لاالہ الا اللہ کے ماننے ولوں پر ہندوستان نے حملہ کردیا ہے‘ میرے ہم وطنو‘ جنگ شروع ہوچکی ہے اٹھو اور دشمن پر ٹوٹ پڑو‘‘ تو پوری قوم نعرہ تکبیر بلند کرتی ہوئی سڑکوں پر نکل آئی۔ ہندوستان نے 6 ستمبر کی صبح فجر سے کچھ پہلے لاہور پر حملہ کیا ۔
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! ہماری تاریخ کے عظم ترین دنوں میں سے ایک دن 6 ستمبر 1965ء کو جب اس وقت کے صدر پاکستان جناب ایوب خان کی ریڈیو پاکستان پر یہ تقریر نشر ہوئی کہ ’’لاالہ الا اللہ کے ماننے والوں پر ہندوستان نے حملہ کردیا ہے‘ میرے ہم وطنو‘ جنگ شروع ہوچکی ہے اٹھو اور دشمن پر ٹوٹ پڑو‘‘ تو پوری قوم نعرہ تکبیر بلند کرتی ہوئی سڑکوں پر نکل آئی۔ ہندوستان نے 6 ستمبر کی صبح فجر سے کچھ پہلے لاہور پر حملہ کیا ایک بھارتی جرنیل نے بڑھک ماری کہ ہم 11 بجے تک لاہور جم خانہ میں بیٹھ کر شراب پئیں گے اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ اگرچہ دشمن ہم سے پانچ گنا بڑا تھا مگر اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ نئی نسل اگر اس جنگ کے دوران رونما ہونے والے واقعات سن لے تو اسے اندازہ ہوجائے گا کہ 6 ستمبر کا دن اس قدر جوش و جذبے سے کیوں منایا جاتا ہے۔ بھارت نے حملہ کیا تو اس وقت کے ایئر چیف مارشل نور خان کی دلیری اور جرات دیکھئے کہ انہوں نے کہا: یہ کرافٹ (جنگی جہاز) اس وقت تک پرواز نہیں کریں گے‘ جب تک میں یہ خود نہ دیکھ لوں کہ یہ ہمارے پائلٹس کیلئے کتنے خطرناک ہیں۔ دنیا کی تمام افواج کی تاریخ میں پاکستان کی فوج وہ واحد فوج ہے جس میں افسران کی موت کی شرح سب سے زیادہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے افسر آگے بڑھ کر راہ نمائی کرنا جانتے ہیں۔ تب پاکستان نیوی کے پاس ایک آبدوز ’’ غازی‘‘ تھی۔ اس آبدوز نے دشمن کا ناطقہ بند کیا ہوا تھا‘ پاکستان نیوی آگے بڑھ کر سمندروں میں ’’ دوارکہ‘‘ تک گئی‘ قلعے کو تباہ کیا اور شیلنگ کرکے واپس نکل آئی۔ تب میرے والد محکمہ دفاع میں ملازم تھے اور لاہور ہی میں مقیم تھے۔ سیالکوٹ میں ان کی سرکاری رہائش گاہ کے آس پاس توپیں نصب تھیں پاکستانی فوج نے دشمن کے خلاف جوابی حملہ کیا تو ایسی ایسی کرامات دیکھنے کو ملیں کہ ہر طرف نعرہ تکبیر گونجنے لگا۔ دشمن کے ٹینک اور توپیں ہماری توپوں کی آخری رینج سے بھی پیچھے کھڑی تھیں اور فاصلہ کا تخمینہ لگانے کے بعد پتا چلا کہ ہماری توپوں کے گولے دشمن تک نہیں پہنچ سکیں گے‘ مگر جب اللہ تعالیٰ پر توکل کرکے دشمن کی طرف توپوں کا منہ کرکے گولے فائر کئے گئے تو ناقابل یقین طور پر یہ دشمن ٹینکوں پر جاکر گرے اور بھارتی فوج یہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ یہ پاکستانی مسلے(مسلمان)‘ تلواروں اور زرہ بکتروں کے ساتھ کیوں لڑتے ہیں؟ اس پر طارق عزیز نے کہا’’ لگتا ہے شہیدانِ احد ساتھ دے رہے ہیں ہم لٹے پٹوں کا‘‘ نہ اس سے پہلے توپوں نے اتنی دور فائر کیا تھا اور نہ کبھی بعد میں۔ ممتاز مفتی اپنی کتاب ’’لبیک‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ جب 1965ء کی جنگ شروع ہوئی تو مسجد نبویﷺ میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں نے رسول اللہ ﷺ کی زیارت فرمائی اور دیکھا کہ حضور ﷺ جنگی لباس میں اصحاب بدر کے ساتھ پاکستانی فوج کی مدد کیلئے تشریف لے جارہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ پاکستان پر حملہ ہوا ہے ہمیں اس کا دفاع کرنا ہے‘‘۔ اسی طرح بھارتی طیاروں کے پائلٹس کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ ناگرانی کے پل پر بمباری کریں پھر جب ایک بھارتی پائلٹ پکڑا گیا اور اس سے پوچھا گیا کہ ’’ پل تو تمہارے سامنے تھا تم نے بمباری کیوں نہیں کی‘‘ تو وہ ناس پیٹا بولا کہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہاں ایک پل ہے جب کہ مجھے نصف درجن پل نظر آرہے تھے (کیا آقاﷺ کی فوج کا مقابلہ کرنا سہل ہے؟)۔ گرفتار ہونے والے دشمن سپاہیوں نے اور بھی بہت سی باتیں بتائیں۔ مثال کے طور پر وہ ہاتھیوں‘ گھوڑوں والی فوج کس کی تھی؟ جس کے سپاہیوں کی تلواروں اور لباس سے شعلے نکل رہے تھے۔ دشمن کے پائلٹس ہی نے یہ باتیں بتائیں کہ انہوں نے تقریباً 40 بم راولپنڈی پر گرائے مگر ان میں سے صرف 5 پھٹے اور وہ بھی کہیں ویرانے میں۔ ’’فضائے بدر‘‘ پیدا کرو تو ملائکہ آج بھی مدد کیلئے آجائیں گے۔ کیا جنگ بدر میں ایسا ہی نہ ہوا تھا‘ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’’ ہم نے مسلمانوں کی مدد کیلئے ملائکہ نازل کئے‘‘۔ یہ باتیں چودہ سو برس قبل تک محدود نہیں ہیں بلکہ جب بھی مسلمان اللہ تعالیٰ اوررسول اللہ ﷺ کے نام پر کھڑے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کی نصرت ان کیلئے ضرور آئے گی اور 1965ء کی جنگ اس کی سب سے خوبصورت مثال ہے۔ ایک اور واقعہ سنئے جب لاہور پر بھارت کی فوج نے حملہ کیا تو ایک بھارتی جرنیل اپنے سپاہیوں کا حوصلہ بڑھانے کیلئے کہہ رہا تھا کہ لاہور اب صرف 3 میل دور رہ گیا‘ بس تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے تھوڑا سا آگے بڑھو اور لاہور تمہارے قبضے میں ہوگا۔ حالانکہ لاہور اس وقت 14 میل دور تھا مگر دیوانوں نے خود کو دشمن کے ٹینکوں کے سامنے ڈال دیا ‘ اس وقت ہمارا ایک زخمی پائلٹ اپنے کاک پٹ سے نکلا ‘ سڑک کے کنارے ایک سنگ میل نصب تھا جس پر لکھا تھا کہ ’’ لاہور 14 میل دور‘‘ افسر نے اس کتبے کو وہاں سے اکھاڑا اور بھارتی فوج کی طرف مزید دو فرلانگ آگے لے گیا۔ وہاں اس نے وہ کتبہ لگایا اور اس پر اپنے خون سے لکھا کہ 14.2 Blood miles lahore یعنی لاہور 2.14 میل دور ہے۔ چنانچہ دشمن اس کو پار نہ کرسکا۔ شہدا کو نرسوں کے حوالے کیا گیا تو نوجوانوں نے جب یہ دیکھا کہ بے چاری نرسیں جو پہلے زخمیوں کی دیکھ بھال کررہی تھیں اب شہدا کے سرہانے بیٹھ گئی ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے‘ وہ اپنی رجمنٹس میں واپس گئے اور اعلان کیا کہ’’ شیرو‘ دلیرو! سینے پر گولیاں کھانا‘ پیچھے تمہاری مائیں بہنیں تمہیں ہاتھوں ہاتھ لے رہی ہیں ایسا نہ ہوکہ وہ عورتیں تمہاری پشت دیکھیں اور کہیں کہ یہ پشت پر گولی کھاکر آیا ہے‘‘۔ یہ جذبہ تھا اس وقت کے جوانوں کا‘ تب نہ غلیظ بھارتی فلمیں تھیں اور نہ واہیات بھارتی گیت لبوں پر مچلتے تھے۔تب تلاوت قرآن اور لاالہ الاللہ کی صدائیں گونجتی تھیں اور اس کے علاوہ ریڈیو پاکستان پرلہوگرمانے والے نغمے جیسے کہ ’’ اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے‘‘ اور ’’ اے وطن کے سجیلے جوانو‘ میرے نغمے تمہارے لئے ہیں‘‘۔ سننے کو ملتے۔ اس موقع پر سب نےقسمیں کھائیں کہ ’’ ہم گولی سینے پر کھائیں گے‘‘۔ یہ باتیں 1965ء کی جنگ میں حصہ لینے والے پاکستانی فوجیوں کے دل میں دفن ہیں اور کسی کتاب میں نہیں ملیں گی۔ جنگ کے دوران ایسے بھی واقع(باقی صفحہ نمبر44 پر)
(بقیہ: فرشتوں کی مدد‘ فوجی عزم کے ساتھ)
آئے کہ جب دشمن کے ٹینک ہمارے توپ خانے کےاتنے قریب پہنچ گئے کہ ٹینکوں اور توپ خانے کی مابین براہ راست لڑائی شروع ہونے والی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سیالکوٹ میں یہ ٹینکوں کی دوسری سب سے بڑی لڑائی تھی۔ اس موقع پر ایک آرٹلری آفیسر نے حکم دیا کہ ہائی شیل نکال دو اور اربن شیل لگائو کیونکہ اب توپ اور ٹینکوں کی براہ راست لڑائی شروع ہونے والی ہے‘‘۔ اس موقع پر اللہ عزوجل جلالہ نے ’’دھند‘‘ بھیج دی‘ جس نے دشمن کے ٹینک روک دیے اور اس پر خوف طاری ہوگیا۔ یہی وہ روحانی اور نظریاتی احساسات تھے کہ جنہوں نے دشمن کے دانت کھٹے کردیے۔ یہ کلمے کی طاقت تھی اور اسی کلمے نے ہمیں ایک سیسہ پلائی دیوار میں بدل دیا۔ میرے جوانو! یہ پاکستان ہمیں بہت بڑی قربانیوں کے بعد ملا ہے‘ اس کے پرچم کو گرنے نہ دینا‘ جیسے یہ نغمہ ہے کہ ’’ہمارا پرچم‘ یہ پیارا پرچم‘ یہ پرچموں میں عظیم پرچم‘ عطائے رب کریم پرچم‘‘ تو اس پرچم کی سدا حفاظت کرنا کہ اس کی خاطر ہمارے نوجوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا ہے۔ آج جو جوان اس پاک مٹی کو چھوڑ کر دوسرے ممالک جارہے ہیں‘ وہ یقیناً بدنصیب ہیں‘ اللہ تعالیٰ پاکستان کی مدد کرے اور پاکستان اور پاک فوج کی اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں