قیام پاکستان سے دس پندرہ برس پہلے بنگال سینی ٹوریم ہندوستان بھر میں ٹی بی کے علاج کا واحد بڑا مرکز تھا۔ اس مرکز میں ٹی بی کے علاج کے اس وقت کے ماہرین نے ایک تحقیقی رپورٹ تیار کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ جو لوگ کدو کثرت سے کھاتے ہیں ان کے خون میں ایک خصوصی مانع دق و سل تاثیر پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ رپورٹ مرتب کرنے والے ماہرین نےتحقیق کام کی ابتدا ٹی بی کے مریضوں کی تیمارداری پر مامور تین افراد کے معائنہ سے شروع کی تھی۔ عام حالات میں یہ ہوتا ہے کہ ٹی بی (دق و سل) کے مریض کی تیمارداری کرنے والوں کو اس مرض کا جرثومہ ضرور منتقل ہوتا ہے۔ بنگال سینی ٹوریم کے ماہرین نے مریضوں کی تیمارداری پر مامور تین افراد کا معائنہ کیا تو ان میں ایک شخص ایسا بھی تھا جو چار سال سے اپنے ٹی بی کے مریض والد کی تیمارداری کررہا تھا۔ اس کے تھوک اور خون کے ٹیسٹ میں جب مرض کا جرثومہ نہ موجود پایا گیا تو اس سے حالات دریافت کئے گئے۔ اس نے بتایا کہ وہ کدو کثرت سے کھاتا تھا اور کچا کدو کھانے کا بھی شوقین تھا۔ اس کے بعد کدو کھانے والے دوسرے تیمارداروں کے خون اور تھوک کے امتحان کئے گئے تو ان کا بھی یہی نتیجہ آیا۔ اس پر ماہرین نے یہ رائے قائم کی کہ ان افراد کو کدو نے دق اور سل کے جرثومہ کے حملہ سے محفوظ رکھا۔
کدو مانع سل کیوں ہے؟: طب یونانی کی رو سے کدو سرد تر تاثیر کا حامل ہے۔ غیر طبعی حرارت کو فرو کرتا۔ جوش خون کو بٹھاتا‘ خشکی کا دافع اور رطوبات لطیفہ کا مولد ہے۔ ظاہر ہے کہ جو چیز حرارت بدن کو اعتدال پر رکھے اور مفید و لطیف رطوبتیں کافی مقدار میں پیدا کرے۔ سل اور دق میں جو رطوبتوں کو فنا کرنے والی بیماریاں ہیں ضرور نفع بخش ہوگی۔ یہ مثال دی جاسکتی ہے کہ تازہ دودھ اور تازہ مکھن مسلول ومدقوق کے لیے نہایت فائدہ مند ہے اور تمام حکیموں اور ڈاکٹروں کا متفقہ قول ہے کہ ابتدائی حالات میں صرف یہی دو چیزیں مریضوں کو دیتے ہیں تو اکثر بیماری جاتی رہتی ہے۔ پس دودھ اور مکھن کے مفید ہونے کا راز یہی ہے کہ ان کے استعمال سے رطوبتیں بکثرت پیدا ہونے لگتی ہیں۔ جو دق وسل کے جراثیم کو اس قابل نہیں چھوڑتیں کہ مرض کو بڑھا سکیں۔ یہی معاملہ کدو کا بھی ہے یہ بھی مولد رطوبات ہے۔ تندرست اشخاص کھائیں تو رطوبتوں کی موجودگی کا باعث سل سے محفوظ رہتے ہیں۔ تپ دق نہیں ہونے پاتا۔ بدن کی لاغری اور کمزوری دور ہوجاتی ہے۔ کدو مانع سل ہی نہیں دافع سل بھی ہے اس کو کھانے سے دق اور سل کے جراثیم فنا ہونے لگتے ہیں۔ بخار کی حرارت دفع ہوتی ہے۔ رطوبتیں تحلیل ہونے سے بچ جاتی ہیں۔ پھیپھڑوں کو طاقت آتی اور ان سے خون کی آمد رک جات ہے۔ تیز صفراوی بخاروں میں بھی یہ ایک نہایت قیمتی اور نفع مند چیز ہے۔ کچا کدو دیرہضم ہے‘ سل‘ دق اور صفراوی بخار کے مریضوں کو بھلبھلائے ہوئے کدو کا پانی دینا مفید ہے جس کی ترکیب یہ ہے کہ عمدہ تازہ اور نرم چھلکے والا کدو لے کر اس پر خمیر گندم کی پتلی سی تہہ جمادیں۔ پھر اسے بھوبل (خاک) میں دبادیں۔ جب نرم ہوجائے نکال کر آٹا دور کریں اور صاف پانی نچوڑ کر مصری یا کوئی مناسب حال شربت ملا کر مریض کو پلائیں۔ کدو کی بھجیا اگرچہ سریع الہضم اور لطیف چیز ہے اور صفراوی بیماریوں کے مریضوں کے مناسب حال ہے لیکن یہ صرف غذا کے ساتھ ہی برتی جاسکتی ہے۔ دوائی طور پر اس کا استعمال نہ تو ممکن ہے نہ چنداں مفید۔ مریضوں کیلئے جو بھجیا بنائی جائے اس میں لال مرچ مطلق نہ ڈالیں۔ شدید ضرورت کے ماتحت چند کالی مرچیں خوب باریک کرکے ڈال لیں۔ گوشت خور مریض کدو کو گوشت کے ہمراہ پکا کر اس کا شوربہ استعمال کرسکتے ہیں۔
ڈاکٹرحضرات اکثر مریضوں کو ’’ویجی ٹیبل سوپ‘‘ پینے کی ہدایت کرتے ہیں۔ یہ ’’سوپ‘‘ کدو سے بھی تیار ہوسکتا ہے۔ ترکیب یہ ہے کہ چھلکا اترے ہوئے کدو کی چند کاشیں تھوڑے سے پانی کے ہمراہ جوش دیجئے۔ جب گل جائیں تو نچوڑ کر چھان لیں اور اسے مصری سے شیریں کرکے پلائیں اسے قوی بنانا ہو تو اس میں دودھ‘ بالائی یاتازہ مکھن بقدر مناسب ڈال لیجئے۔ کمزوری معدہ والوں کو میٹھے کے بجائے نمکین شوربہ دیا جاسکتا ہے۔ لو کے دنوں میں آب کدو پئیں تو سن سٹروک نہیں ہونے پاتا۔ نوٹ: کدو کا پانی بکثرت پینے سے گردہ اور مثانہ میں ضعف اور برودت پیدا ہوتی ہے۔ اس کی اصلاح کیلئے ہفتہ میں ایک دو بار شہد اور تین سرخ زعفران حل کرلیا جائے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں