Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

ساس بہو کے جھگڑے! پرسکون زندگی کے راز پالیں

ماہنامہ عبقری - اکتوبر 2017ء

اگر ایمانداری اورغیر جانب داری سے جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ بیشتر ساسیں محدود ذہنیت،کمتر ذہانت اور بہت سی باتوں میں انا پرستی کا مظاہرہ کرتی ہے جس کے باعث بہوئوں سے ان کی چپقلش رہتی ہے اور اچھا خاصا گھر جہنم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

جس طرح کسی بھی شخص کی عادات و اطوار اور خیالات میں ترتیب کسی مکتب یا تربیتی ادارے میں ممکن ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح ہر عورت کو زندگی بہترین ڈھنگ سے گزارنے اورمعاملات سے بہتر طور پر نمٹنے کا ہنر سسرال میں سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔عورت کا اصل گھر اس کا سسرال یا شوہر کا گھر ہے۔ اسی گھر میں وہ زندگی کی ہر اونچ نیچ کا مقابلہ کرنا سیکھتی ہے۔جب تک کوئی لڑکی اپنے ماں باپ کے گھر یعنی میکے میں ہوتی ہے،لاڈ پیار کے باعث بہت سی باتوں پر توجہ مرکوز کرنے کی اسے ترغیب نہیں ملتی یہ بے فکری کی زندگی ہوتی ہے جس کو وہ زیادہ سے زیادہ انجوائے کرنا چاہتی ہے۔والدین کے نزدیک رہ کر کوئی بھی لڑکی اپنی اصل یعنی ازدواجی زندگی کے بارےمیں کچھ نہیں سیکھ پاتی۔ ازدواجی زندگی کے اسرار و رموز اس پر شادی کے بعد،سسرال میں ہی کھلتے ہیں۔والدین اپنی بچی کو زیادہ سے زیادہ سُکھ دینا چاہتے ہیں۔ شادی سے پہلے لڑکی اپنے گھر میں ہر لمحے،ہر گھڑی کا لطف اٹھاتی ہے۔اس زندگی کو وہ پریشانیوں اور الجھنوں کی نذر نہیں کرنا چاہتی۔ یہی سبب ہے کہ زندگی کی بہت سی بنیادی باتوں کی جانب وہ دھیان نہیں دیتی اور ان باتوں کا علم اسے شادی کے بعد ہی ہو تا ہے۔عورت کے لئے سسرال سب سے مثالی درس گاہ ہے اور ساس اس کی سربراہ ہے ساس کی ذمہ داریاں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔اس کی قابلیت اور دانش مندی پر ہی گھر بھر کی خوشیوں اور سکون کا دارومدار ہوتا ہے۔اگر ایمانداری اورغیر جانب داری سے جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ بیشتر ساسیں محدود ذہنیت،کمتر ذہانت اور بہت سی باتوں میں انا پرستی کا مظاہرہ کرتی ہے جس کے باعث بہوئوں سے ان کی چپقلش رہتی ہے اور اچھا خاصا گھر جہنم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔یہ درست ہے کہ ہر بگڑے ہوئے معاملے میں قصور وار صرف ساسیں نہیں ہوتیں مگر سچ یہ ہے کہ بیشتر ساسیں انتہائی استحقاق پسند ہوتی ہیں۔وہ بیٹے اوربہودونوں کو ہر لحاظ سے مٹھی میں رکھنا چاہتی ہیں اور یہیں سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ بیٹا اپنی زندگی میں اپنی مرضی کے مطابق گزارنا چاہتا ہے۔بہو کی آنکھوں میں بھی خود مختار زندگی کے سپنے ہوتے ہیں۔ایسے میں کسی اور کی مرضی کا پابند ہونا ان دونوں کو اچھا نہیں لگتا۔
زیادہ تر مائیں اپنے بیٹوں کی شادی کے لئے بہت بے تاب دکھائی دیتی ہیں یہاں تک کہ وہ بیٹے کی شادی کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار رہتی ہیں۔بہو کے لئے زیور تیار کرنے کی غرض سے وہ اپنا زیور بیچ ڈالتی ہیں ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شادی کے کچھ ہی دنوں بعد ساس بہو کو غلام کیوں سمجھنے لگتی ہے اور بہو کی خاطر سب کچھ قربان کر ڈالنے کا وہ جذبہ سرد کیوں پڑ جاتا ہے۔ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ بعض ساسیں اتنی تنگ نظر اور بد مزاج ہوتی ہیں کہ بہو کو ہر وقت جہیز کم لانے کا طعنہ دیتی ہیں اور انہیں پیٹ بھر کھانا بھی نہیں دیتیں۔اگر بہو کوئی سی چیز بھی مانگ بیٹھے تو ٹکا سا جواب ملتا ہے کہ’’ تمہاری ماں نے جہیز میں تمہیں دیا کیا تھا، کچھ لے کر آجانا تھا‘‘یا یہ کہ ’’اپنے ماں باپ سے کیوں نہیں مانگتی؟‘‘
بہت سی بہوئوں کو بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پر ساس سے کئی کئی دن ڈانٹ پھٹکار سننا پڑتی ہے۔شادی کے وقت ساس سب کے سامنے جو زیورات بہو کو دیتی ہے بعد میں وہ بھی اس سے اتروا لیتی ہے۔بسا اوقات بہو کے وہ زیورات بھی اتروا لئے جاتے ہیں جو اسے اس کے ماں باپ نے دیئے ہوتے ہیں۔اس کی ایک نہیں ہزاروں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔آئے دن اخبارات میں بہو سے ظلم و زیادتی کی خبریں چھپتی رہتی ہیں۔جہیز نہ لانے پردئیے جانے والے طعنوں سے تنگ اآکر بہوئوں کے جل مرنے یا جلائے جانے کی خبریں آئے دن اخبارات کی زنیت بنتی رہتی ہیں مگر لوگ ان خبروں کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ کوئی اثر نہیں کرلیتے اور چولہا پھٹنے کی خبر ان کے لئے ایک عام سی بات ہے۔
عام طور پر ساس کو بہو کی جو باتیں سب سے زیادہ کھٹکتی ہیں وہ ہیں اس کا بنائو سنگھار اور شوہر سے اس کی محبت۔وہ یہ بھول جاتی ہے کہ کبھی وہ خود بھی اس مرحلے سے گزری تھی۔ یہاں تک کہ بعض ساسیں اپنی بہوئوں کو دانت صاف کرتا بھی نہیں دیکھ سکتیں اور اس قسم کے جملے بھی انہیں سننے کو ملتے ہیں کہ’’کیا تم ہر وقت دانت رگڑتی رہتی ہو؟اس کو تو سوائے سجنے سنورنے کے اورکوئی کام ہی نہیں وغیرہ وغیرہ۔بنائو سنگھار نو بیاہتا کا شوق بھی ہے اور حق بھی۔ ہر عورت اپنے شوہر کو اپنا بناکر رکھنا چاہتی ہے۔اس میں براماننے یا حیران ہونے والی کوئی بات نہیں۔ساس کی ذہنیت عموماً یہ ہوتی ہے کہ بہو کو سنگھار کا،لوگوں سے ملنے اورزندگی کے سکھ پانے کا کوئی حق نہیں۔یہ سوچ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ہر عورت کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ جب اس کے بیٹے کی شادی ہوتی ہے تو وہ اپنی نئی زندگی شروع کرتا ہے۔یہ نئی زندگی بہت سی ایسی باتوں کی متقاضی ہوتی ہے جو اس سے قبل نہیں ہوئی ہوتیں۔بیٹا چونکہ نئی زندگی کا آغاز کرتا ہے اس لئے اس میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔بہو آتی ہے تو ساس کو اس بات سے بھی تکلیف پہنچتی ہے کہ بیٹے کی محبت تقسیم ہو جاتی ہے۔اگر کسی عورت کو اپنے بیٹے کی مکمل توجہ درکار ہے تو اس کاآسان راستہ یہ ہے کہ وہ بیٹے کی کبھی شادی نہ کرے۔ہم اس حقیقت کو تسلیم نہ کریں تو صورت حال بدلے گی نہیں کہ آج ہمارے سماج کے بیشتر گھرانوں میں ساس اوربہو کے مابین بدگمانیاں منطقی حد سے بہت زیادہ ہیں۔ہر گھر میں کوئی نہ کوئی کہانی چل رہی ہے۔آپ کے گھر میں بھی بہت سے مسائل ہوں گے۔ان مسائل کے حل کی ایک صورت یہ ہے کہ ان سے بھاگنے کی بجائے ان کا سامنا کیا جائے آج ساس بہو کا جھگڑا اس قدر سنگین صورت اختیار کرگیا ہے اور اس کے باعث کتنے گھرانوں کا سکون دائو پر لگا ہوا ہے کہ اس جانب فوری توجہ کی ضرورت ہے۔خاص طور پر اس میں مرد کو اہم کردار کرنا ہوگا۔ان حالات میں ماں اوربیوی دنوں کا مؤقف سننے کی ضرورت ہے کسی ایک کی بات سن کر دوسرے سے فوری ناراضگی یا برہمی کا اظہار قطعاً دانش مندانہ رویہ نہیں۔اس سے نہ تو انصاف ہوگا اورنہ معاملات حل ہوں گے لیکن یہ بات افسوس ناک ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر مردوں کا رویہ یکطرفہ ہوجاتا ہے ماں کو سمجھانے کے بجائے وہ سارا غصہ بیوی پر نکالتے ہیں یا بیوی کی ناراضگی کے خوف سے اس کی غلط اور ناپسندیدہ باتوں کو بھی خاموشی سے برداشت کرتے رہتے ہیں ۔جن کا بعض اوقات بہوئیں ناجائز فائدہ بھی اٹھاتی ہیں۔ہر ماں چاہتی ہے کہ اس کی بیٹی جس گھر جائے راج کرے حالانکہ یہ راج والی سوچ درست نہیں راج کرنے یا کسی کا راج قبول کرنے سے معاملات ہمیشہ بگڑتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان دونوں کے درمیان زندگی بسر کی جائے۔گھریلو معاملات حکم چلاے یا کسی کا بے جا حکم ماننے سے نہیں چلائے جاسکتے۔یہ دو طرفہ معاملہ ہے۔کبھی اپنی بات منوائی جاتی ہے، کبھی دوسروں کی بات پر سر تسلیم خم کیا جاتا ہے۔ہر ماں کا فرض ہے کہ وہ بیٹی کو سمجھائے کہ اس کا اصل گھر اس کا سسرال ہے ۔
کیونکہ ایسے متعدد کیس سامنے آئے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ اکثر مائیں بھی اپنی بیٹیوں کے گھر اجاڑنے کا سبب بن جاتی ہیں حالانکہ مائوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہئے کہ ان کا یہ عمل خود ان کے لءے ہزیمت اورشرمندگی کا باعث بنے گا۔بیٹی کے گھر بیٹھنے کی صورت میں ان کیلئے عزت کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔ماں کو چاہئے کہ بیٹی اگر سسرال کے خلاف شکایتی انداز اپناتی ہے تو اسے سمجھائے کہ وہ تحمل اوربرداشت سے کام لے اس لئے کہ اسے وہاں زندگی گزارنی ہے۔اسے بتایا جاءے کہ اصل گھر میں اسے کس طرح رہنا ہے ،اس کی تعلیم اسے ملنی چاہئے۔اس صورت میں بیٹی کی درست ذہنی تربیت ہوسکے گی اوروہ بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہوسکے گی۔
اگر والدین اس بات کے خواہش مند ہیں کہ ان کی بیٹی کو زندگی میں کسی دکھ،کسی مصیبت کا سامنا نہ کرناپڑے تو ضروری ہے کہ وہ داماد کو منتخب کرتے وقت اس کے گھر والوں کے بارے میں بھی معلومات حاصل کریں۔اگر گھرانہ اچھا نہ ہو تو شادی سے گریز کریں۔ایسی صورت میں لڑکے کا اچھا ہونا بھی کوئی فائدہ نہ دے گا۔اگر اس کے گھر والے برے ہوں تو بیٹی زندگی بھر دکھ اٹھاتی رہے گی۔
بعض اوقات شادی کے بعد پتا چلتا ہے کہ ساس اتنی ظالم ہے کہ اگر بیٹی کو یتیم بچے سے بیاہا گیا ہوتا تو اچھا ہوتا!
والدین کبھی اپنی بیٹی کا برا نہیں چاہتے۔ان کی تو یہی تمنا ہوتی ہے کہ بیٹی اپنے سسرال میں بھی سب کی چہیتی بن کر رہے۔ مگر ایسا سدا ممکن نہیں ہوتا اونچ نیچ ہر جگہ ہوتی ہے۔پریشانیاں اوردکھ زندگی کا لازمی جزو ہیں۔جو لوگ ان سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں وہ دراصل زندگی سے جان چھڑانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔
ایک طرف بہوئوں کا یہ فرض ہے کہ سسرال کے ہر فرد، بالخصوص ساس کو اپنا سمجھیں۔ان کی کوشش ہونی چاہئے کہ شوہر کی پوری توجہ اپنی طرف مرکوز کرنے کے بارے میں سوچنے کے بجاءے سب کو اپنا گردانیں،سب کے کام آئیں اور دوسری جانب ہر ساس کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ بہو کو بیٹی سے بڑھ کر نہیں تو بیٹی کے برابر ضرور سمجھے۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ گھر میں توازن کی فضا پیدا ہوسکے گی اورکامیاب زندگی توازن ہی چاہتی ہے۔ ہر گھر میں معاملات نشیب و فراز کے مراحل سے گزرتے ہیں۔ان سے گزر کر ہی زندگی،زندگی بنتی ہے۔اگر ساس ضرورت سے زیادہ انا پرستی اوربہو کی غیر ضروری ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرے تو توقعات میں کشیدگی بڑھتی رہے گی۔دونوں انسان ہیں۔ دنوں کو اصولوں میں لچک پیدا کرنا ہوگی،معاملات کو درست ڈھنگ سے چلانے کے لءے بہت سی خواہشات ترک کرنا پڑیں گی اور اپنے نام نہاد اختیارات کے دائرے سے باہر آنا ہوگا۔
بعض امور ایسے ہیں جن کے باعث ساس کی جانب سے حسن سلوک کا دارومدار اس امر پر ہوتا ہے کہ بہو کا طرز عمل کیا ہوتا ہے۔جس طرح بہو کے دل میں نئی زندگی کے حوالے سے بہت سی خواہشات اور امیدیں ہوتی ہیں اسی طرح ساس کے دل میں بھی بہت دی توقعات ہوتی ہیں۔ان توقعات کے پورا ہونے کا دارومدار اس امر پر ہوتا ہے کہ بہو کیا کرتی ہے،کیا چاہتی ہے۔ ساس چونکہ گھر میں سربراہ کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے اصولی طور پر وہ اس بات کی خواہش مند ہوتی ہے کہ اس کی بات مانی جائے، اس کی خدمت کی جائے۔اگر بہو چاہے توابتدا میں اپنے مفاد کی تھوڑی بہت قربانی دے کر سسرال میں ہر فرد کے دل میں گھر کر سکتی ہے۔سب کو اپنا بنا سکتی ہے!ہو سکتا ہے کہ ہر اچھائی کا صلہ فوری طور پر نہ ملے۔اس سلسلے میں تحمل بہترین پالیسی ہے۔اسے سکون اورتحمل سے کام کرتے رہنا چاہئے۔رفتہ رفتہ تمام معاملات درست ہوتے چلے جاتے ہیں۔یہ درست ہے کہ اپنے مفاد کی قربانی دینا آسان نہیں ہوتا مگر کچھ پانے کے لئے ابتدا میں کچھ کھونا تو پڑتا ہی ہے ساس اوربہو دونوں کو اس نکتے پر غور کرنا چاہئے۔بہو چونکہ جونیئر ہوتی ہے اس لئے اس سے کچھ انا پرستی کی راہ پر گامزن ہونے کی بجائے سسرال میں سب کے کام آکر اپنا کیس ابتدا میں ہی مستحکم کرسکتی ہے۔ساس کا فرض ہے کہ وہ تمام اہم امور میں بہو کو اپنا سمجھنے،اس پر بھروسہ رکھے۔دونوں کو زندگی بھر ساتھ رہنا ہے،لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ بدگمانیاں بھی ہوں اور معاملات پرسکون ڈھنگ سے آگے بھی بڑھیں۔بہو بھی انسان ہے۔اس کی بھی خواہشات اورتقاضے ہیں ان تقاضوں کا پورا کیا جانا اشد ضروری ہے۔ساس کو چاہئے کہ وہ ہر معاملے میں بہو کی رائے کو بھی اہمیت دے،اس سے صلاح مشورہ کرے۔ مشاورت سے معاملات سلجھتے ہیں۔جن سے رائے طلب کی گئی ہو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ کوءی انہیں بھی اہمیت دے رہا ہے۔ بہو سے رائے طلب کی جائے تو وہ گھر میں اپنی اہمیت کو محسوس کرتی ہے۔دیکھا گیا ہے کہ ہر گھر میں بگاڑ دراصل کسی ایک فرد کی انا پرستی کے باعث ہوتا ہے۔انا پرستی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اپنی رائے سب پر مسلط کی جائے۔عام طور پر ساس ہی اپنی رائے سب پر ٹھونستی ہے۔بالخصوص بہو یا بہوئوں پر اگر ساس چاہتی ہے کہ بہو اس کا حقیقی معنوں میں احترام کریں تو اس کی ایک موثر صورت یہ ہے کہ وہ تمام اہم امور میں بہو سے بھی رائے طلب کرے اور اگر اس کی رائے وقعت رکھتی ہو تو اس پر عمل کرنے سے گریز نہ کرے!
اگر بہو کو سسرال میں اہمیت دی جائے،اس سے مشاورت کی جائے تو نتیجتاً اس کے دل میں بھی سسرالیوں کے لئے احترام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ سسرال کو اپنا گھر سمجھنے لگتی ہے۔
ہم نے مضمون کی ابتدا میں عرض کیا تھا کہ سسرال بہو کے لئے درس گاہ ہے۔ہر قسم کے ھالات میں یہ بات درست ثابت ہوتی ہے۔اگر بہو کو ابتدا میں ہی سسرال میں سکھ نصیب ہو تب بھی وہ وہاں بہت کچھ سیکھتی ہے اور اگر پریشانیاں راہ میں حائل ہوں تب بھی بہت سی باتیں سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ہر بہو کو یہ بات ذہن میں رکھنا چاہئے کہ سسرال اس کا حتمی ٹھکانا ہے،لہٰذا اسے وہاں کے حالات کے مطابق خود کو تبدیل کرنا پڑے گا۔

 

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 129 reviews.