سب سوچنے لگے کہ کسان کے بیٹے نے بھی محنت کی ا ور تاجر نے بھی کچھ کیا ‘ نو جوان نے بھی کچھ کر ہی لیا مگر اب بادشاہ کا بیٹا جو کہتا ہے کہ اللہ کا فیصلہ رضا اور تقدیر ہر چیز پر غالب ہے یہ کیا کر کے دکھائے گا ۔اب شہزادہ اللہ کا نام لیتا ہوا شہر میں داخل ہوا اور راستے کے کنارے جا بیٹھا
ایک بادشاہ فوت ہو گیا اُس کی وفات کے بعد اُس کا بڑا بیٹا فورا ً تخت پر قابض ہو گیا ۔ بادشاہ کا دوسرا بیٹا بڑے بھائی سے خوف زدہ تھا اُس نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ۔ بادشاہ کا بیٹا اپنے تین دوستوں کے ساتھ بیرون ملک روانہ ہو گیا ۔ ان دوستوں میں سے ایک تاجر کا بیٹا دوسرا کسان کا بیٹا تیسرا ایک بہت خوبصورت نو جوان تھا راستے میں بہتر مستقبل کے بارے میں سب دوست اپنی اپنی رائے پیش کرنے لگے ۔ سب سے پہلے کسان کا بیٹا کہنے لگا ۔ محنت سے انسان سب کچھ بنتا ہے ۔ باقی سب باتیں بیکار ہیں ۔ تاجر کے بیٹے نے ان الفاظ میں اپنی رائے کا اظہار کیا عقل اور حسن تدبیر سب سے بڑا ہتھیار ہے یہ نہ ہو تو انسان نا کام ہے ۔ اب نو جوان کی باری تھی نو جوان گویا ہوا ۔ ’’حسن و جمال سب سے بڑی نعمت ہے ‘‘ بادشاہ کا بیٹا اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنے والا نہایت تدبر تفکر والا انسان تھا ۔ سب کی باتیں غور سے سننے کے بعد کہنے لگا ۔ سب اپنی جگہ درست ہے مگر سب سے بڑی چیز اللہ کی رضا اور قدر ہے اس کی ذات کا فیصلہ ہی ہر چیز پر غالب ہے ۔ جب تک ہمارا عقیدہ تقدیر پر مکمل نہ ہو اُس وقت تک راحت سکون حاصل نہیں ہو سکتا ۔کسان کا بیٹا کہنے لگا ’’ہمارے پاس کھانے پینے کے لئے کچھ نہیں ‘‘ اب پتہ چلے گا کس کی بات ٹھیک ہے ۔ سب اپنی رائے آزماتے ہیں یہ لوگ چلتے چلتے دوسرے ملک میں داخل ہوئے یہ لوگ اسی شہر میں اجنبی تھے ۔ انہوں نے ایک صحرا میں پڑائو ڈالا پہلے دن انہوں نے کسان کے بیٹے کو کہا آج ہم دیکھیں گے محنت کے کیا فائدے ہیں ۔ جائو اپنی محنت سے آج کے کھانے کا انتظام کرو ۔ کسان کا بیٹا اٹھا اور جنگل کا رخ کیا ۔ لکڑیاں توڑیں اور شہر میں آ کر دو درہم کی بیچ دیں ۔ ایک درہم کا کھانا لیا دوسرا درہم اپنے پاس محفوظ کر لیا ۔ ساتھیوں کے پاس آ کر انہیں بھی کھلایا سب نے اس کو شاباش دی ۔ اگلے دن تاجر کے بیٹے کا نمبر تھا کہ وہ عقل اور حسن تدبیر کا مظاہرہ کرے ۔ وہ اٹھا اور ساحل سمندر پر آیا سمندر میں سامان سے لدی کشتی ساحل کی طرف آ رہی تھی ۔ تاجر کا بیٹا کشتی میں بیٹھ گیا ۔ دوسرے راستے سے چیکے سے لدی کشتی کے مالک کے پاس پہنچا اس سے سامان کا بھائو تائو کیا ادھار پر سارا سامان سو درہم میں خرید لیا ۔ جب کشتی ساحل پر پہنچی تو مقامی تاجر انتظار میں تھے ۔ تاجر کا بیٹا ان کے پاس آیا سارا سامان 1100 درہم کے عوض بیچ دیا اور 100 درہم سامان کے مالک کو دیئے اور باقی جیب میں ڈالے ۔ دوستوں کے لیےبہترین کھانا لیا ان کو خوب سیر کرائی سب نے اس کے حسن تدبیر کی تعریف کی ۔اگلے دن خوبصورت نو جوان کا نمبر تھا جس کا کہنا تھا انسان خوبصورتی کے بل بوتے انسان کامیابی حاصل کرتا ہے‘ دوستوں نے کہا آج ہم دیکھیں گے کہ آپ کا حسن ہم کو کیسے کھانا کھلائے گا وہ اٹھا میک اپ کیا اور شہر کی طرف روانہ ہوا اور ایک گھر کے باہر درخت کے نیچے بیٹھ گیا اوپر سے ایک خاتون نے کھڑکی سے جھانکا ایک خوبصورت نو جوان پریشان بیٹھا ہے اور سوچ رہا ہے اس نے بلا کر وجہ پوچھی کھانا کھلایا کہ مسافر ہے پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس نے دوستوں کا قصہ سنایا ۔ خاتون نے نو جوان کو کچھ رقم تھما دی وہ نو جوان سب کے لئے کھانا لے آیا ۔ سب نے اس کو بھی سراہا ۔اب بادشاہ کے بیٹے کی باری تھی ۔ سب سوچنے لگے کہ کسان کے بیٹے نے بھی محنت کی ا ور تاجر نے بھی کچھ کیا ‘ نو جوان نے بھی کچھ کر ہی لیا مگر اب بادشاہ کا بیٹا جو کہتا ہے کہ اللہ کا فیصلہ رضا اور تقدیر ہر چیز پر غالب ہے یہ کیا کر کے دکھائے گا ۔اب شہزادہ اللہ کا نام لیتا ہوا شہر میں داخل ہوا اور راستے کے کنارے جا بیٹھا وہاں سے اسی ملک کے بادشاہ کا جنازہ لے جایا جا رہا تھا وزرا ء فوج پولیس جنازہ کو کندھا دیئے جا رہے تھے ۔ شہزادہ کو راستے میں بیٹھا دیکھ کر پولیس آفیسر نے اس کو ڈانٹا ۔ شرم نہیں آتی بادشاہ کا جنازہ جا رہا ہے اور تم اس طرح بیٹھے ہو ۔بادشاہ کو دفنانے کے بعد جب پولیس افسر واپس آئے تو دیکھا شہزادہ اب بھی وہیں بیٹھا ہے تو فورا ً اس کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا ۔اب دوست انتظار کر رہے واپس نہ آنے کی وجہ سے قیاس آرایاں کرنے لگے وہ شہزادے کو ڈھونڈنے شہر کی طرف چل پڑے لیکن شہزادہ جیل میں بند تھا ۔ وہ تلاش نہ کر سکے تو اگلے دن پر موخر کر دیا ۔ادھر کابینہ کے وزرا ء مشیر جمع تھے کہ نئے بادشاہ کے انتخاب کے لئے غور و فکر کر رہے تھے کہ نیا بادشاہ بادشاہوں کے خاندان سے منتخب کیا جائے ۔ عام آدمی منتخب نہ کیا جائے مگر بادشاہ کا کوئی وارث نہیں تھا ۔سینئر وزیر نے اعلان کروایا کہ تم میں سے کوئی ہے جو بادشاہوں کے خاندان سے تعلق رکھتا ہو۔ وہ ہاتھ کھڑا کر دیں مگر کابینہ میں کوئی ایسا بندہ نہ تھا مگر پولیس افسر کہنے لگا کہ ایک بندہ ہے جس کو میں نے قید کیا ہے وہ شہزادہ معلوم ہوتا ہے ۔اس کو حاضر کرنے کا حکم ہوا شہزادے کو کابینہ کے سامنے لایا گیا اور پوچھا آپ کون ہو ؟ اور یہاں کس غرض سے آئے ہو ۔ شہزادہ بولا میں فلاں ملک کے بادشاہ کا بیٹا ہوں باپ مر گیا اور بڑا بھائی بادشاہ بن گیا میں اس سے خوف زدہ تھا جان کے خوف سے ملک چھوڑ دیا ۔ تمام کابینہ نے اس کی بات کو قبول کیا اور اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اسے اپنا بادشاہ منتخب کر لیا ۔ شہزادے کے منہ سے بے ساختہ نکلا یقینا ً اللہ کا فیصلہ تمام تدبیروں پر غالب ہے ۔اب وزرا ء نے بادشاہ کو ملک کی سیر کرانے کے لیےباہر نکالا ۔ بادشاہ شہر میں گشت کر رہا تھا لوگ بادشاہ کے پیچھے بادشاہ زندہ باد کے نعرے بلند کرتے ہوئے بادشاہ کے پیچھے جا رہے تھے ۔ ادھر شہزادے کے دوست شہر میں اس کی تلاش میں نکلے تھے جو انہوں نے شہزادے کو اس حالت میں دیکھا تو سمجھ گئے بے ساختہ بول اٹھے ’’واقعی اللہ کا فیصلہ تمام تدبیروں سے بڑھ کر ہے ۔ وہ بھی بادشاہ زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے بادشاہ کے ساتھ محل میں داخل ہو گئے ‘‘ بادشاہ تخت پر بیٹھا یہ لوگ اس کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ بادشاہ نے ان کے سامنے کل کا جملہ دہراتے ہوئے کہا اللہ نے یہ سب کچھ اس لئے کیا تا کہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ کا فیصلہ رضا طاقت ہر چیز پر غالب ہے۔ اللہ جو چاہے کر سکتا ہے جو جیسا گمان کرتا ہے اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ ہوتا ہے ۔ و اللہ غالب علٰی امرہ۔بادشاہ نے تاجر کے بیٹے کو مشیر مقرر کر لیا۔ کسان کے بیٹے کو وزیر زراعت کے عہدے پر مقرر کیا ا ور جو خوبصورت نو جوان تھا اسے کہا ۔ یہ عارضی حسن کسی فائدے کا نہیں اس کو کچھ مال تحفے میں دے کر رخصت کر دیا‘جس نے خدا کی ذات پر بھروسہ کیا اللہ نے اس کو ہی ہمیشہ کامیاب کیا ہے ۔ آپ نے بھی ہمیشہ بار ہا تجربہ مشاہدہ کیا ہوا کہ جو مال‘ عقل‘ حسن کمال پر اعتماد کرتا ہے وہ اس کے باوجود نا کام ہو جاتا ہے۔ عربی کا مقولہ ہے ’’تقدیر تدبیر پر ہنستی ہے‘‘ اپنا کام اخلاص اور نیک نیتی سے کرتے ہوئے اللہ پر بھروسہ کیجئے اللہ سب کا حامی ناصر ہو۔ آمین! ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں