اکثر لوگ مانیں گے کہ خوشگوار زندگی برسوں کی محنت اور لگن کا ثمر ہوتی ہے، لیکن بہت سے جوڑے ہاتھوں پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں۔ ازدواجی امور کی دو ممتاز ماہرین کو نیل کووان اور میلوین کنڈز نے اپنے مشاہدے، تجربے اور علم کی بنا پر دعویٰ کیا ہے کہ خوشگوار اور مثالی ازدواجی زندگی گزارنے والوں کے دس راز ہیں۔ انہوں نے تفصیل یوں بیان کی ہے۔
(1) یہ محض ستاروں کا کھیل نہیں
یہ خیال عام ہے کہ جو خوش قسمت ہیں ان کو اچھے جیون ساتھی مل جاتے ہیں اور جن کے مقدار خراب ہوں، ان کو برے ساتھی سے پالا پڑتا ہے۔ اسی طرح ایک اور عمومی تاثر یہ ہے کہ محبت ہو جاتی ہے اور ہم کو بے بس کر دیتی ہے۔ سچائی اس تاثر سے بالکل مختلف ہے۔ہمیں محبت کے ثمرات کو برقرار رکھنا ہو تو پھر ہم کو بھی ہاتھ پاﺅں مارنے پڑیں گے۔ اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے ساتھی کو سمجھنے، اس کی عادتیں، امنگیں اور خواہشیں جاننے پر گہری توجہ دینی پڑے گی۔ کسی تعلق کی کوالٹی کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ اچھے اور برے وقتوں میں دو افراد ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح پیش آتے ہیں۔
ازدواجی زندگی کبھی جامدو ساکن نہیں ہوتی۔ وہ یا تو پھل پھول رہی ہوتی ہے یا پھر بگڑ رہی ہوتی ہے۔
(2) شادی آسانی سے ختم نہیں ہوتی
کم و بیش تمام شادی شدہ جوڑوں کے دل میں کہیں نہ کہیں یہ خدشہ موجود ہوتا ہے کہ ان کا تعلق کسی روز جمود کا شکار ہو کر ٹوٹ جائے گا۔ مگر وہ غلطی پر ہیں۔ شادی شاذو نادر ہی ختم ہوتی ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ دوسرے جذبے اور ضرورتیں انسان پر حاوی ہو جاتے ہیں اور آپس کی محبت دب جاتی ہے۔ گھریلو معاملات میں ناگواری پیدا ہونے لگے تو میاں بیوی کو مل کر اپنے رشتے کی حفاظت کرنی چاہیے۔ جو جوڑے پائیدار ازدواجی زندگی بنا لیتے ہیںوہ زندگی میں آنے والے بحرانوں کا زیادہ جرا ¿ت کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں۔ جب کبھی آپ کی ازدواجی زندگی میں تلاطم برپا ہو تو طوفانی لہروں پر سوار ہونے کے بجائے چند لمحوں کیلئے رک جائیے اور یاد کیجئے کہ تعلق کے آغاز پر اپنے جیون ساتھی کے بارے میں آپ کے احساسات کیا تھے۔ اس طرح وقتی منفی احساسات پر بھولی ہوئی محبت کو غالب آنے کا موقع مل جائے گا۔
(3) شادی کھل جا سم سم نہیں
شادی کے فوائد کا اس قدر چرچا کیا جاتا ہے کہ لوگ اس کو بچپن یا پرانی محبتوں کے دیئے ہوئے تمام زخموں کا مرہم سمجھنے لگتے ہیں لیکن شادی ذاتی مسائل کا حل نہیں ہے۔ میاں بیوی کا تعلق چاہے جتنا بھی گہرا ہو، وہ دونوں الگ الگ فرد ہی رہتے ہیں۔شادی کا مطلب تو بس یہ ہے کہ دو افراد ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر زندگی کا سفر طے کرنے کا پیمان باندھتے ہیں۔ جب ہم یہ توقع کرنے لگیں کہ جیون ساتھی ہماری انا کی تسکین کرے اور ہماری خامیوں کی تلافی کرے تو پھر ناکامی کا منہ ہی دیکھنا پڑے گا۔ اس روئیے کی وجہ سے ہمارے ساتھی کے دل میں صرف تلخیاں ہی پیدا ہوں گی۔ چنانچہ یہ رویہ غلط ہے اور نقصان دہ بھی ۔ اس سے دور رہیے۔ اپنا بوجھ خود اٹھائیے۔
( 4)شادی کا مطلب ’قبول کرنا ہے‘
غلطی سے اکثر اوقات ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ شادی ہمیں دوسرے فرد کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کا لائسنس دے دیتی ہے۔ یوں ہم اپنے ساتھی کی ”اصلاح“ پر جت جاتے ہیں، چاہے اس عمل میں وہ خوبیاں بھی تباہ ہو جائیں جن کی وجہ سے وہ ہمیں اچھا لگتا ہے۔ یہ طریقہ کار ہی غلط ہے۔ جب آپ دوسرے کی اصلاح کرنا چاہیں اور بظاہر وہ آپ کے مطالبے پورے کرنے لگے تو بھی دل کی گہرائیوں میں وہ تبدیلی کی مزاحمت ضرور کرے گا۔ہاں اگر زندگی کو ناقابل برداشت بنانے والے مسائل پیدا ہو جائیں تو پھر دوسرے پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے بجائے مل کر بیٹھئے۔ مسائل کا حل تلاش کیجئے۔ مگر یہ کبھی نہ بھولیے کہ ہر شخص میں کوئی نہ کوئی خامی ضرور ہوتی ہے۔ ہم فرشتے نہیں ہیں۔ خوشگوار زندگی صرف ان جوڑوں کو نصیب ہوتی ہے جو جانتے ہیں کہ شادی کا مطلب ایک دوسرے کی کمزوریوں اور خامیوں کو قبول کرنا ہے۔شادی خود بخود ہم کو تبدیل کرتی چلی جاتی ہے۔
(5) شادی کرنیوالے نفسیات کے ماہر نہیں ہوتے
شادی کے خوابوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہمارا محبوب خود کو ہماری امنگوں اور تمناﺅں کے مطابق ڈھال لے۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو ہم کو مایوسی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تو احساس ہوتا ہے کہ ہمارے ساتھ فریب کیا گیا ہے۔ اصل میں یہ توقع ہی غیر حقیقت پسندانہ ہے کہ ہمارا ساتھی ہمارے ذہن و دل کی گہرائیوں میں پلنے والی آرزوﺅں کو خود بخود پڑھ لے گا اور پھر ان کی تکمیل کیلئے سرگرم ہو جائے گا۔ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے جیون ساتھی ان کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس میں خود ان کی کوششوں کو دخل ہے۔سیدھی سی بات ہے کہ جب تک ہم اپنے باطن کو نمایاں نہ کریں، دوسرے اس سے آگاہ نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ جب میاں بیوی ایک دوسرے کو اپنی ضرورتیں اور امنگیں بتاتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو سمجھنے لگتے ہیں۔اشاروں کنایوں سے ان کا اظہار کرتے رہیے۔ تب ہی آپ کا ساتھی ان کو جان سکے گا۔
(6) بہترین تعلقات تغیر پذیر رہتے ہیں:
اکثر لوگوں نے سوچے سمجھے بغیر یہ بات پلے باندھ رکھی ہے کہ ٹھوس تعلق جامد ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ ایک سا رہتا ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی، کوئی مدوجذر نہیں آتا۔ یہ سچ نہیں، سچ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جس طرح انسان میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں، اسی طرح ازدواجی زندگی بھی مسلسل بدلتی رہتی ہے۔جو میاں بیوی اس حقیقت سے نظریں چراتے ہیں اور اس خوف سے تبدیلیوں کی پرزور مزاحمت کرتے ہیں کہ تبدیلیاں ان کی ازدواجی زندگی تباہ کر دیں گی، ان کی زندگی واقعی مسائل میں الجھ جاتی ہے۔ پائیدار اور خوش کن ازدواجی زندگی صرف ان جوڑوں کو نصیب ہوتی ہے جو اپنے آپ میں لچک پیدا کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ یہی اعتماد اور یہی احترام ان کو نئے حقائق قبول کرنے کا حوصلہ عطا کرتاہے۔
(7) بے وفائی ازدواجی تعلق کیلئے زہر قاتل ہے
ایک عام رویہ بن چکا ہے کہ ”اگر میں کوئی چکر چلاﺅں اور میری بیوی ،یا میرا میاں) اس سے بے خبر رہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس کو کوئی نقصان یا تکلیف نہ پہنچے گی۔“ مگر یاد رکھیے کہ اس قسم کا رومان آپ کو اخلاقی طور پر کمزور کر دیتا ہے اس سے ازدواجی زندگی لامحالہ متاثر ہوتی ہے۔ طلاق تک نوبت نہ پہنچے تو بھی ایسا افیئرمیاں بیوی کی باہمی محبت کے بندھن کو تباہ کر دیتا ہے۔ شادی کے بندھن کے پر خلوص احترام سے دل کو اطمینان ملتا ہے۔ ہمیں اپنا راز چھپانے کیلئے داﺅ پیچ نہیں کھیلنے پڑتے۔ نہ ہی کسی ناگوار بھید کے افشا ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔ لیکن جب ہم بددیانتی سے کام لیں، اپنے ساتھی سے دغا کریں، تو ہم اس سے آگاہ ہوتے ہیں۔ ضمیر ہمیں ملامت کرتا ہے۔ گناہ کا احساس ہم پر چھایا رہتا ہے۔
(8) شادی الزام نہیں دیتی
شادی سے پہلے اپنی غلطیوں کا خمیازہ عموماً صرف ہم کو بھگتنا پڑتا ہے لیکن اگر شادی کے بعد ہمارا رویہ ٹھیک نہ ہو تو ہم میں سے اکثر لوگ اپنے ساتھی کو الزام دینا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ”میں خوش نہیں ہوں اور اس کا سبب تم ہو۔“خود کو حالات کا ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے ہم آسانی سے اپنے ساتھی کو الزام دینے لگتے ہیں۔ یہ اندازغلط ہے۔ الزام آرائی کے اس جال سے دور رہیے۔ اپنے حالات کے بارے میں جس قدر ذمہ داری آپ خود قبول کریں گے، اسی قدر آپ اور آپ کا ساتھی مطمئن اور مسرور رہے گا۔
(9) شادی بے لوث ہوتی ہے
بے ساختہ خلوص محبت کا راز ہے۔ شادی تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنی ضرورتیں روک کر اپنے ساتھی کی ضرورتیں پوری کریں۔ ہر حال میں اس اصول پر عمل کرنا ضروری نہیں، مگر عمومی رویہ یہی ہونا چاہیے۔ جب آپ کسی کو کچھ دیتے ہیں تو وہ بھی آپ کا دامن بھرنے پر آمادہ ہوتاہے تاہم اس معاملے میں ایک احتیاط ضروری ہے۔ کسی کو اس ارادے سے کچھ نہ دیجئے کہ وہ بھی بدلے میں آپ کو کچھ دے گا۔ سب سے زیادہ مسرت انگیز شادیاں وہ ہوتی ہیں جن میں میاں بیوی خودغرضی کے کسی احساس کے بغیر ایک دوسرے کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔
(10) محبت معاف کر دیتی ہے
مسرور زندگی بسر کرنے والے میاں بیوی کے درمیان بھی کبھی نہ کبھی تلخیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ جب اس قسم کی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو پھر ہم ہی دل میں کدورتیں اکٹھی کرتے رہتے ہیں لیکن محبت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ درگزر سے کام لیا جائے۔ بات دل میں نہ رکھی جائے۔ معاف کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ محض ظاہری برتاﺅ درست کر لیا جائے مگر دل میں کدورت رہنے دی جائے۔ معاف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے کی غلطی کو دل کی گہرائیوں سے فراموش کر دیا جائے۔ باہمی رشتے کی صحت مند نشوونما کیلئے یہ طرز عمل نہایت ضروری ہے۔ آخری تجزئیے میں محبت کا اہم ترین اصول یہ ہے کہ اپنے جیون ساتھی اور خود اپنے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے جس سے آپ کی اپنی قدروقیمت، وقار اور ساکھ میں اضافہ ہو۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 874
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں