Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

بچوں کو تندرست اور تنومند بنانے کیلئے ضرو رپڑھیں!

ماہنامہ عبقری - فروری 2018ء

عورت کو چاہیے کہ زچگی کے لئے ہسپتال میں داخل ہوتے وقت بتا دے کہ وہ شروع ہی سے بچے کو اپنا دودھ پلائے گی۔ یہ بات نرسوں پر واضح کردی جائے۔ مباداوہ پہلے ہی دن بچے کو چینی آمیز پانی پلا دیں۔ انسانی کولوسٹرم یعنی زچگی کے بعد جو دودھ ماں کی چھاتی سے نکلتا ہے

غذائی صنعت جانتی ہے کہ والدین خصوصاً مائیں، اپنے چھوٹے بچوں کی غذا کے بارے میں فکر مند رہتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ دکانوں پر مختلف بچوں کی غذائیں کثرت سے دیکھنے میں آرہی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ غذائیں کس قدر مفید ہیں اور ان کی بچے کو خصوصی خوراک دینا کہاں تک ضروری ہے۔ یہ جو بازار میں طرح طرح کے خوش رنگ اور خوش ذائقہ بسکٹ کیک، ٹافیاں اور ویفر وغیرہ ملتے ہیں جنہیں بچے بڑے شوق سے کھاتے ہیں، نقصانات سے خالی نہیں۔ 1984ء میں امریکہ اور یورپ کے بعض اخبارات میں اکھڑ، تند خو اور منہ زور بچوں کی حیران کن کہانیاں شائع ہوئیں۔ انہیں جب سالم خوراک دی گئی خصوصاً کارخانوں میں تیار شدہ غذائوں کی شیرینی اور مصنوعی رنگوں اور دیگر اضافی اجزا سے پرہیز کرایا گیا تو حیرت انگیز طور پر وہ نارمل ، نیک اطوار اور پیارے شریف بچے بن گئے۔ یہ ان باشعور مائوں کا کارہنما تھا جنہوں نے جدید غذائی تحقیقات کی روشنی میں اپنے بچوںکی خوراک یکسر تبدیل کردی اور خاطر خواہ نتائج حاصل کیے۔
امریکہ میں جو غذائی تحقیق ہوئی اس نے انکشاف کیا کہ بعض بچے اور بڑے بھی ڈبوں کی غذا میں شامل رنگوں اور اضافی اجزا سے حساسیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ حساسیت یا الرجی دردِ شقیقہ ، جلدی دھبوں ، تند خوئی یا بے خوابی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ مصنوعی رنگ ٹارٹرازین یا ای 102تیار شدہ غذائوں کا معروف جزو ہے جو انسانوں پر ضمنی اثرات مرتب کرتا ہے۔وسیع پیمانے پر تیار شدہ غذائیں بیشتر کیمیائی عمل سے گزری ہوئی چکنائی اور نشاستے ، چینی اور اضافی رنگ و بو پر مشتمل ہیں۔عموماً ان کی غذائی قدروقیمت بہت کم ہوتی ہے، اس لئے صحت مند رہنے کے لئے ان سے پرہیز کرنا چاہیے۔آپ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ پھر بچوں کو تندرست اور تنومند بنانے کے لئے انہیں کیا کھلایا جائے اس کا جواب ہم سے لیجئے:یہ مسلمہ امر ہے کہ ماں کا دودھ ہر قسم کی مصنوعی غذائوں کے مقابلے میں اعلیٰ درجے کا تغذیہ بخش ہے۔ اس میں جراثیم کش اجزا ہوتے ہیں جو بچے کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہ اپنے اندر ٹھیک ٹھیک مقدار میں پروٹین یعنی لحمیات رکھتا ہے اور اگر ماں خود صحت بخش غذا کھائے تو اس کے دودھ میں چکنائی کا تناسب معیاری ہوتا ہے۔ گوشت خور مائوں کی نسبت سبزی خور مائوں کے دودھ میں زیادہ زود ہضم چکنائیاں پائی جاتی ہیں۔ شیر خوار کو ماں اگر اپنا دودھ پلائے تو کم از کم تین ماہ تک بچے کو اور کسی خوراک کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ چھوٹے بچے کو بڑے کے مقابلے میں کم اضافی خوراک کی ضرورت پڑتی ہے لیکن یہ ماں سے ملنے والے دودھ کی مقدار پر منحصر ہے۔ عورت کو چاہیے کہ زچگی کے لئے ہسپتال میں داخل ہوتے وقت بتا دے کہ وہ شروع ہی سے بچے کو اپنا دودھ پلائے گی۔ یہ بات نرسوں پر واضح کردی جائے۔ مباداوہ پہلے ہی دن بچے کو چینی آمیز پانی پلا دیں۔ انسانی کولوسٹرم یعنی زچگی کے بعد جو دودھ ماں کی چھاتی سے نکلتا ہے، کہیں زیادہ صحت بخش ہے۔ پیدائش کے بعد سے ماں کا دودھ پینے والے بچوں کی غذائی تسکین ان بچوں کے مقابلے میں کہیں بہتر ہوتی ہے جن کی خوراک میں آمیزش کی گئی ہو۔
گلوکوز وغیرہ سے بچیے:پیدائش کے کم و بیش تین ماہ بعد بچے کے لئے اضافی خوراک ضروری ہوتی ہے۔ اس کے لئے وہ غذائیں منتخب کی جائیں جن میں سیر شدہ چکنائیاں کم ہوں۔دیسی اور بناسپتی گھی اور اصلی اور مصنوعی مکھن میں سیر شدہ چکنائیاں ہیں، بچوں کی تغذیہ بخش غذا بڑوں کی تغذیہ بخش غذا سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتی۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ اس طرح تیار کی جائے کہ بچے اسے کھاسکیں اور ہضم کرسکیں۔بچوں کے لئے غذا تیار کرنے والے ادارے عموماً شکر کا استعمال ضروری سمجھتے ہیں ۔ بچوں کی خصوصی غذائوں میں شامل شکریلے اجزا پر ذرا نگاہ ڈالیے۔ ان میں ڈیکسٹروز، گلوکوز، فریکٹوز اور اسی قسم کی اور شکریں شامل ہیں۔ بچوں کی صحت کا خیال رکھنے والے والدین کی توجہ مبذول کرنے کے لئے غذا ساز ادارے ہلکی چینی اور کم چینی جیسے لیبل استعمال کرنے لگے ہیں۔ اس دھوکے سے بچیے۔ ان غذائوں میں سے اکثر کے اندر پہلے جتنی شکر ہوتی ہے۔ فرق صرف یہ پڑتا ہے کہ ان کی شکر عام چینی کے بجائے گلوکوز یا ڈیکٹروز ہوتی ہے۔ بچوں کی خصوصی غذائیں مہنگی بھی ہیں اگرچہ ان کے استعمال سے وقت بچ جاتا ہے۔ ان میں سے بعض اچھی غذائی صلاحیت بھی رکھتی ہیں لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ان کے اجزا کی فہرست پر بغور نگاہ ڈال لی جائے۔
ایک صحت مند بچہ جس کا ہاضمہ درست ہو اور جسے کھل کر بھوک لگتی ہو۔ وہ تمام ضروری لحمیات یا پروٹین متوازن غذا سے حاصل کرلیتا ہے۔ متوازن غذا سے مُراد ایسی ملی جلی غذا ہے جس میں نشاستہ، لحمیات ، چکنائی، حیاتین، نمکیات اور پانی سب مناسب حد تک شامل ہوں۔ دودھ کے علاوہ سالم گندم کا دلیہ، کھچڑی، کیلا، پھلوںکا رس، یختی یا ابلا ہوا قیمہ بچے کوضرورت کے مطابق دے سکتے ہیں۔نباتاتی لحمیات یعنی دالیں وغیرہ بھی اتنے ہی اچھے ہیں جتنے کہ حیوانی لحمیات جن میں گوشت، انڈے اور دودھ شامل ہیں بشرطیکہ انہیں متوازن طریقے سے استعمال کیا جائے۔ دالیں خصوصاً مونگ کی دال اور چاول کھچڑی کی شکل میں کھلائے جاسکتے ہیں، تاہم دالیں وغیرہ اگر باقاعدگی سے نہ دی جاسکیں تو بچے کی غذا میں قیمہ یا گوشت بھی شامل ہونا چاہیے۔
بچے دودھ کیسا پئیں:بہت سے بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جو دودھ نہیں پی سکتے کیونکہ ان کی آنتوں میں ہاضم خامرے کی کمی ہوتی ہے۔ جب ایسا بچہ دودھ پیتا ہے تو اسے اسہال یا قے کی شکایت ہو جاتی ہے جسے لیکٹواِن ٹالرینس کہتے ہیں اور اس کا مطلب ہے دودھ برداشت نہ ہونا۔ ایسے بچے دودھ کے بغیر ہی ٹھیک نشوونما پاتے ہیں۔ بشرطیکہ انہیں صحت بخش متوازن خوراک دی جائے۔ نشوونما پانے کے لئے بچوں کو بھی ہم سب کی طرح اچھی قسم کی غذا درکار ہے جس میں تازہ پھل اورسبزیاں، سالم اناج کی روٹی، مچھلی، روکھا گوشت ، پھلیاں اور ضروری غیر سیر شدہ چکنائیاں شامل ہوں جن اشیاء کی انہیں ضرورت نہیں ، وہ ہیں: سفید شکر، سیر شدہ چکنائیاں، ڈبل روٹی اور کیک پیسٹریاں، مصنوعی رنگ اور خوشبوئیں اور غذا کو محفوظ بنانے والے اجزا۔
نوخیز بچوں کی مائوں کو چاہیے کہ وہ انہیں بتدریج دودھ سے ہٹا کر تغذیہ بخش غذا کی طرف لائیں۔ اگر بچہ بھوکا ہو تو اسے مناسب وقفوں سے کھانے کیلئے قابل ہضم غذا دیتے رہیے۔ بچے کے بڑھتے وزن پر گھبرائیے مت، البتہ اگر وہ خاصی مقدار میں میٹھی اور چکنائی والی اشیا کھا جاتا ہے تو یہ واقعی تشویشناک بات ہے۔ اچھی قسم کے نباتاتی تیل کھانا پکانے میں استعمال کیے جاسکتے ہیں اور یہ کم بھوک رکھنے والے چھوٹے بچوں کو سفید شکر اور حیوانی چکنائیوں سے کہیں زیادہ صحت بخش توانائی فراہم کرتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ زیادہ مقدار میں دودھ پیے تو اسے پوری چکنائی والے دودھ کے بجائے بالائی اترا دودھ دیجئے۔ کینیڈا اور امریکہ میں بچوں کو برسوں سے ایسا دودھ دیا جارہا ہے اور اس سے ان کی صحت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔
دودھ کے گرانقدر تغذیہ بخش اجزا اس کے مائع حصے میں ہوتے ہیں۔یوں سمجھیے بیشتر حیاتین اور تمام نمکیات اور حیاتین دودھ کے پتلے سیال حصے ہی میں پائے جاتے ہیں۔
ایک بات ذہن میں رہے کہ چھ ماہ سے کم عمر بچوں کو گائے بھینس کا دودھ کبھی نہ دیا جائے۔ خواہ وہ پوری چکنائی والا ہو یا جزوی یا مکمل طور پر بالائی اترا ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گائے بھینس کا دودھ قدرت نے بچھڑوں کے لئے بنایا ہے اور انسانی گردوں کو اس وقت ناگوار صورت حال پیش آتی ہے جب خاصی مقدار میں سوڈیم اور حیاتین والا یہ دودھ بچوں کو پلایا جائے۔ اسی لئے ملک پائوڈر کے ڈبوں پر لیبل پیوست ہوتا:
’’شیر خوار بچوں کے لئے موزوں نہیں‘‘
چنانچہ بے بی ملک پائوڈر والے خاص طریقوں سے اس کے معدنی اور حیاتینی اجزا اس قدر کم کردیتے ہیں کہ وہ شیر خوار بچوں کے لئے محفوظ بن جاتا ہے۔ محفوظ روش یہی ہے کہ گھر کے دروازے پر ملنے والا دودھ شیر خوار بچوں کو مت دیجئے۔ جب تک ممکن ہو مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلائیں اور بتدریج انہیں تغذیہ بخش غذا کی طرف لائیں۔

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 394 reviews.