائشیں ہیں اور جہاں جہاںجس کی رہائش ہے اس کو قرآن سے محبت ہے اور بہت زیادہ محبت ہے اور یہ رمضان میں قرآن بہت زیادہ پڑھتے ہیں۔یہ جنات کتنے عجیب اور حیرت انگیز ہیں: میری حیرت بعض اوقات اس بات پرہوتی ہے یہ لوگ کتنے عجیب ہیںاور کتنےحیرت انگیز ہیں کہ اگر شر میں جاتے ہیں تو تشدد کی انتہا کرجاتے ہیں اور اگر خیر میں جاتے ہیں تو بھی خیر کی انتہا کردیتے ہیں ان کا شر اور خیر دونوں حیرت انگیز ہے اور ان کا شر اور خیر کوئی بندہ سمجھ نہیں سکتا لیکن مجھے اب تک جتنے بھی خیر والے ملے ہیں وہ سب کے سب ایسے حیرت انگیز ملے ہیں کہ انسان گمان اور خیال کر ہی نہیں سکتا اور ہماری سوچوں اور گمان میں نہیں ہوسکتا۔
لاہوتی اور تکوینی دنیا کی سیر:رمضان المبارک میں میرے پاس جنات آئےانہوں نے مجھے کہا کہ ہم آپ کو لاہوتی اور تکوینی دنیا کی ایک سیر کرواتے ہیں میں نے کہا: کیا میں جاسکوں گا۔ کہنے لگے ہاں آپ بالکل جاسکیں گے اور سوفیصد جاسکیں گے۔بس میں نے یہ خیال کیا اس کے بعد حیرت انگیز دنیا میں میں کھوتا چلا گیا اور حیرت انگیز دنیا میرے سامنے کھلتی چلی گئی۔ وہ حیرت انگیز دنیا کیا تھی آپ کے اور میرے گمان اور خیال میں نہیں آسکتی۔ بہت دور تھی اتنا دور تھی جیسے کہ یہاں سے ہمیں چاند نظر آرہا ہو جیسے زمین سےا ٓسمان پر چاند نظر آتا ہے۔ ہم نے ایک قدم بڑھایا اور وہ سامنے آگیا۔ جب وہ سامنے آیا تو اس کاد روازہ کھلا اندر داخل ہوا اندر غلاموں اور فرشتوں کی قطاریں لگی تھیں‘ عجیب و غریب منظر تھا‘ اندر دروازے‘ روشنیاں ‘ قمقمےگلدستے‘ گلدان‘ میرے پاس الفاظ نہیں وہ کیا کچھ تھا۔ مناظر کیا تھے‘ میں پھرتا رہا ‘ پھرتا رہا‘ پھرتا رہا‘ وہاں پر موجود جنات نے مجھے ایک چھوٹا سا کپ دیا‘ اور کہا یہ پی لیں‘ جب میں نے وہ پیا ‘اس نے میری ساری تکان دور کردی‘ اس کا ذائقہ ایسے محسوس ہوا جیسے انگور کا ذائقہ ہوتا ہے۔چند لمحے اورپانچ صدیاں:میں پھرتا رہا‘ جب جنات مجھے واپس اس دنیا میں لے کر آئے تو انہوں نےمجھے کہا: آپ پانچ صدیاں دنیا کی یہ محل پھرتے رہے ہیں۔جنات کے بچے انسانوں کے مدرسوں میں بھی پڑھتے ہیں:ہاں تو قارئین بات ہورہی تھی کہ جنات کے ہاں قرآن بہت پڑھا جاتا‘ جنات کے بچے انسانوں کے مدرسوں میں پڑھتے ہیں‘ جنات کے اپنے مدارس بھی ہیں‘ کئی بار جنات کے مدارس میں بھی جانا ہوا‘ حفظ قرآن کیلئے دعا میں بھی شامل ہوا۔ ان کے گھروں میں حفظ قرآن کیلئے جو محافل ہوتی ہے‘ ختم قرآن کی‘ ختم قرآن کی محفل میں بھی میرا جانا بہت ہوا‘ ان کی قرآن سےرغبت دیکھ کر ان کا جذبہ دیکھ کر دل اش اش کر اٹھتا ہے اور اندر سے آواز آتی ہے‘ یہ جنات باقی جنات سے بہت بہتر ہیں۔ ہم قرآن اور تلاوت قرآن کو فراموش کر بیٹھے:انہوں نے قرآن بہت پڑھا اور ایک ہم ہیں جو قرآن کی تلاوت اور قرآن کو فراموش کربیٹھے ہیں۔ یقین جانیے! جتنا قرآن سے رغبت اور سبق جنات کی زندگی میں ہے‘ میں نے کئی لوگوں کو قرآن پڑھتے دیکھا اور پڑھاتے سنا لیکن جو قرآن کی جنات میں رغبت اور شوق ہے وہ بہت کم انسانوں میں ہےا ور دنیا میں شاید کسی انسان میں نہ ہو شاید میرا مبالغہ ہے۔ جنات بہت اشتیاق سے قرآن پڑھتے ہیں۔ قرآن کی محافل سجاتے ہیں۔
گُڑ بیچنے والے جنات اور ختم قرآن کی محفل:ساتویں روزے میں میں ایک محفل قرآن میں گیا۔ وہ جنات گُڑ بیچنے کا بیوپار کرتے تھے۔وہ نہ غریب تھے اور نہ ہی کوئی بڑے مالدار تھے۔ چھوٹا سا ان کا گھر تھا۔ چھوٹے سے گھر کے اندر انہوں نے طرح طرح کی مٹھائیاں ‘ طرح طرح کے کھانے اور طرح طرح کے پھل رکھے ہوئے تھے اور پھل اور مٹھائیاں بھی ایسی رکھیں جو نایاب تھیں۔ میں وہاں بیٹھا رہا‘ تھوڑی وعظ و نصیحت کے بعد میں نے دعا کروائی ۔گھر چھوٹا مگرجذبے سچے اور بڑے:ان کا گھر چھوٹا تھا مگر ان کے جذبے سچے او ر بڑے تھے وہ غریب تھے یا درمیانے طبقے کے لیکن ان کی زندگی میں خلوص‘ للیاہیت اور سچائی تھی۔ دو منہ والاسانپ: اچانک وہاں بہت بڑا سانپ آیا‘اتنا بڑا تھا کہ وہ ختم نہیں ہورہا تھا‘ بہت بڑا سانپ تھا۔ سانپ کے دو منہ تھے‘ اور دومنہ ہی آگے تھے اور اس کی چھ آنکھیں تھیں اور اس کے پورے بدن پر بال تھے جبکہ عام طور پر سانپ کے جسم پر بال نہیں ہوتے جب وہ زبان نکالتا تھا لگتا تھا آگ کے شعلے نکال رہا ہو‘جب وہ پچکاری بھرتا تھا گرم ہوا آتی تھی ‘جب وہ سانپ سامنے آیا میں حیران ہوا لیکن جنات میںکسی کو بھی حیرت نہ ہوئی‘ تھوڑی دیرتک وہ سانپ بہت توجہ دھیان سے ہماری محفل میں سب کو دیکھتا رہا‘ اس سانپ کے سامنے کھانے لائے گئے‘ مٹھائیاں لائی گئیں‘ سانپ کسی بھی پلیٹ پر منہ رکھتا اور سارا کچھ کھاجاتا اور کسی بھی گلاس پر منہ رکھتاپی جاتا جتنی بھی چیزیں تھیں ساری کی ساری کھاگیا۔ اس کےبعد سب ہٹا دیا تھوڑی دیر ہوئی اس کے سامنے بہت سارے انواع و اقسام کے پھول رکھ دئیے گئے‘ ان پھولوںپر اس نے سر رکھا تھوڑی دیر ہوئی وہ پھول مرجھا گئے اور ایسے مرجھائے کے تھوڑی دیر کے بعد وہ پھول اٹھالیے گئے۔وہ سانپ رو رہا تھا: اس کے بعد ہماری محفل میں ایک جن نے تلاوت کی اور اس کی آواز میں ایسا درد تھا کہ سارے جنات اشک بار ہوگئے اور وہ سانپ بھی رو رہاتھا۔ اچانک نجانے مجھے کیا خیال آیا میں نے اس سانپ سے مخاطب ہوکر کہا میں تجھے اللہ کا واسطہ دیتا ہوں اپنے اصلی روپ میں آ۔ بس یہ کہنا تھا کہ ایک دم میں نے دیکھا کہ بہت بڑا آدمی ہے ‘ بہت خوبصورت ہے‘ اس کےسرپرسیاہ پگڑی ہے اور بہت سفید اس کی ڈارھی ہے ‘ پتلی موچھیں ہیں‘ نورانی آنکھیں‘
نورانی چہرہ تھا۔ اس کے جسم سے روشنیاں نظر آرہی تھیں‘ میں نے سلام کیا‘ اپنا تعارف کیا‘ بلاغت سے بولے: آپ کو تعارف کروانے کی ضرورت نہیں ہے‘ آپ کا تعارف پہلے سے ہے۔میں شام سے آیا ہوں: میں نے ان سے پوچھا آپ کہاں سے تشریف لائے‘ فرمانے لگے کہ میں شام سے آیا ہوں اور شام کی اس جگہ کا رہنے والا ہوں جہاں سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قافلے گزرے ‘جہاں سے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی قبر ہے۔ میں اس جگہ کا رہنے والا ہوں جہاں سے حسینیؓ قافلہ گزرا اور واپسی پر وہ لٹا پٹا اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کا قافلہ گزرا۔ میں شام کا اس جگہ کا رہنے والا ہوںجہاں ایک وقت میں گیارہ ابدال رہے اور ان ابدالوںکے ساتھ میں رہا ہوں۔ کیا آپ بھی ابدال ہیں؟:میں نے ان سے ایسے ہی سوال کردیا آپ بھی ابدال ہیں؟ خاموش ہوگئے‘ اس محفل میں بیٹھے صاحب بولے آپ نے کیسے پہچان لیا کہ یہ ابدال ہیں۔ ویسے ہی میرا گمان ہوا‘ فرمایا: یہ ہمارے جنات کے ابدال ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت اور طاقت سے بہت نوازا ہے اور ان کے ساتھ بہت طاقت اورقدرت ہے کوئی بھی عام شخص یا جن ان کی طاقت ‘ قدرت اور طاقت کو پہچان نہیں سکتا۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ کو جو خدانے علم دیا اس میں سے کچھ مجھے بھی دکھائیں۔ فرمانے لگے : آپ صرف سورۂ تکاثرپڑھیں۔ بس یہ پڑھ لیں جب میں نے یہ سورۂ پڑھی تو اچانک سامنے بہت بڑا تالاب وجود میں آگیااب ہوا یہ کہ تالاب کے ایک کونے پرمیں ہوں اوردوسرے کونے پر وہ(سانپ جن) ہیں۔(وہ بزرگ جن جو کہ شام کے اللہ کے ولی جن ہیں‘ میں نے ان سے ان کا نام پوچھا تو فرمانے لگے میرا نام یوسف ہے اور ہمارا قبیلہ ‘ قبیلے کا نام بتایا۔ پھر والد اور دادا کابتایااور مزید بتایا کہ بہت خوبصورت قرآن پڑھتے تھے) اب انہوں نے کیاکیا‘ جب تالاب بن گیا‘ تالاب کے ایک کونے پر انہوں نے قرآن پڑھنا شروع کردیا اور قرآن پڑھتے پڑھتے حتیٰ کہ تالاب خشک تھا اور قرآن کی برکت سے میں نے خود دیکھا کہ تالاب میں پانی بھرنا شروع ہوگیا۔زمین نے خزانے اگلنا شروع کردئیے: جیسے زمین کے نیچے سے پانی نکل رہا ہے اور زمین کے نیچے سے پانی خود ابل رہا حتیٰ تالاب سارےکا سارا پانی سے لبریز ہوگیا اور جب تالاب پانی سے بھر گیا تو اس کے اندر سے موتی اچھلنے لگے اور اچھل اچھل کر باہر آرہے تھےا ور سارے سچے موتی تھے‘ قیمتی موتی تھے‘ تھوڑی ہی دیر ہوئی کہ انہوں نے سورۂ یٰسین پڑھنا شروع کردی‘ اب توجیسے تالاب میں ایک طوفان اور طلاطم شروع ہوگیا اور سورۂ ٰیٰسین کے پڑھتے ہی وہاں سے مسلسل قیمتی لعل‘ جواہر باہر ابلنا اور نکلنا شروع ہوگئے اور ساتھ قریب ڈھیر لگ گئے‘ اب میں جرأت نہیں کررہا تھا کہ بغیر اجازت کےیہ موتی اٹھاؤں۔ بس وہ وجدان سےقرآن پڑھ رہے تھے ‘ وہ سارے کے سارے قرآن سن رہے تھے اور قرآن سننے میں ایسے مشغول ہوئے کہ جیسے دنیا جہان کو بھول چکے ہوں۔ بس اس کے بعد جب انہوں نے قرآن کی تلاوت ختم کی‘ موتی‘ لعل‘ جواہر‘ قیمتی ہیروں کے ڈھیر لگ گئے ۔میں یہاں یہ لینے نہیں آیا:مجھ سے فرمانے لگے سب کچھ آپ کے لیے آیا ہے‘ میں نے کہاں میں یہاں یہ لینے کے لیے نہیں آیا۔ میں بس روح کی دنیا کیلئے دعا لینے آیا ہوں اور روحانی طور پر کچھ لینے آیا ہوں‘ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے ہاتھ کا اشارہ کیا وہ سارے موتی تالاب کے اندر سمٹ گئے اور تالاب پھر سے خشک ہوگیا۔ عجوبہ جو آپ نے دیکھا:پھر انہوں نے اپنے اس راز سے پردہ اٹھایا کہنے لگے کہ میں جب بھی قرآن پڑھتا ہوں فوراً قرآن کی طاقت ایسی ہے ‘ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے مظاہر‘ مناظر اور عجائبات دکھاتا ہے اور ان قدرت کے مظاہر‘ مناظر اور عجائبات میںسے آج یہ عجوبہ آپ نےد یکھا۔ پھر فرمانے میں سادہ روٹی کھاتا ہوں اور سادہ کھانا ‘سادہ پیتا ہوں‘ میں چاہوں تو بادشاہوں سے بھی زیادہ کھاسکتا ہوں‘ پی سکتا ہوں‘ یہ موتی‘ لعل‘ جواہر اللہ تعالیٰ نے میرے لیے حلال کیے ہیں لیکن یہی کائنات کےخزانے تو تھے جو اللہ کے نبی ﷺ کے سامنے اللہ تعالیٰ نے کھول کر دکھادئیے اور حضور نبی اکرم ﷺ نے فقر‘ فاقے اور تنگدستی کو پسند فرمایا۔ کم از کم ان کے قریب والوں میں تو شامل ہوجاؤں: بس میں یہ چاہتا ہوں کہ میری زندگی حضورﷺ سے بڑھ کر نہ ہو بلکہ اللہ کے نبی ﷺ کے ساتھ میری زندگی ملے تو نہیں بلکہ کم از کم مشاہدہ تو ہو اور کم از کم اس زندگی میں نہیں تو ان کی زندگی کےقریب تو شامل ہوجاؤں۔ ان کی زندگی کی اس کیفیت سے میں حیران ہوا۔ رجال الغیب کیا ہوتے ہیں؟ ابدال کیا جانتےہیں: میں نے پوچھا رجال الغیب کے بارے میں مجھے کچھ بتائیں کہ رجال الغیب کیا ہوتے ہیں؟ ابدال کیاجانتے ہیں؟ مجھے ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے ہوئے وہ شامی جن بزرگ کہنے لگے کہ آپ کو سب کچھ پتہ تو ہے‘ آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ علم کی کوئی حد نہیں اور یہ روحانی دنیا کی کائنات کے جو روحانی علوم ہیں ان کی تو ویسے ہی کوئی حد نہیں‘ میں یہ جاننا چاہوں گاکہ کائنات میں راز کیا ہے مجھ سے فرمانے لگے کہ اصل میں اللہ کے ہاں سے جو کائنات میں نظام ہونا ہے وہ سارا کا سارا اللہ تعالیٰ اپنے خاصان خاص بندوں کے ذریعے کائنات میں وہ راز پھیلاتے ہیں اور ان خاصان خاص بندوں ہی کی وجہ سے کائنات میں یہ راز پھیل جاتے ہیں۔رجال الغیب کی حقیقت: بس! پھر اللہ پاک ان کے ذریعے سے پوری دنیا میں نظام چلاتا ہے۔ یہ راز اللہ کسی کے سامنے کھولتے نہیں اور نہ رجال الغیب راز کھولتےہیں اور نہ اپنی حقیقت کھولتےہیں‘ کوئی اتفاقی حادثہ یا واقعہ ہو تو رجال الغیب کی حقیقت کھل جاتی ہے۔ ورنہ اللہ کے ان خاصان خاص بندوں میں سے ہیں جن کی ذمہ داری ہے زمین پر کس کو بادشاہ بنانا ہے اور کس کو بادشاہ نہیں بنایا۔ نظام عالم کو کیسے چلانا ہے‘ دنیا کا نظام کیسے سنورے گا کیسے چلے گا۔ رب کی مشیّت کیا ہے؟ رب کی قدرت کیا ہے ؟ رب کا فیصلہ کیا ہے؟ یہ ساری چیزیں اللہ پاک ان کے ذریعے کرائیں گے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کیا اللہ تعالیٰ ان کا محتاج ہے؟ لیکن اللہ تعالیٰ تو فرشتوں کابھی محتاج نہیں لیکن اللہ تعالیٰ جو کام فرشتوں کے ذریعے کراتا ہے اللہ پاک کو انسانوں کا نظام انسانوں کے ذریعے کراتا ہے اللہ تعالیٰ کسی کا محتاج نہیں۔ اللہ نے دنیا کو دارلاسباب بنایا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے سبب کے طور پریہ سارا نظام بنایا ہے۔کیا کوئی اپنی مرضی سے ابدال بن سکتا ہے؟: میں نے شامی بزرگ جن سے پوچھا : یہ بتائیے کہ کوئی ابدال اپنی مرضی سے بن سکتاہے۔ فرمانے لگے: نہیں یہ انتخاب ہوتا ہے جو انسان کے اپنے بس میں نہیں ہوتا اور انسان کی اپنی چاہت میں نہیں ہوتا ‘انسان چاہےتو ایسا کچھ نہیں کرسکتا‘ یہ عرشی انتخاب ہے جو پہلے دن سے ہی انسان کے لیے چن لیا جاتا ہےا ور یہ عرشی انتخاب ہر بندہ کیلئے نہیں ہوتا‘ جن کی نسلوں میں رزق حلال آتا ہے ‘ سچ آتا ہے‘ سچائی آتی ہے‘ درگزر‘معاف کرنا آتا ہے‘ اللہ پاک ان کی ساتویں نسل سےابدال ضرور چنتے ہیں اور ان کے درمیان میں ایک نسل میں کوئی گھاٹا کمی کوتاہی ہو یا ان چیزوں سے ہٹنا ہو تو ان کی نسلوں سے وہ نعمت چھن جاتی ہے اور ان کی نسلوں میں وہ نعمت ختم ہوجاتی ہے۔مجھے بڑی حیرت ہوئی: مجھے اس بات پر بڑی حیرت ہوئی کہ اتنی بڑی نعمت اتنی بڑی خدمت ایک بندے کو ملنا۔ میں نے ان سے پوچھا آپ کو یہ نعمت کیسے ملی؟ خاموش ہوگئے‘ میں نے کہا دیکھیں اب آپ کا راز کھل چکا ہے‘ اب آپ بتادیں گے تو بہت سوں کا بھلا ہوگا اور بہت سے لوگوں کو روحانی دنیا اور روحانی کیفیات مل جائیں گی‘ تعلق اللہ ، عشق مصطفیٰﷺ مل جائےگا‘ آپ کی تھوڑی سی بات پر اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو رہبری رہنمائی مل جائے گی‘ ورنہ کچھ ایسی چیزیں ہیں کہ انسان آتا ہے اور پردے میں رہتی ہیں اور انسان جاتا ہے تو وہ پردہ میں ہی رہ جاتی ہیں‘ ان سے پردہ ہٹتا نہیں۔کچھ پردوں سے پردہ ہٹانا چاہتا ہوں: میں ان پردوں سے
پردہ ہٹانا چاہتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ ان سے پردے ہٹیں اور قدرت کا نظام مخلوق خدا پر عیاں ہو اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق ان غیبی نظام کے جاننے والوں سے لفظوں سے ہی سہی کم از کم ملاقات توکرلیں۔ میری طرف بہت دیر تک دیکھتے رہے اور بہت دیر سر جھکائے مراقبے میں چلے گئے ۔میں نے اس دوران درودشریف پڑھنا شروع کردیا کہ یا اللہ ان کے دل میں ڈال دے کہ یہ میری بات مان لیں اور کائنات کے نظام کو کچھ بیان کردیں۔دنیا کی تین جگہیں جہاں ابدال رہتے ہیں: پھر تھوڑی دیر کے بعد سر اٹھایا فرمانے لگے دنیا میں تین جگہیں ایسی ہیں کہ جہاں ابدال رہتے ہیں ‘ ایک شام میں‘ ایک کوہ لبنان میں اور ایک مکہ معظمہ‘ مدینہ منورہ میں۔ یہاں ابدال رہتے ہیں اور ابدال سب سے زیادہ شام اور کوہ لبنان میں رہتے ہیں۔ پھر ان کا چونکہ بہت کثرت سےآنا جانا‘ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے ساتھ ہے اوریہی سے وہ سے ہدایات لیتے ہیں۔ اگلے لفظوں میں وہ سب سے زیادہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں رہتے ہیں اورپھر وہی سے ان کی ذمہ داریاں اور ڈیوٹیاں لگتی ہیں اور وہ ذمہ داریاں اور ڈیوٹیاں لےکر جاتے ہیں اورنظام عالم چلاتےہیں اور نظام عالم کو لے کر پوری دنیا میں پھیلاتے ہیں اور پھر پوری دنیا کے لوگوں کو استفادہ عام ہوتا ہے۔میری ڈیوٹی اور افریقہ کا جنگل: پھر اپنا ایک واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ میری ڈیوٹی لگی کہ آپ نے افریقہ کے فلاں جنگل میں جا نا ہے‘وہاںایک سردار ہے اور وہ بہت بڑے قبیلے کا سردار ہے‘ اس
کی سرداری ختم کرنی ہے اور اس جنگل میں ایک بہت چھوٹی سطح کا فرد ہے‘ سرداری اس کو دینی ہے۔ اب میرے ذمہ یہ ڈیوٹی لگی اور میں اس ذمہ داری کو لےکر جنگل کی طرف چل پڑا ‘ہمیشہ ابدالوں کے نیچے اور بھی منصب ہوتے ہیں‘ ابدال بڑا منصب ہوتا ہے تو ان کے نیچے قطب ہوتے ہیں‘ قطب مدار ہوتےہیں‘ پھر قطب عزیز ہوتےہیں‘ پھر قطب گمان ہوتےہیں اور پھر قطب عالم ہوتےہیں مختلف اور درجے ہیں‘ پھر غواث کے طبقات ہوتے ہیں۔ چالیس دن کا کام:میں اپنی جماعت کو لے کر افریقہ کے اس جنگل میں چلا گیا‘ وہاں جاکر دیکھا کہ وہ سردار بہت نیک ‘ شریف ‘ منصف اور دیانت دار ہے اور اس کی ذات سے کسی کو خطانہیں ہورہی اور اس کے انصاف سے تمام لوگ خوش اور راضی ہیں‘ اب مجھے حکم ملا ہے کہ اس کو اس کے عہدے سے ختم کرنا اور معزول کرنا ہے۔ ہمیں کبھی کسی حکم پر حیرت نہیں ہوتی کیونکہ رب کی مشیت رب کا حکم جو بھی ہوتا ہے ٹھیک ہوتا ہے اور ایک گمنام انسان کو مقام اور عہدہ دینا ہے اور یہ معاملہ صرف چالیس دن میں ہی کرنا ہے۔ اب چالیس دن کےاندر وہ شخص اپنے عہدہ سے زوال پذیر ہوچکا تھا وہاں اچانک ایک انقلاب آیا اور قبیلے کے سارے کے سارے لوگ اسے چھوڑ گئے اور وہ تنہا رہ گیا‘ آخر اسے خیال آیا کہ میں بادشاہت چھوڑ دوں۔ اس نےبادشاہت چھوڑ دی۔ قبیلے کے لوگوں نے چھوٹے سے آدمی کو(جس کو ہم نے چاہا تھا) اپنا سردار بنالیا۔ کچھ ہی دنوں کےبعد وہ سردار جس نے سرداری چھوڑی تھی‘ بڑا پریشان ہوا آخر اپنے سارے خاندان کو ساتھ لے کر وہاں سے نکل کھڑا ہوا اور سفر کرتے کرتے دور جنگل میںجاکر اپنا بسیرا کیا۔ وہاں ایک بڑی جھونپڑی بنائی اور وہاں زندگی گزارنے لگا۔ رنگین زندگی: اس کا ایک بڑا بیٹا تھا جو نیکی والی زندگی پر نہیں آرہا تھا‘ وہ سردار کا بیٹا ہونے کی حیثیت سے رنگین زندگی کی طرف مائل ہورہا تھا۔ فضول خرچی کی طرف‘ اسراف کی طرف ‘ بُرے مشاغل کی طرف‘ باپ نے اسے لاکھ سمجھایا کہ بیٹا نیکی کی وجہ سے‘ انصاف کی وجہ سے‘ کسی کی عزت پر نظر نہ رکھنے کی وجہ سے‘غریب کو عزت دینے اور مال دار کو تحفظ دینے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں عزت دی ہے‘ تم ایسے مشاغل چھوڑ دو لیکن اسے باپ کی بات کبھی سمجھ نہ آئی اور وہ بڑی شرارتیں تو نہ کرسکا لیکن چھوٹی شرارتیں اس نے شروع کردی تھیں۔ اب یہی رب کی مشیت تھی کہ اگر اس کے باپ کو ایسے عروج رہا تویہ بگڑ جائےگا اور اگلا منصب سرداری کیلئے اسی کا انتخاب ہونا ہے
اور رب کی مشیت یہی ہے کہ یہاں سرداری ایسے لوگوں کی ہو جو نیک ہوں‘ ہمدرد ہوں ‘ مخلص ہوں‘ عدل کرتے ہوں‘ لہٰذا ان کو زوال دینا ضروری ہے اور وہ زوال سے حالات آئیں گے‘ حالات سے مسائل پیدا ہوں گے اور اپنی زندگی کی رنگینیاں بھول کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں گے اور بالکل ایسا ہوا۔غربت اور تنگ دستی کے حالات: ہم نے وہاں حالات پیدا کیے حتیٰ کہ ایسے حالات پیدا کیے کہ وہ جنگل میں چلا گیا‘ وہاں بسیرا کیا‘اب ان پر غربت کے حالات آئے‘ تنگدستی کے حالات آئے‘ مشکلات کے حالات آئے‘ پریشانیوں کے حوالات آئے۔ یہ حالات ان کی طرف بڑھتے چلے گئے وہ بیٹا جو بلوغت کی زندگی سے جوانی کی زندگی میں پہنچ چکا تھا ‘ پہلے تو ان حالات سے گھبرایا اور بہت پریشان ہوا اس کے بعد آہستہ آہستہ اس نے اپنی زندگی کے نقشے سوچے‘ جذبے‘ خیال‘ گمان‘ احساس کو بدلنا شروع کیا‘ اور بدلتے بدلتے بدلتے وہ بھی باپ کے مزاج پر چلا گیا اور اس کا باپ مزید اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوگیا اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ شامی بزرگ جن کہنے لگا کہ اس باپ پر آج تک افسوس نہیں دیکھا۔ لوگوں اس سے کہتے تھے کہ آپ سے سرداری چلی گئی‘ باپ دادا کی وراثت چلی گئی‘ اقتدار چلا گیا۔ حکومت چلی گئی‘ وہ کہتا تھا اللہ کی مشیت ہے میں اس پر راضی ہوں‘ اس میں کوئی خیر ہوگی‘میری سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ واقعی خیر تھی اگر وہی حالات رہتے تو اس کا بیٹا اپنی راہیںبدل رہا تھا اور بدل بیٹھا تھا‘ اس نے پہلا قدم اٹھا لیا تھا‘ اب وہ خوشحالی کے حالات اس کی زندگی سے رخصت ہونا شروع ہوگئے اور خوشحالی کے حالات ا س کی زندگی سے ہٹنا شروع ہوئے ان کی زندگی میں تنگدستی‘ مشکلات‘ مسائل‘ پریشانیاں حتیٰ کہ ان کے پیچھے بھی کوئی نہ آیا وہ جو وفادار تھے‘ وہ جو ان کے ساتھی تھے‘ وہ جو دن رات ان کی حفاظت کرتے تھے‘ جان نثار تھے‘ غلام تھے‘ سب چھوڑ گئے۔اس کو واپس بادشاہ بنانا ہے: ساڑھے پانچ سال کا عرصہ اسی حالت میں رہا اور حال یہ ہوگیا کہ ان کو پہننے کے کپڑے تک نہ رہے‘
کھانے کو کئی کئی وقت کا فاقہ رہا‘ اب ساڑھے پانچ سال کے بعد ہمیںحکم ہوا کہ اس کو واپس بادشاہ بنانا ہے اور اس کے بیٹے کو اس کا ولی عہد بنانا ہے‘ وہ ساڑھے پانچ سال کے مجاہدے‘ ساڑھے پانچ سال کی قربانیاں ‘ ساڑھے پانچ سال کا پورا بھٹی میں جلنا اور جل کر کندن ہونا وہ کچھ ایسا ہوا قدرت کی مشیت میںکہ پھر حالات بدلے اور وہ بادشاہ جو غریب سے بادشاہ بناتھا‘ اس کی موت کا وقت قریب ہوا اس نے فوراًکہا کہ پہلے بادشاہ کو بلایا جائے اب یہ بادشاہ کا حکم تھا‘ اس کو ڈھونڈنے لگے کچھ کھوجیوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ کس جنگل میں رہتا ہے‘ فوراً سواریاں بھیجیں اور اس کو اس جنگل سے لایا گیا اور بادشاہ نے کہا کہ اصل بادشاہ تو آپ ہی ہیں میں تو بس ایسے ہی بادشاہ بن گیا۔ سالہا سال بادشاہت کی اب وقت اخیر ہے‘ میں چاہتا ہوں آپ اپنی امانت سنبھالیں۔نقشہ ایک دم بدل گیا:اب نقشہ ایک دم بدل گیا‘ وہ لوگ جو پہلے مخالف تھے اور ایک دم موافق ہوگئے اور بادشاہ کے سامنے معذرت کرنے لگے ‘ معافی مانگنے لگے‘ ہم نے آپ کی قدر نہ کی‘ یہ بھی بہت اچھے انسان تھے لیکن جو آپ تھے وہ شاید کوئی نہ ہو‘ اپنے تاج کو واپس سنبھالیں‘ اپنے تخت کو واپس سنبھالیں اپنے اقتدار کو واپس سنبھالیں اور ایک بار پھر ہمیں موقع دیں ہم آپ کی خدمت میں کوئی کمی کوتاہی اب نہ چھوڑیں گے۔ آخرکار بادشاہ نے واپس اپنا اقتدار سنبھال لیا اور یوں اس کی نسلیں بھی بچ گئیں اور اس کا نسل درنسل آنے والا اقتدار بھی بچ گیا۔خیر کے وسائل: میں شامی جن بزرگ کی یہ بات سن رہا تھا کہ مجھے احساس ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی ہر معاملے میں کوئی مشیت ہوتی ہے‘ کوئی قدرت ہوتی ہے انسان سوچ نہیں سکتا کہ ہمارے معاملات کیا ہے‘ ہم ہر چیز کو اپنے لیے دکھ‘ تکلیف اور پریشانی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ بندوں کو پریشانی نہیں ہوتی اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر کے وسائل ہوتےہیں۔ میرا جانا تو وہاں ختم قرآن کے لیے تھا لیکن یہ باتیں ایسی زبردست تھیں کہ مجھے اپنے جانے پر خوش نصیبی محسوس ہوئی کہ میں کتنا خوش نصیب ہوں اورکتنا بخت والا ہوں‘ میں ایسے لوگوں سے ملاقات کر بیٹھا اور رجال الغیب سے میری ملاقات ہوگئی ہے۔آپ حضرات کی تدفین کا کیا سلسلہ ہے: ایسا سوچ ہی رہا تھا کہ میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ حضرات کی تدفین کاکیا سلسلہ ہوتا ہے‘ مجھ سے کہنے لگے آپ نے کیوں پوچھا؟ میں نے کہا ایک بات پر پوچھا ہے کہ سنا ہے جو اللہ کے محبوب اور مقرب ہوتے ہیں دنیا میں جہاں بھی فوت ہوں ان کو جنت البقیع مدینہ المنورہ میں لایا جاتا ہے کہ یہ جنت البقیع میں دفن ہوں اور جو قابل نہ ہوں ان کی میتیں وہاں سے منتقل کردی جاتی ہیں۔ فرمایا یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ ہر ابدال اور ہر رجال الغیب اور جتنے بھی رجال الغیب ہیں وہ سارے کے سارے بقیع میں ہی دفن ہیں۔ چاہے دنیا میں اپنی خدمات اور ڈیوٹیاں دیتے ہوئے اس دنیا سے چلے جائیںلیکن وہ دفن بقیع میں ہی ہوتے ہیں‘ میں نے پوچھا اس کی وجہ کیا ہے؟ آپ اس کی کوئی وجہ مجھے بتادیجئے۔ کہنے لگے: اصل میںیہ وہ ہستیاں ہیں کہ جنہوں نے ساری زندگی اللہ کے نبی ﷺ کے قرب کو اپنی زندگی کی سعادت سمجھا ہے اور قرب کی وجہ سے مقامات کی وجہ سے منازل اورمنصب تک پہنچے اور قرب کی وجہ سے زندگی کی یہ منزلیں طے کیں اور قرب کی وجہ سے زندگی کے یہ مقامات طے کیے۔ اللہ کے حبیبﷺ نہیں چاہتے یہ مجھ سے دور ہوں: اللہ تعالیٰ کے حبیبﷺ نہیں چاہتے یہ قریب لوگ مجھ سےدور ہوجائیں لہٰذا ان لوگوں کو اپنے قریب رکھا جاتا ہے اور ان کی روحیں بھی قریب رہتی ہیں لہٰذا ان کو قریب رکھا جاتا ہے۔ دنیا کے جس کونے میں بھی یہ لوگ فوت ہوجائیں وہاں سے ان کی میتیں لاکر بقیع میں دفن کردیا جاتا ہے ان کی باتیں حیرت سے سن رہا تھا میری حیرت تھی کہ ختم ہی نہیں ہورہی تھی‘ رب کا کیا نظام ہے جس نظام سے ہم واقف ہی نہیں ہیں جبکہ رب کا نظام بالکل سچا ہے‘ ہمیں بظاہر سمجھ آئے نہ آئے‘ ہماری عقل‘ شعور احساس ‘ادراک میں وہ چیز پہنچے نہ پہنچے لیکن رب کا نظام بہت ہی زیادہ کامل ہے‘ اکمل ہے مکمل ہے اور اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے صحیح کرتا ہے‘ رب جو چاہتا ہے حقیقتاً بالکل سچ ہوتا ہے۔شاید پھر موقع ملے نہ ملے: میں اسی سوچوں میں تھا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ چلو آخر میں چلتے چلتے ان سے ایک بات اور پوچھ لوں پھر شاید موقع ملے نہ ملے کیونکہ رمضان میں بہت کم ایسا ہوا ہے کہ میں ایک جن کے ہاں کئی بار گیا ہوں‘ ان کے گھر میں‘ کوئی چند ہی ایسے ہیں جو بہت میرے قریبی ہیں ورنہ تو کوئی نہیں ایسے جن کے ہاں میں جاؤں‘ میں نے کہا شاید پھر ملاقات ہو نہ ہو‘ میں نے ان سے پوچھا آپ یہ بتائیں کہ رجال الغیب کو ڈیوٹیاں کیسے ملتی ہیں؟ فرمانے لگے: جاگتے ہوئے بھی ملتی ہیں اورسوتے ہوئے بھی ملتی ہیں‘ حالت خواب میں بھی ملتی ہیں‘ حالت بیداری میں بھی ملتی ہیں اور یہ جاگتے ہوئے سوتے ہوئے جو خدمات بندے کو ملتی ہیں وہ خدمات ہر بندے کی عقل شعور میں نہیں آسکتیں ان کو یہ خدمات ایسے قیمتی باریک ریشمی کپڑوںپر ملتی ہیں جن پر نورانی حروف سے ہدایات لکھی ہوئی ہیں اور وہ کپڑے خود بخود ان کے پاس پہنچ جاتےہیں اور صرف ایک یہ ذریعہ نہیں اس کےعلاوہ بھی اور بہت ایسے غیبی ذرائع ہیں جن کے ذریعے سےبھی یہ ہدایات ان تک پہنچتی ہیں اور وہ ہدایات ان کو ملتی ہیں اور وہ ان ہدایات پر عمل کرتے ہیں اور ان کے مطابق چلتے ہیں جب ان کا وقت قریب آنے لگتا ہے ٹھیک گیارہ دن پہلے اللہ پاک اپنے علم سے انہیں بتادیتا ہے کہ تمہارا وقت قریب ہے اورا ن کی جگہ دوسرا بندہ ان کا بدل آجاتا ہے اور وہ گیارہ دن میں سارے نظام میں اس کو ذمے لگا کر ٹھیک گیارہ دن کے بعد وہ فوت ہوجائے گا۔ جنات کے ہاں عجب سماں:یہ ایک انوکھا نظام ہے جو رجال الغیب کے ساتھ چلتا ہے۔ رمضان میں جنات کے ہاں عجیب سماں ہوتا ہے‘ عجیب منظر ہوتاہے‘ انوکھا نظام ہوتا ہے چونکہ عام عقل انسانی شعور میں یہ آئی ہی نہیں۔ درختوں کے نیچے‘ کھجوروں کے درختوں کے نیچے‘ جوہروں کے اوپر‘ دریاؤں کےا وپر‘ پانیوں کے اوپر‘ پانی کے نیچے‘ غاروں میں‘ زمین کے اوپر نیچے‘ ہر جگہ قرآن کے مصلے پڑھے جاتے ہیں اور قرآن پڑھا جاتا ہے ‘خوب زور و شور سے پڑھا جاتا ہے۔ کوئی نیک جن یہ بات میری زندگی بھر کی آزمودہ ہے۔ رمضان المبارک میں کوئی کاروبار نہیں کرتے‘ شاید کوئی مجبوری میں کرلیتاہو‘ ورنہ وہ ہر فرد رمضان میں صرف بس ایک کاروبار کرتا ہے‘ ذکر‘ تسبیح‘ عبادت‘ روزہ‘ قرآن‘ اعمال‘ دعائیں‘ اللہ کا تعلق‘ اللہ کی محبت‘ بس انہی پر اس کی زندگی رواں دواں رہتا ہے‘ ان کا روبار بھی یہی ہوتا ہے ان کا اوڑھنا بچھونا بھی یہی ہوتا ہے اور اسی پر وہ سارا دن اپنی زندگی کا نظام چلاتےہیں۔ حتیٰ کہ عید پڑھتے ہیں اور عید پڑھنے کے بعد پھر وہ عید والے دن وہ سارے کے سارے جتنے بھی قرآن سنانے والے‘ قرآن سننے والے‘ روزہ رکھنے والے مسلمان ایمان والے جن جتنے بھی ہیں عید والے دن بیٹھ کر لاکھوں کی تعداد میں بلکہ جب سارے جنات کرتے ہیں تو کروڑوں اربوں کی تعداد میں سورۂ یٰسین پڑھتے ہیں جنات کا عقیدہ ہے کہ جو شخص عید کے دن سورۂ یٰسین پڑھے گا آئندہ رمضان تک اس کا رزق ختم نہیں ہوگا‘ اس کی صحت میں زوال نہیں آئے گا اس کی عزت‘ وقار شان و شوکت ختم نہیں ہوگا۔ اس کی زندگی میں خیریں برکات راحتیں کامیابیاں ملیں گی‘وہ ہمیشہ کی خیریں برکات پائے گا وہ ہمیشہ کی خوشیاں پائے گا وہ صحت‘ تندرستی پائے گا روحانی پائے گا۔ دل کی دنیا آباد و شان پائے گا۔ نفس اور شیطان کے جال سے بچا رہے گا۔ نفس اور شیطان کے بہت بڑے حملوں سے بچا رہے گا۔ دشمن‘ حاسدین‘ جادوجنات کے حملوں سے بچا رہے گا‘ مقدمات سے خلاصی ہوگی اور ہر فتح کا دروازہ اس کیلئے کھلا رہےگا۔ اس لیے وہ سورۂ یٰسین عید کے دن بہت پڑھتے ہیں۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں