میں نے دعا مانگی اور یاارحم الراحمین کہا۔ غیب سے یہ آواز آئی کہ اے شخص! تو ان کو قتل مت کر۔ یہ آواز سن کر وہ ڈاکو ڈر گیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا جب کوئی نظر نہ آیا تو وہ پھر میرے قتل کیلئے آگے بڑھا تو میں نے پھر بلند آواز سے یاارحم الراحمین کہا اور غیبی آواز آئی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ: یمن کے قبیلہ دوس سے ان کا خاندانی تعلق ہے‘ زمانہ جاہلیت میں ان کا نام ’’عبدشمس‘‘ تھا مگر جب یہ سات ہجری میں جنگ خیبر کے بعد دامن اسلام میں آگئے تو حضور نبی اکرم ﷺ نے ان کا نام عبداللہ یا عبدالرحمٰن رکھ دیا۔ ایک دن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی آستین میں ایک بلی دیکھی تو آپ ﷺ نے ان کو یااباہریرۃ (اے بلی کے باپ) کہہ کر پکارا۔ اسی دن سے ان کا یہ لقب اس قدر مشہور ہوگیا کہ لوگ ان کا اصلی نام ہی بھول گئے یہ بہت ہی عبادت گزار‘ انتہائی متقی اور پرہیزگار صحابی ہیں۔ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا بیان ہے کہ یہ روزانہ ایک ہزار رکعت نماز نفل پڑھا کرتے تھے۔ آٹھ سو صحابہ اورتابعین آپ کے شاگرد ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے پانچ ہزار تین سو چوہتر احادیث روایت کی ہیں۔ جن میں سے چار سو چھیالیس بخاری شریف میں ہیں۔ 59 ہجری میں 78 سال کی عمر پاکر مدینہ منورہ میں وفات پائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔ (اکمال ص622 وقسطلانی ج1، ص212 وغیرہ)۔کرامت والی تھیلی: ان کو حضور اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چند چھوہارے عطا فرمائے اور حکم دیا کہ ان کو اپنی تھیلی میں رکھ لو اور جب جی چاہے تو اس میں سے ہاتھ ڈال کر نکالو اور خود کھاؤ‘ دوسروں کو کھلاؤ مگر خبردار اس تھیلی کو کبھی خالی کرکے مت جھاڑنا۔ یہ چھوہارے کبھی ختم نہ ہوں گے۔‘‘سبحان اللہ! یہ تھیلی ایسی بابرکت ہوگئی کہ تیس برس تک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اس تھیلی میں سے چھوہارے نکال نکال کر کھاتے رہے اور لوگوں کو کھلاتے رہے بلکہ کئی من اس میں سے خیرات بھی کرچکے مگر چھوہارے ختم نہیں ہوئے یہاں تک کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی شہادت کے دن ہنگاموں کی بھیڑ بھاڑ میں وہ تھیلی کمر سے کٹ کر کہیں گرپڑی جس کا عمر بھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو بے انتہا صدمہ اور رنج و ملال رہا۔ راستوں میں روتے ہوئے اور نہایت رقت انگیز اور درد بھرے لہجہ میں یہ شعر پڑھتے ہوئے گھومتے پھرتے تھے۔ ترجمہ: ’’سب کو آج ایک ہی تو غم ہے مگر مجھے دو غم ہیں۔ ایک غم ہے تھیلی کے گم ہونے کا دوسرا غم حضرت امیرالمومنین عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی شہادت کا۔ (الکلام المبین)
ساتویں آسمان کا فرشتہ مدد کیلئے اتر آیا
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ: آپ حضور اقدس ﷺ کے غلام تھے لیکن آپ ﷺ نے آزاد فرما کر اپنا متنبیٰ بنالیا تھا اور اپنی باندی حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمادیا تھا جن کے بطن سے ان کے صاحبزادے حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے ان کی ایک بڑی خاص خصوصیت یہ ہے کہ ان کے سوا قرآن مجید میں دوسرے کسی صحابی کا نام مذکور نہیں ہے۔ یہ بہت ہی بہادر مجاہد تھے۔ غلاموں میں سب سے پہلے انہوں نے ہی اسلام قبول کیا تھا۔ ’’جنگ موتہ‘‘ کی مشہور لڑائی میں جب آپ تمام اسلامی افواج کے سپہ سالار تھے۔ 8 ہجری میں کفار سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا۔ (اکمال ص595 و اسد الغابہ ج2، ص224 تا ص227)
ساتویں آسمان کا فرشتہ زمین پر: آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی ایک کرامت بہت زیادہ مشہور اور مستند ہے کہ ایک مرتبہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے سفر کے لیے طائف میں ایک خچر کرایہ پر لیا۔ خچر والا ڈاکو تھا‘ وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو سوار کرکے لے چلا اور ایک ویران و سنسان جگہ پر لے جاکر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو خچر سے اتار دیا اور ایک خنجر لے کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی طرف حملہ کے ارادہ سے بڑھا‘ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے یہ دیکھا کہ وہاں پر ہرطرف لاشوں کے ڈھانچے بکھرے پڑے ہوئے ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اس سے فرمایا کہ اے شخص! تو مجھے قتل کرنا چاہتا ہے توٹھہر! مجھے اتنی مہلت دے دے کہ میں دو رکعت نماز پڑھ لوں۔ اس بدنصیب نے کہا کہ اچھا تو نماز پڑھ لے۔ تجھ سے پہلے بھی بہت سے مقتولوں نے نمازیں پڑھی تھیں مگر ان کی نمازوں نے انہیں کوئی فائدہ نہ دیا۔
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا بیان ہے کہ جب میں نماز سے فارغ ہوگیا تو وہ مجھے قتل کرنے کیلئے میرے قریب آگیا تو میں نے دعا مانگی اور یاارحم الراحمین کہا۔ غیب سے یہ آواز آئی کہ اے شخص! تو ان کو قتل مت کر۔ یہ آواز سن کر وہ ڈاکو ڈر گیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا جب کوئی نظر نہ آیا تو وہ پھر میرے قتل کیلئے آگے بڑھا تو میں نے پھر بلند آواز سے یاارحم الراحمین کہا اور غیبی آواز آئی۔ پھر تیسری مرتبہ جب میں نے یاارحم الرحمین کہا تو میں نے دیکھا کہ ایک شخص گھوڑے پر سوار ہے اور اس کے ہاتھ میں نیزہ ہے اور نیزے کی نوک پر آگ کا ایک شعلہ ہے۔ اس شخص نے آتے ہی ڈاکو کے سینے میں اس زور سے نیزہ مارا کہ نیزہ اس کے سینے کو چھیدتا ہوا اس کی پشت کے پار نکل گیا اور ڈاکو زمین پر گر کر مرگیا۔ پھر وہ سوار مجھ سے سے کہنے لگا کہ جب تم نے پہلی مرتبہ یاارحم الراحمین کہا تو میں ساتویں آسمان پر تھا اور جب دوسری مرتبہ تم نے یاارحم الرحمین کہا تو میں آسمان دنیا پر تھا اور جب تیسری مرتبہ تم نے یاارحم الرحمین کہا تو میں تمہارے پاس امداد و نصرت کیلئے حاضر ہوگیا۔ (استیعاب ج1 ص548)
اس سے سبق ملتا ہے کہ خاوند قدوس کے اسماء الحسنیٰ اور مومنین کی دعاؤں سے بڑی بڑی بلائیں ٹل جاتی ہیں اور ایسی ایسی امداد اور آسمانی نصرتوں کا ظہور ہوا کرتا ہے جن کو خداوند کریم کے فضل عظیم کے سوا کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا مگر افسوس کہ آج کل کے مسلمان مصائب کے ہجوم میں بھی مادی وسائل کی تلاش میں بھاگے بھاگے پھرتے ہیں مگر ارحم الراحمین اور احکم الحاکمین کے دربار عظمت میں گڑگڑا کر اپنی دعاؤں کی عرضی نہیں پیش کرتے اوراخلاق عالم جل جلالہ سے امداد و نصرت کی بھیک نہیں مانگتے حالانکہ ایمان یہ ہے کہ بغیرفضل ربانی کے کوئی انسانی طاقت کسی کی بھی کوئی امداد نصرت نہیں کرسکتی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں