ڈالی گئی جو عہد خزاں میں شجر سے ٹوٹ
ممکن نہیں ہری ہو سحاب بہار سے
ہے لازوال عہد خزاں اس کے واسطے
کچھ واسطہ نہیں ہے اسے برگ وبار سے
قارئین کرام! آج میں آپ کو اس خزاں رسیدہ خاتون کی کہانی سناﺅں گی جو بہاروں کی تمنا لئے خود قبر کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر گئیں۔ اپنے گھر میں وہ آٹھ بہن بھائیوں میں ساتویں نمبر پر تھیں۔ گھر میں غربت کا دور دورہ ہو تو بیٹے کی آمد کی بھی وہ خوشی نہیں ہوتی، وہ تو پھر بیٹی تھیں۔ پھر ستم یہ ہوا کہ ان کی پیدائش کے دو سال بعد ایک اور بہن نے جنم لیا تو ان کی رہی سہی قدر بھی کم ہو گئی کیونکہ اوپر تلے یہ پانچویں بیٹی پیدا ہوئی تھی وہ تو صد شکر کہ تینوں بیٹے بہنوں سے بڑے تھے اور بچپن میں ہی محنت مزدوری کر کے باپ کا ہاتھ بٹانے لگے تھے۔ وہ سات برس کی تھیں جب ماں کا سایہ ان سے چھن گیا۔ باپ نے بڑی تینوں بیٹیوں کی شادی کم عمری میں ہی کر دی۔ دو بیٹوں کی شادی کر کے باپ بھی دار فانی سے کوچ کر گئے تو بھائیوں کو باقی دو بہنیں مصیبت لگنے لگیں۔ چھوٹی کی شادی خالہ زاد سے اور ان خاتون کی اپنی عمر سے بائیس برس بڑے مرد کے ساتھ کر دی گئی۔ اس وقت ان کی عمر صرف چودہ برس تھی۔ بارہ برس بعد بہت منتوں مرادوں سے ان کے گھر بیٹے نے جنم لیا تو وہ بہت خوش تھیں مگر یہ خوشی انہیں راس نہ آئی کیونکہ اوپر تلے پانچ بچوں (جن میں ایک بیٹی اور چار بیٹے تھے) نے جنم لیا مگر ان کے میاں شروع سے کوئی خاص کام نہ کرتے تھے۔ وہ شروع سے ہی نند کے گھر (جو ساتھ ہی تھا) کام کر کے کھانا کھا لیتی تھیں، نند اپنے پرانے کپڑے انہیں دے دیتیں اور وہ اسی میں خوش تھیں۔ بچے چھوٹے ہی تھے کہ ان کے میاں کا انتقال ہو گیا۔ مرد کچھ نہ بھی کرے تو بھی عورت کے سر پر سائبان کا درجہ رکھتا ہے۔ شوہر کے انتقال کے بعد زندگی اور بھی مشکل ہو گئی آخر پانچ بچوں کا ساتھ تھا۔ بڑی آس لیکر میکے گئیں کہ شاید بھائی مدد کر دیں مگر بھاوج نے کہا کہ بڑی محنت سے پیسہ کماتے ہیں، یتیموں کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا ہمارے اپنے اخراجات بہت ہیں مگر ہمیں کپڑے دھلوانے کے لئے کام والی کی ضرورت ہے اگر تم دھو دو تو تمہیں کھانا بھی دے دیا کریں گے۔ بچوں کا پیٹ بھرنے کی خاطر انہوں نے پانچ برس تک اپنے میکے والوں کے کپڑے اجرت پر دھوئے صرف اس امید پر کہ بچے جوان ہونگے تو مصیبتوں کا دور ختم ہو جائیگا مگر قسمت کی ستم ظریفی کہ ان کے دو بیٹے نشے کی بری عادت کا شکار ہوئے اور خالق حقیقی سے جا ملے۔ ایک بیٹے کو محنت کیلئے کسی فیکٹری میں رکھوایا وہ کچھ بہتر تھا مگر چند سال بعد ہی ماں سے اپنی شادی کاتقاضا کرنے لگا اور پھر جہاں اس نے کہاماں نے اس کی شادی کر دی پھر اس نے خرچ دینا بند کر دیا۔ ماں بیٹی محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالتیں اور پھر انہوں نے دور پرے کے رشتے داروںمیں جو اپنے ہی جیسے غریب تھے بیٹی کی شادی کردی۔
بیٹی کو بیاہنے کے بعد وہ کالے یرقان جیسے موذی مرض میںمبتلا ہوئیں مگردونوں بیٹوں میں سے کوئی بھی ماں کو پوچھنے کا روادار نہیں تھا حالانکہ ایک کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ بیٹی خود بھی ایسے حالات کا شکارتھی وہ ماں کی کیا مدد کرتی۔ ان کے باقی بہن بھائیوں پر خدا کا فضل تھا مگر کسی نے کبھی نہ پوچھا تھا۔ آج کے دور میں لوگوں کا کیا کہنا، ماں جائے بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ وہ خون تھوکنے لگیں تو انہیں خیراتی ہسپتال میں چھوڑ آئے۔ بیٹی چند دن رہ جاتی پھر ایک دن چپکے سے انہوں نے اس بے حس دنیا سے منہ موڑ لیا اور بیٹی کو سسکتا چھوڑ کر اگلے جہان سدھار گئیں۔ پچھلے مہینے ان کی پہلی برسی تھی۔ بھائیوں نے بہن کو اس وجہ سے نہیں بلایا کہیں واپسی پر کچھ دینا نہ پڑے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ جو ماں ایک ایک نوالے کو ترستی تھی اور دوائی کے بغیر بیماری سے نبرد آزما رہیں اس وقت تو کسی نے نہیں پوچھا مگر انکے مرنے کے بعد تمام رسوم بڑی شان سے ادا کی گئیں۔ سوئم سے لیکر چہلم تک دل کھول کر خرچ کیا گیا کہ برادری میں ناک نہ کٹ جائے۔ میرا معاشرے سے یہ سوال ہے کہ کیا ماں باپ کی یہی قدر ہے کہ انکے مرنے کے بعد صرف اپنی ”عزت“ کے لئے ان کے لئے خرچ کیا جائے؟ کیا مردوں کو زندہ لوگوں سے زیادہ اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ ان کا نام لیکر ہزاروں لوگوں کو کھانا کھلایا جائے اور زندہ لوگ دوائی اور روٹی کو ترستے رہیں۔ دنیا داروں کے طعنوں کا اتنا خیال ہے کیا مالک حقیقی کے ارشادات کو بھول گئے ہیں کہ والدین کے اولاد پر کیا حقوق ہیں؟ فی زمانہ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اپنے والدین کی خدمت کرتے ہیں ورنہ اکثریت ماں باپ کی نافرمان ہے خود میرے اپنے مشاہدے میں ایسے بہت سے واقعات آئے۔ والدین کی نافرمانی سے اگلے جہان میں تو جو عذاب سہنا پڑے گا اس کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا اسی دنیا میں مختلف تکلیفوں اور مصائب کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے کسی نے سوچا کہ زندگی اتنی تکلیف دہ کیوں ہو گئی ہے۔ بے سکونی کیوں ہے ہماری اولاد ہمارے ہاتھوں سے کیوں نکلتی جا رہی ہے کیونکہ یہ ہمارے اپنے اعمال کا کیا دھرا ہے جو واپس ہمی کو مل رہا ہے۔ اولاد کو برا کہنے والے غیر جانبدار ہو کر اپنا محاسبہ کریں گے تو ساری بات سمجھ آجائے گی کیونکہ کسی دانا کا قول ہے کہ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ ببول بو کر گلابوں کی تمنا کرنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 826
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں