میرا جسم چاندی کی طرح ہوگیا: پھر جوان نے اگلی بات اور کہی‘ کہنے لگے: بس جس دن آپ نے اس جادوگر کو پکڑا اور اس جادوگر کو گرفت میں لیا‘ میں اس وقت سورہا تھا اور اپنی نڈھالی میں مد ہوش تھا‘ میں سوتے سوتے ایک پل میں اٹھ بیٹھا‘ میرا جسم چاندی کی طرح ہوگیا‘میری ہڈیاں‘ میرا جسم‘ میرا گوشت‘ میرا خون‘ میری چربی ‘میری کمزوری‘ میری نقاہت اور میرے جسم کی پیلاہٹ سب ایسے ختم ہوئی کہ میں پھر سے جوان ہوگیا آج میں پھر وہی جوان ہوں(مگر ابھی تک میرے جسم پر بال نہیں آئے) یہ اس وقت آپ میری حالت دیکھ رہے ہیں آپ کے مطابق میں بہت صحت مند ہوں میں تو پھر جوان ہوگیا ہوں ۔آپ نے میری پہلی حالت نہیں دیکھی اگر آپ میری پہلی حالت دیکھتے یا تومر جاتے یا بےہوش ہوجاتے‘ اس جوان کا غم ایسا تھا اس کے الفاظ ایسے تھے کہ حیرت انگیز جن کہنے لگا: میں کہاں بیان کرسکتا ہوں؟ میں کیسے سوچ سکتا ہوں کہ اس کے ساتھ کیا زیادتی ہوئی؟ ظالم جادوگر جن نےاُس جننی کو بندریا بنایا‘ اس جوان کے تمام بال نوچے؟ اس سے بھی ز یادہ گھٹیا درجے کےکام یہ جن کرتا تھا اور ہر کام میں یہ جن نڈر‘ بے باک اور مطمئن تھا اور یہ جن ایسا تھا جس نے نامعلوم کتنے گھر اجاڑے‘ کتنے خاندان برباد کیے‘ کتنی شکلیں مسخ کیں‘ کتنے وجود ختم کیے‘ کتنے لوگوں کو زمین کے اوپر چلنے کے قابل نہ چھوڑا‘موت کے گھاٹ اتاردیا کہ وہ زمین کے نیچے(قبر میں) جانے پر مجبور ہوگئے۔ہندو‘ سکھ اور عیسائیوں کو معاف نہ کیا: اس جن نے مسلمان تو مسلمان ہندوؤں‘ سکھوں کو معاف نہ کیا‘ عیسائیوں کو معاف نہ کیا بس اس کے سامنے ایک لفظ تھا کہ انسان! پھر چلو انسان کا دشمن ہوتا یہ تو جنات کا بھی دشمن تھا۔ وہ حیرت انگیز جن مزید کہنے لگا: اللہ کا نظام ایسے نہیںہے اللہ کسی بندے کو اختیار نہ دے کہ اس میں خیر ہوتی ہے اور اس میں عافیت ہوتی ہے اور بعض اوقات اختیار مل جانے سے وہ انسان فرعون اور خدا بن بیٹھتا ہے اور وہ انسان ایسی زندگی کے دن رات سوچتا اور ڈھونڈتا ہے کہ خود تاریخ بھی اس کو فراموش نہیں کرتی اور معاف نہیں کرتی۔اندر غم تو تھا مگر اتنا نہیں: اس جوان کے غم کی داستان کے بعد سردار ایک دم کھڑا ہوگیا اور تمام مجمع کے سامنے اپنا سر جھکا کر اور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا: لوگو! میں تمہارا بادشاہ ہوں‘ تمہارا سردار ہوں‘ تمہارا آقا اور شہنشاہ ہوں‘ میں نے ہمیشہ انصاف کیا اور انصاف چاہا‘ میری نگری میں ایسا ظالم پلتا رہا‘ بڑھتا رہا‘ پھلتا رہا‘ پھولتا رہا اور مخلوق کو اذیتیں دے کر خوش ہوتا رہا اور ان اذیتوں میں یہ مزید اپنا خون بڑھاتا رہا اور لوگوں کا خون چوستا رہا‘ مجھے احساس تو تھا لیکن اتنا احساس نہیں تھا جتنا اب ہوا ہے‘ مجھے درد تو تھا لیکن اتنا نہیں‘ جتنا اب محسوس ہوا میرے اندر غم تو تھا لیکن اتنا نہیں ‘جتنا اب میں نے اس کو بھانپ لیا ہے باآواز بلند لوگوں سے کہنے لگا: لوگو! یاد رکھنا میں تمہارا دوست ہوں‘ تمہارا ساتھی ہوں‘ تمہارے غم کو سمجھتا ہوں‘ میں تمہارا ساتھ دوں گا‘ اس جادوگر جن کو ایک ایک پل کیلئے ایک ایک لمحے کیلئے عبرت بنادوں گا پھر اس اپنے غلام کو جو کہ جانوروں کا گوبر اکٹھا کرتا تھا مجمع میں سے اٹھایا اور اٹھاکر کہنے لگا: لوگو! اس شخص کا شکریہ ادا کرو‘یہ شخص وہ ہے کہ جو تمہارے دکھوں اور دردوں میں میرا ساتھی بنا‘ اس کے پاس مکہ اور مدینہ کا ایک ایسا لفظ اورراز ہے جس لفظ اور راز کو پڑھ کر اس نے اس جادوگر کے جادو کو سلب کرلیا ‘اس کی قوتوں کو توڑ دیا‘ اس کی زنجیروں کو مٹی بنادیا‘ اس کے عزائم اور اس کے ارادے اس کی خونخواری‘ اس کی خوفناکی ‘ اس کی آگ اور انگاروں کو ان لفظوں نے پانی ڈال کر بجھا دیا۔ اب یہ بے حس و حرکت عام سا جن ہے جو کہ میرے تابع ہے۔جادوگر نے میرا بیٹا مار دیا: میں اعتراف کرتا ہوں اور غم سے اعتراف کرتا ہوں‘ اس سے پہلے میں اس کا تابع تھا‘ میں کچھ نہیں کرسکتا تھا‘ میںبھرے مجمع میں کہتا ہوں میں نے چند بار اس کو ان حرکات سے باز رکھنے کوشش کی‘ اس نے میرا بچہ مار دیا‘ اے لوگو! آپ کو یادتوہوگا کہ میرا ایک بیٹا مرا تھا‘ لوگو! وہ طبعی موت نہیں مرا تھا اس ظالم نے میرے بیٹے کو مار کر مجھے پیغام بھیجا تھا کہ خیال رکھنا آئندہ میرے راستےمیں رکاوٹ نہ بننا ورنہ دوسرا تحفہ بھیجوں گا’’میں سب کا دکھ سنوں گا‘‘لوگو! مجھے میرے بیٹے کا غم یاد ہے‘ یہ کہتے ہوئے وہ سردار شہنشاہ اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر زارو قطار رویا اور پھر روتے روتے اس نے پیغام دیا میں سب کا دکھ سنوں گا‘ سب کا غم سنوں گا‘ مجھے علم ہے اس ظالم نے بے شمار لوگوں کو غم دئیے‘ مجھے احساس تھا جس طرح اس نے مجھے دکھ دیئے اوروں کو بھی دیئے ہوںگے لیکن اتنا احساس نہیں تھا۔جنات کا ایسا آقا اور شہنشاہ نہیں دیکھا: حیرت انگیز جن کہنے لگا: میں نے اس جیسا باانصاف‘ باکردار شفاف مزاج جنات کا آقا اور شہنشاہ نہیں دیکھا‘ وہ آج بھی موجود ہے‘ اس کی نگری میں عدل ہے‘ انصاف ہے ‘برکت ہے‘ راحت ہے‘ خوشیاں ہیں کامیابیاں ہیں‘ ہر شخص ایک دوسرے کو برداشت کرتا ہے اور ہر شخص ایک دوسرے کی عزت اور احترام کرتا ہے‘ بادشاہ نے اعلان کیا کہ آج کی محفل ہم یہیں کل کیلئے ختم کرتے ہیں‘ کل دوبارہ غم کی محفل سجے گی اور جتنے بھی غمزدہ لوگ ہیں کل اپنا غم بتائیں گے اور کل اپنا دکھ سنائیں گے‘ کل اپنی داستان سنائیں گے اور اسی طرح جس انداز سے آج سنایا‘ میں سب کی سنوں گا‘ شایدیہ داستانیں سن کرمیری نیندیں اڑ جائیں‘ مجھے احساس ہے مجھے کچھ کھانا پینا اچھا نہ لگے اور میری بھوک اڑ جائے اور جب اس طرح کا غم زیادہ ہوتا ہے تو میں بیمار ہوجاتا ہوں انسانیت کیلئے داغ : اے کاش! میں اس سے پہلے بیمار کیوں نہ ہوا‘ اے کاش! اس سےپہلے میرا کھانا‘ میرا پینا‘ میری چاہتیں‘ میری محبتیں‘ میری تنہائیاں ختم کیوں نہ ہوئیں؟ میرا تاج مجھ سے کیوں نہ چھینا گیا‘ میری راحت مجھ سے کیوں نہ چھینی گئی‘ میری نگری باقی کیوں رہی‘ میں انسانیت کیلئے داغ بن گیا‘ انسانیت کیلئے دکھ بن گیا‘ میں غموں کی داستان اور کہانی بن گیا بادشاہ رو رہا تھا ‘اعتراف جرم کررہا تھا اور اپنی رعایا سے بار بار معافی مانگ رہا تھا‘ اس کا رونا اعتراف اور غم رعایا کے سامنے ایسا بنا کہ رعایا کے دل میں اس کی عزت اور وقار اور بڑھ گیا‘ اس کا احترام اور زیادہ ہوگیا۔آپ کی عظمت کو سلام: وہاںپھر وہی رونا چیخ و پکار‘ آہ و بکا تھی اور ساری رعایا کہہ رہی تھی‘ آقا مجرم نہیں‘ آپ تو ہمارے محسن ہیں‘ نہیں آپ ظالم نہیں‘ آپ تو ہمدرد اور رحم دل ہیں۔ آپ جن نہیں‘ آپ جن کے روپ میں ایک فرشتے ہیں‘ ہمیں تو آج معلوم ہوا کہ اس ظالم نے آپ کے بیٹے کو قتل کردیا اور آپ کے لخت جگر کو آپ سے ہمیشہ کیلئے چھین لیا۔ ہم آپ کے صبر کو‘ آپ کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہیں‘ آپ کے تاج کو سلام کرتے ہیں آپ کے تخت کی عظمت کو سلام کرتے ہیں‘ بس جنات کی جذباتی کیفیات تھیں اور جذباتی باتیں تھیں اور انسانوں کا جذباتی شور ایک ولولہ ایک ہنگامہ اور ایک کیفیت جس کو ہرشخص سن رہا تھا‘ اس دن کی مجلس برخاست ہوئی۔ ظالم سسک رہا تھا: اس ظالم جادوگر کو گھسیٹ کر جنات کی خاص جیل میں ڈال دیا گیا اور اذیتوں کے پہاڑ اس پرڈھائے گئے‘ اس کی چیخیں اتنی اونچی تھیں کہ لوگوں نےاس ظالم جن کی چیخوں کو سنا‘انسان اور جنات کو خصوصی طور پر بادشاہ نے دعوت دی کہ جیل کے اردگرد آؤ‘ اس کو دیکھو بادشاہ کے خاص طاقتور فوجی
اس کو طرح طرح کی اذیتیں دے رہے تھے اور اذیتوں کے پہاڑ ڈھا رہے تھے اور وہ ظالم سسک رہا تھا اور رحم کی اپیل کررہا تھا اور کسی کو اس پر اس لیے رحم نہیں آرہا تھا کیونکہ وہ خود رحم دل نہیں تھا ‘کوئی اس پر ہمدردی نہیں کررہا تھا کیونکہ وہ خود ہمدرد نہیں تھا ‘کسی کو اس پر ترس نہیں آرہا تھا کیونکہ اس نے آج تک کسی پر ترس کھانا سیکھا ہی نہیںتھا‘ کوئی اس پر لحاظ نہیں کررہا تھا کیونکہ وہ خود ایسا بدلحاظ تھا کہ لحاظ نام کی چیز اس کے قریب بھی نہیں گزری تھی۔ اذیت اور ظلم اس پر ڈھائے جارہے تھے۔آج ان کے دلوں میں تسکین ہے: بادشاہ کے فوجی دن رات اس پر مسلط تھے‘ لوگ خوش ہورہے تھے اور جوق در جوق آرہے تھے اور اس منظر کودیکھ رہے تھے‘ ان میں وہ بوڑھی عورت بھی تھی اور جوان بھی تھا اور ان ہی کی طرح کے بے شمار ڈسے ہوئے بھی تھے جو اس کے زہر سے تڑپتے رہے‘ سسکتے رہے‘ الجھتے رہے جن کی طلاقیں ہوئیں جن کی بیماریاں بڑھیں جن کے غم پھیلے جن کے دکھ اور درد حد سے زیادہ بڑھ گیا وہ دکھ درد اتنے بڑھے کہ ان کے درد کی انتہا نہ رہی وہ غم اتنا بڑھا کہ ان کے غم کا کوئی وجود نہیں تھا آج ان کے دلوں میں تسکین تھی‘ آج ان کی روحیں ٹھنڈی تھیں‘ آج ان کی آنکھوں میں نمی تھی اور آنسو بھی تھے‘ پہلے درد کے آنسو تھے اب خوشی کے آنسو ہیں‘ اس ظالم کے انجام کو دیکھ کر اس ظالم کو سسکتا دیکھ کر اس ظالم کو تڑپتا دیکھ کر حیرت انگیز جن یہ باتیں بتارہا تھا اس کی سانس پھول گئی میں احساس کررہا تھا کہ اس ظالم کی باتیں بتاتے ہوئے خود وہ بھی مسرور اور خوش نظر آرہا تھا اب اگلے دن کی بادشاہ کی کچہری کا لوگ انتظار کررہے تھے۔اتنا بڑا ظالم پہلے کبھی نہیں دیکھا: میں حیرت انگیز جن کے ان واقعات کو سن کر خود حیران ہورہا تھا کہ یاخدایا دنیا میں ایسے ظالم لوگ بھی ہوتے ہیں ظلم کے بڑے بڑے قصے پڑھے بھی سنے بھی اور کچھ دیکھے بھی لیکن اتنے بڑے ظالم کو شاید میں نے کبھی نہ دیکھا ہو۔ہر گھر میں اس ظالم کا قصہ چاہے وہ جنات کا گھر ہو یا انسانوں کا گھر‘ ہر گھر میں اس ظالم کا چرچا تھا وہ ظالم تھا ‘وہ خبیث تھا‘ وہ درندہ تھا جو لوگوں کی عصمتوں کو تار تار کرچکا تھا جو لوگوں کی جوانیوں کو برباد کرچکا تھا جس نے لوگوں کے گھروں سے ان کے عزیزوں کو چن چن کر مارا ‘تھا جس نے لوگوں کو اپاہج‘ لولا‘ لنگڑا اور معذور کردیا تھا ‘جس نے صرف ظلم نہیں ڈھایا تھا بلکہ ظلم کی کالی رات کواور سیاہ کردیا تھا‘ جس نے ظلم کی داستانوں کو اور آگے بڑھا دیا تھا۔ میں نے حیرت انگیز جن سے اس بابے کے ظلم کی باتیں بھی سنیں جس نے خزانے کی تلاش میں حیرت انگیز جن پر بہت زیادہ ظلم ڈھائے تھے اور مکاری عیاری کی انتہا کی تھی لیکن یہ ظالم کچھ اور ظالم تھا‘ یہ دشمن کوئی اور دشمن تھا‘ لوگ جگہ جگہ بیٹھ کر اس کے ظلم کے چرچے کررہے تھے‘ جب بات کھلی تو احسا س ہوا کہ یہ تو ایک شخص نہیں‘ دو نہیں‘ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں انسان و جنات کو تڑپا چکا ہے‘ سسکا چکا ہے‘ اس کے کالے جادو نے‘ اس کی کالی دنیا نے‘ اس کے کالے الفاظ نے‘ اس کے کالےمنتروں نے‘ اس کو اتنا زیادہ ظالم بنادیا جابر بنا دیا اور بے درد بنا دیا کہ اس کی آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھی جاچکی تھی ۔
آخر وہ جن کون تھا:اب لوگوں میں ایک اورچرچا بھی ہوا کہ وہ جن کون تھا جو بادشاہ کا غلام تھا اور آج بادشاہ کا اعلیٰ درجے کا منصب دار ہے اور اسے بادشاہ کے دربار میں بہترین عہدہ مل چکا ہے۔ سب کہتے تھے جاکر اس سے ملیں اس کا شکریہ اداکریں اور اس کو چومیں اورغیرمسلم یہاں تک کہتے کہ اس کو سجدہ کریں‘ اس کا اکرام کریں‘ اس کی پوجا کریں‘ اس کو اپنا دیوتا بنالیں‘ کوئی کہتا اگر وہ جن ایک مرتبہ مل جائے تو میں اس کے پاؤں دھو کر پی لوں لیکن ایک بات جو سب سے زیادہ چرچے اور باتوں میں آئی وہ یہ تھی کہ آخر اس کے پاس ایسا کون سا لفظ تھا‘ وہ کون سا حرف تھا‘ کوئی کہتا کوئی منتر ہوگا‘ سب اس کو جھٹلاتے منتر نہیں کوئی پاکیزہ بول تھا‘ منتر تو اس کالے جادوگر کے پاس بھی تھا۔ وہ پاکیزہ بول تھا: کالی دنیا تو اس کالے جادوگر کے پاس بھی تھی‘ وہ پاکیزہ بول تھا جس نےاس کی کالی دنیا اورکالے جادوگر کو ایک پل میں خالی کردیا اور نہتا کردیا اور اس کی دنیا کو ویران کردیا نہیں نہیں سب کہتے تھے اس کے پاس کوئی ایسی چیز ہے جس کی خبر نہیں اس کے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو ہم نہیں جانتے‘ اس کے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو ہمارے علم میں نہیں‘ اب سب اس ٹوہ میں تھے کس طرح اس شخص سے ملیں اور وہ علم حاصل کریں یا وہ لفظ حاصل کریں جس لفظ کی وجہ سے بادشاہ کےدربار میں اس کو عزت ملی‘ شان و شوکت ملی اور سروری ملی لیکن وہ شخص اب جانوروں کے گوبر اٹھانے والا عام ملنے والانہیں رہا تھا‘ اب اسے بادشاہ کا خاص قرب مل گیاہے‘ اب وہ خودایک بادشاہ ہے اور بادشاہ کی نظروں کا تارہ ہے‘ بادشاہ نے اسے اپنے ساتھ اس لیے بھی رکھا ہوا تھا کہیں جادوگر کا جادو پھر زندہ نہ ہوجائے جس طرح جادوگر پہلے بادشاہ کو جانی نقـصان پہنچا چکا تھا ‘اس کا بیٹا مار دیا بے شمار لوگوں کو جان و مال اور عزتوں کے نقصان پہنچا چکا تھا‘ وہ شخص کون تھا؟ اس کا نام کیا تھا؟ اس کے پاس کیا بول تھا اس کے پاس کیا حرف تھے اس کا چرچا عام ہونے لگا: لوگ دوسرے دن کا انتظار کرنے لگے کہ شاید اس تک پہنچنے کا کوئی راستہ مل جائے‘ بڑے بڑے دانا ‘سمجھ دار اس تک پہنچنے کی راہیں‘ تدبیریں لڑانے لگے اب دوسرے دن کا انتظار ہونے لگا۔ پہلے دن کچھ لوگ تھے لیکن دوسرے دن تو لوگ اتنے زیادہ کہ اطلاع دوردور تک پہنچ چکی تھی اور ہر شخص اپنی منزل کی طرف روانہ ہوچکا تھا اور بادشاہ کی کچہری کیلئے مزید جگہ کا انتظام کیا گیا اور بادشاہ اور سردار کو بھی ا حساس ہوگیا کہ آج لوگ مزید آئیں گے اور آج مخلوق خدا بہت زیادہ وہ لوگ بھی جو بہت زیادہ دکھی اور دکھیارے تھے‘ ان کے ساتھ ان کے خاندان والے بھی اور مزید وہ لوگ بھی جن کو اس ظالم جن نے ستایا نہیں لیکن وہ دوسرے لوگوں کی ظلم کی کہانیاں سننے اور اس کے عبرت کا انجام دیکھنے کیلئے ضرور آئیں گے۔ نجانے صبح کب ہوگی: ایک ایک لمحہ‘ ایک ایک گھڑی‘ دنوں اور میلوں کے برابر بڑھ رہا تھا۔ ہر شخص شام کے آنے کا انتظار کررہا تھا اور شام کے بعد پھر رات اے کاش! اتنی لمبی رات کی نجانے کب صبح ہوگی۔ کس وقت ہم بادشاہ کی کچہری میں پہنچیں گے‘کچھ نے تو ارادہ کیا ہم رات کو ہی چل پڑیں گے تاکہ آگے سے آگے بیٹھیں اور کچھ نے ارادہ کیا‘ رات کے ڈھلتے ہی چل پڑیں گے۔ بہتر سے بہتر جگہ پر بیٹھیں‘ ہر شخص اپنا ارادہ کررہا تھا‘ دن تھا کہ گزر نہیں رہا تھا اور رات تھی کہ ڈھل نہیں رہی تھی اور دن تو پہاڑ سے زیادہ بڑا ہوگیا اور رات ‘رات کا تو پھر پوچھیں ہی نہ کیونکہ انتظار کی گھڑیاں اور سخت ہوتی ہیں اور انتظار کے لمحے تو اور بڑے کڑے ہوتے ہیں۔ آخر خدا خدا کرکے اگلا دن آن پہنچا۔(جاری ہے)
پوائنٹ
حیرت انگیز جن نے سردار جن کی دربار کے واقعات سنائے۔
ایک غریب کی بیٹی کی عصمت دری کی تھی۔جس میں ایک جوان جس کے بال اتارے گئے‘ ایک عورت جس کو بندریا بنایا۔ بادشاہ غمزدہ تھا۔ پہلے دن کچہری لگ چکی تھی اور اس میں تین واقعات یہ بیان ہوچکے تھے اب دوسرے دن کی کچہری کامخلوق انتظار کررہی تھی اور بادشاہ نے اس خطرناک جادوگر کا زنجیروں سے باندھا ہوا تھا اور اب لوگوں نے اپنے غم بتانے تھے اور دکھ بتانے تھے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں