یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ گزشتہ 20برس سے ہماری نوجوان پود کی عام صحت کا معیار روز بروز نہایت سرعت کے ساتھ گرتا جارہا ہے اور آج کل جوانیاں بھی گویا سردیوں کی دوپہر بن کر رہ گئی ہیں۔ جس کے نا آنے کا پتہ چلتا ہے نا جانے کا۔ پیلا چہرہ، لاغر بدن، ڈھیلی کمر اور نڈھال آنکھیں آج ہمارے نوجوانوں کی گویا وردی بن چکی ہیں۔ تھکن، کاہلی اور کام چوری ان کی زندگی کا شعار ہو گیا ہے۔ میں اس مختصر سے مضمون کے اندر محض طبی نقطہ نگاہ سے چند گز ارشات اپنے پچاس سالہ معالجاتی تجربہ کی روشنی میں پیش کروں گا۔
میرے نزدیک نوجوانوں کے معیار صحت کی موجودہ پستی کے بڑے اسباب درج ذیل ہیں:۔
ذہنی مزاج
سب سے پہلا اور اہم سبب یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل زیادہ تر کسی بھی موثر ذہنی قوت کی گرفت سے آزاد زندگی بسر کر رہی ہے۔ حالانکہ نوخیز ذہنوں کیلئے خاص طور پرایسی کوئی گرفت نہایت ضروری قرار پاتی ہے تاکہ وہ ان کے ناپختہ خیالات و افکار کو آوارہ بننے کے خطرے سے محفوظ رکھ سکے۔ گزشتہ پندرہ بیس سال سے ہمارے معاشرتی نظام پر ایک طرح سے اختلاج اور نراج کا دور مسلط ہو رہا ہے۔ ہماری نئی نسل نے اس نراج کے زمانے میں اپنی شعور کی آنکھ کھولی ہے اور وہ اپنے ذہنوں کو اس مزاجی کیفیت سے محفوظ نہیں رکھ سکی لہٰذا ان کے نوخیز دماغ شاید ہی اس بات کو بطور امر واقعہ تسلیم کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں کہ آدمی کی زندگی کا مقصد کھانے، پینے، سونے اور دولت جمع کرنے کے سوا کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔ وہ ایک بے قید اور بے لگام دوڑ ہی کو زندگی کی حقیقی دوڑ سمجھنے لگ جاتے ہیں اور ان کے اس احساس نے ان کی زندگی کو ایسی کشتی کی مانند بنا دیا ہے جو پتوار اور لنگر دونوں سے محروم اور انجانے پانیوں میں بے مقصد غوطے کھاتی جارہی ہو۔ ذہنی زندگی کا یہ مزاج بہر حال عام صحت پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ فکری انتشار ایک ذہنی بیماری ہے اور ذہن اگر بیمار رہے تو جسم بھی تندرست نہیں رہ سکتا چنانچہ اس انتشار فکر نے ہمارے نوجوانوں کی عام صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے اور ان کے قویٰ میں وہ توانائی اور قوت نہیں پائی جاتی جو ایک صحت مند روح اور صحت مند ذہن کے مقدر میں آتی ہے۔
اخلاقی انحطاط
ہمارے نوجوانوں کی صحت کی عام کمزوری کا دوسرا بڑا سبب ہمارے معاشرے کا موجودہ اخلاقی انحطاط ہے جو گزشتہ چند سالوں سے خصوصاً روز افزوں ہے۔ ان دنوں ہماری سوسائٹی پر ہر چہار طرف سے فواحش کی یلغار ہو رہی ہے اور وہ تمام ذرائع و وسائل جو نوجوانوں کے ذہنی سانچوں کی صورت گری کیلئے قدرتاً زبردست رول ادا کیا کرتے ہیں، ان اقدار کے تسلط میں آچکے ہیں جن کا علاقہ اعلیٰ اخلاق کے بجائے ارزاں اخلاقی اور سفلی جذبات سے جا ملتا ہے۔ ہماری سوسائٹی کے نام نہاد جدید سربراہ آرٹ، ثقافت، لٹریچر، ریڈیو، ٹی وی اور فلم کی آڑ میں ہماری نوجوان نسل کو جو ذہنی غذا بہم پہنچا رہے ہیں وہ ان کے فکر و نظر میں زہر تو گھول سکتی ہے لیکن ان چیزوں کیلئے قوت اور توانائی کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ اس زہریلی غذا نے ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں کو گوناں گو عوارض کا شکار بنا دیا ہے اور ان کے بیمار ذہن ناگزیر طور پر ان کے بیشتر جسمانی امراض کا سبب بن جاتے ہیں جن میں سرفہرست اعصابی کمزوری ہے اور یہ وہ نامراد مرض ہے جو ایک جیتے جاگتے اور بظاہر تنومند انسان کو حقیقت میں زندہ درگور کر دیتی ہے۔ طبیعت کی مستقل درماندگی، پریشان خیالی، بے یقینی بلاوجہ کا خوف اور توحش و موہوم خطرات زندگی کے حقائق کا سامنا کرنے پر گھبراہٹ، زودرنجی، نازک مزاجی، شدت احساس اور اسی قسم کی دیگر نفسیاتی اضمحلال کی علامات اس مرض میں نمودار ہو جاتی ہیں اور ان کے ساتھ ہی جسم کی قوت مدافعت جسے اہل طب قوت مدبرہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں ‘بھی بری طرح متاثر ہو کر کمزور پڑ جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آدمی ہمہ وقت دنیا بھر کے امراض کیلئے آسان ہدف بنا رہتا ہے۔ غذا یا ماحول یا موسم کی ذرا سی تبدیلی پر نزلہ، زکام، دردسر اور دیگر انواع کے دردوں کی شکایات کا ہو جانا نیز بیشتر ریحی امراض زیادہ تر اس مرض یعنی ”اعصابی کمزوری“ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ میں اپنے تجربہ کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ تبخیر معدہ کے اکثر مریضوں کو ضعف معدہ کا ہو جانا ایک لازمی امر ہے اور معدہ ”جس کے درست رہنے پر تمام اعضائے رئیسہ کی قوت کا دارومدار ہے“ جب کمزور ہو جائے تو اس کی کمزوری سے بدن کی تمام قوتوں پر برا اثر پڑتا ہے۔
تن آسانی کا رجحان
نوجوانوں کے معیار صحت کی موجودہ کمزوری کا تیسرا بڑا سبب معاشرے میں تن آسانی اور محنت و مشقت سے گریز کرنے کا روز افزوں رجحان ہے اگرچہ یہ رجحان بذات خود عہد جدید کی متعدد سائنسی ایجادات اور ترقیات کا ناگزیر نتیجہ ہے لیکن یہ تمام ترقیات اور ایجادات مل کر بھی اس حقیقت میں کوئی تغیر پیدا نہیں کر سکتیں کہ جب بھی فطرت کے اصولوں سے روگردانی کی جائے تو اس عمل کا ردعمل لازمی طور پر کسی نہ کسی فطری سزا کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ فطرت نے انسانی جسم کی مشین کچھ ایسے اصولوں کے ساتھ بنائی ہے کہ اس کی بقا اور اس کے استحکام کا راز اس کے ہر حصہ اور ہر جزو کی حرکت اور اس کے چالو رہنے میں مضمر ہے۔ حرکت گویا جسم انسانی کا طبعی وظیفہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی انسانی بدن کے حصے یا عضو میں ضعف یا کمزوری کے آثار نمودار ہونے لگیں تو اطباءمریض کو اپنا یہ عضو زیادہ سے زیادہ حرکت میںر کھنے کی ہدایت دیتے۔ عہد جدید کے لوگوں، خصوصاً نوجوانوں میں تن آسانی، آرام پسندی، محنت سے گریز کا موجودہ رجحان گویا فطرت کے اصولوں سے نزاع اور جنگ کے مترادف ہے اور اس کے نتیجہ سے کسی کو چھٹکارا نہیں مل سکتا۔ آپ اگر اپنے جسم سے کام لینا چھوڑ دیں گے تو یہ بھی آپ کو کام دینا چھوڑ دے گا اور آپ کے لیے زندگی کا سامان بننے کے بجائے مختلف دکھوں اور بیماریوں کا مجموعہ بن کر رہ جائے گا۔اپنا کام اپنے ہاتھ سے نہ کرنا، ہر بات میں ملازم یا خوردگان کی امداد کی توقع رکھنا یا اپنا سامان یا بوجھ اٹھانے میں عار محسوس کرنا، صبح کو دیر تک لمبی تان کر سوتے رہنا اور روزمرہ کے کام سرانجام دینے کیلئے زیادہ سے زیادہ آرام دہ تدابیر اختیار کرنا حقیقت میں اپنے جسم اور اپنی صحت کو میٹھا اور آہستہ رو زہر پلانے کے مترادف ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں