وہ شخص میرے سامنے آنسوؤں کی لڑی کے ساتھ بیٹھا تھا حتیٰ کہ مسلسل رونے سے اس کی آنکھیں سوجھ گئیں‘ اس کا دل بار بار بھر آتا پھر وہ اپنے سر کو اپنے ہاتھوں سے تھام لیتا‘ بعض اوقات اپنے سر کو اپنے گھٹنوں پر رکھ کر جی بھر کر روتا‘ میں اس انتظارمیں تھا کہ اس کا رونا ختم ہو‘ میں اس کی بات آگے بڑھاؤں اس کا درد مزید سنوں‘ پھر اس کا حل سوچوں اللہ کی بارگاہ میں عرض کروں اس کا رونا ہی ختم نہیں ہورہا تھا‘ وہ رو رہا تھا اور مسلسل رو رہا تھا حتیٰ کہ اس کی ہچکی بندھی اور بندھتی چلی گئی‘ اس کے دل کی کیفیات ایسی تھیں جو ختم نہیں ہورہی تھیں نامعلوم کتنے سالوں کا زندگی کا درد تھا وہ کوئی 56، 57 سال کی عمر کا انسان تھا پر حالات اور وقت نے اسے ستر اسی کے درمیان لاکھڑا کیا تھا‘ یہ بات اس نے بعد میں مجھے بتائی اس کی عمر اور اس کا غم شاید اس کا غم اس کی عمر سے زیادہ تھا وہ ہروقت اسی غم میں ڈوبا اور ٹوٹا رہتا تھا‘ دکھوں تکالیف اور مسائل میں اس کی بیٹیاں بھی تھیں جن کی شادیاں ان کی ضرورت اسے ایک چھوٹا سا گھر‘ چاہے ایک کمرے کا گھر ہی ہو‘ وہ در در کرائے کے گھر میں رہتے ہوئے تھک چکا تھا‘ اس کا سارا فرنیچر ٹوٹ چکا تھا‘ مسلسل تبدیلیاں کرتے کرتے اس کے گھر کی کوئی چارپائی‘ کوئی بیڈ‘ کوئی الماری ایسی نہیں جو سلامت ہو‘ کبھی کہاں رہائش‘ کبھی کہاں رہائش‘ کبھی کہاں سامان منتقل کرنا‘ کبھی کہاں سامان شفٹ کرنا‘ اس کے بچوں کو تعلیم بھی چاہیے تھی‘ اسے دولت نہیں چاہیے تھی لیکن دو وقت کا کھانا لیکن آسودہ چاہیے تھا۔ اسے بہترین اعلیٰ پوشاکیں نہیں چاہیے تھیں اسے سادہ لباس لیکن ضروری چاہیے تھا‘ وہ غموں کا مارا ہوا دکھوں کی ایک تصویر تھی‘ غم شاید اس کی قسمت میں تھے یا بعد میں ملے‘ دکھ شاید اس کے نصیب میں تھے میں یہ سوچوں میں لیکن اس کا رونا ہی مجھے فرصت نہیں دے رہا تھا۔ میں پل پل کے بعد اپنی سوچیں بدلتا اور اسے تسلیاں بھی دیتا۔ آخرکار میں اسے کندھے سے اٹھا کر اپنے سامنے بٹھایا اور اس کو میں نے کہا میری آنکھوں میں دیکھو‘ بڑی دیر کے بعد اس نے اپنی آنکھیں میرے دئیے ہوئے ٹشو سے صاف کرتے ہوئے دیکھا‘ میں نے کہا سارے غم بھول جاؤ‘ میں خدا نہیں ہوں لیکن میرے پاس خدائی بول الفاظ ہیں‘ وحی کے‘ قرآن و حدیث کے‘ وظائف کے ذریعے سے‘ لہٰذا اس وقت میں اس پوزیشن میں ہوں کہ تیرے مسائل سوفیصد حل ہوں گے اور ساتھ میں نے ان شاء اللہ کہا کیونکہ اللہ ہی کرتا ہے۔ اسے میں نے تسلی دی اعتماد دیا میں نے کہا مزید مت رو‘ کیونکہ روتے روتے میرے پاس آئے ہو اور میں چاہتا ہوں کہ مجھ سے ہنستے ہوئے جاؤ پھر میں نے اس سے پوچھا مجھے کچھ اپنے خاندان کا پچھلا پس منظر چاہیے ہوگا شاید میں اسی پس منظر کو سامنے رکھ کرآپ کی زندگی کیلئے کچھ بہتری کے نظام کو سوچ سکوں۔ اس نے مجھے جو کہانی سنائی میری حیرت کی انتہا نہ رہی‘ کہنے لگا: میرے دادا کرنال سے آئے تھے‘ تقسیم ہند کے پاس میرے والد نے بیل گاڑی کے اندر پرانی سے گٹھڑی تھی جس میں پھٹے پرانے کپڑے‘ کھیس اور چادریں تھیں اور ان کے اندر نو کلو سونا تھا۔ جو کہ میرے والد نے ایک ایسے انداز سے چھپایا ہوا تھا اور اس پھٹے پرانے کپڑے اور گٹھڑی کے اندر کچھ اناج تھا جو کہ محسوس ہورہا تھا کہ اس کے اندر سے گرتا ہے یعنی اٹھانے والا یہ سمجھے کہ شاید اس میں اناج ہے اورواقعی اس میں اناج بھی تھا جو کہ کسی سوراخ سے گر بھی جاتا تھا وہ گٹھڑی کسی طرح چھپا کر لے آئے باقی تو ساری جائیداد وہیں چھوڑ آئے میں ایک مالدار باپ کا بیٹا تھا جب میرا والد پاکستان میں آیا تو وہاں آکر بہت جائیداد الاٹ کرائی اور بہت جائیداد لی اور ہم چند ہی سالوں میں کوئی شاید دس بارہ سالوں میں واپس اسی حالت میں ہوگئے جو کرنال میں مال دولت‘ رزق‘ خادم نوکر اور نعمتیں بلکہ میرے والد نے اس دور میں ایک گاڑی خریدی جو کہ اس دور میں شاید بہت کم لوگوں کے پاس تھی اور میرے والد کے پاس وہ شہر میں سب سے پہلی گاڑی تھی‘ جو میرے والد نے لی۔ بڑی شان و شوکت سے زندگی گزاری‘ میں والدین کا ایک بیٹا اور چار میری بہنیں ہیں۔ میرے والد نے پہلےدن سے ایچی سن سکول میں میرا داخلہ کروایا۔ میں گوجرانوالہ کا رہنے والا ہوں لیکن مستقل یہاں (لاہور) رہا۔ بہترین اخراجات‘ میرے والد کا بہت اعلیٰ بزنس تھا‘ کاروبار تھا‘ ایک زندگی کی ریل پیل تھی‘ چہل پہل تھی‘ جو کہ میں محسوس کررہا تھا کہ یہ دولت میری نسلوں میں جائے گی۔ میں ہروقت سوچتا تھا کہ میری شادی ہوگی تو میں اپنے بیٹوں کو بھی اعلیٰ تعلیم کیلئے یہاں نہیں ولایت یعنی انگلینڈ میں پڑھنے کیلئے بھیجوں گا۔ کبھی میں سوچتا اپنے بیٹے کو دنیا کی قیمتی گاڑی لے کر دوں گا‘ اپنا بہت بڑا گھر ہوگا جو اتنا بڑا وسیع ہوگا جس میں میں گھوڑا بھی دوڑا سکوں گا‘ مجھے گھوڑے کی دوڑ کا بہت شوق تھا۔ کبھی سوچتا کہ اپنے گھر میں چھوٹا سا چڑیا گھر بھی بناؤں گا‘ مور رکھوں گا‘ اس میں انوکھے انوکھے پرندے‘ مچھلیوں کاایک نظام ہوگا‘ تالاب ہوگا‘ میں اپنے تخلیات کی دنیا میں بہت کچھ سوچتا تھا اوربہت کچھ اپنے آپ کو سمجھاتا بھی تھا اور بتاتا بھی گیا‘ عیش و عشرت کی زندگی یوں اٹھتی چلی گئی اور نکلتی چلی گئی میں نے پڑھ لیا‘ باپ کے کاروبار میں باپ کا ساتھی بن گیا لیکن میں ابھی چھوٹا ہی تھا میری عمر اتنی بڑی نہیں تھی‘ میں تیس سال سے کم ہی تھا‘ میں اسے چھوٹا ہی کہوں گا‘ لوگ مجھے بڑا کہیں گے کہ اچانک میرے والد ایک دن بیٹھےبٹھائے ہمیں روتا چھوڑ کر چلے گئے پتہ چلا کہ میرے والد کو دل کا اٹیک ہوا اور وہ بھی اس لیے کہ ایک میرے والد کے ملازم تھے جو بہت پرانے بااعتماد تھے انہوں نے اچانک اتنے پیسوں کاغبن کیا کہ میرے والد یہ دکھ برداشت نہ کرسکے اور اس کو بلایا اور اس کو کہا ساری زندگی کے احسانات کیوں بھولا؟ تیری بیٹی کی شادی میں تیرا ساتھ دیا‘ تیرے غموں میں تیرا ساتھ دیا ہر علاج میں تجھے پیسے دئیے‘ ہر دکھ میں‘ حتیٰ کہ میں نے تمہیں اپنے خرچے پر مری کی سیریں کرائیں‘ تمہیں سواریاں لے کردیں‘ تیرے لیے سکون سہولت حتیٰ کہ تجھے مکان لے کردیا وہ خاموش دیکھ رہا تھا‘ چہرے پر ندامت نہیں تھی‘ لیکن ایک چیز میرے والد کو مار گئی اور کھاگئی جب نے کہا یہ میرا حق ہے میں نے ساری زندگی محنت کی ہے اگر اتنا لے لیا ہے توکیا حرج ہے؟ میرے والد نے ایک پل میں یہ بات سنی ٹھنڈی سانس لی اور یوں دل پکڑ کر ایسے کرسی پر بیٹھے جھک گئے اس کے بعد میرے والد نہ اٹھ سکے‘ میرے والد کو دل کا دورہ پڑا اور میرے والد اس دنیا میں ہمیں روتا سسکتا چھوڑ کر چلے گئے۔ پھر وہی آدمی تھا جو میرے والد کی موت کا ذریعہ بنا تھا پھر وہی بندہ میرے والد کی جائیداد پر قابض ہونے کیلئے پہلا قدم اسی نے اٹھایا اور سب سےپہلا پاؤں اسی نے اٹھایا۔ وہ شخص آگے بڑھا اس نے جعلی کاغذات بنوائے اور جعلی کاغذات بنوا کر پھر میرے والد(باقی صفحہ نمبر 45 پر)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں