وہاں ایک اورہی سہی! ہم سب اللہ کے راستے کے راہی ہیں‘ آج نہیں تو کل پھر بھی جانا تو ہے‘ اگر اپنے وطن اور وطن کے بیٹوں کی جان بچانے کی خاطر میری جان چلی گئی تو کونسی ایسی بات ہوئی لیکن مجھے اپنے مالک پر پورا یقین ہے وہ مجھے ضرور کامیابی عطا فرمائیں گے۔
راوی کا بیان ہے کہ غالباً 1992ء یا 1993ء میں سیلاب آیا۔ دریائے توی جو چناب کا ٍذیلی دریا ہے میں بہت اونچے درجے کا سیلاب تھا۔ علاقہ چھمب جوڑیاں سیکٹر تھا۔ سیلاب پل کا مغربی حصہ لے اڑا تھا‘ بی رجمنٹ کی ایک چوکی اس پُل کے مشرقی علاقہ میں تھی۔ اب ان سے ہر قسم کا رابطہ ٹوٹ گیا۔ وائرلیس سیٹ کی بیٹریاں ختم ہوگئیں۔ تقریباً نو دن ان سے کوئی رابطہ نہ ہوا قیادت کو ڈر تھا کہ ہمارے فوجی دشمن کی قید میں نہ آجائیں اور ہمارے قیمتی رازوں سے دشمن آگاہ بھی نہ ہو۔ یونٹ کے کمانڈنگ آفیسر صاحب نے ساری نفری کو اکٹھا کیا انہیں پوری صورت حال سے آگاہی دی اور ساتھ مشورہ بھی کیا کہ اب کیا کیا جائے۔ سب جوانوں نے اپنے حاضر ہونے کا نعرہ لگایا کہ جو اُن کی بچاؤ کی صورت کا جو بھی آپشن ہو ہم اس کیلئے تیار ہیں تاکہ ہمارے بھائیوں کے بچاؤ کی کچھ شکل بن جائے۔ اسی جذباتی صورتحال میں ایک جوان کھڑا ہوا اور کہا کہ سر! مجھے نو عدد لائف جیکٹ اور ایک رسہ جس کے ساتھ کنڈا لگا ہوا ہو دیا جائے اور میں اکیلا ہی جاؤں گا‘ میرے رب عزوجل نے چاہا تو ضرور کامیابی ملے گی اور مزید بولا کہ میں دریا میں تیر کر اس پل تک پہنچوں گا‘ ان کو لائف جیکٹ پہنا کر دریا میں چھلانگ لگانے کا کہوں گا‘ آپ جوان دریا کے کنارے بٹھائیں جو کہ بیس بیس گز یا چالیس گز کے فاصلے پر کھڑے ہوں جو بھی دریا میں جوان نظر آئے اسے نکال لیں۔ کمانڈنگ آفیسر نے کہا دریا کا پاٹ چوڑا ہے اور جہاں چوڑائی کم ہے وہاں دشمن کی گنیں فکس لائن پرلگی ہیں‘ دریا کے اس پار دشمن تیار بیٹھا ہے لیکن اس جوان نے کہا : ’’سر! جہاں نو ساتھیوں کی موت کو برداشت کررہے ہیں وہاں ایک اورہی سہی! ہم سب اللہ کے راستے کے راہی ہیں‘ آج نہیں تو کل پھر بھی جانا تو ہے‘ اگر اپنے وطن اور وطن کے بیٹوں کی جان بچانے کی خاطر میری جان چلی گئی تو کونسی ایسی بات ہوئی لیکن مجھے اپنے مالک پر پورا یقین ہے وہ مجھے ضرور کامیابی عطا فرمائیں گے۔ سب آفیسرز اور جوانوں نے اس مجاہد کے جذبات کو سراہا۔ اس جوان نے قرآن پاک کی تلاوت کی نماز پڑھی اور قرآن مجید کو آنکھوں اور سینے پر رکھ کر بہت جذباتی دعا کی اس کے ساتھ اس یونٹ کے ہر جوان کی آنکھوں سے آنسو کا سیلاب تھا اور دعاگو تھے کہ اب کریم
ہماری مدد فرما‘ کامیابی دے‘ اب جبکہ وہ نوجوان جانے لگا تو اپنے ساتھیوں سے جذباتی اندازسے یوں گویا ہوا ساتھیو! رب راکھا‘ اللہ حافظ‘ میری کمی کوتاہیوں کو معاف کرنا‘ قرآن مجید کی تلاوت کرنا‘ اللہ سے کامیابی کی دعا کرنا‘ زندگی رہی تو ملاقات باقی ورنہ پھر ملاقات ان شاء اللہ جنت میں ہوگی۔ پھر وہ جانباز دریا کے کم چوڑائی والے حصے پر آیا‘ سامنے دشمن کی گن فکس تھی‘ ذرا سی آہٹ اسے موت کے گھاٹ اتار سکتی تھی‘ رات کا اندھیرا‘ دریا کا شور‘ لیکن وطن کا سپاہی اللہ کے بھروسے پر بے خوف وخطر اس گن کے سامنے دریا میں کود گیا‘ جہاں سخت قسم کا سیلاب تھا‘ موجوں سے لڑتا بھڑتا وہ پُل کے مشرقی حصے پر کنڈا رسہ ڈال کر چڑھ گیا اور پل کو کراس کرکے اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا۔ وہ ساتھی اسے دیکھتے ہی خوشی سے نہال ہوگئے اور تعجب کرنے لگے کہ تم ایسے حالات میں یہاں کیسے پہنچ گئے‘ وہ نو ساتھی کہنے لگے کہ ہمارے لیے آج عید کا دن ہے‘ ہمیں تو اپنی موت کا پورا یقین ہوچکا تھا۔ اس جانباز نے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھایا اور انہیں لائف جیکٹ دئیے اور کہنے لگا: اب ہم سب نے دریا میں کودنا ہے‘ یہ لائف جیکٹ ہمیں ڈوبنے سے بچائیں گی اور آگے دریا کے کنارے ہمارے ساتھی کھڑے ہیں‘ وہ ہمیں نکال لیں گے۔ یہ سب کچھ ابھی رات کے اندھیرے میں ہی کرنا ہے۔ کچھ ساتھی کئی دنوں سے بھوکے پیاسے ہونے کی وجہ سے گھبرائے بھی (باقی صفحہ
کہ ہم تیر نہیں سکیں گے لیکن جانباز مجاہد کے حوصلے انہیں موجوں سے ٹکرانے کا عزم دے چکے تھے۔ یوں سب ساتھی یکے بعد دیگرے دریا میں کودے اور موجوں سے لڑتے ہوئے پار ہوگئے‘ پیچھے یونٹ والے ساتھیوں نے انہیں دریا سے نکال لیا اور سب اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان پھر سے اکٹھے ہوگئے۔ جانبار مجاہد کے حوصلے اور ہمت کو خوب سراہا گیا اور انعام و اکرام سے نوازا گیا۔ اللہ پاک میرے پاک وطن کو اپنی حفظ و امان میں رکھے‘ پورے عالم اسلام کو امن نصیب فرمائے اور پوری انسانیت کو سلامتی عطا فرمائے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں