(گھریلو جھگڑے اور ان کا حل)
ایک کامیا ب از دواجی زندگی گزارنے کے لیے مر د اور عورت کے تعلقات کی درستگی اور ان کے روابط کی استواری ضروری ہے ۔ اور ان دو نوں کی اصلا ح سے ایک کا میا ب اور مثالی خاندان کی بنیا د پڑتی ہے اور ظاہر ہے کہ خاندانی نظاموں کی درستی ہی سے ایک کامیاب و متوا زن معا شرہ اور ایک صالح تمدن وجو د میں آتا ہے ۔ اس اعتبار سے جس معاشرے کے خاندانی نظامات بگڑ جائیں وہ ابتر و پر اگندہ ہو سکتاہے ۔ اسی بنا پر اسلام نے مر د اور عورت کے تعلقات کی درستی اور اصلا ح پر بہت زیادہ زور دیا ہے ۔ تا کہ مسلم معاشرہ ہر قسم کی افرا ط و تفریط اور ہر قسم کے نقائص سے پاک رہ کر فطرت کے اصولوں کے مطابق نشو و نما پا تا رہے ۔ چنانچہ اس موضوع پر حضرت شاہ ولی اللہ دہلو ی رحمتہ اللہ علیہ نے ” حقوق زوجیت “ کے عنوان سے جو کچھ تحریر کیا ہے اس کا خلا صہ پیش کیا جا تاہے ۔
میاں بیوی کے بندھن کی بنیاد
جان لو کہ میاں بیوی کا بندھن تمام خاندانی روابط میں سب سے بڑا، سب سے زیادہ نفع بخش اور سب سے زیادہ ضرورت کی چیز ہے ۔ کیوں کہ تمام لو گوں میں خوا ہ وہ عرب کے ہوں یا عجم کے سب میں یہی دستور ہے کہ تمدنی معاملات میں انہیں ہمیشہ عورت کی رفاقت و استعانت کی ضرورت لاحق رہتی ہے ، جو مر د کے لیے کھانے پینے اور لبا س کی تیا ری میں مدد کر سکے۔ اس کے مال اور بچوں کی حفاظت کر سکے اور شوہر کی غیر حاضر ی میں ا س کی نا ئب بن کر اس کے حقوق کی نگہداشت کر سکے ۔ اسی وجہ سے مذاہب و شرا ئع کی اکثر توجہ اس معاشرتی بندھن کو جہاں تک ممکن ہو سکے باقی رکھنے اور اس کے مقاصد کی وضاحت کرنے کی طر ف مبذول رہی ہے ۔ اس بندھن کے مقاصد کو پورا کرنا طر فین کی باہمی محبت اور الفت کے بغیر ممکن نہیں اور یہ باہمی محبت اور الفت چند امور میں مقید ہے : جیسے ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی ، ایک دوسرے کے ساتھ معا فی و درگزر کا رویہ ، ایسی با توں سے اجتنا ب جو دلوں میں کدورت و عداوت پیدا کرنے کا باعث ہوں ، اور ہنسی مذاق اور خوش مز اجی وغیرہ ۔ لہذا حکمت اس کی مقتضٰی ہے کہ ان با توں میں ترغیب دی جا ئے اور ان کے فوائد کے حصول پر ( میاں بیوی کو ) ابھا را جائے( تاکہ وہ ازدواجی اعتبار سے ایک کا میا ب زندگی گزار سکیں )۔
مسرت بخش زندگی کا ایک گُر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ” عورتوں سے اچھا بر تا ﺅ کر و، کیوںکہ وہ پسلی کی ہڈی سے پیدا کی گئی ہیں ( جو ٹےڑھی ہو تی ہے) لہذا اگر تم اسے سیدھی کرنا چا ہو گے تو اسے توڑ دو گے ، اور اگر اسی طر ح چھوڑ دو گے تو ٹےڑھی ہی رہے گی ۔ “ شاہ صاحب تحریر کرتے ہیں : میں کہتا ہوں اس کے معنی یہ ہیں کہ میری نصیحت قبول کر و اور عورتوں کے بار ے میں اس پر عمل کر و۔ عورتوں کی فطرت میں کچھ ٹےڑھا پن اور کچھ خامی مو جو د ہے جو ایک لا زمی شے کی طر ح عورتوں کی فطرت میں برا بر جا ری رہتی ہے ۔ اس لیے جب کوئی شخص اپنے گھریلو مقاصد کی تکمیل کرنا چاہے تو اس کے لیے ضرور ی ہے۔ کہ بعض معمولی با توں سے تجا وز کر ے اور اپنی خوا ہش کے خلا ف پائی جا نے والی چیزوں پر اپنے غصے کو روکے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ”کوئی مو من مر د کسی مو من عورت سے عدا وت نہ رکھے ۔ اگر وہ اس کی کسی ایک عا دت کو نا پسند کر ے گا تو وہ اس کی کسی دوسری عادت سے راضی رہے گا ۔ “
شاہ صاحب تحریر کرتے ہیں، میں کہتا ہوں کہ کوئی شخص جب کسی عورت کی کسی عادت کو نا پسند کرے تو اس کے لیے یہ نامناسب ہے کہ وہ فوراً طلا ق کا ارا دہ کر بیٹھے ۔ کیوں کہ اس صور ت میں دیگر بہت سی با تیں ایسی ہو سکتی ہیں جو اس کے لیے مسر ت بخش ہو سکتی ہیں ، جن کے با عث وہ اس عورت کے ساتھ رہتے ہوئے تھوڑی سی تکلیف بر دا شت کر سکتا ہے ۔
عورتوں کے ساتھ حسن سلوک
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم لو گ عورتوں کے بار ے میں اللہ سے ڈرو ۔ کیوں کہ تم نے انہیں اللہ کی اما نت میں لیا ہے۔ اور ان کی شر م گاہوں کو اللہ کے کلمے ( نکا ح کے دو بول ) کے ذریعے حلال کر لیا ہے ۔ تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمہا رے بستروں پر ان لو گوں کو نہ بٹھا ئیں جن کو تم نا پسند کرتے ہو ۔ ( مطلب یہ کہ وہ ناپسندیدہ مر د وں سے نہ ملیں ) اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں ہلکی سی مار مارو ۔ اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کے کھا نے اور کپڑے کی خبر گیری اچھے طریقے سے کر و۔ “
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ” اور تم عورتوں کے ساتھ بہتر زندگی گزارو۔“
اس اصول کی تشریح رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خورا ک ، پو شاک اور حسن ِ معاملہ کے ذریعے کی ہے ۔ چنانچہ وہ شریعتیں جن کا دارومدار وحی الٰہی پر ہے ، ان میں خورا ک اور اس کی مقدار کا تعین کرنا ممکن نہیں ہے ۔ کیوں کہ مختلف ممالک کے باشندے کسی ایک چیز اور ایک مقدار پر متفق نہیں ہو سکتے ۔ اسی وجہ سے اس حکم کو مطلق رکھا گیا ہے۔ (حجتہ اللہ البالغہ : 136-135/2 ، مطبوعہ مصر )
زندگی جنت بھی جہنم بھی
یہ بیا ن مختصر ہونے کے با وجود نہا یت درجہ حکیمانہ ہے ، جس میں روح ِ شریعت کے ساتھ ساتھ ایک کا میاب زندگی گزارنے کا فلسفہ بھی دل نشین انداز میں سمجھا یا گیا ہے ۔ لہذا جو شخص ایک مسرت بخش زندگی گزارنے کا طالب ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مصنو عی او ر بنا وٹی طور طریقوں سے کلی طور پر اجتنا ب کرتے ہوئے زندگی کی اصل حقیقت سمجھنے اور پھر اس کے تقاضوں کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنے کی کو شش کرے ۔ محض وقتی و عارضی فوا ئد اور دو روزہ عیش یا مو ج و مستی کے لیے اپنی ابدی مسرتوں اور حیا ت جاودانی کو قربان نہ کرے ورنہ وہ دینی و دنیا وی دونوں جہانوں کی سعا دتوں سے محروم رہے گا ۔ کیوں کہ ایک مصنوعی زندگی گزارنے کے چکر میں پڑ کر لو گ نہ صر ف اپنی زندگی کو دنیا ہی میں جہنم کا نمونہ بنا لیتے اور حقیقی خو شیوں سے محروم رہ جا تے ہیں بلکہ وہ اپنی آخرت بھی خرا ب کر لیتے ہیں ۔ یعنی نہ ادھر کے رہے اور نہ ادھر کے ۔
میاں بیوی کے حقو ق و فرائض
دنیا میں ایسی بہت سی قومیں پا ئی گئی ہیں ۔ جن میں عورت کا درجہ نہایت حقیر مانا گیا ہے ۔او ر اسے مر د کی ایک کنیز یا دا سی قرار دیتے ہوئے اس کے حقوق کو پوری طر ح نظرانداز کیا گیا ہے ۔ اس کے بر عکس چو دہ سو سال پہلے اسلام نے عورت کو جو حقوق دیے تھے اور مرد و عورت کے درمیان صحیح حدود قائم کر تے ہوئے ان دونوں پر جو فرائض عائد کیے تھے وہ حد درجہ معتدل اور منصفانہ ہیں ۔ چنانچہ ایک مثالی معاشرے کی تعمیر کے لیے عورت اور مرد دونوں کو اپنے اپنے فرائض وواجبات خوشدلی اور ایمانداری کے ساتھ ادا کرنے ضروری ہیں،و رنہ معا شرہ پنپ نہیں سکتا ۔
معاشرے کے استحکا م کی بنیاد
بہر حال ایک معا شرہ یا سماج کا استحکام خاندانی نظاموں کی مضبوطی کی بدولت ہوتاہے ۔ اور خاندانی نظاموں کی مضبوطی میاں بیوی کے تعلقات پر مبنی ہو تی ہے۔ اگر ان دونوں کے تعلقات درست ہوں تو پھر خاندان بھی مضبوط و مستحکم رہتا ہے ۔ ورنہ تا ش کے پتوں کیطر ح بکھر جاتاہے ۔ لہذا میاں بیوی کے تعلقات کی استواری ہر حا ل میں ضروری ہے ۔ یعنی دونوں محبت و الفت کی بنیاد پر ایک دوسرے کے حقوق و فرائض پو ری ایمان داری اور خوش دلی کے ساتھ ادا کر تے رہیں ۔ دونوں ایک دوسرے کے خیرخواہ ہوں اور صحیح معنی میں ایک دوسرے کے جیون ساتھی بن کرزندگی کی کشتی کو کھینچنے کی سعی کریں ۔
مردوں کی ایک درجہ میں برتری
اسلام کی نظر میں مر د اور عورت دونوں انسان ہونے کی حیثیت سے برابر برا بر ہیں۔ لیکن جہاں تک ان کے فرائض و واجبات کا تعلق ہے ۔ ان دونوں کا دائرہ کا ر الگ الگ ہے۔ چنانچہ گھریلو انتظام کے نقطئہ نظر سے اسلام نے مر د کو گھر کا نا ظم یعنی رکھو الا تسلیم کیا ہے ۔ اور اس اعتبار سے وہ عورت کا نگران و محافظ ہے ۔ کیوں کہ وہ اپنا مال خر چ کر کے اسے بیا ہ کر لاتا ہے اور اس کا مہر اور نفقہ ادا کرتا ہے ۔ نیز وہ اس را ہ میں ہر قسم کے مصائب بردا شت کر تا ہے ۔ اسی وجہ سے اسلام عورتوں کو برابر کے حقوق دینے کے با وجود مردوں کی بر تری ایک درجہ تسلیم کرتا ہے: ” عور توں کے بھی معروف طریقے سے ایسے ہی حقوق ہیں جیسے ان پر عائد ہو تے ہیں ۔ لیکن مر دوں کو ان پر ایک درجہ فضیلت ہے ۔ “ سورہ بقرہ : 228 )
مر د اور عورت یکساں ذمے دار
بہر حال مر د اور عورت دونوں اپنے اپنے فرائض و وا جبات ادا کرنے کے ذمہ دا ر ہیں ۔ بلکہ دنیا میں کوئی شخص اپنی ذمہ داریوں سے آزاد نہیں ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم ہے: ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص ( قیامت کے دن ) اس کی ذمہ داری کے بارے میں جواب دہ ہو گا ۔ چنا نچہ امام ( مسلمانوں کا امیر ) بھی ذمہ دار ہے جو اپنی ذمہ داری کے بارے میں جوا ب دہ ہو گا۔ اسی طر ح ہر شخص اپنے اہل و عیال کے با رے میں جوا ب دہ ہو گا ۔ چونکہ ہر شخص اپنے اہل و عیا ل کے بارے میں ذمہ دار ہے۔ لہذا اپنی ذمہ داری کے بارے میں جوا ب دہ ہو گا اور عورت بھی اپنے شوہر کے گھر کی ذمہ دار ہے ، جو اپنی ذمہ داری کے بارے میں جوا ب دہ ہو گی ۔“ (بخاری 215/1 ) اس اعتبار سے عورت اسلام کی نظر میں گھر کی خادمہ نہیں بلکہ وہ گھر کی ملکہ ہے۔ مگر شر ط یہ ہے کہ مر د اور عورت دونوں ایک دوسرے کے مقام و مرتبے کو پچانیں اور ایک دوسرے کے حقوق کو محبت و خلو ص کے ساتھ ادا کرتے ہوئے اعتدال کا دامن ہا تھ سے نہ چھوڑیں ۔
مر د کے فرائض
اسلام کی نظر میں کامل ایما ن والا شخص وہ نہیں ہے جو محض نما ز پڑھ لیتا یا روزے رکھ لیتا ہو ۔ بلکہ کامل ایمان والا شخص وہ ہے جو کر دار کے لحا ظ سے اچھا اور بہتر ہو ۔ اور کر دار یا حسنِ اخلا ق کی کسوٹی یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھا بر تا ﺅ کرتا ہو۔ جیسا کہ اس اصول کی وضا حت حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس طرح کی گئی ہے: ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ، ایمان کے اعتبار سے کامل ترین شخص وہ ہے جس کے اخلا ق سب سے اچھے ہوں ۔اور تم میں سے بہتر لو گ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک کر تے ہوں ۔ “ (ترمذی 466/3 )
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص اخلا ق و کر دار میں نا قص و نا کارہ ہے اور جو اپنی منکو حہ کے ساتھ اچھابرتاﺅ نہیں کرتا وہ ایمان میں بھی تہی مایہ ہے ۔ عورتوں کے ساتھ حسن ِ سلوک کا سب سے پہلا تقاضہ یہ ہے کہ ان کا نا ن نفقہ ( خر چہ ) پابندی کے ساتھ ادا کیا جائے او ر انہیں بلا وجہ کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے ، بلکہ جہاں تک ہو سکے عورتوں کی خاطر ومدارت کی جائے اور ان کے جذبات کا بھی خیا ل رکھا جائے ۔ کیوں کہ و ہ اپنے شو ہر وں کے گھروں کو بسانے کی خاطر اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر چلی آ تی ہیں اور اپنا سب کچھ نچھاور کر دیتی ہیں ۔
بہر حال ایک مسلمان جب اپنی بیوی کے نفقے کو بوجھ نہ سمجھتے ہوئے اسے خوش دلی کے ساتھ اور ثوا ب کی نیت سے ادا کرتا ہے تو یہ اس کے اجر و ثوا ب کا بھی با عث بن جا تا ہے ۔ بلکہ وہ اپنی بیوی کے منہ میں جو لقمہ ڈالے گا اس کے اجر و ثواب کا بھی وہ مستحق قرا ر پا ئے گا ۔ جیسا کہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو تم بھی نفقہ اللہ کی رضا مندی کی خاطر خر چ کر و گے اس پر تمہیں اجر و ثواب ضرور دیا جائے گا ، یہاںتک کہ اس لقمے پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو ۔ “ ( بخاری کتا ب الا یمان 20/1)
عورت کے فرائض
اسلام نے نظام ِ فطرت کے مطابق کسبِ معا ش کا فریضہ مر د پر عائد کر تے ہوئے عورت کو گھر کی ملکہ قرار دیا ہے۔ اور اس تقسیم کا ر کی بنا پر عورت پر دو قسم کی بنیا دی ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں ۔ کہ وہ مر دوں کی اطا عت کرنے والی ہوں جیسا کہ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے : ” مرد عورتوں پر نگران ہیں کیوں کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ مردوں نے( عورتوں پر نکا ح، مہر اور نفقہ وغیرہ کی صور ت میں ) اپنا مال خر چ کیا ہے ۔ تو ( اس بنا پر ) نیک عورتیں وہ ہیں جو (مر دوں کی) تابعدار اور ان کی پیٹھ پیچھے ( ان کے مال و متا ع ) کی حفاظت کرنے والی ہوں ۔ “ ( نساء34 ) چنانچہ اس آیت کریمہ کی شر ح و تفسیر حسب ذیل حدیث سے ہوتی ہے : ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ ، بہترین عورت وہ ہے کہ جب تو اس کی طر ف دیکھے تو وہ تجھے مسرور کر دے ،جب تو کوئی حکم دے تو وہ بجا لا ئے اور تیری غیر حاضری میں اپنے نفس اور تیرے مال کی حفاظت کرے “ ( مجمع الزوائد 273/4 ) اس اعتبار سے اسلامی شریعت نے عورت پر جو فرائض اور ذمہ داریاں عا ئد کی ہیں وہ حسب ذل ہیں :
(1) عورت جہاں تک ہو سکے اپنے شوہر کو خوش و خرم رکھنے کی کو شش کرے ۔
(2) گھریلو معاملا ت میں شوہر کی اطا عت کرے۔
(3) شوہر کی غیر حاضر ی میں اس کے مال اور اپنے نامو س کی حفا ظت کر ے اور اس میں کسی قسم کی خیا نت نہ کرے ۔
اس کے علا وہ متعدد احادیث میں جو مزید احکا م مذکو ر ہیں وہ سب انہیں اصولوں کی شر ح و تفصیل ہیں ، جن کے ملا حظہ سے اسلام کے معاشرتی نظام کا ایک پورا خاکہ سامنے آجا تاہے ۔ اس مو ضو ع پر تفصیل کے لیے را قم سطور کی کتا ب ” اسلام کا قانونِ نکا ح “ دیکھنی چاہیے ۔
دوزخی عورت کو ن ہے؟ چونکہ عورتوں میں نا شکر ی کا ما دہ زیا دہ ہو تا ہے اس لیے بعض احادیث میں عورتوں کی اکثریت کو دوزخی قرار دیا گیا ہے ۔ چنا نچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مر تبہ بعض عورتوں سے خطاب کر تے ہوئے فرمایا : ”اے عورتو! صدقہ کر و ۔ کیوں میں نے دیکھا ہے کہ تمہاری اکثریت دوزخی ہو گی ۔ اس پر ان عورتوںنے پو چھاکہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ایسا کیوں ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے شوہروں پر بہت لعن طعن اور ان کی نا شکری کر تی ہو۔ “ ( بخاری و مسلم ) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ ” اگر تم کسی عورت کے ساتھ عمر بھر احسان کر تے رہو مگر وہ تمہاری کوئی کوتا ہی دیکھ لے تو فوراً کہہ اٹھتی ہے کہ میں نے تم سے کبھی کوئی بھلائی سرزد ہوتے ہوئے نہیں دیکھی ۔ “ (بخاری151/6)
جنتی عورت کی پہچان
ایک حدیث کے مطابق جنتی عورت وہ ہے جس میں حسب ِ ذیل خوبیاںپائی جا تی ہوں : ” جب کوئی عورت پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہے، ایک ماہ کے روزے رکھتی ہے، اپنی نامو س کی حفا ظت کر تی ہے اور اپنے شوہر کی اطا عت کر تی ہے تو قیا مت کے دن اس سے کہا جائے گا کہ تو جنت کے جس دروازے سے چاہے اس میں داخل ہو جا ۔ “ ( کنزالعمال 406/6 ) حاصل بحث یہ ہے کہ ہر مسلمان مر د اور عورت کو کوشش یہی کر نی چاہیے کہ وہ خدا کی عدول حکمی کر کے اپنی عا قبت خرا ب نہ کرے۔ بلکہ ایک دوسرے کے حقوق پورے خلو ص اور مروت کے ساتھ ادا کرکے اپنی دنیا و آخرت دونوں کو سنوارنے کی جدو جہد کرے ۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 152
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں